سیرت و تاریخ

صحابی پر تنقید نبی پر تنقید کے مترادف

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات والا صفات اپنے نبوی کارناموں اور ایک ایسی امت کی تشکیل کے اعتبار سے اس عظیم رتبے کی ہے جسکی نظیر نہ کبھی زمین و آسمان نے دیکھی نہ قیامت تک دیکھیں گے، ذات محمدی اپنے کمالات کی بناء پر بے مثال اور لازوال ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا جہاں سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے خدا کی امانت "دین اسلام” کو بے کم و کاست پہنچایا اور اس کا حق ادا کیا وہیں آپ کا عظیم ترین کارنامہ یہ بھی ہے کہ آپ نے اپنے متبعین یعنی صحابہ کی ایک بڑی تعداد ایسی چھوڑی جن کی نظیر بھی قیامت تک نہیں مل سکتی، محدثین کے ایک اندازے کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے وقت صحابہ کی تعداد کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار تھی، صحابہ کرام کی سیر و سوانح پر علامہ ابنِ حجر عسقلانی و دیگر محدثین کی کتب اس کی شاہد عدل ہیں۔
صحابہ کرام کے شرف و عظمت کے لیے اس سے بڑھ کر کوئی بات نہیں ہوسکتی کہ وہ محبوب کبریا تاجدارِ کونین نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وسلم کے بلاواسطہ شاگرد اور تربیت یافتہ ہیں، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انکے بالمشافہ استاد و مربی ہیں، یہ ایسا شرف ہے جو ان کے واسطے رب العالمین نے خاص کردیا تھا۔
یہ رتبۂ بلند ملا جسکو مل گیا
ہر مدعی کے واسطے دار و رسن کہاں
صحابہء کرام کی دوسری سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور مزاجِ شریعت کو سب سے زیادہ سمجھنے والے ہیں، اجتہادی خطا یقینا ممکن ہے اور جس پر عند اللہ کوئی مواخذہ بھی نہیں ہے؛ تاہم انکے علم و تقوی اور باطنی کمالات پر قطعاً حرف گیری نہیں کی جاسکتی۔
صحابہ کرام کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ رب العالمین کے پسندیدہ بندے اور خدا کی طرف سے کائنات کے لئے عملی نمونے ہیں، قرآن مجید کے سینکڑوں مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنی زبان سے انکی تعریف و توصیف بیان کی ہے، اور انکو نمونہ قرار دیا ہے۔ قرآن مجید کی ان آیات پر غور کیجیےُ ذات قدسی نے واضح الفاظ میں مدح و ستائش کرتے ہویے انہیں نمونہ قرار دیا ہے: وَإِذَا قِیلَ لَهُمۡ ءَامِنُوا۟ كَمَاۤ ءَامَنَ ٱلنَّاسُ  [البقرة ١٣]
یَـٰۤأَیُّهَا ٱلَّذِینَ ءَامَنُوا۟ ٱتَّقُوا۟ ٱللَّهَ وَكُونُوا۟ مَعَ ٱلصَّـٰدِقِینَ [التوبة ١١٩] اس آیت کی تفسیر میں علامہ ابنِ کثیر دمشقی نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول کیا ہے وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ: ﴿اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ﴾ مَعَ مُحَمَّدٍ ﷺ وَأَصْحَابِهِ (تفسیر ابن کثیر: تفسیر سورۃ توبہ آیۃ ١١٩)
صحابہ کرام خواہ کسی بھی درجے کے ہوں انکی ایک ایسی خصوصیت بھی قرآن مجید میں ذکر کی گیی ہے جو قیامت تک کسی کو حاصل نہیں ہوسکتی، قرآن مجید کے بیان کے مطابق تمام صحابہ (سوائے منافقین جو کہ حقیقتاً صحابہ ہیں ہی نہیں) بلا تفریق ادنی و اعلی، سن و عمر، اپنے و بیگانے، اللہ کے محبوب بندے، بخشے بخشائے اور جنت کے مستحق ہیں، قرآن مجید میں یہ بشارت ان الفاظ میں نقل کی گیی ہے۔
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (التوبة 100)
