اسلامیاتسیاسی و سماجی

یہودیوں کی گستاخی اور مکروفریب

آج یہودیوں نے پوری دنیا کی معیشت پر قبضہ جمایا ہوا ہے اور بڑے بڑے سوپر پاور ممالک یہودیوں کے محتاج ہیں۔ اِس کے علاوہ ذرائع ابلاغ پر بھی اُن کا پوری طرح سے کنٹرول ہے اور یہودی جانتے ہیں کہ اسلام ہی سچا اور صحیح دین ہے اِسی لئے وہ اِسے بدنام کرنے کی بھر پور کوشش کررہے ہیں۔ افسوس کا مقام ہے مسلمان غفلت کا شکار ہیں اور مسلمان حکمراں تو دو قدم آگے بڑھ کر اِن اﷲ کے دشمنوں سے دوستی کررہے ہیں اور انہیں اُن مظلوم فلسطینیوں کی تکالیف اور مصیبتیں دکھائی نہیں دے رہی ہیں۔ یہودی آج سے نہیں بلکہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے سے اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی کرتے آرہے ہیں۔ اِن بد بختوں نے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے مکروفریب کی اور گستاخی بھی کی حتیٰ کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم پر قاتلانہ حملہ بھی کیا۔ اِس ضمن میں اللہ رب العزت نے فرمایا۔ترجمہ’’اے ایمان والو،تم ’’راعنا‘‘مت کہا کرو ’’انظرنا‘‘ کہو،اور غور سے سنا کرو۔کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے۔‘‘(سورہ البقرہ آیت نمبر ۱۰۴؎)۔اللہ رب العزت نے سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ خصوصیت عطا فرمائی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ نہیں فرمایا کہ منع کردیں،بلکہ اللہ رب العزت نے خود ایسا لفظ استعمال کرنے سے منع فرما دیا ،جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذرا سی بھی بے ادبی کا اندیشہ ہو۔مفتی احمد یار خان نعیمی اس آیت کے ’’شان نزول‘‘میں لکھتے ہیں۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب صحابہ ء کرام رضی اللہ عنہم کو کچھ تعلیم فرماتے تو (صحابہء کرام رضی اللہ عنہم جب بات نہیں سمجھ پاتے تھے تو)حضرت (صلی اللہ علیہ وسلم )کے درمیان کلام میں عرض کر دیتے تھے کہ’’راعنا یا رسول اللہ‘‘صلی اللہ علیہ وسلم ،یعنی یا حبیب اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری رعایت فرمائیے۔یعنی یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی،دوبارہ ارشاد فرمائیے۔لفظ راعنا کے ایک برے معنی بھی ہیں۔یہود نے اس برے معنی کی نیت سے اس لفظ کو بو لنا شروع کر دیا اور دل میں خوش ہوئے کہ ہمیں بارگاہ عالی میں نہایت چالاکی سے گستاخی کرنے کا موقع مل گیا ہے۔ایک دن حضرت سعد بن مُعاذ رضی اللہ عنہ نے ان کی ذبان سے یہ لفظ سن کر فرمایا کہ اے دشمنان خدا ،تم پر اللہ کی لعنت ہو۔اگر میں نے اب کسی کی زبان سے یہ لفظ سناتو اس کی گردن مار دوں گا۔یہود نے کہا ۔ہم پر تو آپ (رضی اللہ عنہ)ناراض ہوتے ہیں،مسلمان بھی تو یہی کہتے ہیں۔اس پر آپ رضی اللہ عنہ غمگین ہو کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ابھی آئے ہی تھے کہ یہ آیت نازل ہوئی جس میں’’ راعنا ‘‘کہنے کی ممانعت فرما دی گئی اور اُسی معنی کا دوسرا لفظ’’ انظر نا‘‘کہنے کا حکم ہوا۔(تفسیر نعیمی،سورہ البقرہ آیت نمبر ۱۰۴؎)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر کرو
