اسلامیاتسیاسی و سماجی

انقلابات جہاں واعظ رب ہیں سن لو!!

موجودہ دور امتحانوں اور آزمائشوں کا دور ہے،اگر یہ دور ہمارے حق میں دس یا بیس فیصد آزمائش کا ہے تو ہماری اولاد ،اور نئی نسلوں کے حق میں اَسّی فیصد مشکلات ومصائب کا ہے،ہم پھر بھی کسی نہ کسی درجہ میں احساس و شعوررکھتے ہیں،ہمیں کچھ نہ کچھ دینی ماحول میسر آگیا ہے،ہم مسجدوں سے جڑے ہوئے ہیں ،علماء سےربط و تعلق رکھتے ہیں ،دین کی فکر وخدمت کا ہمارے اندر جذبہ ہے،اچھے برے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ،عقیدہ کے بارے میں بنیادی معلومات ہمیں حاصل ہیں، ان سب کے باوجودہم جب اس قدر مشکلات سےگزر رہے ہیں، اور اتنے سخت حالات کا سامنا کر رہے ہیں کہ اپنے دین کو خطرے میں محسوس کررہے ہیں ،حالات کوایمان بچانے کے لیے ناموافق سمجھ رہےہیں توذراان کا سوچیےجوہمارے بعد آنے والے ہیں، جو ہماری نسلیں ہیں! بدقسمتی سے یاشامت اعمال سے،یا ہماری غفلتوں سے انہیں دین کاوہ شعور بھی نہیں ہے، جو کسی درجہ میں ہمیں حاصل ہے ۔پھرہمیں جو دین کا کچھ شعور ملاہے اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ،ہمارے بڑوں کا کمال ہے،انہوں نے پھر بھی ہمیں کچھ دیا ہے ،بتایا ہے، کچھ نہ کچھ دینی فکروں سے جوڑے رکھا ہے؛ لیکن جو ہمارے بچے ہیں ہماری غفلت کی وجہ سےدین سے بہت دور ہیں۔ممکن ہےکہ آپ یہاں مسجد میں بیٹھے ہوئے ہیں اور نماز سے آدھا پونا گھنٹہ پہلے سے یہاں تشریف فرماہیں، آپ کو اس کی ضرورت نہیں تھی، آپ عین اس وقت بھی آسکتے تھے، جس وقت آدھے سے زیادہ مصلی آتے ہیں؛لیکن آپ کے ضمیر میں شعور باقی ہے جو آپ کوقبل از وقت مسجد لےآیا۔مگرکیوں ایسا نہیں ہوتا کہ ہمارے وہ بچے جو15سال کی عمر سے لے کر کے 25تیس سال کی عمر کوپہنچےہوئے ہیں وہ بھی قبل از وقت مسجد آئیں اور نماز کا انتظار کریں۔آپ فرق کوسمجھ رہے ہیں کہ جتنا شعور آپ کو مذہب کا تھا کہ کم از کم جمعہ کی تیاری پہلے سے کی جائے ہفتے میں ایک دن اللہ پاک کا بڑا دربار لگتا ہے، اس بڑے دربار میں مکمل تیاری کے بعد ،اچھے کپڑے پہن کر وقت سے پہلے مسجد جانا چاہیے؛کیونکہ جب خطبہ شروع ہو تا ہے تو فرشتے دفتر لپیٹ لیتے ہیں پھر کسی کے آنے کوشمار ہی نہیں کرتے ،شمار اس وقت تک کرتے ہیں کہ امام خطبہ دینے کے لئےمنبر پر کھڑا نہ ہوجائے ،کسی کے لئے اونٹ صدقہ کرنے کا ثواب ،جس کی قیمت موجودہ زمانے میں تقریبا پچاس ہزار کے آس پاس ہوتی ہیں، کسی کےلئے گائے کا ثواب ،کسی کے لیے دنبہ اور بکرے کا ثواب ،درجہ بدرجہ ،جب خطیب کھڑا ہوجاتا ہےتو اس کےبعد رجسٹر بند کردیا جاتا ہے۔