سیاسی و سماجی

غزہ اسرائیل جنگ -کیا انسانیت باقی بھی ہے ؟

رفیع الدین حنیف قاسمی، ادارہ علم وعرفان ، حیدرآباد

اس وقت فلسطین خصوصا غزہ کی جو صورتحال ہے وہ کسی سے مخفی اور پوشیدہ نہیں، اسرائیل نے غزہ کو کھنڈرات میں تبدیل کردیاہے ، غزہ جیسا شہر جہاں صرف 45کیلو میٹر کی لمبی پٹی پر تقریبا 24لاکھ کی آبادی بستی ہے ، ایک وہاں کی رہنے والے بڑی آبادی کو اسرائیل نے موت کے گھاٹ اتار دیا ہے ، اب اس وقت صورتحال یہ ہے کہ غزہ شہر اوراس کے شمالی علاقے سے لوگ بڑے پیمانے پر نقل مکانی کر کے جنوبی غزہ کے حصہ کی طرف کوچ رہے ہیں، غزہ جس صورتحال سے گذررہا ہے ، جہاں نہایت ہی ارزانی کے ساتھ انسانیت خون بہایا جارہا ہے، انسانیت کا قتل عام کیا جارہا ہے ، بڑے پیمانے پر انسانوں کو ایک جگہ سے دوسرے جگہ کوچ کرنے ، بھوکے پیاسے رہنے پر مجبور کیا جارہا ہے ، غزہ جس کو ’’کھلی جیل‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے ، وہ قبرستان اور کھنڈرات کا ڈھیر بن چکا ہے ، ساری دنیا تماشائی بنی بیٹھی ہے ؛ بلکہ مرنے والوں میں تقریبا 60فیصد خواتین اور بچے ہیں،بلکہ اس قدر تباہی وبربادی کے باوجود کوئی بھی ان کیلئے آنسو بہانے کے لئے تیار نہیں، کچھ لوگ دنیا کے مختلف گوشوں سے اپنی آوازیں اٹھا رہے ؛ لیکن ’’انسانوں‘‘ کی یہ آوازیں ’’نقار خانے ‘‘ میں ’’طوطے ‘‘ کی آواز ثابت ہورہی ہیں؛لیکن طاقت وقوت کے نشے میں چور اسرائیل نواز حکمرانوں کو اسرائیل کے مرنے والے اور قید ہونے والوں کا درد بہت ستا تا ہے ، لیکن غزہ کے لوگوں کے قتل عام، شہر بدر کرنے ، ان کے مکانات کو ملبوں کے ڈھیر میں تبدیل کرنے ، ان کودانے دانے اور پینے کے پانی کے لئے ترسانے والوں پر ان کے پیشانی میں خم بھی نہیں آتا۔
بی بی سی نیوز کے مطابق غزہ کی نصف سے زیادہ آبادی مقامی طور پر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئی ہے۔ غزہ کی پٹی میں 22 لاکھ سے زیادہ افراد آباد ہیں، جن میں سے نصف سے زیادہ بچے ہیں، 13؍اکتوبر کو اسرائیل نے غزہ کے شہریوں کو خبردار کیا تھا کہ وہ شمالی غزہ کو خالی کر کے جنوبی علاقے میں چلے جائیں،اسرائیلی فضائی حملوں کے ایک ماہ کے بعد کہا جاتا ہے کہ غزہ میں 200,000 سے زیادہ مکانات کو نقصان پہنچا یا تباہ ہو گئے ہیں، فلسطینی حکام کے مطابق یہ تعداد غزہ میں تقریبا نصف ہاسنگ یونٹس کے برابر ہے۔
اقوام متحدہ اور فلسطینی حکام کے اعداد و شمار کے مطابق پانچ نومبر تک غزہ میں تقریبا 15 لاکھ افراد بے گھر ہوئے ہیں جوا سکولوں، گرجا گھروں، ہسپتالوں، اقوام متحدہ اور عوامی عمارتوں میں پناہ لیے ہوئے ہیں یا جنھیں دیگر افراد نے پناہ دی ہے۔غزہ سے باہر نکلنا مقامی افراد کے لیے کوئی آپشن نہیں؛ کیونکہ اسرائیل میں ایریز سرحد بند ہے اور مصر میں رفح بارڈر کراسنگ صرف غیر ملکی شہریوں اور کچھ زخمیوں کو غزہ سے نکالنے کے لیے کھلتی ہے۔
فلسطینی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ پانچ نومبر تک غزہ کی پٹی کے 35میں سے 16 ہسپتال (46 فیصد) اور 76 میں سے 51 طبی مراکز اسرائیلی حملوں یا ایندھن کی کمی کی وجہ سے بند ہیں۔فلسطینی وزارت صحت کے مطابق تقریبا 50 ایمبولینسز کو اسرائیلی حملوں سے نقصان پہنچا، ان میں سے 31 خراب ہیں اور کم از کم 175 ہیلتھ ورکرز ہلاک ہو چکے ہیں؛ حالانکہ بین الاقوامی قانون کے تحت امدادی کارکنوں اور صحت کے عملے اور ان کی سہولیات کا تحفظ ضروری ہے۔اس کے علاوہ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ میں اس کی امدادی ایجنسی یو این آر ڈبلیو اے کے لیے کام کرنے والے عملے کے کم از کم 88 ارکان اور سول ڈیفنس کے 18 امدادی کارکن مارے گئے ہیں۔
