سیاسی و سماجی

حقہ نوشی جان لیوا فیشن‎

اس مختصر سی زندگی میں صحت بہت بڑی نعمت ہے،یہ متاع اگر زندگی کے ساتھ ہے’تو کائنات کی ہر شے خوبصورت ہے’، پر بہار ہے’، جانفزا ہے اور اگر زندگی اس نعمت سے خالی ہے تو دنیا کی تمام رنگینیاں بے کیف ہیں، زمین پر بکھرے ہوئے قدرتی جلؤوں میں کہیں کشش نظر نہیں آتی ہے،یہی وجہ ہے’کہ ہر وہ چیز جس میں انسانی اجسام کو ضرر لاحق ہوسکتا ہے، یا وہ صحت کی تباہی کا زینہ ہے تو اسلام اس کے استعمال پر پابندی لگا دیتا ہے، اور یہ پابندی جہاں فطرت کا تقاضا ہے وہیں زندگی کے تحفظ کی بھی آواز ہے’، اس لیے کہ حقہ نوشی یا دیگر منشیات جو معاشرے کا تہذیبی حصہ سمجھی جاتی ہیں’ ان میں نسبتاً حقہ نوشی جسم وذہن پر زیادہ اثر انداز ہوتی ہے، انہیں چیزوں کا عادی شخص رفتہ رفتہ مے کشی کی تباہ کن گلیوں میں پہونچتا ہے’اور عقل وخرد کے ساتھ ایمان وعمل کا اثاثہ بھی میخانوں کی نذر کرکے کہیں سرراہ۔۔۔کہیں فٹ پاتھ۔۔۔کسی چوراہے۔۔۔۔اور کسی نکڑ پر زندگی اور اس کی عصمتوں کو نیلام کر جاتا ہے۔
آج کل جوانی کی دہلیز پر قدم رکھنے والی نسل میں جس نشے کا رجحان دن بدن بڑھتا جا رہا ہے، وہ ہے حقے کی جدید قسم جو شیشہ اسموکنگ کے نام سے مشہور ہے، بنیادی طورپر حقہ نوشی ایک عرب روایت ہے، لیکن گذشتہ چند سالوں سے دنیا بھر میں حقہ نوشی کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہاہے کیونکہ حقے کو سگریٹ کی نسبت کم مضر صحت تصور کیا جاتا ہے ،لیکن طبی ماہرین اس تأثر کی نفی کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ حقہ نوشی کسی طورپر بھی سگریٹ سے کم خطرناک نہیں،
نوجوانوں میں حقہ نوشی کے ذریعے تمباکو کو استعمال کا نیا کلچر پروان چڑھ رہا ہے۔ حقے میں تمباکو کو پانی اور مختلف پھلوں کے ذائقہ (فلیور) کے ساتھ پیا جاتا ہے اور کہاجاتا ہے کہ یہ مضر صحت نہیں۔ جبکہ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق ایک گھنٹہ حقہ پینا 200سگریٹ پینے کے مترادف ہے۔ جس سے اس کی ہلاکت خیزی کا اندازہ بخوبی لگایاجاسکتا ہے۔ لگاتار حقہ پینے سے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے اور پھیپھڑوں کی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے،
اگر حقہ نوشی کے پس منظر کو دیکھا جائے تو دیہاتی زندگی میں  درخت کے سائے میں چارپائی کے گرد حقہ پیتے ہوئے افرادکی جدید شکل آج کل شہروں کے پوش علاقو ں میں فیشن کی صورت اختیار کر چکی ہے، دیہاتی ثقافت کے اس منظر کی جدید شکل شیشہ جس کا مطلب Flavour Water Pipe Smokingہے۔ شیشہ اب معاشرے کے اشرافیہ طبقے میں بلند معیار زندگی کی علامت بنتاجا رہا ہے۔ صرف ہندوستان ہی نہیں، بلکہ دنیا بھر میں نوجوان نسل میں یہ تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ بنیادی طور پر اس کا آغاز انڈیا سے ہوا، حقہ پینے کی روایت آج سے تقریباً تین ہزارسال پرانی ہے،کہا جاتا ہے کہ اس زہر کا وباء بھارت کے ریاست راجھستان سے پوری دنیا میں پھیلا ہے،اور آپ سب لوگ اس بات سے بخوبی واقف ہونگے کہ حقہ بنانے کے لئے تمباکو اور نیکوٹین کا استعمال کیا جاتا ہے ،لیکن اب اسکی جدید قسم شیشے میں تمباکوکی بو زائل کرنے کے لئے اس میں سوئیٹ فلیورز شامل کئے جاتے ہیں،گویا زہر سے نکلنے والے بو کو خوشبوں میں بدلا جاتا ہے۔پچھلے چند برسوں سے شیشہ نوشی کی وباء ہندوستان کے ساتھ پاکستان، ترکی،بنگلہ دیش اور چائنا میں بہت تیزی سے پھیل رہی ہے،
حقہ نوشی ایک ایسا میٹھا زہر ہے جو انسان کو دنیاو آخرت سے بیگانہ کر دیتا ہے۔ اس کو استعمال کرنے و الا ہر شخص حقیقت سے فرار حاصل کرتا ہے اور خیالوں میں بھٹکتا ہے۔حقہ نوشی کا نشہ پہلے پہل ایک شوق ہوتا ہے پھر آہستہ آہستہ ضرورت بن جاتا ہے۔ نشےکا عادی شخص درد ناک کرب میں لمحہ لمحہ مرتا ہے۔ اس کی موت صرف اس کی نہیں ہوتی بلکہ اس کی خوشیوں کی خواہشات کی تمناؤں کی بھی موت ہوتی ہے۔کوئی اگر نشہ کرنا شروع کرتا ہے تو اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ، کوئی واقعہ، مایوسی، محرومی اور ناکامی کا کوئی پہلو ہوتا ہوگا۔پر انسان یہ کیوں نہیں سوچتا کہ مایوسی اور ناکامی کا علاج صرف نشہ کرنا نہیں۔ بلکہ نشہ انسان کی صحت کے لیے زہر ہے۔ آج کل نئے نئے فلیورز میں نشہ آور چیزیں دستیاب ہوتی ہیں۔لیکن یہ نشہ انسان کی صحت خراب کرنے کے ساتھ ذہنی طور پر مفلوج کر دیتی ہے۔نشہ بیچنے والے دلال، لوگوں سے، قوم سے، نئی نسل سے پیسے بٹور کر ان کو تباہی کی طرف ڈھکیل دیتے ہیں۔ نسلیں تباہ ہو رہی ہے ہو جائے اُن کی بلا سے انہیں تو صرف نوٹ بٹورنے ہیں، زر پرستی جب ذہن ودماغ میں راسخ ہوجاتی ہے تو ایمان وعمل اور کیا محشر میں رب کے سامنے حاضر کا تصور اور کیا اخلاقیات وانسانیت؟ سارے تصورات ثانوی درجہ میں آجاتے ہیں۔

