اسلامیات

دار الافتاء کی اہمیت وضرورت

اسلام ایک ہمہ گیر اور دائمی نظام حیات کا نام ہے ،ا س نے اپنی شان ہمہ گیری اوردوامی حیثیت کی بقا کی خاطر اپنے اندر ایسی لچک اور گنجائش رکھی ہیکہ ہردوراور ہر جگہ میں انسانی ضروریات کا ساتھ دے سکے ،یہی وجہ ہیکہ ہر دور اور ہر زمانہ میں قرآن وحدیث پر گہری نظر رکھنے والے علماءربانیین اور مفتیان شرع متین کی ایک ایسی جماعت پیدا ہوتی رہی جس نے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کی روشنی میں ان نت نئے مسائل کا حل پیش کیا تاکہ امت کا کوئ فرد دن ورات کے ان پیش آمدہ مسائل میں کہیں الجھاو کا شکا ر نہ ہوجائے، بلا شبہ زمانہ کی تبدیلی اور احوال کے فرق اور ضرورتوں وتقاضوں کے تحت آنے والے نئے پیچیدہ مسائل کا فقہی اصول وضوابط کی روشنی میں حل کرنے کا نام ہی فتوی ہے۔
فتوی کا دائرہ کار
فتوی کا تعلق انسانی زندگی کے کسی پہلو کے ساتھ خاص نہیں بلکہ انسانی زندگی کے ہر مرحلہ میں ایک مصلح اور نگران کی حیثیت رکھتا ہے ،انسان کے عقائدونظریات ،اس کے ذاتی زندگی کے نجی پہلو ،خاندانی زندگی کے مختلف مراحل ،اس کی معاشی ومعاشرتی زندگی کے مختلف مظاہر ومسائل ،اس کی زندگی کے قانونی پہلو یا اس کی اخلاقی قدریں ،ملک چلانے کے اصول اور بین الاقوامی تعلقات کے نشیب وفراز ،صلح وجنگ سے متعلق ہدایات بھی فتوی کے حدود سے باہر نہیں حتی کہ مستقبل میں ایک معتدل نظام حیات اورانسانیت کی پر امن اور مبنی بر انصاف بقاء کے لئےشریعت کا یہ سلسلہ ازحد ضروری ہے۔
مفتی اور دارالافتاء کی اہمیت
سائل ومستفتی کی جانب سےکسی مسئلہ کی وضاحت سے متعلق پوچھے جانے والے سوال پر ادلہء شرعیہ کی روشنی میں جواب دینے والے کو مفتی کہتے ہیں( مجموعةالفتاوی) عہد رسالت ہی سے اس عہدہ کی اہمیت مسلم رہی ہے، اس لئے کہ شریعت اللہ کی نازل کردہ اور پیغمبر اسلام کے بیان کردہ نظام حیات کا نام ہے، اللہ کا یہ نظام قرآن پاک کی صورت میں ایک متن کی حیثیت سے مسلمانوں کے پاس محفوظ ہے، اس متن کے اصول وضوابط اور عملی طریقہ کار کی وضاحت حدیث رسول اللہ میں موجود ہے ،تا ہم زندگی کے مختلف حوادث اور مسائل وجزئیات پر اس متن کو اور اس کے اصول کومنطبق کرنے کا کام علماءاور خصوصا مفتیان دین متین کا ہے،اس لئے نظام شریعت میں مفتی کی بڑی اہمیت ہے،یہی وجہ ہیکہ اس عظیم منصب پر سب سے پہلے خود آپؐکی ذات بابرکت تھی ،اسلام کے ابتدائ دور میں جب مسلمانوں کی تعداد کم اور مسائل شرعیہ سےناواقف تھے تو وہ مدینہ واطراف مدینہ سے آکر مسائل دریافت کرتے جس کو قرآن نے یوں بیان کیا "یستفتونک الخ”لیکن جب اسلام فاران کی چوٹیوں سے باہر نکلا اور اسلام کا دائرہ وسیع سے وسیع تر ہونے لگا،دور دراز علاقوں میں اسلام کی باز گشت سنائ دینے لگی ،اور بلاد بعیدہ سے سفر کرکے آنا اور مسائل دریافت کرنا سیاسی ومعاشی ہردو لحاظ سے دشوار ہوگیا ،تو نبیؐ نے اہل علم صحابہ کی ایک جماعت کومختلف مقامات پر بھیجا،انہوں نے وہاں جاکر باضابطہ کتاب وسنت کی روشنی میں منصب افتاء کے فرائض انجام دءے جیساکہ حضرت معاذ ابن جبل کو یمن روانہ کیا(المصباح 1\5)پھر آپؐ کے اس دنیا سے تشریف لے جا نے کے بعد امت نے متفقہ طور پر حضرت ابوبکرؓ کو خلیفہ منتخب فرمایا تو آپ نے اسلامی نظام سلطنت کے تمام شعبوں کو مستحکم کیا فقہ وفتاوی کے لءے باضابطہ ایک شعبہ قائم فرمایا،چنانچہ شاہ معین الدین ندوی سیر الصحابہ میں لکھتے ہیں”حضرت ابوبکرؓنے مسائل فقہیہ پر تنقید اور عوام کی سہولت کے خاطر ایک محکمہءدارالافتاء کو قائم کردیاتھا،حضرت عمر ،عثمان علی ،عبدالرحمن ،معاذبن جبل، ابی بن کعب ،اور زیدابن ثابت جو اپنے علم واجتہاد کے لحاظ سے تمام صحابہ میں ممتاز تھے، حضرت عمرؓ نے اپنے دور خلافت میں اس سلسلہ کو جاری رکھا(سیر الصحابہ69\1)
موجودہ دورمیں اس کی اہمیت وضرورت
عہد رسالت ہی سے اس کی اہمیت وضرورت مسلم رہی ہے،لیکن دور حاضر میں اس کی ضرورت کافی بڑھ چکئ ہے جس کے بہت سے اسباب ہیں
(1)اس لئے کہ موجودہ دور علم وفن اوربحث وریسرچ کا دورہے ،آج دنیا اکتشافات جدیدہ کے میدان میں بہت آگے نکل چکی ہے ،آج انسانی دماغ نے فضاکو محکوم بنالیا اور زمین کا سینہ چیر کراس کے خزانے نکالنے لگااور ٹکنالوجی کا میدان دن بہ دن وسیع سے وسیع تر ہونےلگا ،جس کے نتیجہ میں لازما بہت ایسے مسائل معرض وجودمیں آئے جن کا حل صراحتا کتاب اللہ وسنت رسول اللہ اور آثار صحابہ میں نہیں جبکہ ہمارا عقیدہ ہیکہ اسلام ایک کامل ومکمل اور دائمی ضابطہ حیات کانام ہے ،تو انہیں دار الافتاوں نے بحث وریسرچ کرکے ان کا حل قرآن وحدیث سے مستنبط کرکے امت کی رہنمائ کی۔
(2)ہندوستان میں روز بہ روز مسلم دشمنی میں اضافہ ہی ہورہاہے،غیر مسلم شدت پسند کے سینوں میں اسلام اورمسلمانوں کے خلاف نفرت وعداوت ،بغض وعناد کے لاوے پھوٹ رہے ہیں،قانون اور غیر قانونی ہر طریقہ سے اور ہر سطح پر اسلام دشمنی کی جذبات عروج پر ہے ،ہر جگہ ان دارالافتاوں اور دارالقضاوں کے بند کرنے کی مانگ کی جارہی ہے غیر تو کیا اپنے بھی جنہیں ماہر اسلامیات اور مفکر اسلام جیسے القاب سے یاد کیا جاتا ہے وہ تک فتووں کو مفتی کی نجی رائے کہکر اس کی اہمیت کو گٹھانے پر تلے ہیں ۔ایسے حالات میں اشد ضرورت ہیکہ ہر شہر میں ماہر مفتیان کی زیر نگرانی میں دارالافتاءوں کا قیام عمل میں لایا جائےاور برادران وطن کے شکوک وشبہات کو دور کیاجائے۔
(3)شرعی احکام اور مسائل دینیہ سے آگاہی ہر مسلمان مردوعورت کی ضرورت ہے اور اس کی زندگی پر فقہی احکام ومسائل کا گہرا اثر مرتب ہوتا ہے ،بہت سے نیک لوگ جو شریعت کے سانچے میں ڈھل کر زندگی گزارنا چاہتے ہیں وہ قدم بہ قدم شرعی کے محتاج ہوتے ہیں لیکن انہیں کوئ مستند دارالافتاء نظر نہیں آتا اگر آتا بھی ہے تو ہروقت استفتاء کرنا ممکن نہیں رہتا ، لازما وہ کسی نا اہل مفتی سے اس کا حل معلوم کرتے ہیں جس کے بعد یہ مفتی خود بھی گمراہ ہوتا ہے اور مستفتی کو گمراہ کردیتا ہے اسی کے بارے میں نبی نے ارشاد فرمایا "ان اللہ لا یقبض العلم انتزاعا ینتزعہ من العباد،ولکن یقبض العلم بقبض العلماء حتی اذالم یبق عالما اتخذالناس رءوساء جھالافسئلوا بغیر علم فضلوا واضلوا(مشکوة 33\1)
