سیاسی و سماجی

صحت کیسے بنائیں۔۔

عالمی وبا کورونا وائرس (کووڈ۔19) کا اثر اب بھی برقرار ہے۔ گزشتہ سات مہینوں سے زندگی گویا تھم سی گئی تھی۔ جس کے بعد اب لوگ اس وبا کے ساتھ جینے اور اس کے مقابلے کے لیے تیار ہیں۔ زندگی اب اپنی پٹری پر آچکی ہے۔ زندگی کا حسن اور اس کی باگ دوڑ نظر آرہی ہے۔ لوگوں کے اندر اب پہلے جیسا خوف نہیں رہا۔ سماجی دوری کے ساتھ معاشرتی تعلقات کا بھی آغاز ہوچکا ہے۔ کورونا کے بعد کا دور یعنی نیو نارمل ایرا میں ہم سب قدم رکھ رہے ہیں۔ ایسے میں اپنی صحت کے ضمن میں نہ صرف ازسر نو غور و فکر بلکہ عملی اقدامات کی بھی ضرورت ہے۔ ایک صحت مند فرد اور صحت مند معاشرے ہی سے مجموعی صحت کو فروغ دیا جاسکتا ہے۔
گزشتہ چند مہینوں سے جم اور پارکز بند تھے۔ اس دوران ورزش، بھاگ دوڑ اور چہل قدمی صحیح سے نہیں ہو پارہی تھی۔ اب جب کہ یہ سب کھل گئے ہیں تو روزانہ آدھے سے ایک گھنٹہ جم یا ورزش کرنا اپنے آپ کو صحت مند بنانے کے لیے ضروری ہے۔ اس کے لیے بہترین وقت صبح کا مانا جاتا ہے۔ صبح تازہ ہوا خوری ہوسکے گی۔ صبح کے وقت قدرت کا مفت عطیہ یعنی وٹامن ڈی بھی سورج کی روشنی سے مفت میں حاصل کیا جا سکتا ہے۔ جس کے بعد ہمارا پورا دن بھر پور اور پرجوش گزرے گا۔ اگر صبح وقت نہ ملیں تو غروب آفتاب سے قبل کا وقت بھی ورزش یا جم کے لیے بہت مناسب ہے۔ آدمی دن بھر اپنے کام کاج کر کے تھکان محسوس کرتا ہے تو ایسے وقت میں ورزش ہماری تھکاوٹ کو دور کر دے گی۔
بہر حال مابعد کورونا اپنی صحت پر توجہ دینا اور اس کے لیے وقت نکال کر روزانہ ورزش یا جم کرنا ضروری ہے۔ اس عمل کے لیے کوئی گروپ بنا لیا جائے۔ اپنے رشتہ داروں یا دوستوں کے ساتھ جم/ چہل قدمی کی جائے تو اور بھی مزہ آئے گا، بلکہ ورزش کے دوران ایک بندہ دوسرے کے لیے تحریک کا سبب بھی بنے گا۔ اگر کوئی ذرہ سی تکان محسوس کریں تو دوسرے کو دیکھ کر اور جوش آئے گا۔ تو چلیں آج ہی سے اس کی شروعات کرتے ہیں
