عالمی خبریں

پشاور میں مدرسے سے متصل مسجد کے اندر دھماکہ‘ 8؍ہلاک، 90 سے زیادہ زخمی

اسلام آباد: 27؍اکتوبر (بی بی سی) پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں مدرسہ زبیریہ سے متصل مسجد کے اندر ہونے والے دھماکے میں حکام کے مطابق کم از کم آٹھ افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے ہیں۔ یکہ توت پولیس تھانے کے اہلکار نے بی بی سی کے عزیز اللہ خان کو بتایا کہ یہ دھماکہ پیر کی صبح پشاور کی دیر کالونی میں واقع سپین جماعت نامی مسجد و مدرسے میں ہوا ہے۔

پشاور کے سی سی پی او محمد علی خان کا کہنا ہے کہ دھماکہ صبح ساڑھے آٹھ بجے ہوا جب بچے قرآن کی تلاوت کر رہے تھے۔ ان کے مطابق ابتدائی تحقیقات سے لگتا ہے کہ پانچ سے چھ کلو دھماکہ خیز مواد استعمال کیا گیا جسے ایک بیگ میں رکھا گیا تھا۔

ریسکیو 1122 کے ترجمان بلال فیضی کے مطابق دھماکے کے مقام پر گڑھا پڑا ہوا ہے۔

خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر تیمور جھگڑا نے واقعے کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے اس دھماکے میں سات افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی جبکہ ان کا کہنا تھا کہ 70 سے زیادہ زخمیوں کو جائے وقوعہ سے لیڈی ریڈنگ ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ زخمیوں میں بچے بھی شامل ہیں جبکہ کچھ زخمیوں کو دیگر ہسپتالوں میں بھی لے جایا گیا ہے۔ صوبائی وزیر کا کہنا تھا کہ اس وقت مکمل توجہ زخمیوں کو علاج معالجے کی بہتر سہولیات کی فراہمی پر ہے۔

تاہم بعدازاں لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے ترجمان محمد عاصم نے ایک بیان میں بتایا کہ اس دھماکے میں ہلاک شدگان کی تعداد آٹھ ہو گئی ہے۔ ان کے مطابق دھماکے کے بعد سات لاشیں ہسپتال لائی گئی تھیں جبکہ ایک زخمی نے ہسپتال میں دم توڑا ہے۔

ترجمان کے مطابق تمام ہلاک شدگان کی لاشوں کو شناخت کے بعد ورثا کے حوالے کر دیا گیا ہے۔

ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہسپتال میں جن 95 زخمیوں کو لایا گیا تھا ان میں سے 40 کو ابتدائی طبی امداد کے بعد فارغ کر دیا گیا ہے۔

لیڈی ریڈنگ ہسپتال کے عملے کے مطابق ہسپتال میں زیر علاج زخمیوں میں سے دو افراد کی حالت تشویشناک بتائی جا رہی ہے۔

ہسپتال کے ترجمان کے مطابق جو لاشیں اور زخمی ہسپتال لائے گئے ہیں ان میں بیشتر کے جسم جلے ہوئے ہیں اور جسم میں چھرے بھی موجود ہیں اور ان میں سے ذیادہ تر کو ایل آر ایچ برن یونٹ اور ای این ٹی کے شعبے میں منتقل کیا گیا ہے۔

یہ مسجد رنگ روڈ پر دیر کالونی میں واقع ہے اور مسجد سے چند قدم کے فاصلے پر ایک گلی میں مدرسہ ہے جو دارالعلوم زبیریہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ مدرسہ مولانا سمیع الحق کے مدرسے دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک سے وابستہ ہے۔

مسجد میں موجود افراد نے بتایا کہ اس مدرسے میں طلبا کی تعداد دو ہزار سے زیادہ ہے جس وجہ سے صبح کے وقت ایک کلاس مسجد کے ہال میں ہوتی ہے۔

دیر کالونی قدیم اندرون شہر سے باہر واقع ہے۔ یہ علاقہ گنجان آباد ہے اور یکہ توت تھانے کی حدود میں واقع ہے۔ اس علاقے میں اس سے پہلے بھی تشدد کے واقعات پیش آ چکے ہیں۔

مسجد میں موجود لوگوں کے مطابق مدرسے میں زیر تعلیم بیشتر طلبا کا تعلق پشاور سے باہر کے علاقوں سے ہے جبکہ اس مدرسے میں افغان طالب علم بھی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

ایک عینی شاہد نے بتایا کہ جس وقت دھماکہ ہوا اس وقت وہ اس ہال میں داخلی دروازے کے ساتھ بیٹھے تھے۔ دھماکے کے بعد ہر طرف دھواں چھا گیا اور آگ لگ گئی تھی۔ انھوں نے بتایا کہ دھماکے کے بعد انھیں کچھ نظر نہیں آ رہا تھا اور نہ ہی کچھ سنائی دے رہا تھا۔

ادھر پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے نجی چینل سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے بہتر حفاظتی انتظامات کرنے کی ضرورت ہے۔

خیبر پختونخوا کے معاون خصوصی برائے اطلاعات کامران بنگش نے بھی کہا کہ اس حوالے سے شہر میں سکیورٹی سخت تھی۔ ان کے مطابق یہ ایک بڑا سانحہ تھا لیکن اگر سکیورٹی الرٹ نہ ہوتی تو اس سے بھی زیادہ ہلاکتیں ہو سکتی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلی خیبر پختونخوا نے اس حوالے سے ایک ہنگامی اجلاس بھی طلب کیا ہے۔

سوشل میڈیا پر ردعمل

پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے پشاور دھماکے پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ٹوئٹر پر لکھا: ‘میں اپنی قوم کو یہ یقین دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اس بزدلانہ وحشیانہ حملے کے ذمہ داران کو جلد از جلد انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔‘

سحر طارق نے لکھا: ’ایک دہشتگرد حملہ ہمیشہ ہی سانحہ ہوتا ہے لیکن ایسا حملہ جس میں بچوں کو نشانہ بنایا گیا ہو ناقابل برداشت شیطانی سانحہ ہوتا ہے۔ میں امید کرتی ہوں کہ ایسے منصوبے بنانے اور ان پر عمل کرنے والوں کو قسمت ٹھکانے لگائے گی۔‘

تجزیہ کار ندیم فاروق پراچہ نے لکھا کہ سنہ 2015 میں دہشتگردی کی روک تھام کے لیے جو اقدامات کیے گئے ان پر پانی پھر گیا۔ اتفاق رائے کی بجائے حکومت اور ریاست نے تقسیم کی بنیاد رکھی۔

انھوں نے مزید لکھا ’دشمن جسلوں میں نہیں بلکہ گیٹ پر ہے۔ کچھ ہوش کرو۔‘

نبیل قدیر نے لکھا: ’بچوں کی موت پر سوگ ایک فطری عمل ہے لیکن جب بھی ایسے واقعات ہوتے ہیں تو ضروری ہے کہ ذمہ داران کی شناخت کر کے ان کی مذمت کی جائے۔‘

انھوں نے سوالیہ انداز میں مزید لکھا: ’غیر مستحکم پاکستان کسے چاہیے؟ ہمسایوں کی ایسی پیشکش، جو نقصان کا باعث بنیں، انھیں مسترد کیا جائے۔ سوچیں اور عمل کریں۔‘

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×