اسلامیات

اسلام كا نظام عفت اور ويلن ٹائن ڈے

اسلام دين فطرت ہے، اس كے احكامات زندگى تمام گوشوں كو محيط ہيں، پيدائش سے لے كو موت تک زندگى كے تمام مراحل ميں انسان کو زندگى گزارنے كے ليے جس چيز كى بھى ضرورت پڑتى ہے شريعت مطهره ميں ان كے ليے بہترين لائحہ عمل موجود ہے۔
ہمارے نبى حضرت محمد صلى الله عليہ وسلم الله كے  آخرى نبى ہيں، آپ كى ذات پر نبوت ورسالت كا بابركت سلسلہ ختم ہوگيا، آپ نے اپنى زندگى ميں تمام امور كو كركے دكھلا ديا. اور قرآن كريم الله رب العزت كى آخرى كتاب ہے اس ميں ہميں تمام رہنمائياں ملتى ہيں، اسى وجہ سے رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمايا: "تَرَكْتُ فِيكُمْ أَمْرَيْنِ لَنْ تَضِلُّوا مَا تَمَسَّكْتُمْ بِهِمَا: كِتَابَ اللَّهِ وَسُنَّةَ رَسُولِهِ”. رَوَاهُ فِي "الْمُوَطَّأ”. [ ٨٩٩/٢، رقم: ١٥٩٤].” ميں تمہارے درميان دو چيزوں كو چھوڑ كر جارہا ہوں، تم كبھى بھى گمراه نہيں ہوگے جب تك كہ ان دونوں چيزوں كو مضبوطى سے پكڑے رهو گے۔ ايک الله كى كتاب قرآن كريم ہے اور دوسرے ميرى سنت اور طريقہ ہے۔ الله رب العزت نے قرآن كريم ميں ارشاد فرمايا: ﴿لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة﴾تمهارے ليے رسول الله صلى الله عليه وسلم كى زندگى بہترين نمونہ ہے، اب اگر الله كى كتاب اور آپ صلى الله عليه وسلم كے بتلائے ہوئے طريقے كے علاوه زندگى گزاريں گے تو كبھى بھى كامياب نہيں ہوں گے گرچہ بظاهر كاميابى نظر آرہى ہو۔
آج ہمارا الميہ يہ ہے كہ همارے تعليمى ادارے اور ان ميں تعليم حاصل كرنے والے طلبہ وطالبات مغربى تهذيب كى دلدل ميں ايسے گھر چكے ہيں كہ ان سے سوچنے سمجھنے كا شعور بھى ختم ہوتا نظر آرہا ہے۔آكسفورڈ، كيمبرج اور دوسرى مغربى يونيورسٹيوں كے طلباء كى تقليد ميں ہر وه كام كرنے ميں خوشى محسوس كرتے ہيں جس ميں بے شرمى وبے حيائى كا عنصر ہوتا ہے؛ ليكن چونكہ يورپ كى نقالى كرنا ہے تو بڑى ڈھٹائى سے اس كو منايا جاتا ہے  نہ ہی اس ميں  كوئى پشيمانى ہوتى ہے نہ كوئى ندامت۔
آج افسوس اس بات كا ہے كہ نسل نو اپنى تہذيب سے بيگانہ ہوتى جارہى ہے، اپنے اسلاف اور آباء واجداد سے نا آشنائى كا يہ عالم ہے كہ ہمارى اكثريت كو عشره مبشره صحابہ كرام رضی الله عنهم كے نام تک ياد نہيں، اس كے برعكس دنيا بھر كے كركٹرز فلمى ايكٹرز  كے نام ذہن نشين ہوتے ہيں۔ روز مره كى زندگى ميں اپنى تہذيب كو اپنانے كے بجائے مغربى تہذيب اپنانے پر توجہ صرف كرتے ہيں حتى كہ اسلامى تہواروں (عيدين وغيره) كو  بھى مغربى انداز سے گزارا جاتا ہے اور بہت سے لوگ اس كى وجہ جواز يہ پيش كرتے ہيں كہ ہم اكيسويں صدى ميں بحيثيت ايشيائى شير دنيا كے نقشے پر اپنا ظہور چاہتے ہيں، حالانكہ يہ اصول ہے كہ كسى قوم كا اپنى تہذيب وتمدن كو ترک كردينا  اور اغيار كى تہذيب كو اپنانا ترقى نہيں بلكہ تنزلى كى علامت ہے۔(ويلنٹائن ڈے تاريخ اور حقيقت صفحہ ١٧)۔
