احوال وطن

غزہ کے بے گھر خاندان عارضی خیموں میں ردی اور پلاسٹک جلا کر سخت سردی سے برسرِ پیکار

کپڑے اور پلاسٹک کے ایک عارضی خیمے میں اسماعیل نابھان اپنے بچوں اور پوتے پوتیوں کے ساتھ خود کو گرم رکھنے کی جدوجہد میں آگ کے گرد بیٹھے تھے جبکہ ان کا خاندان غزہ جنگ کی وجہ سے بے گھر ہوا ہے۔وسطی غزہ میں اپنے گھر سے بھاگ جانے والے 60 سالہ بزرگ نے کہا، "دو دن پہلے تیز ہوائیں چل رہی تھیں تو ہم نے رات بھر نائیلون کو باندھ کر رکھنے کی کوشش کی۔ ہم ایک صحرا میں رہ رہے ہیں اور سمندر ہمارے سامنے ہے — سردی کئی گنا بڑھ گئی ہے۔”اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق 7 اکتوبر کو جنگ شروع ہونے کے بعد سے غزہ کی پٹی میں اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے 1.9 ملین افراد میں سے کچھ تعداد نے ہزاروں خیمے لگا لیے ہیں۔سرکاری اعداد و شمار پر مبنی اے ایف پی کی تعداد کے مطابق اس دن حماس کے غیر معمولی حملے کے نتیجے میں تقریباً 1,140 افراد ہلاک ہوئے جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے اور یہ حملہ اسرائیلی بمباری اور بے رحمانہ زمینی کارروائی کی وجہ بن گیا۔نابھان اور ان کے خاندان نے رفح کے جنوب مغربی کونے میں ایک خطرناک جگہ پر اپنا خیمہ لگایا ہے جو مصر کی سرحد اور بحیرۂ روم سے چند سو میٹر (گز) کے فاصلے پر ہے۔ناقص اور کمزور پناہ گاہ میں 28 لوگ گھسے ہوئے ہیں اور شعلوں اور دھوئیں کے خطرے کے باوجود وہ خیمے کے اندر آگ جلائے رکھتے ہیں جو انہیں گرم رکھنے کا واحد ذریعہ ہے۔حتیٰ کہ وہ جو ایندھن استعمال کرتے ہیں وہ نقصان دہ ہے لیکن خاندان کے پاس کوئی اور چارہ نہیں۔”پلاسٹک جلانے سے جو دھواں نکلتا ہے وہ ہمارے پھیپھڑوں کو جلا دیتا ہے۔” نبھان کی اہلیہ رائدہ عواد نے کہا جب ان کا پوتا کھانس رہا تھا۔عواد نے اپنے بیٹے سے لکڑیاں لانے کو کہا لیکن مصیبت یہ ہے کہ موسم سرما کی حالیہ شدید بارش کے بعد انہیں خشک ہونے میں چار دن لگیں گے۔50 سالہ عواد نے کہا، "بچے بدبو اور سردی سے بیمار ہیں۔ وہ کھانسی اور نزلہ زکام سے نہیں بچتے۔ ان کے کپڑے اتنے موٹے نہیں ہوتے کہ انہیں گرم رکھ سکیں۔انہوں نے مزید کہا، "ایک کمبل تین لوگوں مل کر استعمال کرتے ہیں۔ حالات المناک ہیں۔”

‘سردی کی موت’

حماس کے زیرِ انتظام علاقے میں وزارتِ صحت نے کہا ہے کہ اس جنگ میں غزہ کے کم از کم 24,100 شہری جاں بحق ہو گئے ہیں۔حنین عدوان جو بھاری اسرائیلی بمباری کی وجہ سے مرکزی نصیرات پناہ گزین کیمپ سے بھاگنے پر مجبور ہو گئی تھیں، نے کہا کہ وہ اور ان کا خاندان سردیوں کے موسم میں زندہ رہنے کی جدوجہد کر رہے تھے۔چھ بچوں کی 31 سالہ ماں نے کہا، "رات کو مجھے لگتا ہے کہ ہم سردی سے مر جائیں گے۔”عدوان نے ٹھنڈی زمین سے بچنے کے لیے تین باریک گدوں کو ایک دوسرے کے اوپر بچھایا ہوا تھا۔انہوں نے کہا کہ آگ جلانے کے لیے لکڑی (مہنگی ہونے کی وجہ سے) ناقابلِ برداشت تھی اس لیے نابھان اور ان کے خاندان کی طرح وہ بھی ردی جلانے پر مجبور تھیں۔انہوں نے کہا، "ہم پلاسٹک سے آگ جلاتے ہیں جس کے دھوئیں سے گلے میں پھندا لگ جاتا ہے۔”عدوان کے 14 سالہ بیٹے کے ہاتھ سیاہ ہو گئے ہیں کیونکہ خاندان کو گرم رکھنے کے لیے کافی مقدار میں پلاسٹک نکالنے کی مسلسل جدوجہد کرتا رہا ہے۔نوجوان نے بتایا کہ وہ کس طرح سرحد پر گٹر کا کام کرتا تھا اور ریت میں دبے ہوئے پلاسٹک کو کھود کر اسے چاقو سے کاٹتا تھا۔انہوں نے کہا، "میرے بھائی رات کو سردی سے مر رہے ہیں۔ ہمیں کچھ جلانا ہے یا ہم جم جائیں گے۔”اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے ادارے نے پیر کے روز کہا کہ عارضی پناہ گاہیں جن میں غزہ کے بہت سے لوگ اب رہتے ہیں "موجودہ موسمی حالات کو برداشت کرنے کے لیے ناکافی ہیں” جب کہ بہت سے مقامات پر شدید بارشوں سے سیلاب آ گیا تھا۔

بموں کا خوف

قریب ہی خالد فراج اللہ اپنے خیمے کے کونے میں روٹیاں بنا کر ٹکڑوں میں اپنے بیٹے کو دے رہے تھے۔ان کے چھ بچے مل کر نے تین گدے استعمال کر رہے ہیں جن میں سے ایک کی خصوصی ضروریات ہیں۔غزہ شہر کے مشرق میں اپنے گھر سے بھاگنے والے فراج اللہ نے کہا، "صبح دو بجے کے بعد شدید سردی کی وجہ سے کسی کے لیے سونا ممکن نہیں۔”36 سالہ نوجوان نے مزید کہا، "اگر آپ ہزار کمبل بچھا دیں تو بھی زمین ٹھنڈی ہے اور یہ نمی اور سردی منتقل کرتی ہے۔”فراج اللہ نے کہا کہ اس کے خصوصی ضروریات والے بچے کے پاس باقاعدہ ادویات کی کمی تھی اور اس نے ہنسنا یا خاندان کے ساتھ بات چیت کرنا چھوڑ دیا تھا۔انہوں نے مصری سرحد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، "اگر تیز بارش ہو تو لوگ سردی سے مر جائیں گے اور اگر اسرائیلی اس علاقے میں گھس آتے ہیں تو میں کیا کر سکتا ہوں؟ میں اپنے بچوں کے لیے وہاں بھاگ جاؤں گا۔”

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×