کل گذشتہ ہی عدالت عظمی نے "تحریک شاہین باغ” کو لیکر فیصلہ سنایا ہے،سپریم کورٹ نے دہلی کے شاہین باغ میں گذشتہ سال کے اواخر میں شروع ہونے والے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف منظم احتجاج پر اپنا فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ”عوامی مقامات پر ہونے والے احتجاجی مظاہرے ناقابل قبول ہیں،اس سے عوامی زندگی کو تکلیف پہونچے گی،عدالت عظمی نے یہ بھی واضح کیا کہ حکومت مظاہرین کو بے دخل کرنے کا اختیار رکھتی ہے،اور عام شہریوں کی سرگرمیوں میں مداخلت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کےلئے انھیں عدالت کے اجازت کا انتظار نہیں کرنا چاہئے،
یہ ہے سپریم کورٹ کاتازہ فیصلہ اس فیصلے پر تفصیلی تجزیہ انشاءاللہ اگلی تحریر میں کروں گا، ابھی صرف یہ سمجھ لیں کہ اب جمہوری ملک میں لوگوں کے بنیادی حقوق کو سلب کاجارہاہے اور یہ اختیار عدالت،حکومت کوسونپ رہی ہے کہ جولوگ  اپنے حقوق کی بازیابی یا حکومت  کی غلط پالیسیوں کے خلاف پرامن طریقے پر آواز بلند کریں ،احتجاجی مظاہرہے میں حصہ لیں توحکومت  طاقت کے بل بوتے پر ان پر کاروائی کرسکتی ہے اور لوگوں کواس سے باز رکھنے کےلئے کارروائی  کرسکتی ہے،دوسرے لفظوں میں یہ سمجھئے کہ اگرآپ کو ملک میں رہنا ہے، بھارت کی سرزمین پر زندگی بسر کرنا ہے تو پھر آپ کو غلام بن کر رہنا پڑےگا، آپ حکومت کی کسی پالیسی کے خلاف اپنا احتجاج درج نہیں کراسکتے،اب ایسے میں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کیا ملک کو پھر ایک آزادی کی ضرورت ہے؟ کیا ایک اور انقلاب کےلئے ملک کو تیار رہنا ہوگا؟ یہ وقت ان سوالوں پر غور کرنے اور اسکا جواب تلاش کرنے کاہے،حکومت  جوچاہے گی قانون بناکر مسلط کردےگی،آپ کو قبول کرنا پڑےگا، یہی ہے ہندوراشٹر، عدالتوں کے فیصلے اسی ہندو راشٹر کی ایک جھلک ہے،حکومت  کسانوں کے تعلق سے قانون بنائے گی لیکن کسانوں سے کوئی مشورہ نہیں کیاجائے گا،مسلم پرسنل لاء سے متعلق پارلیمنٹ میں قانون پاس کیا جائے گا لیکن مسلمانوں سے اس بارے میں کوئی مشورہ نہیں ہوگا، حکومت ملک کے مفاد میں بہت سے فیصلے لےگی،قانون بنائے گی لیکن اس بھارت میں رہنے والے لوگوں سے کوئی  صلاح مشورہ نہیں کیا جائےگا، مطلب کوئی بھی چیز قانون  بنانے کے بہانے آپ کے سر تھوپ دیا جائےگا اور آپ کو بلاچوں چرا اسکو قبول کرنا پڑےگا،آگر آپ نے اسکے خلاف آواز اٹھائی ،مظاہرے کا اہتمام کیا تو پھر حکومت کو یہ پاور ہے کہ وہ آپ پر کارروائی کرے،کیا ہم اور آپ یہی چاہتے ہیں؟ کیا اسی لئے اس ملک کو آزاد کرایاگیا؟ سوچیئے گا ضرور!