نبى اكرم صلى الله عليه وسلم نے جو معاشره قائم فرمايا اس كى بنياد حيا پر ركھى جس ميں زنا كرنا ہی نہيں بلكہ اس كے اسباب پھيلانا بھى ايک جرم   تھا۔ مگر اب لگتا ہے كہ نبى صلى الله عليه وسلم كے امتى حيا كے اس بھارى بوجھ كو  زياده دير تک اٹھانے كے ليے تيار نہيں؛ بلكہ وه اب حيا كے بجائے وہى كريں گے جو ان كا دل كرے گا۔ بخارى شريف كى روايت ہے، رسول الله  صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمايا: "إِذَا لَمْ تَسْتَحْيِ فَافْعَلْ مَا شِئْتَ” جب تم ميں حيا نہ رہے تو جو چاہے كرو۔ صحيح البخاري (٣٤٨٣)۔
اسلام محبت اور اخوت کا دین ہے اسلام چاہتا ہے کہ تمام لوگ محبت، پیار اور اخوت کے ساتھ زندگی بسر کریں مگر قابل افسوس بات یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں محبت کو غلط رنگ دے کر محبت کے لفظ کو بدنام کردیا گیا اور معاشرے میں محبت کی بہت ساری غلط صورتیں پیدا ہو چکی ہیں اس کی ایک مثال عالمی سطح پر ”ویلنٹائن ڈے ” کا منایا جانا ہے ہر سال۱٤ فروری کو عالمی یومِ محبت کےطور پر ” ویلنٹائن ڈے” کے نام سے منایا جانے والا اب یہ تہوار کی شکل میں ہر سال برصغير میں دیمک کی طرح پھیلتا چلا جارہا ہے ۔ اس دن جو بھی جس کے ساتھ محبت کا دعوے دار ہے اسے پھولوں کا گلدستہ پیش کرتا ہے۔
 *ویلنٹائن ڈے كيا ہے؟*
اس سلسلے میں تاریخ دو مختلف موقف بیان کرتی ہے، یہ دونوں موقف ایک ہی شخص سینٹ ویلنٹائن کے حوالے سے اکٹھے ہیں۔ اس دن کے حوالے سے یہ تمام خرافات تاریخ کے اوراق میں موجود ہیں، تاریخی شواہد کے مطابق ویلنٹائن کے آغاز کے آثار قدیم رومن تہذیب کے عروج کے زمانے سے چلے آرہے ہیں۔ ۱٤؍فروری کا دن وہاں رومن دیوی، دیوتاؤں کی ملکہ ’’جونو‘‘ کے اعزاز میں یوم تعطیل کے طور پر منایا جاتا تھا، رومی ’’جونو‘‘ ملکہ کو صنف نازک اور شادی کی دیوی کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
اس سلسلہ میں ایک واقعہ یہ بھی ملتا ہے کہ ویلنٹائن نام کا ایک معتبر شخص برطانیہ میں بھی تھا، یہ بشپ آف ٹیرنی تھا جسے عیسائیت پر ایمان کی جرم میں ۱٤؍ فروری ۲٦٩ء کو پھانسی دی گئی تھی۔ کہا جاتا ہے کہ قید کے دوران بشپ کو جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی اور وہ اسے محبت بھرے خطوط لکھا کرتا تھا، اس مذہبی شخصیت کے ان محبت ناموں کو ویلنٹائن کہا جاتا ہے۔
چوتھی صدی عیسوی تک اس دن کو تعزیتی انداز میں منایا جاتا تھا لیکن رفتہ رفتہ اس دن کو محبت کی یادگار کا رتبہ حاصل ہوگیا اور علاقہ میں اپنے منتخب محبوب اور محبوبہ کو اس دن محبت بھرے خطوط، پیغامات، کارڈز اور سرخ گلاب بھیجنے کا رواج پاگیا۔
اس کے بعد امریکہ اور جرمنی میں بھی منایا جانے لگا، اور پھر دھيرے دھيرے ان كى اتباع ميں يہ دن عالمى يوم محبت كے طور پر پورى دنيا ميں منايا جانے لگا۔ آج حال يہ ہے کہ اب يہ تہوار ہوگيا ہے اور ہر اعتبار سے يوم اوباشى اور يوم اباحت كى صورت اختيار كرچكا ہے۔
اس سلسلے ميں اسلام كى ہدايات بالكل واضح ہيں، اسلام ميں خوشى اور تہوار كے موقع كو بھى بتلاديا گيا ہے، عيد كے سلسلے ميں آپ صلى الله عليه وسلم كا حضرت ابوبكر سے يہ فرمانا: «يَا أَبَا بَكْرٍ، إِنَّ لِكُلِّ قَوْمٍ عِيدًا وَهَذَا عِيدُنَا» صحيح البخاري (٩٥٢) اے ابوبکر! ہر قوم کی اپنی ایک عید ہوتی ہے اور یہ ہماری عید ہے۔