جمعہ کے کچھ آداب اور احکام بھی ہیں،جس کو ہم سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے،جب ہم خودنہیں سمجھیں  گےتو بچوں کوکیسے سمجھائیں  گے،ہمارے بڑوں نے یہ باتیں ہمارےذہنوں میں بٹھائی تھیں تو ہم اب تک عمل کررہے ہیں،ہم نے اپنے بچوں کے شعور میں یہ بات نہیں بٹھائی توا نہیں یہ فکر نہیں ہے۔ جمعہ کے دن بیان میں نوجوانوں کا صرف بیس فیصد طبقہ حاضرہوتا ہے ،اور وہ طبقہ یا تو اسلامی شعور رکھتا ہے خود سیکھنے اور علم نبوی حاصل کرنے کی وجہ سے ،یا ماں باپ کے دینی شعوربیدار کرنے کی وجہ سے ،ورنہ تو اسّی فیصد طبقہ اس بات کی نہ  تو فکر  کرتا ہے اور نہ ہی اہتمام کہ قبل از خطبہ مسجد پہونچا جائے ، یہاں تک دیکھنے میں آتا ہے کہ جماعت قائم ہوجانے کے بعد گھروں سے نوجوان  نکلتے  ہیں ، اور اس لباس میں جمعہ کی لیے آرہےہوتے ہیں ،جس میں کسی دوست اور معزز آدمی سے ملاقات کو وہ خودبھی گوارا نہیں سمجھتے ،جبہ جسے پہن کر سوتے ہیں،کسی اور جگہ جاتے وقت ناکارہ اور نا قابل استعمال سمجھ کر اتاردیتے ہیں ،اس لباس کو پہن کر جمعہ میں اللہ کے دربار میں آتے ہیں ،گویا کسی قسم کا کوئی اہتمام ہی نہیں۔میں مبالغہ نہیں کر رہاہوں جوا مت کا حال دیکھ رہا ہو وہ درد دل سے بیان کررہا ہوں ، یہ ہماری نسلوں اورہماری اولاد کا حال ہے ۔جمعہ کیا چیز ہے انہیں پتہ ہی نہیں ،صحابہ کے بارے میں آتا ہے کہ جمعہ کی تیاری جمعرات کی رات سے کرتےگویا چوبیس گھنٹے پہلے سے تیاری شروع فرما تے تھے ، رمضان کی تیاری شعبان کا چاند دیکھ کر شروع کر تے تھے ، اور جمعہ کی تیاری ایک دن پہلے سے کرتے تھے ،بال درست کرتے تھے ، کپڑے وغیرہ سب پہلے سے تیار رکھتے تھے، اورجمعہ کی وہ سنتیں جواحادیث صحیحہ سے ثابت ہے، ان میں سب سے پہلی سنت یہ ہے کہ اور دنوں کے مقابلے میں جلدی اٹھنا، محض اللہ کو دکھانے کے لئے کہ آج آپ کا یہ خاص دربار ہے ،اور ہم اس کے لئے تیاری کررہے ہیں ۔ایک طرف نبی کریمﷺ کی یہ تعلیم ہے کہ صبح جلدی اٹھو اور دوسری طرف ہمارا نوجوان ہے کہ جلدی اٹھنا تو دور کی بات ہے، ماں باپ کے ڈانٹنے کے بعدبیدارہی اس وقت ہوتے ہیں جب خطبہ شروع ہوچکا ہوتا ہے ، بیس سال سے پچیس سال تک کے نوجوان اسی وقت بیدار ہوکر سیدھا مسجد کا رخ کرتے ہیں ۔یہ تک ہوش نہیں کہ میرا لباس کیساہے،میری وضع کیسی ہے ، کہ میں کیا پہنا ہوا ہے جو پہن کر میں نہ کسی آفس میں جاسکتا ہوں ،اور نہ کسی معزز آدمی کے پاس ،جس قوم کے دل میں اپنے مالک ومولی کی عظمت اس قدر بھی نہ رہ گئی ہو اس قوم کو سر بلندی اور کامیابی کا خواب بھی نہیں دیکھنا چائیے ،جب تک کوئی قوم خودکو نہیں بدلنا چاہتی اللہ کو کوئی پروا ہ نہیں ہےکہ اس کے بدلنے کا ارادہ فرمائے ، مثبت اعتبار سے بھی منفی اعتبار سے بھی ،ما یفعل اللہ بعذابکم ان شکرتم وآمنتم وکان اللہ شاکرا عیما ،اللہ کیوں تمہیں بلاؤں وباؤں ،مصیبتوں میں مبتلا کرے گا ،کیا ایک رحمان کو اپنی پسندیدہ اور محبوب مخلوق اور بندوں سے سزا دینے میں رغبت ہے، ان کو تکلیف دینے میں رحمان کو دلچسپی ہے، بالکل نہیں ، اللہ کیوں تمہیں تکلیف میں ڈالےکیوں تمہیں مصیبت میں مبتلا کرے اگر تم اس کی توفیق ہدایت کے شکرگزار رہو، اور اس پر ایمان رکھو ،یہ ایمان ہماری نسلوں میں ہونا چاہیے ۔