کرونا اور لاک ڈاؤن کے بہانے جسطر ح ملک کی معیشت کو برباد کیا
 گیا، مہینوں گذرنے کے بعد ابتک سنبھلنے کا امکان نہیں ہے،دن بہ دن معیشت ہنوز ابتری کا شکارہے،معیشت کو مزید ابتری سے بچانے کےلئے ضروری ہے کہ عوام کے ہاتھوں میں پیسوں کا بندوں ست کیاجائے،اوراسکےلئے منصوبے بنائے جائیں،مالیاتی اقدامات کے ذریعے عوام کی جیبوں میں پیسہ آجائے تو مالیاتی پالیسی میں بھی بہتری لائی جاسکتی ہے،ماضی میں اندرون ملک پیداوار کو بڑھانے کی جدوجہد کی جاتی تھی،اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے پر زور صرف کیا جاتاتھا،اسکیمیں بنائی جاتی تھی،پالیسیاں مرتب ہوتی تھی،جسکی وجہ سے جی ڈی پی اور معیشت کی ابتری پر آسانی سے کنٹرول رہتا تھا،لیکن گذشہ 6سالوں سے ان امور کے قریب  پہونچنے کی کوئی ادنی کوشش بھی نہیں کی گئی،نتیجہ یہ ہواکہ ملک کی معیشت تباہ ہوگئی اور اس شدید ضرب کی وجہ سے کورونا کے بعد تو معیشت کا توازن ہی بگڑ گیا،مالیاتی عدم استحکام،اور بیرونی عدم توازن کی صورتحال نے افراط زر میں بھی اضافہ کردیاہے،ایک مقامی اخبار اس تعلق  سے لکھتا ہے کہ”عام طور پر یہ خیال کیا جاتاہے کہ جتنی زیادہ رقومات ہونگی معاشی سرگرمیاں بھی اتنی ہی تیز ہونگی،ملک میں طلب،پیداوار،بچت اور سرمایہ کاری کے ساتھ اثاثوں میں تجارت کو فروغ دینے سے روپیہ کا بہاؤ بڑھاتھا،اب روپیوں کا بہاؤ ہی تھم چکاہے،گرچہ ماہرین معاشیات نے کوویڈ 19کے 6ماہ بعد ماہ سپٹیمبر میں بھارت کی معاشی سرگرمیوں میں تیزی دیکھی ہے،لیکن لاک ڈاؤن کے منفی اثرات اس معیشت کا مسلسل تعاقب کررہے ہیں،حکومت بھی اپنے ائرکنڈیشنڈ  چیمبر میں آرام کررہی ہے،ماہرین معاشیات کے مشورے پر اگر توجہ نہیں دی گئی آنے والے دنوں میں معاشی بہتری کے تعلقات سے اچھی خبریں آنے کی توقع نہیں کی جاسکتی،حکومت نے فوری اقدامات کی جانب توجہ نہیں دی تو معاشی سرگرمیاں یوں ہی رینگتی رہےگی”
(سیاست ڈیلی 4اکٹوبر)
یہ ہے ایک اخبار کی رپورٹ  جو آنے والے دنوں میں ملک کے حالات کیاہونگے اس سے باخبر کررہاہے کیا آپ کو لگتا نہیں ہے کہ ملکی حالات انتہائی نازک ھیں  اور یہ مسلسل بربادی کی راہ پرگامزن ہے،یوپی میں یوگی کا غنڈہ راج جاری ہے، پولس شدت پسندی اور دہشت گردی پر آمادہ ہے، جسطرح اپوزیشن لیڈران پر پولس نے غنڈہ گردی کی، انکا گریبان تک پکڑا، لاٹھی چارج کیا یہ جمہوریت  کے تابوت میں آخری کیل ٹھوک کر ہندو راشٹر اورغنڈہ راج کی جانب قدم بڑھایاجارہاہے،گذشتہ سالوں میں ملک کو لوٹنے اور فقیر کی پوری کوشش کی گئی، کنگال کیاجارہاہے،کروڑوں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں، انکے روزی روٹی کےلئے حکومت صرف بھاشڑ بازی کررہی ہے،لاکھوں غریب اور مزدور فاقہ کشی اور خودکشی کرنے پر مجبور ہیں لیکن  مجال ہے کہ یہ سنگھی حکومت ان لوگوں کےلئے کوئی راہ نکالے اورانکے بارے کوئی غوروفکرے،آخراس انجانی اداؤں اور معنی خیز خاموشی کوئی پیش خیمہ تو ضرور ہوگا،یہ خاموش بے سبب نہیں ہے،بیٹی بچاؤ بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ بھی بری طرح فلاپ ہوچکاہے، بھارت بڑی تیزی کے ساتھ ایک خطرناک کھائی کی جانب بڑھ رہاہے، شاید اسی موقع کےلئے  کسی نے خوب کہا ہے کہ
ملک لٹ جائے گا آثار نظر آتے ہیں
اب سیاست میں مکار نظر آتے ہیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×