سیاسی و سماجی

بھارت کی تاریخ کا ایک سیاہ دن

5 اگست 2020 رام جنم بھومی کی سنگ بنیاد رکھ دی گئی، سیکولرزم وجمہوریت دستور سب کو بنیاد میں دفن کردیا گیا، ابھی جو جمہوریت کا بھرم باقی تھا کہ ملک بھارت دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک ہے وزیر اعظم نریندر مودی کے ہاتھوں رام مندر کی تعمیر کی سنگ بنیاد رکھ کر اس بھرم کو بھی ختم کر دیا گیا مودی حکومت نے عالمی سیاست دانوں کو پیغام دیا ہے کی ملک کا سیکولرزم ایک ڈھونگ ہے اور ہندوتوا کا اصلی چہرہ یہ ہے جسے اجاگر کر دیا گیا ہے، باہر کے لوگ لکھتے بولتے ملک کی صورت حال پر قلم اٹھاتے ڈرتے تھے لیکن اب بلا جھجھک کہ سکتے ہیں کہ جمہوریت صرف کاغذ میں ہے اور حقیقت میں جمہوریت کے پاسدار مسلمان ہیں جو قانون کا احترام کرتے ہیں عدالتی فیصلوں کے احترام میں مسلمان اپنے لب سی لئے، رام جنم بھومی کے اچانک پوجن کے پروگرام میں ملک کے کئ سیاسی، سماجی ، مذہبی مشہور ومعروف شخصیات کو مدعو کیا گیا اور کئ اہم شخصیات کی شرکت بھی ہوئی،میڈیا کے ذریعہ ایک بار پھر ماحول کو گرمایا جارہا ہے اور ہندو مسلم کیا جارہا ہے الیکٹرنک میڈیا کے ذریعہ چوبیس گھنٹے میں ہر ایک خبر کے بعد رام جنم بھومی کی سنگ بنیاد اور طرز تعمیر پر خبریں دکھائی اور تفصیل سے بتائی بھی جارہی ہیں. اس بات سے کوئ انکار نہیں کر سکتا ہے کی عدالت عظمیٰ (Supreme Court) کا فیصلہ حکومت کے دباؤ میں کیا گیا ہے. سب جانتے ہیں کہ ہندو شدت پسندوں کی داداگیری ان کی طاقت وقوت زور ذبردستی سے بابری مسجد ہتھیالی گئ ہے،
 فرقہ پرست وفسطائی جماعتوں کی طرف سے فرضی من گڑھت کہانی بنا کر ہندوؤں میں پھیلایا گیا کہ رام للا کی جائے پیدائش یہی ہے. فرضی ومن گڑھت کہانی ان کے دل ودماغ میں پیوست کردی گئ، مستند ومعتبر تاریخی حوالوں سے ثابت ہے کہ مغل بادشاہ محمد ظہیر الدین بابر کے حکم سے میر باقی اودھ کے گورنر نے ویران جگہ پر بابری مسجد 1528 میں اجودھیا میں تعمیر کرائ تھی، بابری مسجد فن تعمیر کی شا ہکار تھی، تین بڑے گنبد اور تین میں سے بیچ والا بڑا گنبد دھوپ سے بچانے کے لئیے اونچا بنا یا گیا تھا، ہوا روشنی کے لئے خوب صورت جالیاں بھی بنی ہوئ تھیں اور صحن میں کنواں بھی تھا جس سے پانی نکال کر وضو کے استعمال میں لیا جاتا تھا، بابری مسجد اتر پردیش کی خوب صورت عالیشان اور بڑی مسجدوں میں شمار کی جاتی تھی،
کیا تیرے اونچے گنبدوں پر کفر نے یلغار کی
تو ہی بتا یہ کیا ہوا اےسجدہ گاہ غازیاں
محراب تھی منبر تھا گنبد تھے تیرے مینار تھے
اک پرشکن تہذیب کا چہرہ تھے تیرے جسم وجاں
بابری مسجد میں پنج وقتہ نمازیں اور جمعہ کی نمازوں کا اہتمام ہوتا تھا بلا ناغہ ساڑھے چار سو سال تک اذان ونمازیں ادا کی گئ ہیں. عشاء کی آخری نماز مولانا عبد الغفار صاحب کی امامت میں ادا کی گئ تھی اس کے بعد آج تک مسلمان بابری مسجد میں اپنے جبینوں کو ٹیکنے سے محروم رہے،
صدیوں تلک تیری زمیں پرعشق نےسجدےکئے
تو ارتکاز عشق کی اک داستاں درداستاں
1885میں بھی بیراگیوں کے مہنت رگھبیرداس نے اس وقت کے بابری مسجد کے متولی اصغر صاحب کے خلاف مقدمہ بھی کیا تھا اور دعویٰ پیش کیا تھا کہ بابری مسجد کے بیرونی حصہ میں واقع جو چبوترہ ہے وہ رام جنم بھومی ہے، 1947 تک بابری مسجد تنازعہ پر مقدمہ بازی ہوتی رہی مقامی حد تک معاملہ تھا ریاستی وملک گیر سطح پر تنازعہ پیدا نہیں ہوا تھا نہ ریاستی وملکی سطح پر ہندووں کو نہ بابری مسجد رام جنم بھومی تنازعے کا علم تھا
22 دسمبر 1949 کی رات کے وقت بابری مسجد کے اندر محراب کے پاس مورتی رکھ دی گئ اور شور مچایا گیا کہ رام للا پرکٹ ہوگئے ہیں، متنازعہ مقام قرار دے کر نقص امن کے نام پر بابری مسجد میں تالا لگا دیا گیا،ضلعی عدالت میں کیس چلا گیا، 19 جنوری 1950 کو ہندؤوں کی طرف سے پہلی مرتبہ باقاعدہ دعویٰ کیا گیا کی بابری مسجد در اصل رام جنم بھومی ہے اور مسجد کے صحن والی جگہ میں رام کا جنم ہوا تھا، مندر مسجد و مندر کا تنازعہ عدالت میں جاری رہا…یکم فروری1986میں آر.ایس.ایس. وشوہندو پریشد کے رہنماوؤں نے بابری مسجد اوررام جنم بھومی کا مسلہ چھیڑ کر رام کی جائے پیدائش کا مفروضہ گڑھا اور تحریک چلائ، فرقہ پرست ذہن کے جتنے لوگ تھے سب نے سوچا کی ہندو مسلم میں منافرت کی فضاء قائم کی جائیں یہ سیاسی مقاصد کے حصول کا سب سے مضبوط ہتھیار ہے، اس سے سیاست میں عروج حاصل ہوگا، شدت پسند ہندؤوں کے مطالبے پر ضلعی عدالت نے بابری مسجد تالا کھول دیا شیلانیاس پوجا پاٹ اوردرشن کی اجازت دے دی، بی جے پی کا وجود 1984 میں آچکا تھا ویسے تو جن سنگھ ، ہندو مھا سبھا کے نام سے ہندوتوا سیاسی پارٹیاں تھیں لیکن باقاعدہ آر ایس ایس کا سیاسی ونگ بی جے ہی کے نا م سے تشکیل دی گئ جس میں ہندو کٹر وادی جنہیں مذہب دھرم سے کوئ سروکار نہیں تھا صرف پیسہ واقتدار کا حصول عزیز تھاسنگھ پریوار کے لوگ بڑی تعداد میں بی جے پی میں شامل کئے گئے، بی جے پی کے صدر واجپائ اور جنرل سکریٹری ایڈوانی چنے گئے، لال کرشن ایڈاوانی نے فرضی من گھڑت بات پھیلائ کی "گربھ گرہ” ممبر کی جگہ ہی ہے، یہیں رام جی پیدا ہوئے تھے، پہلے با بری مسجد کے بیرونی حصہ پر رام جنم بھومی کی پیدائش کا دعویٰ تھا اب مسجد کے محراب والی جگہ پر اڈوانی نے دعویٰ ٹھونک دیا تھا، ملک گیر سطح پرتحریک چلائ گئ تھی ملک کو آتش فشاں میں تبدیل کردیا گیا تھا اس زور دار تحریک سے رفتہ رفتہ ہندوؤں کو بھی یقین ہونے لگا کہ رام جنم بھومی یہی ہے، رام جنم بھومی پر اتنا جھوٹ بولا گیا جھوٹ پر جھوٹ کا گمان غالب آگیا اور یقین میں بدل گیا، اشتعال انگیز بیانات ہندو مسلم میں نفرت کی بیج ڈال دی گئ
1989میں وشوہندو پریشد نے بابری مسجد سے متصل زمین پر رام مندر تعمیر کی بنیاد رکھ دی گئی تھی اور ایڈوانی نے رام رتھ ملک گیر سطح پر شروع کر کے گھر گھر رام مندر تعمیر کی آواز پہونچادی اور ہندوؤں کو اشتعال دلایاگیا، ایڈوانی کے رتھ یاترا سے پورا ملک آگ وخون میں جل رہا تھا، ہر شہر ہر قصبہ میں ہندو مسلم میں تناؤ پیدا ہوگیا تھا، کہیں کہیں جھڑپ ہوئ اور مسلم مخالف نعرے لگائے گئے، اشتعال انگیز بیان دئے گئے، 1990 میں وشو ہندو پریشد کے غنڈوں نے بابری مسجد پر دھاوا بول کر جزوی طور پر نقصان پہونچایا تھا،
بی جے پی مرغ بسمل کی طرح اقتدار کے لیے تڑپ رہی تھی، رام مندر تحریک سے بی جے پی کو زبردست سیاسی فائدہ ہوا، دو سیٹو ں پر رہنے والی بھاجپا آج مرکز میں اور ملک کی دیگر ریاستوں میں اکثریت سے کامیاب ہوکر حکومت کر رہی ہے، بی جے پی کو اقتدار تک پہنوچانے میں اگر فرقہ پرستی اور ہندو مسلم میں نفرت وتشدد ڈالنے کا عمل دخل ہے تو دوسری طرف نام ونہاد سیکولر پارٹیوں نے بھی بی جے پی کا تعاون کیا ہے، ملائم سنگھ، مایاوتی نتیش کمار اور جنوبی ہند کے سیکولر پارٹیوں کے رہنماؤں نے بھی بی جے پی کی حمایت کی اور فرقہ پرستوں کا ساتھ دیا،
ملائم سنگھ یادو اور مایاوتی کا کردار ہمیشہ مشکوک رہا ہے، ان دونوں نے اقتدار کے لئے بی جے پی کے تئیں ہمیشہ نرم گوشہ رکھا ہے، مایاوتی تو اعلانیہ طور پر بی جے پی کی متعدد بار حمایت کی ہے اور حمایت لی ہے،
1991 میں یوپی کے انتخاب میں بی جے پی اقتدار میں آگئ اور کلیان سنگھ وزیر اعلیٰ بن گئے، ان کی ہمت اور بڑھی اور 6 دسمبر1992بابری مسجد مسمار کرنے کی تاریخ رکھ دی گئ اور اسی تاریخ کو چیلنج کر کے بابری مسجد مسمار کر دی گئ، قانون دستور آئین کو پامال کیا گیا، ڈیڑھ لاکھ ہندو آتنک وادیوں نے بابری مسجد کو زمیں بوس کر دی، صبح نو بجے سے لیکر شام تک ڈٹے رہے توڑ پھوڑ کرتے رہے لیکن کسی نے آواز تک نہ اٹھائ مسجد توڑنے والوں پر لاٹھی چارج تک نہ ہوا، ایڈوانی اور ان کی چنڈال چوکڑی ہندو آتنک وادیوں کو اشتعال دلاتے رہے اور بیان بازی ہوتی رہی، بالاآخر پانچ سو سالہ(500) تاریخی بابری مسجد6 دسمبر 1992 کو شہید کر دی گئ، اس کے بعد ملک گیر