اس وقت پوری دنیامیں جولوگ سمجھ دار ہیں، حالات پر کچھ نظر رکھتے ہیں ،انہیں اندازہ ہے کہ پوری دنیا اوراقوام عالم،صرف ایک مقصد پرجی رہے ہیں ،ساری دنیا کی قومیں ایک مقصد میں متحد ہیں،ایک خیا ل،ایک فکر ، ایک رائے؛وہ یہ کہ کس طرح محمد رسول اللہﷺ کی امت کو اس دنیا میں بےامتیاز کردیا جائے، کس طرح ان کی شناخت باقی نہ رہے۔ہم پہلے وضع قطع سے پہچانے جاتے تھےہماری وضع قطع ختم کردی گئی ،ہمارے لباس کو مٹاکر برسوں بیت گئے ،ہم کم از کم جمعہ کے دن بڑا اہتمام کرتے تھے ، جو امتیازات تھےان امتیازات کی نشاندہی کے ساتھ مسجدوں کی طرف آتے تھے اس کا ذوق بھی نکال دیا گیا ،مردہ کردیا گیا، ہم کلچر سے پہچانے جاتے تھے ،کلچر ہمارا ہی نہیں تمام اقوام کا مٹا دیا گیااور انہیں گلو بلائیزیشن کے فتنہ کے تحت سب کو ایک شکل، ایک کپڑا ،ایک لباس میں لانےکے لیے ہر ممکن کوشش کی گئی ،ہمارے نبی نے توقع یہ رکھی تھی کہ دنیا کی سب قومیں اس فتنہ کے سلاب میں بہہ جائیں گی ،پر میری امت نہیں بہے گی ،آپ ﷺنے امید رکھی تھی، ہم آپ ﷺ کی محنت ہے ،خون ہے، پسینہ ہے ،آپ ﷺ نہ ہوتے تو ہمارا وجود نہ ہوتا ،آپ کوآپ کی قوم نے ستایا ،پریشان کیا ،دل توڑ ا اور بے بسی کے عالم میں بستی سےنکال باہر کیا ،لہولہان ہوئے ،زخمی ہوئے ، اور امیدوں پر پانی پھر ا؛ اس وقت فرشتہ کہتا ہے اگر آپ حکم دیں تو میںپوری بستی سے انتقام لے لوں گا ،تب آقا ﷺ کے زبان سے یہ بات نکلتی ہے کہ رہنے دو! انہوں نے مجھے پہچانا نہیں ؛اگر پہچانتے تو ایسا معاملہ نہ کرتے ،ان کی ناقدری نہ پہچاننے کی وجہ سے ہے ، مجھے امید ہے یہ نہیں تو ان کی نسلوں میں کوئی کھڑا ہوگا جودین کا قدر داں ہوگا اور میری محنتیں رنگ لائیں گی ۔
پھراللہ نے بعد میں کھڑا کیا،آج جتنے مسلمان ہمارے دیارمیں پائے جاتے ہیں،وہ محمد بن قاسم الثقفی اور ان کےقبیلے سے تعلق رکھنے والے ہیں،جنہوں  نے ہندوستان کے کفر کدے کوایمان کی روشنی سے روشناس کرایا ۔الغرض بہت امیدیں نبی کریم ﷺنے ہم سے رکھی ،ہم ان امیدوں پر پانی پھیرنے کا کام کررہے ہیں ، اس نفس کو خوش کرنے کے لئے،زمانے کے دھارے میں  بہنےکی خاطر،دولت کی ریل پیل اور تعیش عالم دیکھنے کےواسطے ، اپنے محبوب نبی کی امیدوں پر پانی پھیررہے  ہیں ،ہم آج وفا دار امتی نہیں، بے وفا امتی ہیں۔