(4)مزید یہ کہ آج مسلمانوں کی بڑی تعداد عصری علوم کی خوشہ چینی کررہی ہے ،جنہیں اکثروبیشتر جدید مسائل ومعاملات کا سامنارہتا ہے،بطور خاص جو میڈیکل،انجیرینگ،اقتصادیات،سیاسیات ،صنعت وحرفت کے تخصصات اور فیلڈ سے منسلک ہیں کئی بار ایسا ہوتا ہیکہ جدید مسائل کے بارے میں انہیں کوئ شرعی علم نہیں ہوتا نہ کوئی نص صریح جس کے سبب انہیں یہ گمان ہو نے لگتا ہیکہ کیا شریعت ناقص ہے؟ اس لئے جدید طبی مسائل ،عقودومعاملات اور نئے اصول تجارت ومعاشیات کے سلسلہ میں شرعی نقطئہ نظر کی تحقیق وریسرچ ازحد ضروری ہے،ورنہ اہمال واغماض اور عدم اہتمام کی صورت میں لوگ حیران واضطراب کے شکار ہوسکتے ہیں ،اس لئے وقت کی اہم ترین ضرورت ہیکہ معتبر تنظیمیں اور مراکز خاص کر معتبرومعتمد مدارس کے ذمہ دارن اس طرف توجہ دیں اور جدید مسائل کے حل کے لئے ماہر علماء کے زیر اشراف ایسے دار الافتاوں کا قیام عمل لایا ئیں جو تمام آلات جدیدہ سے لیس ہو اور جلد از جلد اس کا جواب دے سکیں۔
جدید ذرائع کا استعمال :
موجودہ پر فتن دور میں جبکہ شوشل میڈیا اور انٹرنٹ اپنی تمام تر غلاظتوں اور نقصانات کے باوجود اسلام کی حفاظت اور اس کی حقانیت ثابت کرنے اور اس کی تعلیمات کو عالم میں عام کرنے اور اس کے پیغامات کو ارشاد نبوی کے مطابق ہر کچے پکے مکانات تک پہونچانے کے لئے شوشل میڈیا اور انٹرنٹ عطیہ خداوندی سے کچھ کم نہیں ،یہی وجہ ہیکہ بے دینی کے اس دور میں ایک بڑے طبقے نے اپنے آپ کو اس سے منسلک کرلیا ہے اور بعض کا حال یہ ہیکہ ان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں کہ وہ باقاعدہ اپنے دینی مسائل کے حل کے لئے علماء کرام سے براہ راست ملاقات کرکے تشفی بخش جواب حاصل کرسکیں یا انہیں ایسے علماء ہی میسر نہیں جو ان کی کسی بھی وقت براہ راست صحیح رہنمائی کر سکیں اس لئے اب ایسے لوگوں نے انٹرنیٹ ہی کے ذریعہ رہنمائی حاصل کرنی شروع کردی ملحوظ رہے کہ انٹرنٹ پر اہل حق سے زیادہ باطل عقائد کے حامل جماعتوں کے مواد اور لٹریچرز ہی موجود ہیں جس کی وجہ سے ایک صحیح العقیدہ عام مسلمان جب اس طرف بغیر کسی صحیح رہنمائی کے جاتا ہے تو بسا اوقات باطل عقائد کا حامل بن کر اپنا بیش قیمت ایمان بھی لٹادیتا ہے،اسی طرح اور بھی بہت سی خرابیاں ہیں جو دین تعلیم سے آراستہ لوگوں کو بھی سمجھ نہیں آتی جیسے موضوع روایات کی بھر مار ،من گھڑت پر کشش وظائف میں الجھاکر مستند ومنقول اورادوظائف سے توجہ ہٹانا وغیرہ وغیرہ۔جس کے لئے اب شوشل میڈیا پر دارالافتاء یا کسی معتبر مدرسہ وتنظیم کے تحت دارالافتاء کی ویب سائٹ کا قیام بے حد ضروری ہے،جس کا سب سے بڑا فائدہ تو یہ ہوگا کہ اہل حق کا ایک اچھا خاصا مواد محفوظ ہو جائیگا تو وہیں لوگوں کو مسائل کےاستفتار کرنے کی سہولت بھی ہو جا ئیگی،نیز دارالافتاء کے لئے باضابطہ کسی جگہ کے خریدنے اور کتابوں کا ذخیرہ جمع کرنے کی بھی ضرورت نہ ہو گی۔
امت کی دارالافتاءوں سے بے اعتمادی کے اسباب:
(1)ہمارے ملک ہندوستان میں امت مسلمہ کا دارالافتاءوں سے اعتماد دن بہ دن اٹھتا ہی جارہاہےجس کی وجہ جہاں حکومت کی سازش ہے تو وہیں مدارس اور تنظیموں کے ذمہ داران بھی برابر کے حصہ دار ہیں اس لئے کہ جب انہوں نے اس طرف توجہ کم کردی