جہاں تک صحافیوں کا تعلق ہے تو اقوام متحدہ کے دفتر برائے رابطہ برائے انسانی امور کے مطابق ان میں سے 46 صحافی بھی پانچ نومبر تک ہلاک ہو چکے ہیں۔ جنیوا کنونشن 1949 کے تحت ان کی حفاظت اور کام کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔صحافیوں کی بین الاقوامی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس کے مطابق حالیہ اسرائیل غزہ جنگ گذشتہ تین دہائیوں کے تنازعات کے مقابلے میں صحافیوں کے لیے سب سے مہلک رہی ہے۔
وہ لوگ جو اب تک اس حالیہ جنگ میں زندہ بچنے میں کامیاب ہو چکے ہیں، ان کے لیے غزہ میں زندگی انتہائی مشکل ہے؛ کیونکہ وہاں خوراک کی کمی، پانی کی شدید قلت اور صحت کو بہت سے خطرات لاحق ہیں۔اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ برائے صحت نے اکتوبر کے وسط میں کہا تھا کہ غزہ میں خاندان اور بچے کھانا پکانے، پینے اور حفظان صحت کے لیے فی شخص صرف تین لیٹر پانی پر انحصار کر رہے ہیں جبکہ کسی بھی شخص کے لیے یومیہ کم از کم 15 لیٹر فی شخص ہے۔حال ہی میں رفح کراسنگ کے ذریعے غزہ میں بہت کم پانی کی سپلائی مہیا کی گئی اور اس کے بعد سے پانی کی فراہمی کے زیادہ تر انفراسٹرکچر کو نقصان پہنچا۔پانچ نومبر کو اقوام متحدہ کے ادارے او سی ایچ اے نے رپورٹ کیا کہ غزہ میں پانی کی کھپت میں جنگ سے پہلے کی سطح کے مقابلے اوسطا 92 فیصد کمی آئی اور 65سیوریج پمپنگ ا سٹیشنوں میں سے زیادہ تر کام نہیں کر رہے۔31اکتوبر کو ڈبلیو ایچ او نے خبردار کیا کہ بڑے پیمانے پر نقل مکانی، زیادہ بھیڑ اور پانی اور صفائی کے بنیادی ڈھانچے کو پہنچنے والے نقصان سے غزہ میں صحت عامہ کی تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔
دوسری طرف اسرائیل کو بھی کچھ کم نقصان برداشت کرنا نہیںپڑ رہا، اسرائیل صرف اپنی ’’انا‘‘ کی جنگ لڑ رہا ہے ، نہتے لوگوں کے قتل سے اپنے دامن کو داغدار اور اپنی عزت کو شرمسار کررہا ہے ، حماس کے’’طوفان الاقصی ‘‘ کے آپریشن کے نتیجہ میں اسرائیل پاش پاش ہوچکا ہے ، اسرائیل میں تمام ایرپورٹس بند ہیں، پورا اسرائیل 34دنوں سے بند ہے ، کارخانے ، فیکٹریاں ، تعلیمی ادارے اور کاروباری مراکزمقفل ہیں، 1لاکھ یہودی زیر زمین بنکروں میں پناہ گزیں ہیں، گیس کے پلانٹ ختم ہوچکے ہیں، سیاحت 76فیصد برباد، اسرائیل مجموعے اثاثے سے 7.3ارب ڈالر کم ہوگئے، اسرائیل کو یومیہ 8.2ارب ڈالر کا نقصان ہورہا ہے ، غزہ پر اب تک 30ٹن سے زیادہ بارودگرایا جاچکا ہے ، جس کا خرچہ 160ارب ڈالر ہوتا ہے ، 8لاکھ یہودی اپنے گھروں سے بے گھر ہیں، 3لاکھ یہودی اسرائیل سے راہ فرار اختیا ر کرچکے ہیں، دنیا کے کئی ممالک نے اسرائیل کے لئے تجارتی جہاز بھیجنے سے انکار کردیا ہے ، دنیا بھر میں عوام اسرائیل کی طرف سے ہونے والی درندگی پر سراپا احتجاج ہیں، یہودیوں کادنیا بھر میں جینا دو بھر ہوچکا ہے ، 8ہزار یہودی ہلاک ، زخمی یا قیدی بند چکے ہیں، 200سے زائد ٹنک تباہ ہوچکے ہیں، خود اسرائیل کے لوگ اس جنگ کے خلاف مورچہ سنبھال چکے ہیں، اسرائیلی حکومت کو خود اپنے ملک میں عوام کی ناراضگی جھیلنا پڑ رہا ہے،یہ ایسا موقع ہے کہ اسرائیل کے قیام کے 75سال بعد یہودی ریاست کی چولیں ہل گئی ہیں، جو مظلوم فلسطنیوں کو ’’لقمہ‘‘ تربنانے کے لئے ہر وقت کوشاں اور ان کو ہراساں کرنے کے لئے ہر دم تیار رہتا ہے ۔
