ریاست و ملک

بابری مسجد ٹائٹل سوٹ؛ ڈاکٹر راجیو دھون نے دروازے اور ممبر پر نقش کتبے پڑھ کر سنائے

نئی دہلی: 20؍ستمبر (پریس ریلیز) آج مقدمہ کی کاروائی قدرے تاخیر سے شروع ہوئی اور صرف ایک گھنٹہ چلی۔ سب سے پہلے مسلم پرسنل بورڈ اور جمعیۃ علما ہند کے وکیل سینئر ایڈوکیٹ ڈاکٹر راجیو دھون نے مسجد کے باہری دروازے اور امام صاحب کے ممبر پر جو کتبے نقش تھے ان کو پڑھ کر سنایا۔ اس پر ججز نےکہا، ان کتبوں کو تیں الگ الگ ادوار میں الگ الگ لوگوں نے پڑھا اور ہر ایک میں مسجد کی تعمیر کی الگ الگ تاریخ بتائی۔ اسی بنیاد پر الہ آباد ہائی کورٹ نے اس پر انحصار نہیں کیا۔ اس پر ڈاکٹر دھون نے کہا یہ ان کتبوں کی غلطی نہیں ہے، بلکہ پڑھنے والوں کی غلطی ہے۔ البتہ سب نے ایک ہی بات کہی ہے کہ بابر کے حکم پر میر باقی نے یہ مسجد بنائی تھی۔ اس پر تینوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ مسجد کس سن میں بنی، کس تاریخ کو بنی اس سے کوئی فرق نہیں پڑھتا۔
پھر ججز نے سوال کیا کہ آپ اس تاریخ پر اتنا اصرار کیوں کررہے ہیں۔ ڈاکٹر دھون نے کہا اگر اس کو نہ مانیں تو بہت ساری باتیں بے معنی ہوجائیں گی۔ASI نے اس علاقہ میں جو کھدائی کی اس میں یہ مانا کہ یہ 1528 میں بنی ہوئی عمارت ہے، جسے بابر نے بنایا تھا اور اسی بنیاد پر وہ گپتا دور تک گئے ہیں کھدائی کرتے ہوئے۔ اگر آپ اس بات کو نہ مانیں تو پوری کھدائی بے معنی ہوجاتی ہے۔ لہذا میرا کہنا یہی ہے کہ کتبوں اور نقوش کی کوئی غلطی نہیں ہے بلکہ پڑھنے اور دیکھنے والوں کی غلطی ہے۔ الہ آباد ہائی کورٹ کے ججوں نے اسی بنیاد پر ان کتبوں پر انحصار نہیں کیا تھا جب کہ اگر تاریخ کی غلطی تھی  تب بھی باقی باتیں تو مانی ہی جا سکتی تھیں۔
اسی طرح اس کی تاریخ نکالنے کے لئے جو الفاظ استعمال کئے گئے ہیں وہ ہیں ’’ بودھ خیر باقی‘‘۔ اگر اس میں سے بود ہٹا دیا جائے تو جو عدد بنتے ہیں وہ ہوتے ہیں 923 ؀ھ۔ اگر ہم بود کے دو لفظوں کو چھوڑکر خیر میں سے ایک لفظ کو نہ پڑھیں تو 930ھ رہ جائے گا اور اگر سب کو پورا پڑھا جائے تو پھر یہ 935 ھ بنتا ہے جو صحیح تاریخ ہے۔ لہذا پڑھنے والوں کی غلطی کو بنیاد نہیں بنایا جا سکتا۔
اس کے بعد دھون صاحب نے 1928 کا یوپی حکومت کے فیض آباد گزیٹیئر کو پیش کیا جسے سوٹ نمبر 5 میں اپنی بات کے ثبوت میں پیش کیا گیا ہے۔ جس میں کہا گیا کہ 1528 میں بابر نے ہندو ٹیمپل کو گرا کر مسجد بنوائی تھی۔ بہر حال اس سے یہ تو ثابت ہوجاتا ہے کہ بابر کے حکم سے مسجد بنی تھی اور 1528 میں بنی تھی۔
اس کے بعد دھون صاحب نے کہا کہ سوٹ نمبر 5 جو 1989 میں داخل کیا گیا تھا وہ یہ کہہ کر داخل کیا گیا تھا کہ کورٹ سے فیصلہ آنے میں بہت تاخیر ہورہی ہے اور مندر تعمیر نہ ہونے سے بھگوان ناراض ہورہے ہیں اور دوسری بات یہ کہی گئی کہ مندر کے لئے جو چڑھاوا آتا ہے وہ پجاری ہڑپ کر جاتے ہیں۔ اس دعوے کو پڑھ کر سنانے کے بعد ڈاکٹر دھون نے کہا کہ یہ سوٹ وشو ہندو پریشد اور آر ایس ایس نے داخل کیا ہے تاکہ مندر کے معاملات کو اپنے ہاتھ میں لے لیں اور ان کی نظر اس پیسے پر بھی ہے جو چڑھاوے کی شکل میں makeshift temple کو آتا ہے۔ آج کی کاروائی یہیں پر ختم ہوگئی۔ اب اگلی بحث پیر کو ہوگی۔
آج کی بحث کے دوران ڈاکٹر دھون کے علاوہ مسلم پرسنل بورڈ کی سینئر ایڈوکیٹ میناکشی اروڑہ اور بورڈ کے سیکریٹری سینئر ایڈوکیٹ ظفر یاب جیلانی بھی موجود تھے ۔ اسی طرح بورڈ کے ایڈوکیٹ آن ریکارڈ کے طور پر ایڈوکیٹ شکیل احمد سید، ایڈوکیٹ ایم آر شمشاد، ایڈوکیٹ اعجاز مقبول، ایڈوکیٹ ارشاد احمد اور ایڈوکیٹ فضیل احمد ایوبی بھی موجود رہے ان کے علاوہ ان کے جونیئر وکلاء بھی موجود تھے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×