اسلامیات

آزمائشیں تو حیات جاودانی عطا کرتی ہیں

جگر گوشہ رسول ﷺ نور نظرِ بتول اور سردار جوانان جنت ابو عبد اللہ حسین بن علی رضی اللہ عنہ کو کوفہ کی سرزمین پر ١٠ محرم الحرام ٦١ھ کے دن جس سفاکیت اور درندگی کے ساتھ شہید کیا گیا وہ تاریخ اسلام کا خونچکاں باب ہے ، جب آپ اور ٧٢ اہل بیت کے خون کی سرخی نے کربلا کی زمین کو لالہ زار کردیا تھا تو یہ دل دوز اور روح فرسا منظر نے زمین وآسمان کو رونے پر مجبور کردیا تھا اس معرکے میں وہ پاک نفوس شہادت کے مقام پر فائز ہوئے تھے جو عالم انسانیت کے لیے رونق و زینت اور مسلمانوں کے لیے شرف و عزت اور خیر و برکت کا باعث تھے، مردانگی و جوانمردی، پاکیزگی و پاکبازی، تقدس و تقویٰ، اتباع سنت و شریعت اور دینی حمیت و شجاعت کا وہ گلدستہ تھے جو ساری دنیا کو منور کرنے کے لیے کافی تھے، ١٠محرم الحرام ٦١ھ کو یہ نفوس قدسیہ کا قافلہ کوفہ کی سرزمین پر اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے دین حق کی سربلندی لئے جام شہادت نوش فرمایا اس مقدس قافلے نے اپنے مالک سے اس کی رضا، اس کے نام کی بلندی اور اس کے دین کی فتحمندی کے لیے آخر سانس تک کوشش کرنے اور اس راہ میں اپنا سب کچھ مٹا دینے کا عہد کیا تھا، جب تک ان کے دم میں دم رہا، اسی راہ میں سرگرم رہے بالآخر اپنے خون شہادت سے اس پیمان وفا پر آخری مہر لگا دی۔
نہ ڈگمگائے  کبھی ہم وفا کے راستے میں
چراغ ہم نے جلائے وفا کے راستے میں
موجودہ دور کے تباہ کن حالات اور واقعہ کربلا کا بھولا ہوا سبق
آج امت مسلمہ اس وقت جن تکلیف دہ و روح فرسا حادثات سے گزر رہی ہے اس کی نظیر ماضی میں ملنی مشکل ہے، اس کا وجود کئی صدیوں سے مسلسل و لگاتار نت نئے فتنوں حادثوں و سازشوں اور کفار کی یورشوں کی زد میں ہے، مسلمانوں پر ایک ابتلاء کا دور ہے جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا، اک شبِ غم ہے جس کے مقدر کے ستارے گردشِ ایام اور مسلمانوں کے شامتِ اعمال کے باعث کہیں سو گئے ہیں نقار خانہ انسانیت میں وجود مسلم اور اس کی چیخ و پکار صرف اور صرف دانۂ سپند سے زیادہ کچھ بھی نہیں، پوری امت معاشی، معاشرتی، تہذیبی و تمدنی، غرض زندگی کے ہر شعبے میں انتہائی مجروح ہے ہائے افسوس ہمارا وہ ماضی، اسلاف اور ان کی عظیم قربانیاں؛ جن کا تصور بھی آج کے مسلمان کے لیے مشکل ہے، امت مسلمہ آج قسم قسم کے بدعات و رسومات اور خرافات میں کھو گئی ہے، پیغام شہادت کو بھلاکر بس یوم عاشوراء کو شہادت حسین کا تذکرہ کرتے ہیں اور سال بھر حضرت حسین کی قربانی کے مقاصد،خاندان اہل بیت کی قربانی کے اھداف کو کلی طور پر نظر انداز کررہے ہوتے ہیں، صرف رسمی طور پر یوم عاشوراء میں شہادت حسین رضی اللہ عنہ ذکر کر کے یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے شہادت حسین اور ان کی اس عظیم قربانی کا حق ادا کردیا جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے ماضی کے نقوش کو فراموش کردیا، اسلاف کی قربانیوں سے صرف نظر کرلیا، اور فانی دنیا کے لذات میں مشغول ہوکر دونوں جہاں میں ذلت و خسارے کے مستحق ہورہے ہیں، یہ امر انتہائی قابل ذکر ہے کہ فکری لحاظ سے بھی اگر آج امت مسلمہ راہ حق سے پھر جائے تو اس کا حال بھی ایک ایسے مذہب کے مانند ہوجائے گاجو وحیِ ربانی اور تعلیمات نبوی کی روشنی سے فیض یاب ہونے کے باوجود بھی مکمل طور پر اپنی منزل سے نابلد ہوگئے ہیں اور اپنا تشخص کھو بیٹھے ہیں۔
شہیدانِ راہ وفا کا پوری امت مسلمہ سے سوال
آج شہیدان راہِ حق،شہیدانِ کربلا کا پوری امت سے سوال ہے کہ ہم نے جس دین کی روشنی کو عام کرنے کے علم جہاد کو بلند کیا، کوفہ کی سرزمین پر ہمارے خون شہادت کی مہریں اور ہمارے شہیدوں کی قبریں ہیں، کیا تم نے اس خون شہیداں کا کوئی حق ادا کیا؟ کیا نفاذ اسلام کی کوشش کی؟ کیا خدا کی سرزمین پر بقائے اسلام کے لیے کوشاں رہے؟ تہذیب و معاشرت، تعلیم وتربیت اخلاق و سیرت قانون و سیاست میں کیا تم نے قانون اسلام کی پاسداری کی؟ اگر حقیقت یہ نہیں ہے تو بتاؤ! خدا کی بارگاہ میں کیا جواب دوگے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے کیسے روبرو ہوگے؟ جس دین کے نفاذ کے لیے خاندان نبوت کے چشم و چراغوں نے اپنی جان جان آفریں کے سپرد کردی، جسکے لئے مقدس ہستیوں نے سر پر کفن باندھ کر نکلے تھے آج اگر تم نے اس پیغام کو بھلایا اور عظیم الشان قربانی کو تم نے فراموش کرکے ضائع کر دیا تو اس سے خطرناک جرم اور اس سے بڑا سانحہ اور اس  بڑھ کر حوصلہ شکن اور یاس انگیز کوئی بات نہیں ہو گی
