افکار عالم

مسجد اقصی کے احاطے میں اسرائیلی فورسز ایک بار پھر داخل، کشیدگی میں اضافہ

مقبوضہ بیت المقدس (یروشلم)میں اسرائیلی پولیس فلسطینیوں کے ساتھ جھڑپوں کے دو دن بعد دوبارہ حساس مقدس مقام مسجد اقصیٰ کے احاطے میں داخل ہو گئی ہے۔ پولیس نے اتوار کو علی الصباح ہی فلسطینیوں کو مسجد کے باہر پھیلے ہوئے احاطے سے نکال دیا جبکہ درجنوں فلسطینی عمارت کے اندر’’اللہ اکبر‘‘کا نعرہ لگاتے رہے۔جمعہ کو بھی اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے مسجد اقصیٰ پر دھاوا بولا تھا اور وہاں موجود فلسطینیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا تھا جس سے 152 فلسطینی زخمی ہوگئے تھے۔ اسرائیلی پولیس کا کہنا ہے کہ وہ یہودیوں کے مقدس مقام کے معمول کے دورے کو آسان بنانے کے لیے داخل ہوئی ہے۔فلسطینیوں نے تشدد کی توقع میں پتھروں کا ذخیرہ کیا ہے اور رکاوٹیں کھڑی کی ہیں۔ پولیس نے کہا کہ وہ یہود اور مسلمانوں کو عبادت کی آزادی کا عمل آسان بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔  اس دوران میں فلسطینیوں نے مسجد کے احاطے کے بالکل باہر اسرائیلی پولیس کے ساتھ مختصر جھڑپوں کی اطلاع دی ہے۔ فلسطینی طبی عملہ نے بتایا کہ 10 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ مسجد اقصیٰ اسلام میں تیسرا مقدس ترین اور یہودیوں کے لیے مقدس ترین مقام ہے۔یہود اس کو ہیکل سلیمانی کا مقام کہتے ہیں۔ یہ طویل عرصے سے اسرائیلی سکیورٹی فورسزاور یہود کی فلسطینیوں کے ساتھ تشدد آمیزجھڑپوں کا ایک اہم مقام رہا ہے۔ گذشتہ سال یروشلم میں اسرائیلی فورسز اور فلسطینی مظاہرین کے درمیان جھڑپوں کے نتیجے میں غزہ کی پٹی میں اسرائیل اور حماس کے عسکریت پسندوں کے درمیان جنگ چھڑ گئی تھی اور یہ گیارہ روزتک جاری رہی تھی۔ پولیس نے یہ بھی بتایا کہ پتھر پھینکنے والوں نے قدیم شہر کے قریب مشرقی یروشلم میں بسوں پر حملہ کیا تھا۔ان بسوں پر یہودی زائرین سوار تھے،ان میں سے بعض کو نقصان پہنچا ہےاور پولیس کے بہ قول بعض مسافروں کو ہلکی چوٹیں لگی ہیں۔صہیونی پولیس نے بسوں پر پتھراؤ کے الزام میں دو مشتبہ افراد کو گرفتار کرلیا ہے اورمزید کی تلاش جاری تھی۔ گذشتہ جمعہ کو بھی علی الصباح جھڑپیں شروع ہو گئی تھیں۔پولیس نے فلسطینیوں پر یہود کے مقدس مقام مغربی دیوار کی طرف پتھراؤ کا الزام عاید کیا اور اس کی نمازِفجر کے فوراً بعد درجنوں فلسطینیوں کے ساتھ جھڑپیں ہوئی تھیں۔ان واقعات کی فوٹیج میں اسرائیلی پولیس کے اہلکاروں کو فلسطینی پیروجوان کو بلاتمیز تشدد کا نشانہ بناتے دیکھا گیا تھا۔ پہاڑی پر واقع مسجد اقصیٰ یروشلم کے پرانے شہر میں ہے جہاں یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کے لیے مقدس مقامات ہیں۔اس سال مسلمانوں کا مقدس مہینہ رمضان، عیسائیوں کا مقدس ہفتہ ایسٹر سنڈے میں اختتام پذیرہورہا ہے اور ہفتہ بھر جاری رہنے والا یہودی فسح سب ایک ہی وقت میں آئے ہیں۔کرونا وائرس کی پابندیاں ختم ہونے کے بعد ہزاروں زائرین شہرقدیم کا رُخ کر رہے ہیں۔ اسرائیل نے 1967 کی جنگ میں مغربی کنارے اور غزہ کے ساتھ مشرقی یروشلم پر قبضہ کر لیا تھا جس میں قدیم شہر بھی شامل ہے۔ فلسطینی تینوں علاقوں پرمشتمل مستقبل میں اپنی ریاست کا قیام چاہتے ہیں۔اسرائیل نے مشرقی یروشلم کو قبضے کے بعد ریاست میں ضم کرلیا تھا لیکن بین الاقوامی سطح پراس کے اقدام کو کبھی تسلیم نہیں کیا گیا اور وہ مقبوضہ مغربی کنارے میں یہودی آبادکاروں کے لیے بستیوں کی تعمیروتوسیع کر رہا ہے۔ دیرینہ مفاہمت کے تحت یہودی زائرین کو ہیکل ماؤنٹ پر نماز ادا کرنے سے روک دیا جاتا ہے اور کئی دہائیوں تک یہودی مذہبی وجوہات کی بنا پر وہاں عبادت سے گریز کرتے رہے ہیں۔ اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس جوں کی توں صورت حال (اسٹیٹس کو) برقرار رکھنے کے لیے پرعزم ہیں لیکن حالیہ برسوں میں قوم پرست اور مذہبی یہودیوں کے بڑے گروہ باقاعدگی سے پولیس محافظوں کے ساتھ اس جگہ کا دورہ کرتے رہے ہیں جسے فلسطینی اشتعال انگیزی سے تعبیر کرتے ہیں۔ اس طرح کے طریقوں نے فلسطینیوں میں ان خدشات کو ہوا دی ہے کہ اسرائیل مسجد اقصیٰ کے احاطے پر قبضہ کرنے یا اسے تقسیم کرنے کی سازش کر رہا ہے۔ ایک بنیاد پرست یہودی گروہ نے حال ہی میں لوگوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جانوروں کو فسح کے لیے قربان کرنے کے لیے اس جگہ پر لائیں اور کامیاب ہونے یا کوشش کرنے والوں کو نقد انعامات کی پیش کش کی ہے۔اسرائیلی پولیس اس طرح کی سرگرمیوں کی روک تھام کے لیے کام کرتی ہے لیکن فلسطینیوں کی جانب سے یہ کال سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر پھیلائی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ مسلمانوں سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ کسی بھی قربانی کو ہونے سے روک دیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×