نئے سال كى آمد اور همارى ذمه دارياں
زندگی اللہ پاک کا عظیم عطیہ اور قیمتی امانت ہے،اس کا درست استعمال انسان کے لیے دنیوی کامیابی اور اخروی سرفرازی کا سبب ہے اوراس کا ضیاع انسان کو ہلاکت وبربادی کے دہانے تک پہونچادیتا ہے۔
دنیا کےتمام مذاہب اور قوموں میں تہوار اور خوشیاں منانے کے مختلف طریقے ہیں ۔ہر ایک تہوار کا کوئی نہ کوئی پس منظر ہے اور ہر تہوار کوئی نہ کوئی پیغام دے کر جاتا ہے جن سےنیکیوں کی ترغیب ملتی ہے اور برائیوں کو ختم کرنے کی دعوت ملتی ہے ۔ لیکن لوگوں میں بگاڑ آنےکی وجہ سے ان میں ایسی بدعات وخرافات بھی شامل ہوگئی ہیں کہ ان کا اصل مقصد ہی فوت جاتا ہے ۔جیسے جیسے دنیا ترقی کی منازل طے کرتی گئی انسانوں نےکلچر اور آرٹ کےنام سے نئے نئے جشن اور تہوار وضع کیےانہی میں سے ایک نئے سال کاجشن ہے ۔ نئے سال کےجشن میں دنیا بھر میں رنگ برنگی لائٹوں اورقمقمو ں سے اہم عمارتوں کوسجایا جاتا ہے اور 31؍دسمبر کی رات میں 12؍بجنے کا انتظار کیا جاتا ہے۔ 12؍بجتے ہی ایک دوسرے کو مبارک باد دی جاتی کیک کاٹا جاتا ہے ، ہرطرف ہیپی نیوائیر کی صدا گونجتی ہے،آتش بازیاں کی جاتی ہے اور مختلف نائٹ کلبوں میں تفریحی پروگرام رکھا جاتا ہےجس میں شراب وشباب اور ڈانس کابھر پور انتظام رہتا ہے ۔دراصل نئے سال کا جشن عیسائیوں کاایجاد کیا ہے۔ان کے عقیدے کےمطابق 25؍دسمبر کو سید نا عیسی کی پیدائش ہے اسی خوشی میں کرسمس ڈے منایا جاتا ہے جس کی وجہ سے پوری دنیا میں جشن کی کیفیت رہتی ہے اور یہی کیفیت نئے سال کی آمد تک برقرار رہتی ہے ۔آج عیسائیوں کی طرح بہت سے مسلمان بھی نئے سال کے منتطر رہتے ہیں اور 31؍دسمبر کا بے صبری سے انتظار رہتا ہے ۔ مسلمانوں نے اپنی اقدار اورروایات کو کم تر اور حقیر سمجھ کر نئے سال کا جشن منانا شروع کردیا ہے ۔جب کہ یہ عیسائیوں کا ترتیب دیا ہوا نظام تاریخ ہے ۔ مسلمانوں کااپنا قمری اسلامی نظام تاریخ موجود ہے جو نبی کریم ﷺ کی ہجرت سے مربوط ہے جس کا آغاز محرام الحرام سے ہوتا ہےیہی اسلامی کلینڈر ہے لیکن افسوس تو یہ ہےکہ ہم میں سےاکثرکو اس کاعلم بھی نہیں ہو پاتا۔
نیا سال شروع ہونے کو ہے، دنیا کے مختلف ممالک میں نئے سال کا مختلف طریقوں سے استقبال کیا جاتا ہے، ہر طرف دکانوں میں نیو ایئر کارڈس فروخت ہورہے ہیں، کیلنڈر دیواروں سے اتارے جارہے ہیں اور سن عیسوی کے ہندسے بدل جائیں گے، نیا سال شروع ہوجائے گا، نئے سال کی آمد کے موقع پر ہر کوئی جشن کا ماحول بنا رہا ہے، ساری دنیا میں لوگ اس موقع پر اپنے اپنے انداز سے جشن منانے کی تیاریوں میں مصروف ہیں، اس موقع پر نوجوان کچھ زیادہ ہی پرجوش نظر آتے ہیں، کہیں فون وغیرہ کے ذریعہ مبارک بادیاں دی جاتی ہیں تو کہیں ٹیکسٹ میسیج کے ذریعہ مبارک بادیوں کا سلسلہ چلتا ہے، کہیں نئے سال کے موقع پر پر تکلف جشن منایا جاتا ہے، الغرض غیر مسلم بڑے جوش وخروش سے اس کو مناتے ہیں اور ہمارے مسلم نوجوان بھی ان سے پیچھے نہیں ہیں، اب آپ خود فیصلہ کریں کہ غیروں میں اور ہم میں کیا فرق رہ گیا؟