اسرائیل نے اپنے نا حق فلسطین کے قبضہ کو بڑھاوادینے اور فلسطینیوں کے روز بروز زمین ہڑپ کرنے کی راہ میں مسلسل آگے بڑھتے جارہا ہے ، وہ در اصل فلسطینیوں کے خاتمہ اور فلسطین ہی نہیں ؛ بلکہ بزعم ان کے ’’گریٹر اسرائیل ‘‘ کے قیام کی راہیں ہموار کرنے کے لئے کوشاں اور سرگرداں ہے ، یہودی لابی کے ساتھ ساتھ یورپ کے حکمراں بھی اس کے ان ناپاک عزائم کی تکمیل کی راہ میں براہ راست، یا بالواسطہ اس کے مددگار بنے ہوئے ہیںاور فلسطینی عوام کو ان کی سرزمین سے بے دخل کرنے پر تلے ہیں، جب کہ ان کو مہاجرین کی حیثیت سے نہ تو اردن لینے پر راضی ہے ، نہ مصراور نہ خود فلسطین کی عوام یہ چاہتی ہے کہ ان کو ان کے وطن کو چھوڑ کر کہیں بھی کسی بھی ملک میں ہجرت اور اجنبیت کی زندگی گذارے، فلسطینی عوام در حقیقت اپنے وجود اور بقا کی جنگ لڑ رہے، ان کے اپنے انسان ہونے اور فلسطینی سرزمین کے باسی ہونے کی قیمت ہر طرح چکانی پڑ رہی ہے ، بیت المقدس اور مسجد الاقصی کی حفاظت اور صیانت بھی ان کا خواب ہے ، لیکن ان کو ان کی سرزمین سے ہی دنیا کے طاقت کے زعم میں اترانے والے حکمراں بیدخل کرنا چاہتے، اس کے ساتھ ساتھ عرب حکمرانوں کی بے بسی، بے حسی، بے ضمیری نے فلسطینیوں کو جیتے موت کے دہانے پر پہنچا دیا ہے ، لیکن ان کا کوئی ہمنوا نہیں، کوئی ان کا مددگارنہیں، کوئی نہیں کہ جو ان نہتے فلسطینیوں کو یہود کے پنجہ ظلم واستبداد سے نکالے ، اقوام متحدہ کے صدر پکار پکار کر کہہ رہے ، اگر 7اکتوبر کا حملہ حماس لڑاکوں نے کیا ہے ، تو 45سال سے جو اسرائیل نے فلسطینیوں کے ساتھ کیا ہے ، اس کا کیا کیا جائے اور جو اب بھی جاری وساری ہے ۔، جس پر اس کی زبان بندی کا عمل شروع ہوجاتا ہے ،فلسطینی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ ساری دنیا اسرائیل کے 240قیدیوں کو رہا کرنے کے لئے کوشاں ہے ، لیکن غزہ کے 2.4ملین آبادی کی ان کو کوئی فکر نہیں،عالمی فلم اسٹار انجلینا انسٹاگرام پر اپنے ایک ٹیوٹ میں لکھتی ہے : غزہ تقریبا دو دہائیوں سے ایک’’ کھلا جیل ‘‘بنا ہوا ہے ، اب اس وقت یہ’’ اجتماعی قبرستان‘‘بنتا جارہا ہے ۔بروفیسور ’’کمیل حبیب‘‘ یہ انسانی عالمی قوانین ‘‘ کے استاذ ہیں، یہ کہتے ہیں : اسرائیل نے غزہ میں جو عالمی انسانی اور جنگی قوانین کی دھجیاں اڑائیں ہیں، میں نے اب انسانی عالمی قوانین کی تدریس کو ہی ترک کردیا ہے ۔فاسیلی نینزیا جو کہ اقوام متحد میں انسانی حقوق کے نمائندہ ہیں کہتے ہیں: اسرائیل کو موجودہ جنگی کشمش میں اپنے دفاع کا کوئی حق ہی نہیں ہے ، اس لئے اسرائیل ایک مقبوضہ حکومت ہے۔
عجب صورتحال ہے کہ فلسطینیوں عوام ، بچوں اور نہتے عورتوں کا کوئی ہمنوا نہیں، کوئی انسانیت کے اس قتل عام پر بولنے ان کا دفاع کرنے اور اسرائیل کا حساب کتاب لینے کے لئے تیار نہیں ، سب بڑی طاقتیں اسرائیل کے ہمنوا بن کر اس زبان بول رہی ہیں، فلسطین کے قتل عام پر کسی کی نگاہ نہیں جاتی ہے ، کیا واقعیت انسانیت باقی بھی ہے ، انصاف دنیا میں موجود بھی ہے ، یا انسانیت مر چکی ہے ، کیاانصاف کے پیمانے عالمی قوانین فرسودہ اور نکمے ہوچکے ہیں؟ یہ چند سوالات ہیں جن پر غور وفکر کی ضرورت ہے ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×