اسلامیاتمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

عیدالفطر ؛ فضائل و احکام

جب بندہ تیس دن تک لگاتار روزے رکھتا ہے،روزے کےمطلوبہ تقاضے پورے کرتا ہے،قیام اللیل کے ذریعہ تقرب الہی کے ذرائع تلاش کرتاہے،خدمت خلق کے ذریعہ اپنےخالق و مالک کو راضی کرلیتا ہےاور اسی کی عبادت و فرماں برداری میں سارا وقت صرف کرتا ہےتو حق تعالیٰ  اس پیہم محنت و جدوجہد کے بعد اپنی اطاعت شعاری کا ظاہری بدلہ عید الفطر کی شکل میں عنایت فرماتےہیں ۔ مسلمان قوم چوں کہ اپنی مستقل تہذیب وشناخت رکھتی ہے اوراپنےعقائد و نظریات کے لحاظ سے دنیا کی تمام اقوام سے منفرد و ممتاز ہے؛ اس لیے اس کا عید منانے کا انداز بھی سب سے نرالا ہے۔ دیگر اقوام کی عید، محافل ناؤ نوش و رقص و سرود بپا کرنے، دنیا کی رنگینیوں اور رعنائیوں میں کھو جانےاور شور وغل کےذریعہ  خلق خدا کو تنگ کرنےسےعبارت ہے۔ اس کے برعکس اسلام میں روح کی لطافت، بدن و لباس کی طہارت اور مجموعی شخصیت کی نفاست کے ساتھ انتہائی عجز و انکسار اور خشوع و خضوع کے ساتھ تمام مسلمانوں کااسلامی اتحاد و اخوت کے جذبے سے سرشار ہو کر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سجدۂ بندگی اور نذرانہء شکر بجا لانے کا نام عید ہے۔

عیدالفطرکا پیغام:

پیغام عید کے حوالے سے مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ کے فکر انگیز خطاب کا یہ اقتباس ملاحظہ فرمائیں:اللہ جل شانہ نے مقصد صیام یعنی تقوی کو بیان کرنے کےبعد سورہ بقرہ کی  آیت نمبر:186میں عید کا بھی ذکر کردیا ،صراحتاًعید کا نام تو نہیں لیا، لیکن عید کا مقصد اور عید کا وظیفہ ، عید میں کرنے کےکام،سب کو واضح کردیا، کہ جب اللہ تعالیٰ رمضان میں روزہ کا موقع دے،رمضان آئے اور خیریت کے ساتھ،توفیق الٰہی کے ساتھ ، دن کے روزوں کے ساتھ رات کی عبادتوں کے ساتھ گزر جائے۔ تو اللہ کی بڑائی بیان کرو اس پر کہ اللہ نے ہدایت دی، ایمان واسلام کی دولت سے نوازا، اور پھر توفیق دی۔غورکریں! اگر ان میں سے ایک چیز بھی نہ ہوتی تو کہاں کا رمضان او ر کہاں کا روزہ؟ دنیا میں پچاسوں مذاہب ہیں ، سینکڑوں قومیں ہیں، وہ اتنا جانتی ہیں کہ رمضان کا مہینہ مسلمانوں میں آتا ہے، جیسے ہمارے یہاں مہینہ آتا ہے۔ انہیں پتہ بھی نہیں چلتا کہ کب رمضان آیا اور کب ختم ہوگیا؟ اوران کے مہینوں اور رمضان میں کیا فرق ہے؟

تو پہلی چیز تو یہ ہے کہ اللہ نے ہمیں ہدایت دی، ہم کو اسلام کی دولت سے نوازا،  ہمیں صحت وتندرستی دی،اور پھر اس کے بعد سب سے بڑی چیز یہ ہے کہ توفیق دی۔غورکیاجائے تو جملہ اعمال صالحہ کا انحصار تو فیق پر ہے، ساری چیزیں جمع ہیں؛ مگر توفیق نہیں تو کچھ نہیں، یعنی روزہ رکھنے کے لئے جن جن چیزوں کی ضرورت ہے، جوانی اوربلوغ چاہئے، وہ بھی موجود ہے، صحت چاہئے وہ بھی موجود ہے، اور روزے کے مسئلے معلوم ہونے چاہئیں، وہ بھی معلوم ہیں، حکومت روکتی، قانون روکتا یا ڈاکٹر ہی نے کہا ہوتا کہ تمہارے لئے روزہ رکھنا نامناسب ہے، نقصان دہ ہے، ایسی رکاوٹ بھی نہیں ہے،اس کے باوجود ایک تعدادایسی ہے جس کا روزہ نہیں ہو رہا ہے، وجہ کیاہے؟توفیق ایزدی  نہیں ہے۔

