افکار عالم

ورلڈبنک عالمی ترقی میں تیزی سے سست روی کا شکار،غریب ممالک میں معاشی ابتری کی پیشین گوئی

عالمی بنک نے منگل کے روز امریکا، یورو کے خطے اور چین میں اقتصادی ترقی میں سست روی کی پیشین گوئی کی ہے اور خبردار کیا ہے کہ قرضوں کی بلند سطح، آمدن اور اخراجات میں بڑھتی ہوئی عدم مساوات اورکرونا وائرس کی نئی اقسام سے ترقی پذیرمعیشتوں کی بحالی کو خطرہ لاحق ہے۔

عالمی بنک نے اپنی ایک نئی رپورٹ میں کہاہے کہ 2022 میں عالمی معیشت کی شرح نمو گذشتہ سال کے 5.5 فی صد سے واضح طور پرکم ہوکر 4.1 فی صد تک پہنچنے کی توقع ہے اور 2023 میں مزید کم ہو کر 3.2 فی صد رہ جائے گی کیونکہ تب حکومتیں وبا کے آغاز میں مہیا کی جانے والی بڑے پیمانے پرمالی امداد کو ختم کرچکی ہوں گی۔

عالمی بنک نے اقتصادی منظرنامے کی یہ پیشین گوئی 2021ء اور 2022ءکے لیے کی ہے۔ یہ کسی بڑے بین الاقوامی ادارے کی طرف سے کرونا وائرس کی وبا کے دوران میں پہلی پیشین گوئی تھی ۔توقع ہے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) 25 جنوری کو اپنی اپ ڈیٹ میں شرح نمو سے متعلق پیشین گوئیوں کرے گا اور وہ بھی شرح نمومیں کمی کا اعلان کرے گا۔

عالمی بنک کی تازہ نیم سالانہ پیشین گوئی میں 2020ء میں معیشتوں میں سکڑاؤ کے بعد2021 میں ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معیشتوں میں اقتصادی سرگرمیوں میں بڑی تیزی کا حوالہ دیا گیا تھا لیکن خبردارکیا گیا تھا کہ طویل عرصے تک افراطِ زر،سپلائی چین اورافرادی قوت کے مسائل اور کرونا وائرس کی نئی اقسام کی وجہ سے دنیا بھر میں ترقی میں کمی کا امکان ہے۔

عالمی بنک کے صدر ڈیوڈ مالپاس نے غربت، غذائیت اور صحت کے اعدادوشمارمیں پریشان کن الٹ پھیر اور اسکولوں کی بندش سے مستقل اثرات کا حوالہ دیتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ ترقی پذیر ممالک کو ویکسی نیشن کی کم شرح، عالمی میکروپالیسیوں اور قرضوں کے بوجھ سے متعلق شدید طویل مدتی مسائل کا سامنا ہے۔انھوں نے کہا کہ کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک میں 10 سال کی عمر تک کے سترفی صد بچے بنیادی کہانی نہیں پڑھ سکتے۔ یہ شرح پہلے 53 فی صد تھی۔

عالمی بنک کی رپورٹ کے مصنف ایہان کوسے نے رائٹرزکو بتایا کہ کرونا وائرس کے انتہائی متعدی اومیکرون متغیّر کے تیزی سے پھیلنے سے ترقی کے عمل میں مسلسل رکاوٹ کا پتا چلتا ہے اورکہا گیا ہے کہ صحت کی دیکھ بھال کے نظام کو مغلوب کرنے والا اضافہ عالمی پیشین گوئی سے مزید 0.7 فی صد پوائنٹ تک دستک دے سکتا ہے۔

مالپاس نے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معیشتوں کے درمیان شرح نمو میں بڑھتے ہوئے تفاوت کا ذکرکیا ہے۔اس کے بارے میں عالمی بنک کے ماہرین معاشیات کا کہنا ہے کہ اس سے سماجی کشیدگی اور بدامنی میں اضافہ ہوسکتا ہے۔کوسے نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کے لیے خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ ان کےمحدود اختیارات کے پیش نظر ضروری مالی امداد مہیا کی جاسکتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ مسلسل افراط زر کا دباؤاور مالی کمزوریاں بھی بڑھ رہی ہیں۔

