اسلامیات

شب قدر: خصوصیات، اعمال اور علامات

ہم نے اسے ایک مبارک رات میں اتارا ہے(کیونکہ) ہم لوگوں کو خبردار کرنے والے تھے. اسی رات میں ہر حکیمانہ معاملہ ہمارے حکم سے طے کیا جاتا ہے، (نیز) ہم ایک پیغمبر بھیجنے والے تھے،تاکہ تمہارے رب کی طرف سے رحمت کا معاملہ ہو، یقینا وہی ہے جو ہر بات سننے والا، ہر چیز جاننے والا ہے۔ (سورہ دخان 1-6/)
قرآن کریم کا نزول اس رات میں ہوا ہے جسے اللہ تعالیٰ نے برکت والی قرار دیا ہے، مفسرین میں سے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ، حضرت قتادہ، سعید بن جبیر، عکرمہ، مجاھد رحمہم اللہ سے مروی ہے کہ جس برکتوں بھری شب میں قرآن کریم کا نزول ہوا وہ شبِ قدر ہے.
اس شب کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اسی میں مخلوقات عالم کے ساتھ سال بھر پیش آنے والے تمام معاملات اور تقدیروں کا تعین کیاجاتا ہے؛ چنانچہ کسے زندگی ملنی ہے کسے موت، کس کو نجات ملنی ہے اور کسے ہلاکت، کس کی قسمت میں نیک بختی ہے کس کی بدبختی، کسے حج کا شرف حاصل ہونا ہے کسے تجارت کرنی ہے، کس کو عزت ملنی ہے کس کو ذلت، سرسبزی وشادابی رہے گی یا قحط سالی وخشک سالی، غرضیکہ پورے ایک سال سے متعلق اللہ کی ہر طرح کی مشیت طے کرکے لکھ دی جاتی ہے.
شبِ قدر میں تقدیروں کے لکھے جانے سے مراد یہ ہے کہ تقدیریں شبِ قدر میں لوح محفوظ سے آسمانِ دنیا کی طرف منتقل کی جاتی ہیں، مفسر قرآن حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ارشاد فرماتے ہیں کہ : ایک انسان (اپنے معمول کے مطابق) لوگوں میں چلتا پھرتا ہے حالانکہ وہ مُردوں میں شمار ہوتا ہے یعنی شبِ قدر میں اس کے متعلق یہ لکھا جاچکا ہوتا ہے کہ اسے اسی سال وفات پانی ہے.
شبِ قدر میں تقدیروں کے لکھے جانے جانے کا ایک مطلب یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ اس رات میں (متعلقہ) فرشتوں کو تقدیروں سے باخبر کردیا جاتا ہے.
اس عظیم رات کے بارے میں اللہ تعالٰی نے ایک مکمل سورت نازل کی ہے؛ چنانچہ ارشاد ہے : بیشک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں نازل کیا ہے،اور تمہیں کیا معلوم کہ شب قدر کیا چیز ہے ؟ شب قدر ایک ہزار مہینوں سے بھی بہتر ہے، اس میں فرشتے اور روح اپنے پروردگار کی اجازت سے ہر کام کے لیے اترتے ہیں،وہ رات سراپا سلامتی ہے فجر کے طلوع ہونے تک. (سورۃ القدر)
اللہ تعالیٰ نے اس رات کو لیلۃ القدر سے تعبیر کیا ہے؛ کیونکہ اللہ کی بارگاہ میں اس کی قدر ومنزلت بہت ہی عظیم ہے، اس لیے بھی کہ اس رات میں بکثرت گناہوں سے مغفرت ہوتی ہے، عیوب کی پردہ پوشی ہوتی ہے، اس بنیاد پر اس شب کو شبِ مغفرت بھی کہا جاسکتا ہے؛ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس شخص نے یقین اور ثواب کی امید کے ساتھ شب قدر میں عبادت کی اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں.
خلیل بن احمد کہتے ہیں کہ اس رات کو لیلۃ القدر کہنے کی وجہ یہ ہے کہ چونکہ قدر کا ایک معنی تنگی کا بھی ہے (قرآن پاک میں ہے : وأما إذا ماابتلاه فقدر عليه رزقه، یعنی جسے اللہ آزمائش میں مبتلا کرتے ہیں اس پر روزی تنگ کردیتے ہیں) اور شبِ قدر میں فرشتوں کا اس کثرت سے نزول ہوتا ہے کہ زمین تنگ پڑجاتی ہے.
اللہ تعالیٰ نے شب قدر کی عظمت کو ظاہر کرنے اور اس کی شان کو سراہنے کے لیے ایک انوکھے انداز میں بندوں سے خطاب کیا ہے، فرمایا : وما أدرىك ما ليلة القدر (اور تمہیں کیا معلوم کہ شبِ قدر کیا چیز ہے؟)
آگے ارشاد ہے : شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے یعنی اس  رات کی عبادت 83/ سال کی عبادت سے فائق ہے، یہ اس رات کی وہ فضیلت ہے جس کا اندازہ اللہ رب العالمین کے سوا کوئی نہیں کرسکتا.
