اسلامیاتمفتی محمد صادق حسین قاسمی

تری خودی میں اگرانقلاب ہو پیدا!

انسانوں کی ایمانی،اخلاقی ،روحانی ،ظاہری وباطنی تربیت کرنے اور ان کو سنوارنے کے لئے کریم وشفیق پروردگار نے رمضان المبار ک عطا فرمایا ۔بڑی تیزی کے ساتھ سفر کرتے ہوئے رمضان المبارک کا مہینہ اپنی منزل کوپہنچ گیااور اختتام پذیر ہوگیا،شوق وجذبات کے ساتھ مسلمانوں نے رمضان کو خوش آمدید کہا،اس کا پرتپاک استقبال کیا ،اس کے استقبال میں جلسوں کا اہتمام ہوا،خطابات وبیانات سے استفادہ کیا گیا،علماء ومقررین سے اس کی اہمیت وعظمت کو سماعت کیا،اس کے فضائل وحقوق سے آگہی حاصل کی گئی ،اس کے اثرات وبرکات اور انقلابی تاثیر پر بہت سی کتابوں مطالعہ بھی کیا،تحریروں کو پڑھا اور جنہوں نے مطالعہ نہیں کیا ان لوگوں نے کئے ہوئے اور پڑھے ہوئے لوگوں سے اس کو سنا،اور یہ صرف اس ایک رمضان پر نہیں کیا گیا بلکہ سالوں سے ہم مسلمانوں کا یہی معمول چلا آرہاہے کہ آمدِ رمضان سے قبل اس کے متعلق سنتے ،پڑھتے اور جانکاری حاصل کرتے ہیں ۔اور جب رمضان المبار ک کی شروعات ہوتی ہے کہ ابتدائی دنوں میں شوق وجذبا ت کا عالم دیدنی ہوتا ہے ،نمازیوں کی کثرت کی وجہ سے مسجدیں تنگ دامنی کا شکوہ کرتی ہیں،ہر طرف ایک نور کا سماں ،پاکیزگی کا ماحول،روحانیت کا موسمِ بہارکا نظر آتا ہے۔ اورجب رمضان المبارک اپنی تمام تر بہاروں کے ساتھ رخصت ہوتا ہے تو پھر ہر طرف سناٹاچھاجاتا ہے ،مسلمانوں کے جذبات بھی ماند پڑجاتے ہیں اور ایمانی بلندیوں پرپرواز کرنے والے پھر پستی اوربے ایمانی کی زندگی گزارنا شروع کردیتے ہیں۔یہ ہم مسلمانوں کا یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے ۔ہم نے آج تک رمضان کے حقیقی کو مقصد کو نہیں سمجھا ،اور اس کے تقاضوں کے مطابق خود کو نہیں ڈھالا۔
رمضان المبارک دراصل ایک انقلابی زندگی کی دعوت دے کر جاتا ہے ،انسان کے دین ودنیا کو بہتر سے بہتر بناکر رخصت ہوتا ہے،رمضان کی صحیح قدردانی کے نتیجہ میں جہاں اس کی آخرت سنورتی ہے ،اعمال اچھے ہوتے ہیں،اخلاق وکردار میں تبدیلی پیداہوتی ہے،روح وجسم میں پاکیزگی آتی ہے ،وہیں اس کی دنیا کا نظام بھی درست ہوتا ہے،اوقات کی حفاظت اور نظم ونسق کی زندگی گزارنے کا کامزاج پروان چڑھتا ہے،بہارِ زندگی کو غنیمت جاننے اور لمحاتِ زندگی کی قدر کرنے کے جذبات پیداہوتے ہیں،ایثار وہمدردی ،صبر وتحمل جیسی صفات سے انسان مزین ہوتا ہے۔رمضان المبارک میں ایک خاص تر بیت جس کی کرائی جاتی ہے وہ وقت کی قدر دانی اور نظام الاوقات کی پابندی ہے ۔سحری سے لے کر افطا ر تک کے سارے وقت کو ایک مسلمان نظا م العمل کے تحت گذارتا ہے ،جب حکم ہو ا کھایا ،جب حکم ہو ا کھانا چھوڑدیا ،رمضان میں ایک مومن اپنی مرضی سے نہ کھاتا ہے اور نہ اپنی مرضی اپنی خواہشات کو پورا کرتا ہے ۔وہ وقت پر کام کرتا ہے ، وقت پر عبادت انجام دیتا ہے ،وقت پر آرام کرتا ہے اور وقت کی رعایت کے ساتھ ہی اپنے تقاضوں کو پورا کرتا ہے ۔یہ مرتب نظام اور سلیقہ مند طرزِ زندگی ایک مسلمان کو وقت کی قدر دانی بھی سکھاتی ہے اور نظام الاوقا ت کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتی ہے ۔