رپورٹ میں پیشین گوئی کی گئی ہے کہ ترقی یافتہ معیشتوں میں شرح نمو 2022 میں کم ہوکر 3.8 فی صد رہ جائے گی۔یہ 2021 میں 5 فی صد تھی اور2023 میں یہ شرح مزید کم ہو کر 2.3 فی صد ہو جائے گی۔ تاہم رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان کی پیداوار اور سرمایہ کاری اب بھی 2023 تک اپنے وبا سے پہلے کے رجحان میں واپس آ جائے گی۔

بنک نے 2021 میں امریکا کی مجموعی ملکی پیداوار کی نمو میں 1.2 فی صد پوائنٹس کی کمی کرکے 5.6 فی صد کردی ہے اور2022 میں 3.7 فی صد اور 2023 میں 2.6 فی صد کی تیزی سے کم نمو کی پیشین گوئی کی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ جاپان کی جی ڈی پی میں نمو 2021 میں 1.7 فی صد تک پہنچ گئی تھی۔ یہ جون میں پیشین گوئی سے 1.2 فی صد پوائنٹس کم ہے جو 2022 میں بڑھ کر 2.9 فی صد ہو جائے گی۔

توقع کی جارہی تھی کہ 2021 میں چین کی جی ڈی پی کی شرح میں 8 فی صد اضافہ ہوگا جو پہلے کی پیشین گوئی سے قریباً 0.5 فی صد پوائنٹ کم ہے، 2022 میں شرح نمو کم ہوکر 5.1 فی صد اور 2023 میں 5.2 فی صد رہے گی۔

ابھرتی ہوئی اور ترقی پذیرمعیشتوں میں ترقی کی شرح 2022 میں کم ہوکر 4.6 فی صد رہ جائے گی۔یہ 2021 میں 6.3 فی صد تھی جو 2023 میں کم ہو کر 4.4 فی صد رہ جائے گی۔اس کا مطلب ہے کہ ان کی پیداوار وبا سے پہلے کے رجحان سے 4 فی صد کم رہے گی۔

نازک اور تنازعات سے متاثرہ معیشتیں وبا سے پہلے کے رجحان سے 7.5 فی صد کم رہیں گی جبکہ سیاحت کے خاتمے سے لرزتی چھوٹے چھوٹے جزیرے پر مشتمل ریاستوں میں شرح نمو 8.5 فی صد کم رہے گی۔

عالمی بنک نے نوٹ کیا کہ افراطِ زرکی بڑھتی ہوئی شرح کم آمدنی والے کارکنوں کو خاص طور پر سخت نقصان پہنچاتی ہے- یہ شرح ترقی یافتہ معیشتوں میں 2008 کے بعد سب سے زیادہ ہے اور ابھرتی ہوئی اور ترقی پذیر معیشتوں میں2011 کے بعد سب سے زیادہ ہے۔

کوسے نے کہا کہ شرح سود میں اضافے سے مزید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اور اس سے ترقی کی پیشین گوئیوں کو مزید نقصان پہنچ سکتا ہے، خاص طور پر اگر امریکا اور دیگر بڑی معیشتیں اس موسم بہار میں شرح سود میں اضافہ کرنا شروع کردیتی ہیں تو اس سے نقصان ہوگا۔

انھوں نے کہا کہ اس وبا نے مجموعی عالمی قرضوں کو نصف صدی کی بلند ترین سطح پرپہنچادیا ہے۔قرضوں کی پریشانی کا سامنا کرنے والے ممالک کے لیے قرضوں کی تنظیم نو کی کوششوں میں تیزی لانے اور نجی شعبے کے قرض دہندگان کو مشغول کرنے کے لیے ٹھوس کوششوں کی ضرورت ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×