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ میرے ’’حبیب‘‘صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایسا جائز لفظ بھی استعمال مت کرو ،جس سے ذرا سا بھی بے ادبی کا اندیشہ ہو۔اور ہر ممکن طریقے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر کرو۔سورہ البقرہ کی آیت نمبر ۱۰۴؎ کی تفسیر میں علامہ محمد بن احمد بن ابوبکر قرطبی لکھتے ہیں۔’’اللہ تعالیٰ نے ’’لَا تَقُولُو رَاعِنَا‘‘میں یہود کی جہالتوں میںسے ایک اور چیز کو ذکر فرمایا ہے۔اور مقصود مسلمانوں کو کو اس کی مثل سے روکنا ہے۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا۔مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرتے ’’راعنا‘‘یعنی وہ رغبت و طلب کی جہت سے عرض کرتے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف نظر التفات فرمائیں۔اور یہ یہود کی زبان میں بددعا تھا۔یعنی تم سنو تو کبھی نہ سنے ،پس یہود نے موقع کو غنیمت جانااور کہا ۔پہلے ہم اسے مخفی طور پر بد دعا دیتے تھے،اب ہم اسے جہراً(آواز سے)بد دعا دیں گے۔وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس لفظ سے مخاطب کرتے تھے اور آپس میں ہنستے تھے۔حضرت سعد بن مُعاذ رضی اللہ عنہ نے ان سے یہ کلمہ سُنا ،آپ رضی اللہ عنہ اُن کی(یہودیوں کی)لغت جانتے تھے۔حضرت سعد بن مُعاذرضی اللہ عنہ نے یہود سے کہا۔تم پر اللہ کی لعنت ہو،اب اگر میں نے تم میں سے کسی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے کہتے سنا تو تمہاری گردن اُڑا دوں گا۔یہود نے کہا۔کیا تم یہ کلمہ نہیں کہتے ہو؟تو یہ آیت نازل ہوئی ۔اور مسلمانوں کو اس سے منع کیا گیا تا کہ لفظ میں یہود اقتداء نہ کریںاور اس سے وہ فاسد معنی قصد نہ کریں۔علامہ قرطبی آگے لکھتے ہیں،اللہ تعالی نے اس ارشاد’’وَقُولُوانظُرنَا‘‘میں مسلمانوں کو حکم دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو عزت و احترام سے مخاطب کرو۔(یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر کر و)مطلب یہ کہ ہماری طرف توجہ فرمائیں،ہماری طرف نظر کرم کریں۔‘‘(تفسیر قرطبی ،سورہ البقرہ آیت نمبر ۱۰۴؎)۔
گستاخی کا دروازہ بند کر دیا
اللہ رب العزت کو سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں ذرا سی بھی بے ادبی گوارا نہیں ہے۔اس لئے اس لفظ کو کہنے سے منع فرما کر ہمیشہ کے لئے گستاخی کا دروازہ ہی بند کردیا۔سورہ البقرہ کی آیت نمبر ۱۰۴؎ کی تفسیر میں مفتی احمد یار خان نعیمی لکھتے ہیں۔’’لَا تَقُو لُو رَاعِنَا‘‘ہمارے بنی صلی اللہ علیہ وسلم سے آئندہ ’’راعنا‘‘نہ کہنا۔یہ لفظ مراعات کا امر ہے،جس کا معنی ہے ’’رعایت کرنا‘‘۔صحابہء کرام رضی اللہ عنہم عرض کرتے تھے ’’راع‘‘رعایت فرمائیے’’نا‘‘ہماری۔مگر یہودی زبان میں یہ گالی تھی،یا وہ کسی قدر کھینچ کر بولتے تھے جو کہ ’’راعینا‘‘بن جاتا تھا۔یعنی ہماراچرواہا(راعی چرواہے کو کہتے ہیں)یا وہ رعونت سے بناتے تھے،جس کے معنی حماقت کے ہیں،تو راعنا کے معنی ہوئے احمق،اور وہ دل میں خوش ہوتے تھے۔نیز ویسے بھی اس لفظ میں بے ادبی کا احتمال ہے۔کیونکہ یہ باب مفاعلہ سے ہے۔جس کے معنی یہ ہوئے ،آپ ہماری رعایت کریں ہم آپ کی۔اس میںنبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ برابری کا شائبہ پایا جاتا تھا۔