سیاسی و سماجی
کیا یہی جمہوریت ہے…؟
انگریزوں کے خلاف ہندوستان کی جنگ آزادی تقریباً دو سو برس تک جاری رہی، اس دوران متعدد تحریکوں نے جنم لیا، ایک تحریک ختم ہوئی کہ دوسرے نے اس کی جگہ لے لی، یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ ۱۵/اگست ۱۹۴۷ء نصف شب کو وطن عزیز آزادی کی نعمت سے بہرہ ور ہوا۔
یہ نعمت ہمیں یونہی نہیں ملی بلکہ اس کے حصول کےلئے ہمارے بزرگوں نے اپنا لہو بہایا، اور یہ لہو ایک دو دن نہیں مہینے دو مہینے نہیں بلکہ وہ صدیوں تک بہتا رہا ۱۷۵۷ء میں سراج الدولہ نے اپنے لہو سے حصول آزادی کا جو چراغ روشن کیا تھا وہ ملک بھر میں برسوں گردش کرتا رہا کبھی یہ چراغ ٹیپو سلطان شہید رحمۃ االلہ علیہ کے ہاتھ میں اور کبھی اسے مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ کے ہاتھوں نے تھاما، کبھی اس میں حضرت شیخ الہند اور ان کے شاگردوں نے خون سے روشنی دی ان بزرگوں کی قیادت میں ہزاروں لاکھوں لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا گولیاں کھائیں، پھانسیوں پر لٹکے کتنے ہی لوگوں نے زندگی کے ماہ وسال قیدو بند کی صورتوں میں گزارے، جلا وطن ہوئے، اس داستانِ آزادی کا ہر حرف اور لفظ ہمارے بزرگوں کے خونِ شہادت سے رنگین ہیں۔
آزادی ملنے کے بعد یہ سوال ہوا کہ اب اس ملک کو کس رخ پر چلنا ہے مطلق العنانیت جبر واستبداء کی طرف یا انصاف اور مساوات کی طرف، تو اس وقت کے سیاسی لیڈروں اور حکومتی نمائندوں نے اتفاقِ رائے کے ساتھ طئے کیا کہ اب شہنشاہیت اور مطلق العنانیت کا دور ختم ہوچکا ہے، آزادی کی صبح ہوچکی ہے، یہ ملک اب جبراً استبداء کی تیرگی کے بجائے جمہوریت کی روشنی میں سفر کرے گا، اس طرح ۲۶/جنوری ۱۹۵۰ء کو ایک اور نعمت ملی اور وہ ہے اس ملک میں جمہوریت کی نعمت ۔
قارئین کرام!
یہ دو دن ۱۵/اگست اور ۲۶/جنوری ہمارے لئے بڑی اہمیت کےحامل ہیں لیکن آج افسوس کہ جمہوریت صرف نام کی باقی رہ گئی ہے، آج ملک کو آزاد ہوئے ۷۲/سال اور جمہوری نظام قائم ہوئے ۷۰/سال ہوگئے، لیکن اگر ماضی کی طرف بڑھ کر دیکھا جائے تو آزادی اور جمہوریت محض سراب معلوم ہوتی ہے، جو دور سے دیکھنے میں بڑی خوبصورت و دلکش اور دلفریب ہے، مگر قریب جاکر دیکھا جائے تو سیاہ چمکتی ریت کے سوا کچھ بھی نہیں ہے، کیا واقعی ہمارے اسلاف اور بزرگوں نے اسی آزادی و جمہوریت کےلئے اپنی بیش قمیت جانیں قربان کی تھیں، اور کیا ہمارے دستور ساز رہنما ایک ایسا ملک بنانا چاہتے تھے جہاں طبقاتی کشمکش ہو، جہاں پسماندگی غربت وافلاس اور جہالت ہو، جہاں رنگ ونسل پر تفریق پر مبنی سیاست کا بول بالا ہو، جہاں اقتدار کےلئے تمام اخلاقیات اٹھاکر رکھ دی جاتی ہوں، جہاں قانون تو ہو مگر کمزوروں کےلئے جہاں طاقت اور قانون سے بالا تر ہوں، جہاں تنگ نظری عصبیت اور فرقہ واریت ہو، جہاں بے گناہوں اور بے قصوروں کو ناکردہ گناہوں کی سزا دی جاتی ہو، اور جیل کی سلاخیں برداشت کرنی پڑتی ہوں، اور مجرم کھلے بندوں گھومتے پھرتے ہوں، جہاں سیدھے سادے اور بے قصور لوگوں کو دہشت گرد قرار دئیے جاتے ہوں، اور اقلیتوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے جارہے ہوں، اور ان کے خلاف ہندوستان چھوڑو کے نعرے لگ رہے ہوں، جہاں کسانوں کے خلاف بل پاس کر کے کسانوں پر ظلم و زیادتی کا شکار بنایا جا رہا ہو،جہاں یونیفارم سول کوڈ جیسے بل پاس کرکے مسلمانوں کی شریعت میں مداخلت کی جارہی ہو، اگر یہ جمہوریت ہے تو شاید ہی کسی مذہب سماج کو ایسی جمہوریت کی ضرورت ہو؟
اللہ سے دعا ہیکہ انھیں صحیح سمجھ عطا فرمائے اور ملک میں صحیح معنی میں جمہوری نظام چلے۔ آمین ثم آمین
بھت ہی زبردست تحریر۔