احوال وطن

غزہ میں بے گھر بچے دوسرے بے گھر بچوں کے ہمدرد بن گئے

غزہ میں مسلسل اسرائیلی بمباری اور مسلط کردہ جنگ کے نتیجے میں بے گھر ہوجانے والے بچوں اور نوجوانوں نے ہمت ہار کر بیٹھنے کی بجائے اپنے ہی طرح کے بے گھر بچوں کے درد کو بانٹنا اور ان کو حوصلہ دینا شروع کردیا ہے۔ ان بے گھر باہمت بچوں نے اس سلسلے میں رفح کے پناہ گزین کیمپ میں صدمے میں گھرے ہوئے بچوں کے لیے کونسلنگ کا اہتمام شروع کردیا ہے تاکہ وہ اپنے صدمے کی کیفیت سے نکل سکیں۔رضاکار بننے والے یہ فلسطینی نوجوان دوسرے بے گھر فلسطینی بچوں کے درد کو خوب سمجھتے ہیں تاہم یہ دوسروں کے مقابلے میں تعلیم کے شعبے میں کچھ درجے اوپر ہیں یا عملی زندگی کی کچھ مہارتیں رکھنے والے ہیں۔ اس لیے انہوں نے اپنے ساتھیوں کی مدد کا فیصلہ کیا ہے۔ ان رضاکار نوجوانوں نے اپنے لیے ہدف طے کیا ہے کہ وہ سب سے پہلے ان 300 بچوں کو اپنی کونسلنگ میں لائیں گے جن کے پاس بظاہر اب کوئی سہارا نہیں رہا ہے، کوئی تحفظ نہیں رہا ہے اور وہ بے گھر ہونے کے ساتھ ساتھ خود کو غیر محفوظ بھی سمجھنے لگے ہیں۔ رضاکاروں کی یہ ٹیمیں انہیں ہنسانے، کھلانے اور واپس زندگی کی طرف لوٹ آنے کی طرف مائل کر رہی ہیں۔ یہ ان کے لیے کھیل کود اور ڈراموں کا بھی اہتمام کر رہے ہیں تاکہ وہ غم کی اس صدمے کو پہنچی ہوئی کیفیت سے کچھ دیر کے لیے نکل سکیں۔شوروق طہٰ نے کہا ہے ہم چاہتے ہیں کہ دھماکوں، بمباری اور اموات کو سامنے دیکھنے کے بعد ان بچوں میں جو منفیت اور مایوسی پیدا ہوئی ہے اس کا ازالہ کریں تاکہ وہ مستقل طور پر ان کے دلوں میں گھر نہ کرلیں۔ ہم اپنی بہترین کوشش کر رہے ہیں کہ اپنی ٹیم کو استعمال کرتے ہوئے منظم طریقے سے بے آسرا بچوں کو نارمل زندگی کی طرف لاسکے۔ ہم ان کے دکھ اور درد کو سمجھتے ہیں اس لیے ہم ان کے چہروں پر ہنسی اور خوشی دیکھنا چاہتے ہیں۔ طہٰ نے کہا ان کے ساتھ کھیلنے سے ان کے دباؤ میں کمی کرنے میں مدد ملتی ہے اور ہمیں امید ہے کہ دباؤ میں کمی ہونے کی صورت میں یہ اپنی مشکلات سے بہتر طریقے سے نمٹ سکیں گے۔طہٰ نے مزید کہا کہ میں خود بھی سمجھتا ہوں کہ مجھے بھی اندورنی دباؤ کا سامنا ہے لیکن ان بچوں کے ساتھ کھیل کر اس دباؤ میں کمی محسوس کرتا ہوں۔ کیمپ میں سرگرمیوں میں حصہ لینے والے تین بچوں کی بے گھر ماں شیریں الفقاوی نے کہا کہ اس کے بچوں پر رضاکار نوجوانوں کی سرگرمیوں کے مثبت اثرات ہوئے ہیں۔ میوزک اور کھیلوں کی سرگرمیوں سے ایسا لگتا ہے کہ بچوں نے نفسیاتی ریلیف محسوس کیا ہے۔واضح رہے کہ پچھلے گیارہ ہفتوں پر پھیلی اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں بیس لاکھ فلسطینی بے گھر ہوئے ہیں جن میں دس لاکھ بچے شامل ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×