ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کا کہنا ہے کہ غزہ جنگ روکنے کی کوشش میں وہ اسرائیل سے وابستہ جہازوں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔آبنائے باب المندب، خلیج عدن کو بحیرہ احمر اور پھر نر سوئز سے جوڑتی ہے۔ یہ اہم تجارتی راستہ دراصل ایشیا اور یورپ کی مارکیٹوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔حوثیوں کے حملوں سے متعدد جہازوں کو نقصان پہنچ چکا ہے جبکہ اکثر کمپنیوں کو سکیورٹی صورتحال بہتر ہونے تک اپنے جہازوں کو باب المندب میں داخل ہونے سے روکنا پڑا۔کچھ بڑی کمپنیوں کو افریقہ میں راس امید ( کیپ آف گڈ ہوپ) کے راستے اپنے بحری جہاز بھیجنا پڑے جس سے سفر کے وقت اور اخراجات میں اضافہ ہوا۔کمانڈر بریڈ کوپر نے بتایا کہ اس وقت مغربی خلیج عدن اور جنوبی بحیرہ احمر کے پانیوں میں امریکہ، فرانس اور برطانیہ کے پانچ جنگی جہاز پٹرولنگ کر رہے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ آپریشن شروع ہونے کے بعد سے 17 ڈرون اور چار جہاز شکن بیلسٹک میزائل مار گرائے ہیں۔امریکہ نے کہا تھا کہ بحیرہ احمر میں تجارتی جہازوں کو حوثیوں کے حملوں سے بچانے کے لیے بننے والے اتحاد میں 20 سے زائد ممالک شامل ہیں تاہم ان میں سے اکثر ممالک نے عوامی سطح پر اس کی تصدیق نہیں کی ہے۔وائس ایڈمرل بریڈ کوپر کا کہنا ہے کہ اتحادی ممالک تجارتی جہازوں کے ساتھ براہ راست رابطے میں ہیں تاکہ حملوں سے بچنے کے لیے رہنمائی فراہم کی جا سکے اور سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے شپنگ انڈسٹری کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔خطے میں میری ٹائم سکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے اپریل 2022 میں ایک بین الاقوامی ٹاسک فورس تشکیل دی گئی تھی تاہم بریڈ کوپر کا کہنا ہے کہ آپریشن پراسپیرٹی گارڈین کے پاس زیادہ جنگی جہاز ہیں اور تجارتی جہازوں کی مدد کے لیے مسلسل موجود ہیں۔اس آپریشن کے آغاز کے بعد سے حوثیوں کی جانب سے بھی جہاز شکن بیلسٹک میزائل کے استعمال میں اضافہ ہوا ہے۔بریڈ کوپر نے کہا ’ہمیں یہ معلوم تھا کہ حوثیوں کی جانب سے حملے ممکنہ طور پر جاری رہیں گے۔‘حوثیوں نے اسرائیل سے آنے یا وہاں جانے والے بحری جہازوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دی تھی تاہم دیگر تجارتی جہاز بھی ان حملوں کی زد میں آ گئے ہیں۔