اسى طرح  یہ دن محبت کا تہوار منانے میں بت پرست رومیوں اور پھر اہل کتاب عیسائیوں کے ساتھ مشابہت ہے کیونکہ انہوں نے اس میں رومیوں کی تقلید اور پیروی کی ہے اور یہ دن عیسائیوں کے دین میں نہیں ہے، اور جب دین اسلام میں عیسائیوں سے کسی ایسی چیز میں مشابہت سے ممانعت ہے جو ہمارے دین میں نہیں ہے؛ بلکہ ان عیسائیوں کے حقیقی دین میں نہیں ہے، تو پھر ایسی چیز جو انہوں نے تقلیداً ایجاد کرلی تو بطریق اولیٰ ممنوع ہے۔
رسول اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "من تشبه بقوم فهو منهم” جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ انہیں میں سے ہے۔(سنن ابي داؤد، رقم: ٣٥١٢)۔
اب اسلام كے نظام عفت وپاكدامنى پر ایک نظر ڈالتے ہيں تاكہ اس سلسلے ميں ہميں اسلامى احكامات وہدايات كا علم ہوسكے۔
اللہ پاک کے احسانات میں سے ایک عظیم احسان یہ ہے کہ شہوت کے استعمال کا جائز طریقہ نکاح بتایا تاکہ اس کے ذریعہ شہوت کی آگ کو ٹھنڈا کیا جاسکے، اس کے شعلوں کو بجھایا جاسکے، بلاشبہ نکاح سے ہی انسان شہوت کو جائز طریقے سے پورا کرسکتا ہے اورعفت جیسی صفت سے متصف ہوسکتا ہے اسی عفت کی اہمیت کا احساس دلانے کے لیے ان الفاظ کو قرآن میں محفوظ کردیا جن الفاظ سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم عورتوں سے بیعت لیتے تھے کہ وہ بدکاری نہ کریں گی چناچہ فرمایا :  ﴿وَلَایَزْنِیْنَ وَلَایَقْتُلْنَ أوْلَادَهُنَّ ولَایَاْتِیْنَ بَبُهْتَانٍ﴾ (سورة الممتحنة:۱۲)
ترجمہ:اور نہ بدکاری کریں گی اور نہ اپنے بچوں کو کو قتل کریں گی اور نہ بہتان کی (اولاد) لاویں گی۔ (بیان القرآن)
اسی طرح حضور علیہ السلام نے بھی احادیث طیبہ میں عفت و عصمت سے متعلق اسلام کے نقطۂ نظر کو بیان فرمایا اور بدکاری کے نقصانات سے امت کو آگاہ فرمایا اور کثرتِ اموات کا سبب زنا کو بتایا، چنانچہ ایک لمبی حدیث میں منجملہ اورباتوں کے یہ بھی فرمایا: "ولافشا الزنا فی قوم قط إلا کثر فیهم الموت” موطأ امام مالک ،کتاب الجهاد،باب ماجاء في الغلول (2/460) ترجمہ:یعنی کسی قوم میں زنا کے عام ہونے کی وجہ سے موت کی ہی کثرت ہوجاتی ہے۔
اسی طرح برائی کے پھیلنے کو طاعون اور مختلف بیماریوں کا باعث بتلایا، چنانچہ سنن ابن ماجہ میں ايک لمبى روايت ہے جس كا ايک حصہ يہ ہے: "لَمْ تَظْهَرِ الْفَاحِشَةُ فِي قَوْمٍ قَطُّ، حَتَّى يُعْلِنُوا بِهَا، إِلَّا فَشَا فِيهِمُ الطَّاعُونُ، وَالْأَوْجَاعُ الَّتِي لَمْ تَكُنْ مَضَتْ فِي أَسْلَافِهِمُ الَّذِينَ مَضَوْا” یعنی جس قوم میں زناکاری پھیل جاتی ہے اور بلا روک ٹوک ہونے لگتی ہے تواللہ تعالی ان لوگوں کو طاعون کی مصیبت میں مبتلا کردیتا ہے اور ایسے دکھ درد میں مبتلا کردیتا ہے جس سے ان کے اسلاف نا آشنا تھے۔  سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن ،باب العقوبات (4019)۔