در حقیقت نئے سال میں نیا پن کچھ بھی نہیں بلکہ سب کچھ ویسا ہی ہے، دن، رات، زمین، آسمان، سورج اور چاند سب کچھ وہی ہے اور وقت کی کڑوی یادیں بھی اسی طرح ہمارے ساتھ ہیں. یہ دیکھا جاتا ہے کہ نئے سال کے آغاز کے موقع پر ہمارے بہت سارے مسلم اور آج ايك بڑى تعداد بالخصوص نوجوان خوشیاں مناتے وقت وہ ناجائز اور نامناسب ایسے کام کرتے ہیں، جنہیں ایک سلیم العقل انسان اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا اور نہ ہی انسانی سماج کیلئے وہ کام کسی طرح مفید ہے بلکہ حد درجہ مضر ہے. مثال کے طور پر 31 دسمبر اور 1 جنوری کے بیچ کی رات میں نئے عیسوی سال کے آغاز کی خوشی مناتے ہوئے بڑی مقدار میں پٹاخے بجائے جاتے ہیں اور آتش بازیاں کی جاتی ہیں کیک کاٹے جاتے ہیں سال2020 ءرخصت ہورہا ہے اس لئے ضروری ہے کہ آنے والے سال کے بارے میں تھوڑا وقت نکال کر اپنا محاسبہ کريں کہ میں نے اس سال کیا پایا اور کیا کھویا؟ مجھے اس سال کیا کرنا چاہیئے تھا اور کن چیزوں کو نہ کرنا میرے لئے بہتر تھا، میں نے کن لوگوں کا دل دکھایا؟ اور کس قدر مجھ سے گناہ ہوا؟ میں نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر پر کتنے فیصد عمل کیا؟ مجھ سے کتنے لوگوں کو فائدہ پہنچا، میں نے کن سے ہمدردی کی، کس قدر گناہ مجھ سے ہوئے اور میں نے کن گناہوں کی معافی تلافی کی؟ ان تمام چیزوں کا ہمیں محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے، میری زندگی کا ایک سال کم ہوگیا اور میں نیکیوں سے محروم رہ گیا میرا وقت بے جا ضائع اور صرف ہوگیا. اور ہر آنے والا سال امیدیں اور توقعات لے کر آتا ہے اور انسان کے عزم کو پھر سے جوان کرتا ہے کہ جو کام پچھلے سال ادھورے رہ گئے انہیں اس سال مکمل کر لینا ہے، افراد کی طرح اقوام کی زندگی میں بھی نیا سال ایک خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے، یہ قوموں کو موقع فراہم کرتا ہے کہ گذشتہ غلطیوں سے سبق سیکھ کر آنے والے سال میں اسکی بھرپائی کرنے کی کوشش کریں. ایک سال کا مکمل ہونا اور دوسرے سال کا آغاز اس بات کا کھلا پیغام ہے کہ ہماری زندگی میں سے ایک سال کم ہوگیا ہے اور ہم اپنی زندگی کے اختتام کے مزید قریب ہوگئے ہیں. لہذا ہماری فکر اور بڑھ جانی چاہیئے اور ہمیں بہت ہی زیادہ سنجیدگی کے ساتھ اپنی زندگی اور اپنے وقت کا محاسبہ کرنا چاہیئے کہ ہمارے اندر کیا کمی ہے کیا کمزوری ہے کونسی بری عادت وخصلت ہم میں پائی جاتی ہے اسکو دور کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے، نیز اچھی عادتیں، عمدہ اخلاق وکردار کا وصف اپنے اندر پیدا کرنے کی مکمل کوشش کرنی چاہیئے۔
خود احتسابی کی ضرورت:
غورکیاجائے تونیا سال ہمیں دینی اور دنیوی دونوں میدانوں میں اپنا محاسبہ کرنے کی طرف متوجہ کرتاہے کہ ہماری زندگی کا جو ایک سال کم ہوگیا ہے اس میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟کیوں کہ وقت کی مثال تیز دھوپ میں رکھی ہوئی برف کی اس سیل سے دی جاتی ہے ؛جس سے اگر فائدہ اٹھایا جائے تو بہتر ورنہ وہ تو بہر حال پگھل ہی جاتی ہے۔
