احوال وطن

دوسرے کی اولاد کو اپنی حقیقی اولاد کہنا فطرت سے بغاوت ہے

ممبئی: 24؍اکٹوبر (پریس ریلیز)  آئیے مسلم پرسنل لا سیکھیں کے عنوان سے سلسلہ وار محاضرات کا انتیسواں محاضرہ یتیم بچوں کی کفالت اورگودلینےکی شرعی حیثیت پر گزشتہ جمعہ کوکیڈی مسجد ناگپاڑہ ممبئی میں جناب مفتی مطیع الرحمٰن قاسمی (قاضی شریعت دارالقضاء آل انڈیامسلم پرسنل لابورڈ،بھیونڈی) نے تفصیلی محاضرہ پیش کیا، جس میں انھوں نے بتایا کہ اسلام میں یتیم اورلاوارث بچوں کی کفالت کرنا کار ثواب ہے ، قرآن کریم میں جگہ جگہ یتیموں کی دیکھ بھالی اور ان پر خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے لوگوں کو جنت میں اپنی رفاقت نصیب ہونے کی بشارت دی ہے ، اسی پر بس نہیں،بلکہ صحیح ڈھنگ سےان کی  ذمہ داری نہ نبھانے پر سخت وعید بھی سنائی گئی ہے،چنانچہ جولوگ یتیموں  کے مال کو ناحق ہڑپ کر کھاجاتے ہیں ان کے بارے میں قرآن کریم نے کہاہے کہ وہ اپنے پیٹوں میں جہنم کی آگ بھرتے ہیں،اس  سے اندازہ لگایا جاسکتاہے  کہ شریعت میں یتیم بچوں کی کفالت  کرنا کس قدراہم اور کار ثواب ہے۔مفتی مطیع الرحمٰن قاسمی نے مزید کہا کہ اس کے باوجود کسی بچہ یا بچی کو حقیقی اولاد کا درجہ نہیں دیا جاسکتا ہے ، قرآن کریم میں صراحت کے ساتھ اس کی ممانعت وارد ہوئی ہے،اوریہ فطرت سے بغاوت ہے، مفتی صاحب نے اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ چوں کہ حقیقی اولاد مان لینے کی صورت میں خود اس بچہ کا نقصان ہوگا اس طور پر کہ اس کے دو باپ اور دو ماں ہوں جائیں گے،جو اس کے لئے عار کا سبب ہوگا، جس سے اس کو ذہنی کوفت ہوگی، وہ اپنے حقیقی ماں باپ سے بدظن ہوجائے گا، پھر ان کے خلاف بغاوت پر اترجائےگا،انھوں نے مزیدکہاکہ ایک سروے کے مطابق ایسے بچے غنڈے اور سماج کے لئے ناسور بن جاتے ہیں۔مفتی مطیع الرحمٰن قاسمی نے گود لئے ہوئے بچے کو حقیقی اولاد کا درجہ دینے کے تعلق سے شرعی نقطہ نظر بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس سے شریعت کے دوسرے شعبے مثلا قانون نکاح، حضانت، وصیت، ہبہ، حجاب، وراثت، وغیرہ متاثر ہوتے ہیں، اس لئے اسلام یتیم بچوں کی کفالت کی ترغیب کے ساتھ ان کو حقیقی اولادکادرجہ دینے سےسختی سے روکتاہے ، انھوں نے مثال کے ذریعہ سمجھایا کہ اگر میت نے اپنے وارثین میں صرف ایک حقیقی بیٹے کو چھوڑاہے تو وہ کل مال کا مالک ہوگا، لیکن اگر اس نے کسی کو گود لیا ہوا تھا اوراس کو حقیقی اولاد کادرجہ دیدیاگیاتو اب وہ آدھے کامالک ہوگا، جس سے اس کے حقیقی بیٹے کو نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا، نتیجہ کے طور پر ان دونوں میں نفرت وعداوت جنم لیں گی،جھگڑا اورفتنہ و فساد پیداہوگا، اس لئےایسے فتنوں سےبچنے کے لئے مسلم پرسنل لا میں اس کی  اجازت نہیں ہے۔مفتی مطیع الرحمٰن قاسمی نےمزیدکہاکہ گودلئے ہوئے بچہ کو حقیقی اولادکادرجہ دینے کی صورت میں اس کے لئے وصیت کرنا بھی درست نہیں ہوگی، حالاں کہ اگر اس کو حقیقی اولاد کا درجہ نہ دیاجائے تو ایک تہائی مال تک کی وصیت کی جاسکتی ہے ، اس لیے یہ خود بچہ کے مفاد کے خلاف ہے۔پروگرام کے کنوینرمفتی محمد فیاض عالم قاسمی نے کسی بچہ کو حقیقی اورغیرحقیقی درجہ دینے اورنہ دینے کے درمیان فرق کرتے ہوئے کہاکہ کہ اگر کوئی کسی کو پیار میں” بیٹا”کہتاہے تو وہ خوش ہوتاہے، اوراگرحقیقی طورپر”بیٹا”کہتاہےتواس کوغصہ آجاتا ہے،اوریہ غصہ فطری ہے۔بس یہی فرق ہےکفالت اورسرپرستی کرنےکے باوجودحقیقی اولاد کادرجہ دینے اورنہ دینے میں،انھوں نے مزیدکہاکہ کسی  کو اولاد بنالینے سے قانونی طورپروہ اس کی اولاد بن جاتی  ہے، مگر  مسلمان  اس  سے مستثنیٰ ہیں، مسلمانوں پر مسلم پرسنل لاعائلی مسائل میں شریعت نافذ ہوگا، انھوں نے مزیدکہاکہ شریعت کے قانون کو کوئی نہیں بدل سکتاہے،حتیٰ کہ  حضرت محمد ﷺ بھی نہیں بدل سکتے ہیں،اور اس کی ضرورت نہیں ہے،انھوں نے کہاکہ چودہ سوسال  سےاس پر عمل  ہوتاآرہاہے،بدلنے کی ضرورت نہیں پڑی  تو آج اس کی  ضرورت کیسی پڑسکتی ہے؟واضح رہے کہ آئیے مسلم پرسنل لاسیکھیں کے عنوان سے کیڈی مسجد ناگپاڑہ ممبئی میں مسلم پرسنل لاسے متعلق مسائل پر محاضرہ دئے جانےکانظم  گیاہے،اگلامحاضرہ جھگڑے کی وجوہات اوران کاحل کے موضوع پر جناب مفتی اشفاق قاضی صاحب(جامع مسجد کرافورڈ مارکٹ) پیش کریں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×