احوال وطن

بابری مسجد ٹائٹل سوٹ؛ اگر رام اور اللہ کا احترام نہیں کیا جائے گا تو یہ ملک جو ایک تکثیری سماج ہے بکھرجائے گا: ڈاکٹر راجیو دھون

نئی دہلی: 23؍ستمبر (پریس ریلیز) آج مسلم فریقوں ( مسلم پرسنل لا بورڈ و جمعیۃ علماء ہند) کے وکیل ڈاکٹر راجیو دھون نے اپنی بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ اگر جنم استھان کی بحث کو جس کی بنیاد آستھا پر ہے قبول کرلیا جائے تو کیا پورے ملک کی سطح پر اتنی بڑی جگہ کے لئے اسے قبول کرلیا جائے گا۔ آستھا کی کوئی بنیاد ہونی چاہئے اور اسے نظر بھی آنا چاہئے، جیسے کیلاش مانسرور میں نظر آتا ہے، جب اسے Juristic personality قانونی ہستی مانا جاسکتا ہے۔
میرا پہلا پوائنٹ یہ ہے کہ ان کی آستھا ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جنم استھان میں ایک بڑی جگہ ہے نہ کہ کوئی مخصوص اور متعین جگہ جیساکہ وہ دعویٰ کررہے ہیں۔ اگر ایک وقت کے لئے میں ان کی بحث مان بھی لوںتو کیا ان کے پاس اس کے لئے کوئی واضح دلیل ہے۔ اس موقعہ پر جسٹس بوبڑے نے دریافت کیاکہ کیا کسی چیز میں الوہیت ہو تب ہی اسے قانون ہستی مانا جائے گا۔
جسٹس چندرچوڑ نے سوال کیا آپ کا پہلا دعویٰ کہ آستھا کمزور ہے، یہ مسئلہ شہادت سے متعلق ہے۔ لیکن آپ کی دوسری بات کہ آستھا کو کسی چیز سے ظاہر ہونا چاہئے۔ لیکن وہ کیا چیز ہوسکتی ہے جس کی آپ بات کررہے ہیں۔ ڈاکٹر راجیودھون نے جواب دیا کہ دوسرے فریق نے کس چیز پر انحصار کیا ہے۔ کنواں، ندی یا درخت یہ ویدک تصور ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تمام قانونی ہستیاں ہیں۔ لیکن ان میں سے کسی کی بھی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
ہم اگر پیچھے جائیں تو کیا وہ کسی رقبہ (علاقہ) کو قانونی ہستی بناسکتے ہیں۔ ان کی بحث کی بنیاد یہی ہے جو انہوں نے سوٹ نمبر 5 میں بیان کی ہے۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ رام جنم بھومی پر موجود تمام اسٹرکچر کو توڑ دیا جائے اور ایک نیا مندر تعمیر کیا جائے۔ وہ صرف یہ کہتے ہیں کہ رام یہاں پیدا ہوئے تھے، کسی علاقہ کی کوئی خدوخال اور خطوط پیش نہیں کی گئی ہے۔ یہ سوٹ صرف اس بات پر مبنی ہے کہ موجودہ تمام اسٹراکچر کو توڑ کر ہٹا دیا جائے۔ چلئے ایک بار میں یہ مان لیتا ہوں کہ رام یہاں پیدا ہوئے تھے۔ لیکن اس سے یہ مقام قانونی ہستی نہیں بن جاتا ہے۔ 1989تک کسی نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ یہ جگہ قانونی ہستی ہے۔ یقینا رام کا احترام کیا جانا چاہئے۔ اگر رام اور اللہ کا احترام نہیں کیا جائے گا تو یہ ملک جو ایک تکثیری سماج ہے بکھرجائے گا۔
جسٹس چندرچوڑ کی بات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ کون سی بات کسی چیز کو قانونی ہستی بناتی ہے۔ ڈاکٹر دھون نے کہا عبادت اس کے لئے کافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ تو کہا گیا کہ یہ ہماری آستھا ہے لیکن یہاں پوجا ہوتی ہے اس کا کوئی ثبوت نہیں پیش کیاگیا۔ کسی نہ کسی چیز کا ظہور ہونا چاہئے کسی بھی جگہ اور رقبہ کے دعوی کو یونہی قبول نہیں کرلیا جائے گا۔ جہاں تک پوجا پاٹ کا دعویٰ ہے (نرموہی اکھاڑہ) وہ صرف باہری صحن سے متعلق ہے۔ جو بات بطور ثبوت پیش کی جاسکتی ہے وہ بس اتنی ہی ہے کہ رام چبوترہ پر پوجا ہوتی تھی نہ کہ اس پورے متنازعہ مقام پر۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا پریکرما (طواف)کا کیا جانا اس کے حقیت کے دعویٰ کے لئے کافی ہے۔ ڈاکٹر دھون نے متعدد گواہوں کے بیانات پڑھ کرسنائے، اور کہا کہ انہوں نے پریکرما کا ذکر تو کیا ہے لیکن ان گواہوں کے بیانات میں یکسانیت نہیں ہےاور نہ ہی انہوں نے واضح طور پر بتایا ہے کہ یہ پریکرما انہوں نے کس مقام پر کی تھی۔