آزمائشیں تو دنیا کی امامت اور حیات جاودانی عطا کرتی ہیں
کس چیز کا غم؟ کیسا اظہار افسوس؟ کس بات پر ناکامی کی نوید؟ کونسا دکھ؟ غم تو یہ بھی ہے کہ سید الشہداء حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کرکے انکا مثلہ بنایا گیا، ان کے کلیجہ کو نکال کر چبایا گیا، یہ بھی تو ایک دردناک شہادت ہے کیوں تم انکا تذکرہ نہیں کرتے؟ کیوں آپ کی وفات واویلا اور شور نہیں مچاتے؟
افسوس تو یہ بھی ہے حضرت سیدنا خبیب رضی اللہ عنہ کو بر سر عام سولی کے کھمنبے پر چڑھا کر تیروں، نیزوں سے چھلنی چھلنی کردیا گیا، یہ شہادت کم درد ناک ہے؟
دکھ تو یہ بھی ہے کہ اسلام کی سربلندی کے لیے اسلام کی سب سے پہلی شہید خاتون سیدہ سمیہ رضی اللہ عنہا کی شرمگاہ پر نیزہ مار کر شہید کردیا گیا تھا کیا یہ شہادت کا رتبہ بھی کم ہے؟
کیوں ان شہداء کا مرثیہ نہیں کہا جاتا؟ کیوں ١٠ محرم الحرام ہی جو ٧٢ دیگر شہداء ہیں ان کا تذکرہ نہیں ہوتا؟
شہادت تو ایک انمول اعزاز ہے تم نے ان خرافات سے اسکی توہین کی ہے، شہادت تو خدائی انعام ہے جو دنیا کی امامت اور حیات جاودانی عطا کرتی ہے تم نے ان بدعات کے ذریعے اس کا مذاق بنایا ہے شہادتیں رونے کے لئے نہیں ہوتیں، اسلام کا چہرہ تو شہداء کے خون اور قربانیوں سے دمک رہا ہے
ہاں! یہ افسوس کا مقام ہے کہ کسی قوم سے جذبہ جہاد ختم ہوجائے، اس قوم کے نوجوان جہاد سے متنفر ہوں، زندگی سے محبت کرنے لگ جائیں!
شہادت حسین کا پیغام
آج ضرورت ہے کہ ہم شہادت حسین کے پیغام کو اجاگر کریں، مقصد قربانی اور اسکی روح سے اپنے آپ کو متنبہ کریں،دیکھیں کہ عین حق کے لیے ڈٹ جانے کا پیغام شہادت حسین میں ہے، جبر و استبداد کے سامنے سینہ سپر ہونا رضائے الٰہی کی دلیل اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لئے جان کی بازی لگادینے کا پیغام شہادت حسین میں ہے، نا مساعد اور ناموافق حالات میں احقاق حق اور ابطال باطل کا پیغام شہادت حسین میں ہے، اسباب دنیوی، مادی ظاہری پر بھروسہ نہ کر کے دفاع حق کے لئے تن من دھن کی بازی لگادینا اور اللہ پر کامل یقین کا پیغام شہادت حسین میں ہے،مصائب کی شدت میں، تلواروں کی جھنکاروں میں، نیزوں اور تیروں کے حملوں میں بھی احکام الٰہی کا پابند رہنا، میدان کارزار میں بھی نماز باجماعت ادا کرنا شہادت حسین کا پیغام ہے، آج شہید مظلوم کی محبت کا ڈھونگ رچانے والے، شہادت حسین کے نام پر بدعات و خرافات کو رواج دینے والے، شہادت حسین کے نام پر افراط و تفریط کا شکار ہونے والے، شہادت حسین کے نام پر علَم اور تعزیہ نکالنے والے، شہادت حسین کے نام پر سبیل اور شربت کا انتظام کرنے والوں کو ذرا غور کرنا چاہیے! اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنا چاہیے! کیا شہادت حسین اور ہمارے اعمال میں ادنی مناسبت بھی پائی جاتی ہے یا نہیں؟
کیا شہادت حسین کے مقاصد اور موجودہ دور کے خرافات میں ادنی میل جول بھی ہے؟؟
کیا ہم نے شہادت حسین کے مقاصد کے بقا کی کوششیں کیں ہیں؟؟ ماتم، سینہ کوبی،نوحہ خوانی اور علم و تعزیہ داری کے علاوہ ہمارا شہادت سے کوئی قلبی لگاؤ بھی ہے؟
کردار حسین پوری امت کے لیے مشعل راہ
حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور خاندان اہل بیت کا کردار آج بھی دلوں میں موجزن ہے، متلاشیان حق کے لئے راہ حق میں مینارہ نور ہے پوری امت بلکہ پوری انسانیت کے لئے مشعل راہ ہے حریت،آزادی رائے،اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے آپ کی شہادت ایک پائندہ و تابندہ سبق ہے، جبر و استبداد، ظلم و جور کے سامنے سینہ سپر رہنا  رضائے الٰہی کا پوشیدہ پیغام ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×