الغرض ہمیں اللہ تعالی کی بڑائی بیان کرنی ہے اور اس کا شکر بجالانا ہے کہ اس نے محض اپنے فضل وکرم سے بلاکسی استحقاق کے ہمیں اس نعمت سے سرفراز فرمایااور ہم نے فریضۂ صیام کی تکمیل کرلی۔

عید کی خوشیوں کے اصل حق دار کون؟

دنیا کی نظروں میں عید کی مبارک باد کا حق دار ہر وہ شخص ہے جو نیا جوڑا زیب تن کرے،اچھی خوشبو لگائے،بہترین جوتا پہنے اور نماز عید کی ادائیگی کےلیے عیدگاہ کا رخ کرے؛مگر کیا واقعی صرف اتنا کرلینے سے عید کی حقیقی برکتیں مل جائیں گی ؟

نہیں !ہرگز نہیں ؛بل کہ عید کی مبارک باد کے حقیقی مستحق وہ ہیں جنھوں نے مکمل ماہ اس طرح روزے رکھے جس طرح روزہ رکھنے کا حق تھا، قرآنِ مجید کی ہدایت سے اس طرح فائدہ اُٹھایا جس طرح فائدہ اٹھانا مقصود تھا،قیام اللیل کی ویسی فکر کی جیسی فکر مطلوب تھی اور تزکیۂ نفس و تطہیر قلب کے ذریعہ خود کو ایسے آراستہ کیا جیسے آراستہ ہونے کا شریعت نے حکم دیا ہے۔کسی دانشور نے اس کی بہت خوب مثال دی اور نہایت عمدہ پیرائے میں یوں رقم کیا :

اگر کسی شخص نے رمضان کے زمانے میں روزے کی اس کیفیت(تقوی اللہ) کو اپنے اندر جذب کیا ہے تو وہ حقیقت میں مبارک باد کا مستحق ہے، اور اس سے زیادہ مبارک باد کا مستحق وہ شخص ہے جو مہینے بھر کی اس تربیت کے بعد عید کی پہلی ساعت ہی میں اسے اپنے اندر سے اُگل کر پھینک نہ دے بلکہ باقی 11 مہینے اس کے اثرات سے فائدہ اُٹھاتا رہے۔

آپ غور کیجیے! اگر ایک شخص اچھی سے اچھی غذا کھائے جو انسان کے لیے نہایت قوت بخش ہو، مگر کھانے سے فارغ ہوتے ہی حلق میں انگلی ڈال کر اس کو فوراً اُگل دے تو اس غذا کا کوئی فائدہ اُسے حاصل نہ ہوگا، کیونکہ اُس نے ہضم ہونے اور خون بنانے کا اسے کوئی موقع ہی نہ دیا۔ اس کے برعکس اگر ایک شخص غذا کھا کر اُسے ہضم کرے اور اُس سے خون بن کر اُس کے جسم میں دوڑے، تو یہ کھانے کا اصل فائدہ ہے جو اُس نے حاصل کیا۔ کم درجے کی مقوی غذا کھاکر اُسے جزوِبدن بنانا اس سے بہتر ہے کہ بہترین غذا کھانے کے بعد استفراغ (قے)کردیا جائے۔ ایسا ہی معاملہ رمضان کے روزوں کا بھی ہے۔ ان کا حقیقی فائدہ آپ اسی طرح اُٹھا سکتے ہیں کہ ایک مہینے تک جو اخلاقی تربیت اِن روزوں نے آپ کو دی ہے ، عید کے بعد آپ اس کو نکال کر اپنے اندر سے پھینک نہ دیں، بلکہ باقی 11 مہینے اس کے اثرات کو اپنی زندگی میں کام کرنے کا موقع دیں۔

عید الفطر کے فضائل:

(1)عید الفطر کا دن انعام کا دن ہے :جس طرح عید الفطر کی رات کو ”لیلۃ الجائزہ“ کہا جاتا ہے اِسی طرح عید الفطر کے دن کوحدیث میں”یوم الجوائز“ ”انعامات ملنے والا دن“ کہا جاتا ہے،کیونکہ اس دن اللہ تعالیٰ پورے مہینے کا انعام دے رہے ہوتے ہیں۔حضرت ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ سے موقوفاً مَروی ہے :کہ عید الفطر کا دن”یوم الجَوَائِز“یعنی انعام ملنے والا دن ہے۔(کنز العمال :24540)

(2)عید الفطر مسلمانوں کا مذہبی تہوار اور مسرت کا دن ہے :نبی کریمﷺکا اِرشاد ہے :بےشک ہر قوم کےلئے عید کا دن ہوتا ہے اور یہ ہمارا عید کا دن ہے۔(بخاری:952)

(3)اللہ کی رضا و مغفرت اور دعاء کی قبولیت کا دن ہے : عید الفطر کا دن اللہ تبارک و تعالیٰ کی رضاء و خوشنودی ،مغفرت و بخشش اور بندوں کی دُعاؤں کی قبولیت کا دن ہے۔احادیثِ طیّبہ سے معلوم ہوتا ہےکہ عید الفطر کے دن اللہ تعالیٰ کی رحمت جوش میں ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بےحساب نوازتے اور اُن پر عنایات کی بارش کرتے ہیں، چنانچہ درج ذیل ایک طَویل حدیث میں اِس کی تفصیل منقول ہے، ملاحظہ فرمائیں:

نبی کریمﷺکا اِرشاد ہے:جب عید کی صبح ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرشتوں کو تمام شہروں میں بھیجتے ہیں،وہ زمین میں اُتر کر تمام گلیوں،راستوں کے سروں پرکھڑے ہوجاتے ہیں اور ایسی آواز سے جس کو جنات اور انسان کے سوا ہر مخلوق سنتی ہے، پکارتے ہیں کہ اے محمد (ﷺ)کی امّت !اس کریم رب کی (درگاہ)کی طرف چلو جو بہت زیادہ عطاء فرمانے والا ہے اور بڑے بڑے قصور کو معاف فرمانےوالا ہے ، پھر جب لوگ عید گاہ کی طرف نکلتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرشتوں سے دریافت فرماتے ہیں :کیا بدلہ ہے اُس مزدور کا جو اپنا کام پورا کرچکا ہو ،وہ عرض کرتے ہیں : ہمارے معبود اور ہمارے مالک! اُس کا بدلہ یہی ہےکہ اُس کی مزدوری پوری پوری دیدی جائے، تو اللہ تعالیٰ اِرشاد فرماتے ہیں:اے فرشتو! میں تمہیں گواہ بناتا ہوں میں نے اُن کو رمضان کے روزوں اورتراویح کے بدلہ میں اپنی رضا اور مغفرت عطاء کردی ۔

پھر بندوں سے خطاب کرتے ہوئے اِرشاد ہوتا ہے:اے میرے بندو! مجھ سے مانگو ، میری عزّت کی قسم ، میرے جلال کی قسم !آج کے دن اپنے اس اجتماع میں اپنی آخرت کے بارے میں جو سوال کروگےوہ میں عطاء کروں گااور جو اپنی دنیا کے بارے میں سوال کروگے اُس میں تمہاری مصلحت پر نظر کروں گا ،میری عزت کی قسم ! جب تک تم میرا خیال رکھوگےمیں تمہاری لغزشوں پر ستاری کرتا رہوں گا (اور ان کو چھپاتا رہوں گا )میری عزّت کی قسم! اور میرے جلال کی قسم!میں تمہیں مجرموں (اور کافروں)کے سامنے رسوا اور ذلیل نہ کروں گا ، بس اب بخشے بخشائے اپنے گھروں کو لوٹ جاؤ، تم نے مجھے راضی کردیا اور میں تم سے راضی ہوگیا ۔

پس فرشتے اس اجرو ثواب کو دیکھ کر جو امّت کو افطار کے دن( رمضان کے ختم ہونے کے دن )ملتا ہے ،خوشیاں مناتے ہیں اورخوش ہو جاتے ہیں۔(شعب الایمان : 3421بحوالہ انوار رمضان)