با وفا بننے کی کوشش کیجیے !کچھ اس وقت محنت کیجیے ،تاکہ نئی نسل سو فیصد توحید پر قائم ہو، سو فیصد عشق مصطفیٰ سے قلوب کو بھرپور رکھیں،یہ ، سو فیصدقرآن کریم کی عظمت اور اس کے کتاب الہی ہونے پر یقین رکھتی ہوں،اور اسی کتاب کے ذریعہ نجات ملنے کا یقین رکھتی ہوں۔ہمیں اس وقت تین محنتیں کرنی ہیں :
۱)عقیدئہ توحید پر محنت
۲) عشق مصطفیﷺپر محنت
۳)قرآن کریم سے عزت ملنے ،اور دنیا وآخرت میں اسی سے نجات کے یقین کی محنت
ان پرہمیں محنت کرنا ہوگا جوعوام ہے وہ اپنی اولادپر کرے، اور جنہیں اللہ نے دین کی محنتوں کا شوق دیا ہے ،علم سے نوازا ہے ،اور اسے امت تک پہونچانے کی فکر عطا فرمائی ،اس طبقہ کو اس وقت پوری پوری توجہ کے ساتھ ، پوری خیر خواہی کے ساتھ ،قوم کے نونہالوں کو مومن کامل بنانے کے لئے تیار ہوجائے، کیوں کہ پوری دنیا میںعموما، جس ملک میں ہم رہتے ہیں اس ملک کےاندر خصوصاوہ پالیسیاں مدون کی جاچکی ہیں، وہ بل پارلیمنٹ میں منظور ہو چکے ہیں جو ہماری روحانیت اور ایمان کے لیےموت کا پیغام ہیں ،ہم توخواب خرگوش میں ہیں ،ہمیں نہیں پتا ہےکہ کیا ہو رہا ہے تمہارے موت کے فیصلے کیے جارہے ہیں ، تمہارے مٹائے جانے کا سامان کیا جارہا ہیں ،لیکن دو روٹی اور دو بوٹی سے زیادہ ہمارا کوئی مقصد نہیں ،بچے اچھا پڑھ لیں،قابل ہوجائیں،نوکری مل جائے،کمپنی جوائن کرلیں ،ایک باپ کا یہی جذبہ ہوتا ہے ہونا چایئے ، ایک ماں کے دل میں یہی سوغات ہوتی ہیں ہونا چاہئے،لیکن اس اعتبار سے بھی سوچنا چایئے کہ کیا ہماری کامیابی اور ناکامی کاتعلق صرف اس دنیا سے ہے،دینار ودرہم سے ہے ،دوٹکوں دو پیسوں سے ہے ، یا ہماری حقیقی کامیابی کسی اور چیز سے بھی وابستہ ہے، اس کے بارے میں بھی تو سوچنا چایئے ،اس حوالے سےبھی خیر خواہی کرنا چاہئے، آخرت کے حوالے سے ،قبر کے حوالے سے،خدا کے سامنے کھڑے ہوکے حساب دینے کےحوالے سے، اس میںبھی بھلائی ہواپنی اولاد کے ساتھ۔یہ بھلائی نظر نہیں آرہی ہیںالا ماشاء اللہ، اکثریت کس رخ پہ جارہی ہے ،کچھ پرواہ نہیں  ہے ۔ہم بچوں کو کیا دے رہے ہیں ،کیا سکھا رہے ہیں ،اس کا کوئی احساس نہیں ہے۔
یاد رکھیے! عقیدہ ماں کی گود سے ملتا ہے ،انسان کے مذہبی تصورات وترجیحات گھر کے ماحول سے حاصل ہوتےہیں ، اگریہاں نہیں ملے؛تو کسی درسگاہ میں نہیں مل سکتے، کسی یونیورسٹی میں نہیں مل سکتے، کسی خانقاہ میں نہیں مل سکتے، کسی مدرسے میں نہیں مل سکتے ،گھر میں نہیں ملا تو کہیں نہیں ملا ۔ صحابہ ؓ کا مزاج تھا ، ان کا معمول تھا ، دوست آیا ،ملا قات ہوئی توپہلا جملہ یہی ہوتا ،اجلس بنا نؤمن ساعۃان کی ترجیحات یہی ہوتی تھی، یہ تعلیماتِ نبوی میں سےہیں ، ایسا نہیں تھاکہ وہ مہمان نوازی نہیں کرتےتھے، وہ کھجور بھی کھلاتے تھے،چائے بھی پلا تے تھے، ہم سے بہت غریب تھے ، پھر بھی کسی مہمان کو خالی نہیں بھیجتے تھے ،اس کے باوجود ان کاسب سے پہلا جملہ مذکورہ جملہ ہوتا کہ تشریف رکھیے ! ہم تھوڑی دیر ایمان کی بات کریں !ایمان کا ذکر کریں ۔