خونریز فسادات ہوئے، کھربوں روپئیے کے املاک تباہ وبرباہ ہوگئے تین چار ہزار انسانوں کا قتل ہوا، جے شری رام سیتا رام کے نعرے لگے در اصل جے شری رام کے نعرے جو لگائے گئے یا لگتے ہیں رام کی عظمت کا اظہار نہیں ہے بلکہ غنڈہ گردی کا اقرار ہے، لال کرشن ایڈوانی نے اعتراف کیا ہے کی ان کی تحریک مذہبی نہیں تھی وہ جے شری رام کا نام لیکر مسلمانون سے نفرت ودوری کی جانے والی سیاست تھی اگر ہم ایسا نہیں کرتے تو ہندو ہم سے کیسے جڑتے سچ یہ ہے کی ہمارےنعروں میں رام کے احترام کا فقدان تھا، رام جنم بھومی کے نام پر ملک وبیرون ملک چندہ کئے گئے اربو ں روپئے جمع کئے گئے اس پر بھی آپسی تنازعہ ہوا، کئ مرتبہ مندر کا ماڈل بھی بنایا گیا لیکن ان میں اختلاف ابھی برقرار ہے، بابری مسجد کانام لیکر کچھ مسلم سیاست دانوں کی سیاسی دکان بھی چمکی سیاست میں آگے بڑھےاور مسلکی جھگڑوں نے ہمیں کمزرو کیا رسوا کیا ہماری نادانیاں غفلتوں اور آپسی جھگڑے ذاتی مفاد پر ستی کی وجہ سے ہمیں ذلیل ہونا پڑا ہے
ہندو شدت پسندوں نے فرضی "گربھ گرھ”کے نام پر جوطوفان بد تمیزی کی اور سارے ہندوؤں کو جوش واشتعال دلایا کچھ لوگوں کی سیاسی دکان خوب چلی ایم پی و ایم ایل اے اور منسٹر بنے کروڑوں کی جائداد بنائی بنگلوں فارم ھاؤسوں کے مالک بن گئے، کہا جاتاہے کی رام مندر کی تعمیر کے نام پر بیرون ملکوں سے اربوں روپئے ملے، بی جے پی نے کورٹ سے اپنے حق میں طاقت کے بل بوتے فیصلہ دلا نے میں کامیاب ہوگئ اوراب مندر کی بنیاد بھی رکھ دی گئی، لیکن تاریخی حقائق سے قطعی یہ ثابت نہیں ہے کی رام جی وہیں پیدا ہوئے تھے، رام جی کی کہانی دیوما لائی ہے جس کا حقیقت سے کو ئ تعلق نہیں ہے، جیسا کی کہانیوں میں بیان کیا جاتا ہےراجہ دشرتھ غیر معمولی شخص تھے ان کی تین بیویاں تھیں کوشیلیا، سمترا، کیکئ، پانچ ھزار سال پہلے کی کہانی بتائ جاتی ہے جبکہ پانچ ہزار سال پہلے اجودھیا میں کچھ تھا ہی نہیں جنگل وبیابان تھا،
راجہ کی بیوی بچے کو جنگل وبیابان میں جنم دینے کیوں جائیں گی، حاملہ کی حالت میں محل میں رہیں گی جو بھی جیسا ماحول رہا ہو گا، نوکرانیاں بھی رہی ہوں گی، فرضی قصے کہانیوں پر مبنی ہے رام کی کہانی، دونوں رامائن میں( والمیکی اور تلسی داس) کہیں نہیں لکھا ہے کی رام کی جائے پیدائش اجودھیا ہی ہے، تلسی داس کے دور میں ہی بابری مسجد بنی تھی، تلسی داس 1512 میں پیدا ہوئے تھے، بابری مسجد بعد میں 1528 میں بنی ہے، تلسی داس نے رامائن میں ذکر تک نہیں کیا کہ رام کی جائے پیدائش پر بابری مسجد بنی تھی، اگر ایسا ہوتا تو تلسی داس رام جی کی شخصیت پر کتاب لکھ رہے ہیں (گاؤں رجا پور باندہ ضلع کے رہنے والے تھے جو اجودھیا سے دور نہیں ہے) اگر مندر توڑ کر مسجد بنائی گئ ہوتی تو ان کو ضرور معلوم پڑتا تلسی داس جی کا اکیانوے 91 سال کی عمر میں انتقال ہوا کچھ لوگ لکھتے ہیں کہ ایک سو پندرہ برس کی عمر پائ تھی، تلسی داس نے کئ اور کتابیں لکھیں، وہ مصنف شاعر اور ہندی سنسکرت کے ادیب تھے، رام کی پیدائش وجائے پیدائش پر ہندو مورخین کا خود شدید اختلاف ہے کوئ مستند ومعتبر تاریخ قطعی نہیں ہے، بابری مسجد کی بازیابی کے لئیے بہت سی تنظیمیں تحریکیں چلیں سب ناکام ہوگئیں، بابری مسجد ایکشن کمیٹی، بابری مسجد رابطہ کمیٹی، بابری مسجد تحفظ کمیٹی وغیرہ۔ مسجد کی بازیابی کے لئیے لوگ کوشاں تھے، لیکن عدالتی فیصلے نے سب کو مایوس کردیا اور کمیٹیوں کا پتہ ہی نہیں چلا کی کہاں غائب ہوگئں، کسی مسجد کو بت کدے میں تبدیل کر کے عبادت گاہ کی حیثیت ختم نہیں کی جاسکتی ہے، مسلمانوں نے ماضی میں ایسے کئ عظیم الشان ومحیر العقول کارنامے انجام دئیے ہیں کہ عبادت گاہوں کو بتوں کی آلائشوں سے پاک کیا گیا ہے، دکھ اس بات کا ہے کہ بابری مسجد کا مسئلہ مسلمانوں کی عزت و وقار کا وجود وبقاء کا سوال بن گیا تھا، ورنہ سیکڑوں مسجدیں اغیار کے قبضے میں ہیں جن کو ہم جانتے بھی ہیں اور نہیں بھی ہندو فرقہ پرستوں کی طرف سےچیلنج کر کے بابری مسجد دن دہاڑے شہید کر دی گئ تھی اور چیلنج کر کے بنائ بھی جارہی ہے،
 یاد رہے کہ شہید کبھی مرتا نہیں ہے. اس لئیے ہم شہید بابری مسجد کو دیکھ رہے ہیں، اور اسی تصور سے جی رہے ہیں اور جینا بھی چاہئے، معتبر ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ بابری مسجد پر سودے بازی بھی کی گئ تھی، کئ مسلم وہندو سیاست داں آپس میں لین دین بھی کر چکے تھے، لیکن مسجد مندر کا مدعا ایسا تھا کہ نہ اگلتے بنتا تھا نہ نگلتے۔
اور یہ بھی یاد رہے کہ مسجد کی جگہ نہ تبدیل کی جاسکتی ہے اور نہ فروخت کی جاسکتی ہے، اس بات سے کوئ انکار نہیں کرسکتا ہے کہ بابری مسجد طاقت کے بل پر ہتھیالی گئ ہے اور میڈیا کے ذریعہ ایک بار پھر ملک کا ماحول کشیدہ بنایا جارہا ہے، مودی حکومت ہر محاذ پر ناکام ہے، اپنی ناکامی چھپانے کے لیے اور ہندؤں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانے کے لئے کورونا بیماری کی مہاماری میں یہ سب ڈرامہ کیا جارہا ہے، صرف اقتدار کے لئیے طاقت کے بل پر جھوٹ نفرت تشدد ظلم کا راستہ ہے رام کے آدرشوں کے خلاف ہے۔
موجودہ حکومت بھارتیہ جنتا پارٹی اپنی سر پرستی میں رام مندر بنوا رہی ہے جو تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×