افکار عالم

ترکی میں حجاب پہننے کے حق پرملک گیر ریفرینڈم کرانے صدر طیب ایردوآن کی تجویز

ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے ریاستی اداروں، اسکولوں اورجامعات میں خواتین کو حجاب پہننے کے حق کی ضمانت دینے کے لیے ملک گیر ریفرینڈم کی تجویز پیش کی ہے۔ یہ مسئلہ خاص طور پرصدرایردوآن کی حکومت کے لیے اہمیت کا حامل ہے۔ان کی اسلامی بنیاد رکھنے والی حکمران جماعت نے 2013 میں ریاستی اداروں میں حجاب پہننے پر طویل عرصے سے عایدپابندی ختم کردی تھی۔ ترکی میں 2023ء میں عام انتخابات سے قبل حالیہ مہینوں میں حجاب کا مسئلہ سیاسی مباحث میں حاوی رہا ہے اوریہ ترکی پرعامل مسلم طیب ایردوآن کے دو دہائیوں کے کنٹرول کے لیے سب سے سنگین چیلنجوں میں سے ایک ہے۔ خودصدر اکثر پابندی اٹھانے کو اس بات کی ایک مثال کے طور پرپیش کرتے ہیں کہ کس طرح ان کی پارٹی آق سنہ 2002 میں اقتدارمیں آنے کے بعدراسخ العقیدہ مسلم ترکوں کی نمائندگی کرتی ہے جبکہ اس سے پہلے ترکی پرحکمرانی کرنے والی سیکولرجماعتیں حجاب پہننے کے حق کی مخالف رہی ہیں۔ انھوں نے ہفتے کے روز حزب اختلاف کی مرکزی جماعت کے رہنما کمال کلیچ داراوغلو کومخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’اگرآپ میں ہمت ہے تو آئیں۔اس مسئلہ کوریفرنڈم میں پیش کرتے ہیں اور قوم کو فیصلہ کرنے دیتے ہیں کہ وہ اس پر کیا رائے دیتی ہے؟‘‘ کلیچ داراوغلوسیکولر جماعت سی ایچ پی کی قیادت کرتے ہیں۔یہ جماعت سیکولراورجدید ترک جمہوریہ کے بانی مصطفیٰ کمال اتاترک کی قائم کردہ ہے۔ سی ایچ پی کے رہ نما نے ایک قانون کی تجویز پیش کی تھی۔اس میں سرپوش اوڑھنے کے حق کی ضمانت دی گئی تھی تاکہ ان کی پارٹی کی جانب سے پابندی کو بحال کرنے کے کسی بھی خوف وخدشے کو کم کیا جاسکے۔ واضح رہے کہ 1990ء کی دہائی میں حجاب ترکی کی سیاست میں بحث کا مرکزی موضوع ہوا کرتا تھا لیکن آج کسی بھی جماعت نے مسلم اکثریتی ترکی میں سرپوش اوڑھنے پردوبارہ پابندی عاید کرنے کی تجویز پیش نہیں کی ہے۔
اس ماہ کے اوائل میں کلیچ داراوغلو نے اعتراف کیا تھا کہ ’’ہم نے ماضی میں حجاب کے حوالے سے غلطیاں کی تھیں۔اب وقت آگیاہے کہ ہم اس مسئلے کو پیچھے چھوڑ دیں‘‘۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ کلیچ داراوغلو مذہبی رائے دہندگان کو یہ دکھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ انھیں اگلے سال انتخابات میں ان کی سیکولرجماعت کا انتخاب کرنے میں کسی بھی طرح خوف زدہ ہونے کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے جواب میں، طیب ایردوآن نے ایک آئینی ترمیم کی تجویز پیش کی ہے جسے’’جلد ہی‘‘ پارلیمان میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔پارلیمان میں ان کی جماعت آق کو ان کے زیرقیادت قوم پرست اتحاد میں شامل جماعتوں کے ساتھ معمولی اکثریت حاصل ہے۔ لیکن ترکی کے قانون کے تحت ان ترامیم کے حق میں 400 قانون سازوں کے ووٹ کی ضرورت ہے۔ان کی منظوری صورت میں پھر ملک میں ریفرنڈم کی ضرورت نہیں ہوگی۔اس لیے آق کو ان ترامیم کی منظوری کے لیے سی ایچ پی کی حمایت درکار ہوگی۔بہ صورت دیگر 360 ووٹوں سے ایک تجویزعوام کے سامنے ریفرینڈم کے لیے پیش کی جا سکتی ہے۔ترک صدر نے بھی اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ’’اگر یہ مسئلہ پارلیمان میں حل نہیں ہوتا تو ہم اسے عوام کے سامنے پیش کریں گے‘‘۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×