یہ خود سری کا حکم معلوم ہوتا تھا کہ یا حبیب اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم )میرے کلام کی رعایت کیجئے،اس سے بے پرواہی نہ کیجئے،کسی اور کے مشغول نہ ہوجایئے۔ان وجہوں کی بنا پر مسلمانوں کو اس سے روک دیا گیا کہ تم اگر چہ سادگی سے کہتے ہو ،مگر اس جفظ کے دوسرے خلاف معنی بھی ہیں۔یا اوروں کو اس سے بے ادبی کرنے کا موقعہ مل جاتا ہے۔لہٰذا تم اچھی نیت سے بھی نہ بولو۔بلکہ’’ وقولواانظرنا ‘‘کہو۔یعنی اگر کہنا بہت ضروری ہے تو یہ لفظ بول دیا کرو۔یعنی ہمیں مہلت دیجئے یا ہماری طرف نظر کرم فرمایئے۔بلکہ اس سے بہتر تو یہ ہے کہ ’’واسمعوا‘‘پہلے سے ہی فرمان عالی غور سے سن لیا کرو ،تاکہ تمہیں یہ عرض کرنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے ۔اس کے بعد مفتی صاحب آگے ’’خلاصہ تفسیر ‘‘میں لکھتے ہیں۔اے ایمان والو،تم ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نیک نیتی اور صفائی دل کے ساتھ لفظ ’’راعنا‘‘بول دیتے ہو۔جس کا یہ مطلب ہوتا ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وسلم)،ہم نے یہ بات نہیں سنی ،ہم پر نظر کرم فرمائیں اور دوبارہ فرمادیں۔مگر تمہارے اس لفظ کے خراب معنی بھی ہیں،اور اس سے دشمنوں کو بے ادبی اور گستاخی کرنے کا موقع مل جا تا ہے۔لہٰذا تم یہ لفظ اچھی نیت سے بھی بولنا چھوڑ دو۔تاکہ گستاخی کا دروازہ بند ہو جائے۔اور بجائے اس کے ’’انظرنا‘‘کہہ دیا کرو،اس سے تمہارا مقصد پورا ہو جائے گا۔تا کہ عرض ومعروض کی ضرورت ہی نہ پڑے۔یا ہمارا یہ حکم کان کھول کر سُن لو۔اب س؎اس کی خلاف ورزی نہ ہو،اب جو کوئی ’’راعنا‘‘کہے گا وہ کافر ہوگا۔کافروں کے لئے دردناک عذاب ہے۔(تفسیر نعیمی ،سورہ البقرہ آیت نمبر ۱۰۴؎)۔
یہودیوں کی شرارت کو ختم کر دیا
سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں یہود(بنی اسرائیل)اپنی سازشی ذہنیت اور حسد کی وجہ سے بد تمیزی کرنے کے بہانے تلاش کرتے تھے۔اللہ رب العزت نے ان کی شرارتوں کو ہی ختم کر دیا۔سورہ البقرہ کی آیت نمبر ۱۰۴؎ کی تفہیم میں مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی لکھتے ہیں۔’’یہودی جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آتے ، تو اپنے سلام اور کلام میں ہر ممکن طریقے سے اپنے دل کا بخار نکالنے کی کوشش کرتے تھے۔ذُو معنی الفاظ بولتے ،زور سے کچھ کہتے اور زیر لب کچھ اور کہ دیتے ،اور ظاہری ادب آداب بر قر ار رکھتے ہوئے در پر دہ آ پ صلی ا للہ علیہ وسلم کی(نعوذ با للہ) تو ہین میں کوئی دقیقہ اُٹھا نہ رکھتے تھے۔قرآ ن میں آگے چل کر اس کی متعد دمثا لیںبیا ن کی ہیں۔یہاں جس خا ص لفظ کے استعما ل سے مسلما نوں کو روکا گیا ہے،یہ ایک ذو معنی لفظ تھا ۔جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی گفتگو کے دوران میں یہودیوں کو کبھی یہ کہنے کی ضرورت ہیش آتی کہ ’’ٹھیریے ،ذرا ہمیں یہ بات سمجھ لینے دیجئے ‘‘تو وہ ’’راعنا‘‘کہتے تھے۔اس لفظ کا ظا ہری مفہوم تویہ تھا کہ ’’ذرا ہماری رعایت کیجیے‘‘یا ہماری بات سُن لیجیے۔مگر اس میں کئی احتمالات اور بھی تھے۔مثلاًعبرانی میں اس سے ملتا جلتا ایک لفظ تھا، جس کا معنی تھے ’’سُن تو بہرہ ہو جائے‘‘اور خود عربی میں اس کے ایک معنی صاحب ِرعونت اور جاہل و احمق کے بھی تھے۔اور گفتگو میں ایسی موقع پر بھی بولا جا تا تھا،جب یہ کہنا ہو کہ تُم ہماری سُنو تو ہم تمہاری سنیں۔ اور ذرا زبان کو لچکادے کر ’’راعینا‘‘بھی بنا لیا جاتا تھا۔جس کے معنی ’’اے ہمارے چرواہے‘‘کے تھے۔اس لئے مسلمانوں کو حکم دیا گیا کہ تُم اس لفظ کے استعمال سے پرہیز کرو۔اور اس کے بجائے ’’اُنظرنا‘‘کہا کرو،یعنی ہماری طرف توجہ فرمائیں یا ذرا ہمیں سمجھ لینے دیجیے۔پھر فرمایا کہ ’’توجہ سے سُنو‘‘یعنی یہودیوں کو تو با ر بار یہ کہنے کی ضرورت اس لئے پیش آتی ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر توجہ نہیں کرتے ہیں ۔اور اُن کی تقریر کے دوران میں وہ اپنے ہی خیالات میں اُلجھے رہتے ہیں۔مگر تمہیں غور سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں سننی چاہییں،تاکہ یہ کہنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئے۔(تفہیم القرآن،سورہ البقرہ آیت نمبر ۱۰۴؎،حاشیہ نمبر ۱۰۸؎)۔
اُس کی گردن اُڑا دو
سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہء کرام رضی اللہ عنہم ،اآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بہت زیادہ ادب،تعظیم اور توقیر کرتے تھے۔جب اس آیت کے ذریعے اُنہیں یہودیوں کی شرارت کا علم ہوا تو اُنہوں نے فوراً اس لفظ کا استعمال بند کردیا۔اور طے کیا کہ اب جو بھی یہ لفظ کہے گا تو اُس کی گردن اُڑا دی جائے گی۔سورہ البقرہ کی آیت نمبر ۱۰۴؎کی تفسیر میں امام جلال الدین سیوطی لکھتے ہیں۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔’’یہود کی زبان میں ’’راعنا‘‘قبیح گالی ہے،یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے آہستہ استعمال کرتے تھے۔جب صحابہء کرام رضی اللہ عنہم نے یہود کو یہ لفظ استعمال کرتے سنا تو وہ اعلانیہ کہنے لگے۔یہود یہ لفظ استعمال کرتے اور آپس میں ہنستے تھے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔(دلائل النبوۃ،امام ابو نعیم)علامہ محمد بن جری طبری لکھتے ہیں۔کہ یہود مالک بن صیف اور رفاعہ بن زید وغیرہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملتے تو کہتے’’رَاعِنَا سَمعَکَ وَاسمَع غَیرَمُسمَع‘‘(ہماری طرف متوجہ ہو،سنو کبھی نہ سنو)مسلمانوں نے سمجھا کہ یہ کوئی ایسا جملہ ہے جس کے ساتھ اہل کتاب اپنے انبیاء علیہم اسلام کی تعظیم کرتے ہیں،تو مسلمانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے استعمال کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔اے ایمان والو ’’راعنا‘‘نہ کہو۔(تفسیر طبری)حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ لفظ یہود کی زبان میں گالی تھا۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا تم ’’انظرنا‘‘کہو۔مراد یہ تھا کہ ہمیں پھر سے اپنا ارشاد سنایئے۔اس آیت کے نزول کے بعد مو منین کہتے تھے کہ جس کو تم یہ لفظ استعمال کرتے ہوئے سنو تو اُس کی گردن اڑادو ۔(جب یہود نے صحابہء کرام رضی اللہ عنہم کو اتنا سخت دیکھا)تو یہود اس کے بعد اس لفظ کے استعمال سے رُک گئے۔(تفسیر در المنثور سورہ البقرہ آیت نمبر ۱۰۴؎)۔
اللہ رب العزت نے نا پسند فرمایا
اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے ذریعے مسلمانوں کو بتایا کہ یہود کس طرح اُن سے اور ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے حسد کرتے ہیں ،اور مذاق اُڑانے کی کو شش کرتے ہیں۔سورہ البقرہ کی آیت نمبر ۱۰۴؎ کی تفسیر میں علامہ محمد بن جریر طبری لکھتے ہیں۔حضرت قتادہ رحمتہ اللہ علیہ(جلیل القدر تابعی)’’لا تقولوراعنا‘‘فرماتے ہیں کہ یہود یہ کلمہ بطور استہزاء کہتے تھے ۔اللہ رب العزت نے مومنین کی زبان سے ایساکلمہ کہنے کو پسندنہیں فرمایا ۔اور یہود ’’راعنا سمعک‘‘کہتے تھے ۔(اُن کی بات سن کر )یہا ں تک کہ مسلمانوں نے بھی کہناشروع کر دیا۔اللہ رب العزت نے مسلمانوں کے لئے یہود کی بات کو پسند نہیں فرمایا۔ (تفسیر طبری)امام جلال الدین سیوطی ،امام ابن المنذر،اور امام ابن ابی حاتم کے حوالے سے لکھتے ہی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشریف لے جاتے تھے تو مومنین میں سے جسے کوئی کام ہوتا تو پکار کر ’’راعنا سمعک‘‘کہتے تھے تو اللہ رب العزت نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے یہ بھی کہنا پسند نہیں فرمایا۔اور حکم دیا کہ ’’اُنظرنا‘‘کہو ،تاکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و توقیر کریں۔(تفسیر در المنشور،سورہ البقرہ آیت نمبر ۱۰۴؎)۔علامہ غلام رسول سعیدی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔’’اس آیت میں یہود کے ایک عناد اور حسد کو بیان فرمایا ہے۔وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام کرتے ہوئے ایسا لفظ استعمال کرتے تھے،جس سے گستاخی کا پہلو نکلتا تھا۔تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اس لفظ کے استعمال سے منع فرما دیا۔علامہ قرطبی لکھتے ہیں۔حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مسلمان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ’’راعنا‘‘کہتے تھے،یعنی ہماری رعایت فرمایئے اور ہماری طرف التفات اور توجہ فرمایئے۔جب کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی تو تو وہ اس موقع پر اس لفظ کا استعمال کرتے تھے۔یہود کی لغت میں یہ لفظ بد دعا کے لئے تھا،اور اس کا معنی ’’سنو ،تمہاری بات نہ سنی جائے‘‘ تھا۔یہود نے اس موقع کو غنیمت جانا اور کہنے لگے کہ پہلے ہم ان(صلی اللہ علیہ وسلم )کو تنہائی میں بددعا دیتے تھے۔اور اب لوگوں میں بر سر مجلس ان کو بددعا دینے کا موقع ہاتھ آ گیا ہے۔وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مخاطب کر کے ’’راعنا‘‘کہتے تھے،اور آپس میں ہنستے تھے۔حضرت سعد بن مُعاذ رضی اللہ عنہ کو یہود کی لغت کا علم تھا۔اُنہوں نے جب اُن سے یہ لفظ سنا تو یہود سے فرمایا۔تُم پر اللہ کی لعنت ہو،اگر میں نے آئندہ تُم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ لفظ کہتے سنا تو تُمہاری گردن اُڑا دوں گا۔یہود نے کہا ،کیا تم لوگ یہ لفظ نہیں کہتے ہو؟اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی اور مسلمانوں سے کہا گیا (جب کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو)تُم ’’راعنا‘‘نہ کہو بلکہ ’’انظرنا‘‘(ہم پر نظر رحمت اور مہر بانی فرمائیں)کہو۔تاکہ یہود کو یہ موقع نہ ملے کہ وہ صحیح لفظ کا غلط معنی استعمال کرسکیں۔اور پہلے ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات غور سے سن لیا کرو،تاکہ یہ نوبت ہی نہ آئے۔(تفسیر تبیان القرآن،سور البقرہ ۱۰۴؎)۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×