باخدا مجھے اس دن بہت اذیت پہنچی جس دن میں دیکھا کہ ہماری نوجوان نسل حقہ نوشی کی چکر میں اپنے معزز رشتوں کو پامال کررہے ہیں اور دن بھر سوچتا رہا کہ اے میرے خدایا یہ ہم کس دور سے گزر رہے ہیں ،آج اتنے شعور کے باوجود نت نئے فیشن اور بے باکی نے نسل نو کو تباہی کے دہانے پرپہنچایا ہے۔ نوجوان نسل کی اس بے باکی پر علامہ اقبال کاایک شعر یاد آیا ہے ؛
*نئے انداز پائے نوجوانوں کی طبیعت نے*
*یہ رعنائی ، یہ بیداری، یہ آزادی ، یہ بے باکی*
ہمارے معاشرے میں کسی زمانے میں حقہ نوشی کو بہت بڑا جرم سمجھا جاتا تھا، مگر آج حالات یکسر طور پر بدل چکے ہیں،آج حقہ نوشی ایک فیشن بن چکی ہے نہایت بے حیائ اور بے شرمی سے اس کا آزادانہ استعمال ہو رہا ہے،گویا حقہ کو زندگی کا ایک اہم جز سمجھا جاتا ہے،
اس بگڑتی ہوئی صورتحال میں والدین سب سے اہم کردار ادا کرسکتے ہیں کیوں کہ اس بات سے انکار ممکن ہی نہیں کہ بچوں کی پہلی درس گاہ ماہ کی گود ہوتی ہے اور تربیت کا عمل گھر ہی سے شروع ہوتا ہے۔ اگر والدین بچوں کی تربیت پر توجہ دیتے ہوئے انہیں درست  و غلط کی تمیز سکھائیں تو بہت سے مسائل سے نجات حاصل ہوسکتی ہے۔ والدین کے فرائض میں شامل ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نگرانی کریں، ان کے بدلتے ہوئے رویئے اور معمولات پر نظر رکھیں اور کوئی بھی غیر معمولی بات سامنے آنے پر فوری ایکشن لیں جبکہ بچوں کی متواتر کاﺅنسلنگ بھی کرتے رہیں اور ان سے دوستانہ رویہ رکھیں۔ ایک تحقیق کے مطابق  بچوں کی اکثریت تنہائی کی وجہ سے نشے کا سہارا لیتی ہے کیونکہ جب انہیں والدین کی طرف سے وقت اور توجہ نہیں ملتی تو وہ ایسی سرگرمیوں کا حصہ بن جاتے ہیں،
ہمیں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نوجوان کسی بھی ملک کے مستقبل کے معمار ہوتے ہیں، ان کی حفاظت اہم قومی ذمہ داری ہے،
آج وقت اس بات کا متقاضی ہے کہ شیشہ کلچر کے خلاف آواز اٹھائی جائے، ملک میں بڑھتی ہوئی آزاد خیالی اور روشن خیالی بھی اس کا سبب ہے اگر والدین، پبلک سیکٹر، فلاحی ادارے اور نوجوان نسل کے اساتذہ بچوں میں حقہ پینے کے نقصانات کی آگاہی دیں اس کے برے نتائج اور ذہن ودماغ پر نفسیاتی لحاظ سے بھی اور میڈیکل حوالے سے بھی کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں اس کے متعلق وضاحت کریں ۔
تو یہ لعنت آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی، اس لئے ضروری ہے کہ حقے کی لعنت ترک کر کے صاف ستھری زندگی بسر کی جائے ہمارے معاشرے کی اپنی روایات اور تہذیبی اقدار ہیں ہمارے ہاں اپنی تہذیب و ثقافت سے منہ موڑ کر لوگ پریشان زندگی بسر کر رہے ہیں،جو روحانی تسکین اسلامی تعلیمات پر عمل کر کے ملتی ہے وہ دنیا میں کسی اور چیز سے حاصل نہیں ہوسکتی،
حق تعالیٰ جل مجدہ ہمیں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمیــــن

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×