جاتے جاتے یہ سال شمس الرحمان فاروقی کو بھی ساتھ لے گیا
الہ آباد: 26؍دسمبر (عصرحاضر) منفرد شاعر، رجحان ساز و مجتہد نقاد، دانشور محقق، بے باک مبصر، با کمال فکشن رائٹر، بے مثال مدیر شمس الرحمن فاروقی کے انتقال سے اردو ادب کو بہت بڑا نقصان پہنچا ہے۔اناللہ وانا الیہ راجعون۔ اردو زبان کے معروف ادبی نقاد، ناول نگار اور شاعر شمس الرحمان فاروقی 25؍دسمبر کی سہ پہر شہر الٰہ آباد میں وفات پا گئے ہیں۔ ان کی عمر 85 برس تھی۔ وہ ایک ماہ قبل ہی کووڈ 19 سے صحتیاب ہوئے تھے۔ پریس ٹرسٹ آف انڈیا نے ان کے بھتیجے اور مصنف محمود فاروقی کے حوالے سے بتایا کہ وہ دلی سے اپنے گھر الٰہ آباد واپس جانے پر مصر تھے۔ ‘ہم آج یہاں پہنچے اور آدھے گھنٹے بعد ان کی وفات ہوگئی۔’ انھیں مرکزی حکومت کی جانب سے ان کی ادبی خدمات پر انڈیا کے اعلیٰ سول اعزاز پدما شری سے بھی نوازا جا چکا تھا۔ ان کی آخری رسومات الہٰ آباد میں ہی ادا کی جائیں گی۔
شمس الرحمان فاروقی 30 ستمبر 1935 کو اترپردیش میں پیدا ہوئے تھے۔ انھیں داستان کہنے کی روایت کو دوبارہ زندہ کرنے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے۔ اپنے چھ دہائیوں پر مشتمل طویل ادبی کریئر میں انھوں نے کئی کتابیں لکھیں جن میں ‘کئی چاند تھے سرِ آسماں’، ‘غالب افسانے کی حمایت میں’، اور ‘دی سن دیٹ روز فرام دی ارتھ’ شامل ہیں۔
اس کے علاوہ انھیں میر تقی میر پر لکھی اپنی کتاب شعرِ شور انگیز کے لیے 1996 میں سالانہ اعزاز سرسوتی سمّان سے بھی نوازا گیا تھا۔ اپنے ادبی کریئر کے علاوہ وہ انڈیا کے محکمہ ڈاک میں بھی خدمات سر انجام دے چکے تھے جبکہ یونیورسٹی آف پینسلوینیا کے جنوبی ایشیائی علوم کے شعبے میں جز وقتی پروفیسر بھی رہے۔
ان کی وفات پر ادبی شخصیات اور ان کے مداحوں کی جانب سے دکھ کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے اور لوگ انھیں خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں۔
سابق رکن پارلیمنٹ و ہفت روزہ نئی دنیا کے چیف ایڈیٹر شاہد صدیقی نے کہا شمس الرحمن فاروقی کا انتقال آزاد ہندوستان کے بعد کے ہندوستان میں اردو کے عظیم مصنفین کے دور کا اختتام ہے۔ اب بہت ہی کم لوگ بچے ہوئے ہیں، کیوں کہ اردو مرجھا رہی ہے ، اس کے چاہنے والوں کا انتقال ہو رہا ہے۔ وہ ہمیشہ اپنی تحریروں اور کتابوں میں زندہ رہیں گے۔
نامور مصنفہ اور ترجمہ نگار رعنا صفوی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ وہ علم، محبت اور ہمت افزائی کرنے میں بہت سخی تھے اور انھیں کہا کرتے تھے کہ ‘پوچھ لو بیٹا میں جب تک ہوں۔’
صحافی مہتاب عالم نے ان کی وفات کی خبر دیتے ہوئے لوگوں کو ان کی کتاب پڑھنے کی تجویز دی۔
انھوں نے لکھا کہ خراجِ تحسین کے طور پر اگر آپ ان کی صرف ایک کتاب پڑھنا چاہیں تو ان کی رائے میں وہ کتاب ‘اردو کا ابتدائی زمانہ’ ہونی چاہیے۔
تعلیم کے شعبے سے منسلک سواتی پرشار نے لکھا کہ ’جاتے جاتے یہ سال شمس الرحمان فاروقی کو بھی ساتھ لے گیا۔ یہ اردو شاعری اور ادبی ثقافت کا بہت بڑا نقصان ہے۔’
صارف جیکب واکر نے شمس الرحمان فاروقی کا ایک شعر پوسٹ کرتے ہوئے انھیں خراجِ تحسین پیش کیا: ‘بنائیں گے نئی دنیا ہم اپنی، تری دنیا میں اب رہنا نہیں ہے۔’
صارف حسین حیدری نے کہا کہ انڈیا کے مشہور نغمہ نگار اور شاعر جاوید اختر اور گلزار پہلے محفل میں شمس الرحمان فاروقی کی موجودگی کا ذکر کرتے پھر اپنی شاعری پڑھتے۔
صارف سادھیکا تیواری نے ان کی کتاب ‘دی مرر آف بیوٹی’ یا ‘کئی چاند تھے سرِ آسماں’ کے بارے میں لکھا کہ انھوں نے چھ سال قبل دورانِ تعلیم یہ کتاب پہلی مرتبہ پڑھی اور انھیں اس سے محبت ہوگئی۔ انھوں نے لکھا کہ وہ اس خوبصورت کتاب کا اختتام نہیں چاہتی تھیں۔