عید الفطر کے مسنون اعمال:

(1) شریعت کے موافق اپنی آرائش کرنا۔

(2) غسل کرنا۔

(3) مسواک کرنا۔

(4)عمدہ سے عمدہ کپڑے جوپاس موجود ہوں پہننا ۔

(5)خوشبو لگانا۔

(6)صبح کوبہت سویرے اٹھنا۔

(7)عیدگاہ جلد جانے کی فکر کرنا۔

(8)عیدگاہ جانے سے پہلے کوئی میٹھی چیز مثل چھوہارے وغیرہ  کھانا۔

(9)عیدگاہ جانے سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنا۔

(10)عیدکی نماز عیدگاہ میں جاکر پڑھنا ۔

(11)جس راستے سے جائے اس کے سوا دوسرے راستے سے واپس آنا۔

(12)پیدل جانا۔

(13)راستے میں اللہ اکبر اللہ اکبر لاالہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبروللہ الحمدآہستہ آواز سے پڑھتے ہوئے جانا۔

نماز عید الفطر کاطریقہ:

سب سے پہلے نیت کرلےیعنی دل میں ارادہ کرلےاور اگر موقع ہوتوزبان سے بھی کہہ لے کہ میں دو رکعت واجب نماز عید کی ،چھ واجب تکبیروں کے ساتھ پڑھتا ہوں اور مقتدی ،امام کی اقتداء کی بھی نیت کرے۔ نیت کے بعد تکبیر تحریمہ اللہ اکبر کہتے ہوئے دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھا کر ناف کے نیچے باندھ لے اور سبحانک اللھم آخر تک پڑھ کر تین مرتبہ اللہ اکبر کہے اور ہر مرتبہ تکبیر تحریمہ کی طرح دونوں ہاتھوں کو کانوں تک اٹھائے اور دو تکبیروں کے بعد ہاتھ چھوڑ دے اور تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ لے اور ہر تکبیر کے بعد اتنی دیر توقف کیا جائے کہ تین مرتبہ سبحان اللہ کہا جا سکے۔ ہاتھ باندھنے کے بعد امام اعوذ باللہ، بسم اللہ پڑھ کر سورۃ فاتحہ اور کوئی سورۃ پڑھے او رمقتدی خاموش رہے پھر رکوع سجدہ کے بعد دوسری رکعت میں پہلے امام فاتحہ اور سورۃ پڑھے اور اس کے بعد رکوع سے پہلے تین مرتبہ پہلی رکعت کی طرح تکبیریں کہی جائیں۔ اور تیسری تکبیر کے بعد بھی ہاتھ نہ باندھے جائیں، پھر ہاتھ اٹھائے اور پھر چوتھی تکبیر کہہ کر رکوع کیا جائے مقتدی بھی امام کے ساتھ ہاتھ اٹھا اٹھا کر تکبیر کہے اور باقی نماز دوسری نمازوں کی طرح پوری کی جائے۔(مراقی الفلاح)

چونکہ عموماً ہر نماز کے بعد دعا مانگنا مسنون ہے اس لیے نماز عید کے بعد تو دعا مانگنا مسنون ہو گا مگر خطبہ کے بعد مسنون نہ ہو گا۔ (امداد الفتاویٰ)

امام نماز کے بعد دو خطبے پڑھے۔ خطبہ کو تکبیر سے شروع کرے۔ پہلے خطبہ میں نو مرتبہ تکبیر کہے اور دوسرے خطبہ میں سات مرتبہ اور دونوں خطبوں کے درمیان خطبہ جمعہ کی طرح اتنی دیر تک بیٹھے جس میں تین مرتبہ سبحان اللہ کہا جا سکے۔ عید الفطر کے خطبہ میں صدقہ فطر کے احکام بیان کئے جائیں بہتر یہ ہے کہ جو شخص نماز پڑھائے خطبہ بھی وہی پڑھے۔ (در مختار)

بہت سے لوگ نماز عید کے بعد خطبہ کو غیر ضروری سمجھتے ہیں حالاں کہ اس کی بھی نماز کی طرح بہت زیادہ اہمیت ہے،اس کااہتمام بھی کرناچاہیے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×