افکار عالم

عراق کے دارالحکومت بغداد میں امریکی سفارت خانہ پرچار راکٹوں سے حملہ

عراق کے دارالحکومت بغداد کے انتہائی سکیورٹی والے علاقے گرین زون میں واقع امریکی سفارت خانے پر جمعرات کو چار راکٹ داغے گئے ہیں۔اس علاقے میں سفارتی مشن اور عراق کی حکومت اور پارلیمان کے دفاتر واقع ہیں۔

دو عراقی حکام نے بتایا کہ تین میزائل امریکی سفارت خانے کے احاطے میں گرے ہیں اور ایک راکٹ قریبی اقامتی کمپلیکس میں واقع ایک اسکول پر گرا ہے۔

عراقی فوج نے الگ سے ایک بیان میں کہا ہے کہ اس راکٹ حملے میں ایک لڑکی اور ایک خاتون زخمی ہوئی ہے۔بیان میں مزید تفصیل فراہم کیے گئے بغیر کہا گیا ہے کہ راکٹ بغداد کے محلے الدورہ سے داغے گئے تھے۔

عینی شاہدین نے بتایا کہ انھوں نے حملے کے دوران سفارت خانے کے سی ریم دفاعی نظام کی آواز سنی تھی۔اس نظام کے ذریعے آنے والے راکٹوں، توپ خانے اور مارٹر گولے کا پتا لگایا جاتا اورانھیں تباہ کیا جاسکتا ہے۔

یہ نیا حملہ عراق میں امریکا اوراس کی تنصیبات پر راکٹ اور ڈرون حملوں کے سلسلے ہی کی کڑی ہے۔نئے سال کے آغاز سے عراق میں امریکی فوجیوں اور ان کی تنصیبات کو متعدد راکٹ اور ڈرون حملوں میں نشانہ بنایا جاچکاہے۔یہ حملے جنوری 2020ء میں بغداد کے ہوائی اڈے کے نزدیک امریکا کے میزائل حملے میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی اورعراقی ملیشیا کمانڈر ابومہدی المہندس کی ہلاکت کی دوسری برسی کے موقع پر کیے گئے ہیں۔

گذشتہ جمعرات کوعراق اور شام میں متعدد حملوں میں امریکی فوجیوں کو نشانہ بنایا گیا تھا۔مغربی صوبہ الانبار اور دارالحکومت بغداد میں امریکی فوجیوں کے زیراستعمال عراق کے فوجی اڈوں پر راکٹ داغے گئے تھے۔

عراق میں ایران نوازشیعہ دھڑوں نے قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لینے کا عزم ظاہر کیا ہے،ملک سے امریکی فوجیوں کے مکمل انخلا کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اس کے بعد حملے روک دیں گے۔

امریکا کی قیادت میں داعش مخالف اتحاد نے گذشتہ ماہ عراقی فورسز کی حمایت میں اپنے جنگی مشن کو باضابطہ طور پرختم کر دیا تھا۔البتہ اس نے عراقی فورسز کی حمایت میں مشاورتی مشن جاری رکھنے کا اعلان کیا تھا اوراس کے قریباً 2500 فوجی عراق میں تعینات رہیں گے۔

مشرق اوسط میں امریکا کے اعلیٰ کمانڈرمیرین جنرل فرینک میکنزی نے گذشتہ ماہ ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو دیے گئے ایک انٹرویو میں خبردارکیا تھا کہ ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کی جانب سے امریکی اور عراقی اہلکاروں پر بڑھتے ہوئے حملے دراصل امریکی افواج کو ملک سے نکال باہرکرنےکے لیے کیے جارہے ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×