مذکورہ بالا آیات اور حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی وضاحت کے بعد صحابہ کی کی اہمیت و فضیلت سمجھانے کی ضرورت نہیں، اس کے بعد بھی اگر کوئی شخص صحابہ پر یا کسی خاص صحابی پر تنقید کرتا ہے، انکے اجتہادی خطاؤں کو یا غلطیوں کو آشکارا کرتا ہے، یا لعن طعن کرتا ہے یا سخت الفاظ ان کے لیے استعمال کرتا ہے تو ایسا شخص خود مجرم اور واضح الفاظ میں گمراہ ہے، ایسا شخص گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت کو ناقص سمجھتا اور آپکی معلمی میں عیب نکالتا ہے، ایسے شخص کو گویا صحابہ کے علم و عمل پر اعتماد نہیں، جو بلاشبہ دین اسلام و تعلیمات اسلام کا بنیادی سرچشمہ ہیں، ایسا شخص خدا کی رضامندی سے گویا نالاں اور بیزار ہے، جب خدا تعالی نے انکے گناہوں اور خطاؤں کو معاف کرکے جنت کی بشارت اور اپنی رضامندی کا اظہار علی الاعلان کردیا تو ایک ادنیٰ امتی جو انکے گھوڑے کے پیر کے دھول کے برابر بھی نہیں پہنچ سکتا اسکی کیا مجال کہ انہیں مطعون کرے، سخت سست کہے، ایسا شخص اس حد میں داخل ہوچکا ہے جہاں گمراہی اور خود فریبی کے سارے دروازے چوپٹ کھلے نظر آتے ہیں، قربان جائیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی فراست ایمانی پر کہ آپ نے اپنی زندگی میں ہی اس خطرے کو محسوس کرلیا تھا اور اپنے صحابہ کو برا کہنے اور انہیں نشانہ بنانے سے سختی سے منع فرمادیا تھا؛ بلکہ اپنی محبت کو انکی محبت سے وابستہ کردیا تھا، اور اپنے ان سے بغض کو اپنے بعض کے ساتھ مربوط کردیا تھا، اور ان کی تکلیف کو اپنی تکلیف سے تعبیر کیا تھا، روایت کے الفاظ ملاحظہ ہوں: عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زِيَادٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُغَفَّلٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ” اللَّهَ اللَّهَ فِي أَصْحَابِي، لَا تَتَّخِذُوهُمْ غَرَضًا بَعْدِي، فَمَنْ أَحَبَّهُمْ فَبِحُبِّي أَحَبَّهُمْ، وَمَنْ أَبْغَضَهُمْ فَبِبُغْضِي أَبْغَضَهُمْ، وَمَنْ آذَاهُمْ فَقَدْ آذَانِي، وَمَنْ آذَانِي فَقَدْ آذَى اللَّهَ، وَمَنْ آذَى اللَّهَ فَيُوشِكُ أَنْ يَأْخُذَهُ ". (سنن الترمذي رقم الحديث ٣٨٦٢ أَبْوَابُ الْمَنَاقِبِ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ  | بَابٌ : فِيمَنْ سَبَّ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ)
 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ فرامین تازیانہ ہیں ان افراد و شخصیات کے لیے جو امت محمدیہ کے ان انمول ہیروں کو بے مول کرنے اور انکی عزت و آبرو کو پامال کرنے پر تلے ہوئے ہیں، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ چاند پر تھونکنے سے اپنا ہی منہ گندا ہوگا چاند کی روشنی پھیکی نہیں پڑ سکتی، اس موقع پر امام قرافی مالکی کی وہ بات بار بار ذہن میں آرہی جو شیخ عبد الفتاح ابو غدہ نے نقل کی ہے، امام قرافی لکھتے ہیں: «لولم يكن لرسول الله صلى الله عليه وسلم معجزة إلا أصحابه، لكفوه لإثبات نبوته» (الرسول المعلم للشيخ عبد الفتاح أبوغدة ص:14). امام قرافی لکھتے ہیں کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی معجزہ نہ بھی ہوتا تو آپ کے صحابہ ہی آپکی نبوت کے ثبوت کے لیے کافی تھے، یعنی آپ کے صحابہ خود کسی معجزے سے کم نہیں اور ایسا کیوں نہ ہوتا انکے استاذ وہ ہیں جو امام الانبیاء اور سید الرسل ہیں، جن سے بڑھ کر معلم و مربی اور اخلاق کا پیکر مجسم زمین و آسمان نے نہیں دیکھا۔
 اس موقع پر ان لوگوں کو غور کرنے کی سخت ضرورت ہے جو آپ کے صحابہ پر لعن طعن کرکے خود کو خدا و بندوں کی نظر میں رسوا کر رہے ہیں، یہ لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک بڑے معجزے کے گویا منکر اور آپ کی تربیت پر حرف گیر ہیں۔ اللہ تعالی سے دعا ہے کہ انہیں عقل سلیم عطاء فرمائے اور صحابہ کی قدر دانی کی توفیق عطاء فرمائے آمین یا رب العالمین۔
ایں دعا از من و از جملہ جہاں آمین باد

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×