اگر سال 2020ء كا جائزه ليا جائے تو يه پورا سال كرونا وائرس جيسى مهلك بيمارى سے متاثر رها، اور دنيا كے اكثر ممالك اس بيمارى كى وجه سے لاك ڈاؤن لگانے پر مجبور هوئے، همارا ملك هندوستان بھى اس بيمارى كى وجه سے مكمل لاك ڈاون لگانے پر مجبور هوا مگر اچانك لاك ڈاون نے بهت سى پريشانيوں كو كھڑا كرديا جهاں ملك كا اكثر طبقه غريبى كى شرح سے نيچے زندگى گزار رها هے اور محنت ومزدورى كركے اپنا پيٹ پالتا هے، ايسے ميں ملك كے بڑے شهروں ممبئى اور دهلى سے لوگ اپنے وطن آنے پر مجبور هوئے مگر سوارى كى قلت كى وجه سے كس كس طرح كى دشواريوں كا سامنا هوا وه سارے مناظر هم نے اخباروں ميں پڑھے اور اس منظر كو زبانى بھى سننے كو ملا، اسى طرح اشيائے خورد ونوش كى قلت اور دقت اور اس كے حصول كے ليے رقم كى ضرورت ان سارى پريشانيوں كى وجه سے لوگ فاقه كشى پر مجبور هوئے اور كتنوں نے خود كشى كركے مجبورا موت كو گلے لگاليا۔
ايسے حالات ميں قوم كے بهت سے ذي شعور اور صاحب حيثيت افراد نے ان غريبوں اور فاقه كشوں كى هر ممكن مدد كى اور لوگوں كے گھروں پر راشن پهنچانا اور ضرورى قسم كى دوئيں مهيا كرانے ميں قابل قدر كوششيں كيں۔
ايسى صورت حال ميں معيشت برى طرح متاثر هوئى بهت سے نوكرى پيشه افرادكو كمپنيوں اور پرائيويٹ اداروں نے رخصت كرديا اور جن لوگوں كے خود كے كاروبار تھے انهيں بھى بهت زياده پريشانيوں كا سامنا هوا۔
اگر عالمى منظر نامه پر ديكھا جائے تو امريكى صدارتى انتخابات كى خبريں پورے سال ميڈيا كى زينت بنى رهى، اسى طرح امسال بهت سے علمائے كرام اور سياسى شخصيات اس عالم فانى سے رخصت هوئيں، اس ميں جوان بھى تھے، عمر دراز بھى تھے، مختلف شعبهائے زندگى سے تعلق ركھنے والى شخصيات بھى تھيں، كچھ ايسے علماء كرام امسال هم سے جدا هوئے كه ان كى خدمات كى بناء پركها جاسكتا هے كه ايسى شخصيتيں بهت كم پيدا هوتى هيں، ملك عزيز كے دو موقر تعليمى ادارے كى اهم شخصيت اس سال هم سے جدا هوئى، ايك دارالعلوم ديوبند كے شيخ الحديث وصدر المدرسين حضرت مولانا مفتى سعيداحمد صاحب پالن پورى دوسرے جامعه مظاهر علوم سهارن پور كے ناظم مولانا سيد سلمان صاحب سهارن پورى، اسى طرح ملى شخصيات ميں مولانا متين الحق اسامه قاسمى صدر جمعية علماء اتر پرديش، مولانا معزالدين احمد قاسمى ناظم امارت شرعيه دهلى اور بهت سى نامور شخصيات كى وفات كا غم سهنا پڑا، اسى طرح سياسى شخصيات ميں احمد پٹيل كا هم سے جدا هونا اس سال كا بڑا سانحه تھا۔
اس سال سب سے زياده تعليم متاثر هوئى ، تعليم گاهوں كو اس مهلك بيمارى كي وجه سے مجبورا بند كرنا پڑا اور اس كے متبادل كے ليے سوچنا پڑا مگر ملك كى بهت بڑى آبادى جن كى اكثريت ديهى علاقوں ميں رهائش هے وه موجوده ٹيكنالوجى سے بهت دور هيں ان كے ليےتعليم كا مسئله بهت پريشانى كا سبب بنا رها ، بعض اداروں نے آن لائن تعليم كا سلسله شروع كيا، اس پر بهت سے لوگوں كو شرح صدر نهيں تھا مگر مجبورا كچھ اداروں نے اس طرح تعليم جارى ركھنے كى كوشش كى۔ اسى طرح عبادت گاهيں بھى اس بيمارى كى وجه سے بهت دنوں تك بند رهيں، مساجد ميں صرف چند افراد كو جانے كى اجازت تھى ايسے ميں جمعه اور عيدين كے اجتماعات پر بھى پابندياں تھيں ، اس كے ليے ملك كے موقر دارالافتاء سے رجوع كرنا پڑا، اسى دوران رمضان كا مقدس مهينه بھى آيا وهاں بھى تراويح ميں چند افراد كو شركت كى اجازت تھى۔
ان تمام حالات نے هميں سوچنے پر مجبور كرديا كه اپنے بچوں كى ضرورى تعليم كا بندوبست هم خود كريں اسى طرح دينى مسائل كے سلسلے ميں كم از كم اتنے مسائل جو ضروريات دين ميں سے هيں ان كو سيكھنے اور اور سكھانے كى كوشش هميں خود كرنى هوگى۔ الله تعالى آنے والا سال همارے ليے بهتر بنائے اور هرطرح كى پريشانيوں سے همارى حفاظت فرمائے۔