ججوں سے مخاطب ہوکر ڈاکٹر دھون نے کہا کہ آپ نے جس طرح کارپوریٹ سے متعلق معاملات کو بے نقاب کیا ہے اسی طرح میری آپ سے گزارش ہے کہ قانونی ہستی کے اس معمے کو بھی بے نقاب کردیجئے تاکہ پتہ چلے کہ پس پردہ کیا ہے۔کیا ہندئوں کو قبضہ مخالفانہ کے دعوے کی بنیاد پر حقیت کا حق حاصل ہوجاتا ہے جب کہ 1949 تک وہاں پر مورتیاں بھی نہیں تھیں۔ یہ مسجد کسی بھی وقت ویران نہیں تھی، زیادہ سے زیادہ یہ کہاجاسکتا ہے کہ کچھ وقت کے لئے نماز نہیں پڑھی گئی۔ اس کے بعد ڈاکٹر دھون نے کہا کہ ایڈوکیٹ پارا سرن نے لمیٹیشن کی دفعہ 10 کی بنیاد پر بحث کی ہے اس پر میں بعد میں بحث کروںگا۔
قبضہ مخالفانہ کے لئے جبری قبضہ ہونا چاہئے، ایسا کوئی جبری قبضہ وہاں پر نہیں تھا سوائے اس کے کہ وقتاً فوقتاً مسلمانوں کو خوفزدہ کیا جارہا تھا۔ ڈاکٹر دھون نے قانونی ہستی سے متعلق سابق کے کچھ نظیریں پیش کیں۔ گروگرنتھ صاحب کیسے قانونی ہستی ہوتا ہے، ہر گروگرنتھ صاحب قانونی ہستی نہیں ہوتا۔ جب تک اسے گرو دوارا میں نصب نہ کیا جائے۔ اسی طرح ہر مورتی قانونی ہستی نہیں بن جاتی۔
بنچ نے دھون صاحب سے اپنی سابقہ بات کی وضاحت چاہی کہ کسی چیز کے ظہور سے آپ کی مراد کیا ہے۔ ڈاکٹر دھون نے جواب دیا یا تو کوئی مندر موجود ہو، یا وہاں پوجا ہورہی ہو، اور اس مقام کا مستقل استعمال ہو یا کوئی پریکٹس ہورہی ہو تو ایسی چیز کے بارے میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس کا ظہور ہوا۔ کوئی واضح چیز تو ایسی ہونی ہی چاہئے جو ایک مذہبی مقام کو قانونی ہستی بناسکے۔ ڈاکٹر دھون نے کہا کہ ہم نے اپنا سوٹ 18دسمبر 1961 کو داخل کیا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہم نے دو دن تاخیر سے کیس داخل کیا۔ لمیٹیشن 16 دسمبر 1949 سے کیسے شروع ہوجائے گا۔ 22 یا 23 دسمبر 1949 سے شروع ہوسکتا ہے۔ جب انہوں نے ایسا کام کیا جس سے ہم بے دخل ہوجائیں یعنی مورتیاں رکھ کر۔
اس کے بعد انہوں نے ایڈوکیٹ جین کا جواب دیا کہ جب آئین بنا تو ہندو لا نافذ ہوگیا تھا اس کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دستور کی دفعہ 372 میں ہندولا اور مسلم لا دونوں کو تحفظ دیا گیا ہے۔ اب یہ ایک سیکولر ملک ہے۔ لہٰذا یہ دلیل بے معنی ہے۔
اس کےبعد انہوں نے شیعہ وقف بورڈ کے دعوے پر کہا کہ شیعہ وقف بورڈ نے پہلا کیس 1946 میں کیا تھاجو ان کے خلاف طے ہوا ہے، اس کے بعد انہوں نے کہیں اپیل نہیں کی۔ 70 سال بعد جب تمام متعلق سوٹ طے ہوگئے، اپیلیں شنوائی کے لئے تیار ہوگئیں ، اس موقع پر انہوں نے 1986 والے آرڈر کو چیلنج کیا ہے۔ لہٰذا اس تاخیر کو کیسے قبول کیا جاسکتا ہے۔
آج کی بحث کے دوران ڈاکٹر دھون کے علاوہ مسلم پرسنل بورڈ کی سینئر ایڈوکیٹ میناکشی اروڑہ اور بورڈ کے سیکریٹری سینئر ایڈوکیٹ ظفر یاب جیلانی بھی موجود تھے ۔ اسی طرح بورڈ کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ کے طور پر ایڈوکیٹ شکیل احمد سید، ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد، ایڈوکیٹ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ ارشاد احمد اور ایڈوکیٹ فضیل احمد ایوبی بھی موجود رہے ان کے علاوہ ان کے جونیئر وکلاء بھی موجود تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×