(1)تو قلمدان افتاء ایسے علماء کے حوالہ ہوگیا جو علم فقہ وعلم کلام کے ابجد سے بھی واقف نہیں،نہ انہیں عربی زبان پر اتنی دست رس ہیکہ معتبر کتابوں سے مسائل اخذ کرےاور نہ اتنی بصیرت کہ اپنے زمانہ کے عرف وعادات سےباخبرہو دراصل یہ ناقلین غیر عاقلین کی وہ جماعت ہے جوحالات ومسائل کو سمجھے بغیر اردو کے معروف مجموعہائے فتاوی سےنقل کرکے شریعت اسلامی اور دارالافتاوں کی بدنامی کا سبب بن رہی ہے۔
(2)شریعت کے ہر حکم کے پیچھے علت ومقصد ہوتا ہے اس لئے زمانہ کی تبدیلی اور احوال کے ساتھ مسائل کی حیثیت اور نوعیت بھی بدلتی رہتی ہےلیکن آج کل دارالافتاءوں کی زمام ان نااہل مفتیوں کے ہاتھ آگئی جو اکابر پرستی کے نشہ میں مست اور مقاصد شریعت سے ناواقف ہوکر احوال وعادت سے بے خبر اپنے من ومسلک کے مطابق فتاوی صادر کرتے ہیں جو امت میں انتشار اور بے اعتمادی کا موجب بن گیا ہے۔
(3)نیزآج کل دارالافتاء کا استعمال شرعی رہنمائی حاصل کرنے کے بجائےاپنے مخالف کو زیر کرنے کے کیا جارہا ہے۔
(4)دارالافتاءوں کی بے جا کثرت نے اس کی حرمت واحترام کا پامال کردیا ہے جس مدرسہ میں الف سے یا تک کی صحیح تعلیم نہیں لیکن دارالافتاء ضرور موجود رہتا ہے جس کا مقصد صرف اور صرف شہرت پسندی اور حصول مال و زر کی لالچ کے علاوہ کچھ نہیں ۔
(5)ہر باشعورعالم ،ادارہ ،تحریک وتنظیم کو کسی بھی فقہی فرعی مسئلہ میں جواز اور عدم جواز کا موقف رکھنے اور اس پر عمل کرنے کا شرعی حق حاصل ہے مگر اسے یہ حق نہیں کہ اپنے مخالفین کے خلاف مورچہ بندی کرےاس کا سماجی بائیکاٹ کردیا جائےلیکن آج کل اسی مقصد کے حصول کے لئے دارالافتاء کا بے محابا استحصال واستعمال ہورہاہےجس کی وجہ سےبر صغیر میں ایک مسلک کے ماننے والوں کے درمیان فکری اور سماجی جنگ چھڑ چکی ہےاور دارالافتاوں کی حرمت پامال ہورہی ہے۔
(6)انٹی وی چینلوں نے اپنی ٹی آر پی بڑھانے اور ناظرین کا مرکز توجہ بننے کے خاطر فتوی کا سہارا لیا اس لئے کہ فتوی سے دلچسپ اور کیا چیز ہو سکتی ہے؟جس پر روزانہ مختلف فیہ فروعی مسائل پر ڈبیٹ کرایا جاتا ہے اور مدعو بھی ایسے ہی جاہل مفتیوں(من المفت)کو کیا جاتاہے جن کا علم بالکل سطحی روح شریعت سے بالکل نا بلد ہو تے ہیں ،جس کے بعد ایسا مناظرہ ہو تا ہیکہ کہ خدا کی پناہ!جس کی وجہ سے دارالافتاءوں سے دن بہ دن اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔لہذا مدارس ودینی مراکز کے ذمہ داران کی ذمہ داری ہیکہ ان اسباب کی اصلاح کی کوشش کریں اور ایسے دار الافتاء(خواہ وہ عمارتی شکل میں ہو یا ویب سائٹ کی شکل میں ہو)کا قیام عمل میں لا یئیں جس میں ہر وقت پیش آمدہ مسائل کی صحیح رہنمائ مل سکے اس کے لئے نوجوان مفتیان کو ماہر تجربہ کار مفتیان کی نگرانی میں رکھ کر ان سے کام لیا جائے جس سےجہاں ان کی صلاحیت افتاء میں اضافہ ہوگا تو وہیں امت مسلمہ کوجلد اور صحیح جواب مل سکے گا۔اللہ تعالی توفیق عمل نصیب فرمائے آمین!

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×