اسی بدکاری کوروکنے کے لیے شریعت مطہرہ نے حدود بھی مقرر فرمادیں اور ساتھ میں بدکاری کرنے والے کے بارے میں شفقت و مہربانی نہ کرنے کی بھی تلقین فرمادی چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے :   ﴿ولاتَاْخُذْکُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ﴾ (النور:۲) اورتم لوگوں کو ان دونوں پر اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں ذرا رحم نہ آنا چاہئے۔ (بیان القرآن)
قرآن پاک نے انسانیت کو پاکدامنی کا راستہ بھی دکھادیا اور اپنے دل کو پاکیزہ رکھنے کا طریقہ بھی بیان فرمایا کہ اگر تم ازواج مطہرات سے کوئی چیز طلب کرو توپس پردہ کرو چناچہ فرمایا :  ﴿وإذا سئلتموهن متاعاً فاسئلوهن من وراء حجاب ذلکم أطهر لقلوبکم وقلوبهن﴾(الأحزاب: 53).
ترجمہ: اور جب تم ان سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر سے مانگا کرو یہ بات (ہمیشہ کے لیے) تمہارے دلوں اوران کے دلوں کے پاک رہنے کاعمدہ ذریعہ ہے․ (بیان القرآن)
اگرچہ یہ آیت ازواج مطہرات کے حق میں نازل ہوئی لیکن علت کے عموم سے پتا چلتا ہے کہ یہی طریقہ ہی انسانیت کے لیے ذریعہ نجات ہے اور نفسانی وسوسوں اورخطروں سے حفاظت کاذریعہ حجاب ہی ہے اوربے پردگی قلب کی نجاست اورگندگی کاذریعہ ہے۔ معارف القرآن ،مولانا محمد ادریس صاحب کاندھلوی رحمةاللہ علیہ (۵/۵۳۷)
اگر اہل مغرب کی طرح ہمیں اپنی بیٹیوں سے عفت مطلوب نہیں! اور اپنے نوجوانوں سے پاک دامنی درکار نہیں! تو قرآن کریم کی سورۃ النور کی آیت {إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَنْ تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ (19)} [النور: 19] ہمارے پيش نظر ہونى چاہيے جس  میں ایسے لوگوں کے لیے دنیا و آخرت میں دردناک عذاب کی وعید وارد ہوئی ہے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو معاشرہ قائم فرمایا تھا اس کی بنیاد حیا پر رکھی جس میں زنا کرنا یہ نہیں بلکہ اس کے اسباب پھیلانا بھی ایک جرم ہے مگر اب لگتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی حیا کے اس بھاری بوجھ کو زیادہ دیرتک اٹھانے کے لئے تیار نہیں بلکہ اب وہ حیا کے بجائے وہی کریں گے جو ان کا دل چاہے گا جو یقیناً مذموم ہے۔
ایسے حالات میں ہمیں عفت و پاکدامنی کو ہاتھ سے چھوٹنے نہ دینا چاہئے اور اپنی تہذیب و تمدن، ثقافت و روایات کو اپنانا چاہیے۔ غیروں کی اندھی تقلید سے باز رہنا چاہئے تا کہ دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کرسکیں اور جان لینا چاہیے کہ یوم تجدید محبت منانے کے نام پر کھلم کھلا بے راہ روی کی ترغیب دی جارہی ہے اور اسلامی معاشرے میں ان غیرمسلموں کے تہواروں کو جان بوجھ کر ہوا دی جارہی ہے تا کہ مسلمان اپنے مبارک اور پاک تہوار چھوڑ کر غیراسلامی تہوار منا کر اسلام سے دور ہوجائیں۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ ویلنٹائن ڈے منانا اور غیرشرعی محبت اور اس کا اظہار ناجائز ہے۔
اللہ تعالی سے دعاء ہے کہ وہ مسلمانوں کی حالت درست کرے اور ہم سب کو صراطِ مستقیم پر چلنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ یقیناً اللہ تعالی سننے والا اور قبول کرنے والا ہے۔ آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×