اور یہ بھی ایک ناقابل انکار حقیقت ہے نظام الاوقات کی رعایت کرنے والی اور وقت کاخیال رکھنی والی قومیں ہی دنیا میں کامیاب ہوتی ہیں اور آخرت میں بھی سرخروی ہوتی ہیں ،جس کے پاس وقت کی قدر نہیں وہ اپنی دنیا کو بھی تباہ کرتے ہیں اور آخرت کو بھی برباد ۔بقول ایک دانا کہ ’’اپنے ملے ہوئے وقت کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ کیجیے ،لمحوں کو استعمال کرکے آپ مہینوں اور سالوں کے مالک بن سکتے ہیں،اگر آپ نے لمحوں کو کھودیا تو اس کے بعد آپ مہینوں اور سالوں کو بھی یقینی طور کھودیں گے۔اگر آپ روزانہ اپنے گھنٹہ کا صرف پانچ منٹ کھوتے ہیں تو رات دن کے درمیان آپ نے روزانہ 2 گھنٹہ کھودیا ،مہینہ میں 60گھنٹہ اور سال میں 720گھنٹے آپ کے ضائع ہوگئے ،اسی طرح ہر آدمی اپنے ملے ہوئے وقت کا بہت سا حصہ بیکار ضائع کردیتا ہے ،80 سال کی عمر پانے والا آدمی اپنی عمر کے 40 سال بھی پوری طرح استعمال نہیں کرپاتا۔‘‘
اور یہ بھی ایک ناقابل فراموش حقیقت ہے کہ اس وقت مسلمان وقت کی بہت ہی زیادہ ناقدری کرنے والے ہیں ،ان کے یہاں بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وقت کی کوئی اہمیت اور قدر ہی نہیں ہے ۔تضیع اوقات کے مختلف بہانے ڈھونڈ رکھیں ہیں ،تفریح اور دل لگی کے عنوان پر زندگی کے قیمتی لمحات کو بڑی بے دردی سے پامال کیا جاتا ہے ،دعوتوں اور تقریبوں میں دل کھول کر وقت کا ضیاع ہوتاہے اور نوجوانوں کی صورت حال تو انتہائی تکلیف دہ ہے کہ جن کے پا س کوئی منصوبہ بندی نہیں اور مستقبل کا کوئی لائحہ عمل بھی نہیں ،صبح و شام لا پرواہی میں اور دن و رات فضول مشغولوں میں گزارتے گزارتے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ مہینوں کے گزرنے پر بھی احساسِ زیاں پیدا نہیں ہوتا اور زندگی کی قدر معلوم نہیں ہوتی ۔دنیا کی کامیابی ،اور آخرت کی سربلندی اگر مقصود ہے تو بھی وقت کی قدر وعظمت کا ہونا نہایت ضروری ہے اور اس کا صحیح استعمال کرنے کا طریقہ آنا بھی ناگزیر ہے۔
بہرحال رمضان المبارک سے اگر ہم اس پیغام کو بھی سیکھ لیں اور اس سبق کو بھی حاصل کرلیں تو یقیناًبہت فائدہ ہوگا۔دنیا والوں کا شکوہ کرنے اور دوسروں کی ترقی وکامیابی پر چیخ وپکار کرنے کے بجائے اپنے اندر انقلاب پیدا کریں ،ان شاء اللہ خودی کا انقلاب نقشہ کو بدل کررکھے گا،اور دین ودنیا میں ہنگامہ برپاکردے گا۔علامہ اقبال ؒ کا یہ شعر ذہن ودماغ میں محفوظ رہنا چاہیے:
تری خودی میں اگر انقلاب ہو پیدا
عجب نہیں کہ یہ چار سُو بدل جائے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×