احوال وطن

سنہ 2024 کو مل جل کر بہتر بنائیے

رات گئی بات گئی۔ سال ختم ذکر ختم۔ یوں تو ہر لمحہ اپنے دامن میں کسی نہ کسی تاریخ کا شاہد ہوتا ہے، لیکن گزرا ایک برس محض گنتی ہی نہیں بلکہ اپنے دامن میں بہت اہم واقعات و حالات کی نشاندہی کرتا ہے۔ سنہ 2023 بھی اس اعتبار سے اپنی نوعیت کا حامل ہے۔ وہ ہندوستان ہو یا عالمی پس منظر، گزرتا سال بہت اہم واقعات کا گواہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کا میڈیا ہر برس سال ختم ہونے سے کچھ روز قبل سال کی کہانی دہرانے لگتا ہے۔ ان دنوں وہی رسم ادائیگی چل رہی ہے۔ آپ اخبار اٹھائیے، ٹی وی کھولیے یا سوشل میڈیا پر نگاہ ڈالیے ہر جگہ بیتے دنوں کے قصے۔ لیکن دسمبر کے آخری چند دنوں میں سب آنے والے سال میں ہونے والی باتوں کا اندازہ لگانے لگتے ہیں۔سنہ 2024 کو اب محض ایک دن بچا ہے۔ اب تو جس کو دیکھیے وہ آج رات ’نیو ایئر‘ پارٹی منانے کا خواہاں ہے۔ ہر دل میں یہی خواہش ہے کہ ’نیا سال‘ بہتر سے بہتر کٹے۔ آئیے ہم بھی اس موقع پر کچھ اٹکلیں لگائیں۔ جناب ہم کتنی بھی کامنائیں کریں کہ سب بہتر ہوگا، لیکن دونوں یعنی قومی اور عالمی سطح پر امکان بہتری کے نظر نہیں آ رہے ہیں۔ ہندوستان میں سنہ 2024 کا سال انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہ پارلیمانی چناؤ کا سال ہے۔ پانچ برسوں بعد ہم ہندوستانی اگلے پانچ سال کے لیے ایک نئی حکومت چنیں گے۔ کیا وہ مرکزی حکومت سنہ 2023 سے مختلف ہوگی! جی نہیں! پورے امکان اس بات کے ہیں کہ اگلے سال مئی کے مہینے میں جو حکومت چن کر آئے گی اس کی کمان بھی نریندر مودی کے ہاتھوں میں ہوگی۔ مودی مخالف طاقتیں تو اس امکان کو غلط کہہ رہی ہیں۔ لیکن کہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ ابھی تک بی جے پی مخالف سیاسی جماعتوں نے میٹنگوں کے سوا کچھ کیا نہیں۔ حد یہ ہے کہ کون سی پارٹی کسی صوبہ میں کتنی سیٹوں پر چناؤ لڑے گی یہ بھی طے نہیں ہو سکا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ دسمبر میں ہونے والی دہلی کی میٹنگ سے قبل اس گروپ میں آپسی پھوٹ کے اشارے آنے لگے۔ وہی کہ ’کون بنے گا کروڑ پتی‘ کوئز شو کی طرح ’کون بنے گا اگلا وزیر اعظم‘۔ تب ہی تو کبھی ممتا بنرجی، تو کبھی اروند کیجریوال کے حوالوں سے یہ خبریں آ رہی ہیں کہ کم از کم وہ چاہتے ہیں کہ اگلے وزیر اعظم کانگریس کے صدر کھڑگے انڈیا اتحاد کے متحدہ وزیر اعظم کے نمائندہ ہوں اور چناؤ سے قبل ہی اس کا اعلان کر دیا جائے۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ خود کانگریس پارٹی کھل کر اس بات کا اعلان کر رہی ہے کہ وہ کسیبھائی ذرا صبر تو کر لو۔ اس سلسلے میں کانگریس کی حکمت عملی بہترین ہے۔ ابھی کوئی چہرہ نہیں۔ بعد کو مسئلہ حل کریں گے۔ شرد پوار جیسا قدآور اور تجربہ کار شخص کانگریس کی بات پر حامی بھر رہا ہے، لیکن دوسرے علاقائی لیڈران نے بس ابھی کی رَٹ لگا رکھی ہے۔زمینی صورت حال یہ ہے کہ نریندر مودی ہر لیڈر سے عوام میں کہیں زیادہ مقبول ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ بی جے پی پھر دوبارہ اقتدار میں آ رہی ہے۔ اگر کوئی بات اس زمینی حقیقت کو غلط ثابت کر سکتی ہے تو انڈیا الائنس اس کو غلط ثابت کر سکتا ہے۔ اس لیے بقول کانگریس پارٹی وزیر اعظم کا فیصلہ اگلے لوک سبھا چناؤ کے بعد تک ٹال دیجیے۔ ایسے میں ہی ہندوستان، عوام اور بی جے پی مخالف پارٹیوں کا بھلا ہے۔ مگر نہیں صاحب، ’میں تو سب سے بڑا‘ کی تسبیح ختم نہیں ہوتی۔ جناب ملک، عوام اور خود اپنے حق میں ابھی خاموش رہنے میں ہی عقلمندی ہوگی۔کو وزیر اعظم پروجیکٹ نہیں کرے گی۔ مگر پھر گھڑ چٹے کی ریس شروع ہو چکی ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×