ہمارے ہاں اگر کہیں مذہبی ترجیحات ہیں تو وہ بھی لڑنے جھگڑنے کے لئے ہیں کہ وہ مولانا یہ کہتے ہیں،یہ مولانا وہ کہتے ہیں، وہ ایسا ہے، یہ ایسا ہے ،انہوں نے یہ کہا، انہوں نے وہ کہا ،ہماری مجالس معمولی اختلافی چیزوں میں ہوتی ہیں؛حالانکہ سب سے پہلے ہماراایمان بننا چائیے ،نبی سے نسبت درست ہونی چائیےاورجن نمازوں پر فخر ہے وہ بخشوانے کے قابل ہوناچاہیے۔
کچھ لوگ بس چند مختلف فیہ مسائل کو اپنا موضوع بحث بنائے ہوئےہیں ، اس میں اپنی طاقت واستعداد صرف کررہے ہیں ، لڑرہے ہیں ۔ہم ایمان کب بنائیں گے، یقین کب بنائیں گے ،نبی ﷺکےاخلاق پرکا میابی کا یقین کیسے بنے گا، ہمارے اندر، ہمارے بچوں کےاندر ۔ آج ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے؟یادرکھیے!اور اچھی طرح یاد رکھیے! اگرہم اس بات پر غور نہیں کرتے،تو آنے والے دنوں میں اللہ نہ کرے ،اللہ نہ کرے ،اپنے بچوں کے اسلام پر قائم رہنے کا خواب بھی بھول جائیے !حالات بد سے بدتر ہوچکے ہیں ،بہت منظم طریقہ پر ،نہایت باریک بینی کے ساتھ، ستر برسوں کے صبر کے بعد، اس وقت جوطاقت حکمرانی کے پیچھے چھپی ہوئی ہے وہ طاقت آپ کے لیے آپ کی قبر تیار کررہی ہے ، قومی تعلیمی پالیسی، اوقاف بل،اور سی اے اے ، این آرسی ،وغیرہ وغیرہ ،جواب پس پردہ چلے گئے ہیں،اپنا طریقہ تو یہی ہے کہ کچھ دیر کےلیےاچھلنا ،کودنا ، پھرخاموش بیٹھ جانا ۔علامہ سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ فرماتے تھے : مسلمانو! تم کسی پہاڑ سےپھوٹنے والے پانی کاچشمہ نہیں ہوکہ اس چٹان سے ٹکرایا ، اس چٹان سے ٹکرایا ،وہاں ذلیل ہوا ، وہاں خوار ہوا ،اور اوپر سے نیچے آیا ، ندی بنا ، پھر سمندر میں جاکر اپنا وجود فنا کردیا ،تم سمندر ہو کہ قومیں تمہارے اندر آکر اپنے کو مٹائیں ،تم مٹنے کے واسطے نہیں ہو؛لیکن آج ہم مٹنے کے لئےخوشی سے تیار ہیں کہ ہمیں کو مٹا دیجیےاللہ اکبرکبیرا !یہ بڑا انقلاب ہے، اس انقلاب سے اللہ کچھ فرمارہا ہیں
انقلاباتِ جہاںواعظِ رب ہیں سن لو
ہر تغیر سے صدا آتی ہے فافہم فافہم
سمجھو مسلمانو !اگرسمجھے تو ٹھیک ہے ۔نہیں تو پھر ہمارے لیے کوئی مستقبل نہیں ، اللہ فکریں نصیب فرمائےاور جو کرنے کے کام ہیں اس میں مشغول ہونے کی توفیق عطا فرمائے ، آپس کے انتشار کو ختم فرمائے، اور اس نسل کو بچانے نیز ہمارےنبی ﷺ کے خون ،پسینے، آہوں اور آنسووں کی حفاظت کرنے کے لیے اپنے آپ کو گھلانے ، اور مٹانے کا جذبہ نصیب فرمائے ۔آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×