*شبِ قدر کی تلاش:*
پورے رمضان، بطورِ خاص عشرہ اخیر اور عشرہ اخیر کی طاق راتوں (اکیسویں، تئیسویں، پچیسویں، ستائیسویں اور انتیسویں) میں شبِ قدر کی تلاش وجستجو ایک مستحب عمل ہے، صحیحین کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کہ عشرہ اخیر کی طاق راتوں میں شبِ قدر کو تلاش کرو، ابن عباس رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ کا ارشاد ہے : شبِ قدر کو رمضان کے عشرہ اخیر میں تلاش کرو، جبکہ نو، سات اور پانچ راتیں باقی ہوں (اکیسویں، تئیسویں اور پچیسویں میں). صحیح بخاری میں حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی ایک روایت نقل کی گئی ہے، آپ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس ارادے سے باہر تشریف لائے کہ ہمیں شبِ قدر کے متعلق کچھ بتائیں کہ اسی اثناء میں مسلمانوں میں سے دو لوگوں نے جھگڑا کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں اس لیے نکلا تھا کہ تمہیں شبِ قدر کے متعلق اطلاع دوں؛ لیکن فلاں اور فلاں نے جھگڑا کیا، جس کی وجہ سے شب قدر کی تعیین اٹھالی گئی، ممکن ہے کہ تمہارے لیے اس میں بہتری ہو، اب تم اسے نو، سات، پانچ یعنی طاق راتوں میں تلاش کرو!
اس حدیث سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ لڑائی جھگڑا خیر کے اٹھائے جانے اور اس کے پوشیدہ رکھنے کا سبب بنا، اسی سے لڑائی جھگڑے کی نحوست کا پتہ بھی چلتا ہے، بطورِ خاص جبکہ یہ جھگڑا دین کے بارے میں ہو.
اخیر کی سات راتوں میں شبِ قدر کی امید زیادہ ہوتی یہی وجہ ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ کئی ایک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے خواب میں شب قدر کو اخیر کی سات راتوں میں دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے خواب اخیر کی سات راتوں کے بارے میں متفق ہورہے ہیں، لہذا جس کسی کو شبِ قدر تلاش کرنا ہو وہ اخیر کی سات راتوں میں تلاش کرے. کچھ دیگر احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ستائیسویں شب میں شبِ قدر کی امید سب سے زیادہ ہوتی ہے چنانچہ مسند احمد اور ابوداؤد شریف کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : شبِ قدر ستائیسویں شب کو ہوتی ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اکثریت اور جمہور علماء کرام بھی اسی کے قائل ہیں، یہاں تک کہ حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ بغیر کسی استثناء کے یہ قسم کھالیا کرتے تھے کہ : شب قدر ستائیسویں شب  ہی ہے. یہی قول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بھی ہے؛ بلکہ آپ نے تو اس پر متعدد امور سے استنباط واستدلال بھی کیا ہے؛ چنانچہ روایت میں آتا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو جمع کیا، ساتھ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی تھے (اس وقت آپ چھوٹے تھے) تو لوگوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ابن عباس تو ہمارے بیٹوں کے مانند ہیں، آپ نے انہیں ہمارے ساتھ کیوں جمع کرلیا؟ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا :ان کے پاس عقل مند دل اور بکثرت سوال کرنے والی زبان ہے، پھر صحابہ نے شب قدر کے متعلق سوال کیا تو سب کا اس بات پر اتفاق ہوا کہ : شب قدر رمضان کے آخری عشرے میں ہوتی ہے، پھر ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی اس بارے میں سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا : یہ تو ستائیسویں شب میں ہوتی ہے، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا، آپ کو کیسے معلوم؟ تو انہوں نے کہا : اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کو سات بنایا، زمینوں کو سات بنایا، دنوں کو سات بنایا، انسان کو سات مرحلوں میں پیدا کیا، طواف کا عدد سات مقرر کیا، سعی اور رمی جمار کی تعداد بھی سات ہی رکھی، ان تمام سے سات کا عدد نکل کر آتا ہے، اس اعتبار سے عشرہ اخیر میں سات کا عدد ستائیسویں شب کو طے پاتا ہے. حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے جن امور سے شبِ قدر کے ستائیسویں شب میں ہونے پر استدلال کیا ہے، ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ "تنزل الملائكة والروح فيها” میں "فیھا” (مراد شب قدر) سورہ قدر کا ستائیسواں کلمہ ہے.
بعض علماء نے ستائیسویں شب میں شبِ قدر ہونے پر علمِ حساب سے بھی استدلال کیا ہے، وہ اس طرح کہ "ليلة القدر” میں نو 9/ حروف ہیں اور سورہ قدر میں "ليلة القدر”  کا تذکرہ تین مرتبہ ہوا ہے، اب اگر 9/ کو 3/ میں ضرب دے دیا جائے تو نتیجہ 27/ نکلے گا. لیکن یاد رہے کہ یہ کوئی دلیلِ شرعی نہیں، اور نہ ہی ادلہ شرعیہ کے ہوتے ہوئے ہمیں اس طرح کے حسابی امور کی کوئی ضرورت ہے.
ستائیسویں شب میں شبِ قدر ہونے پر ترجیح اس بات سے بھی ملتی ہے کہ ایک روایت کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شب میں شبِ قدر کو دیکھا ہے، اسی شب کی نماز فجر میں سجدے کی حالت میں یہ دیکھا گیا کہ آپ کی پیشانی پر پانی اور کیچ کے آثار ہیں(وجہ یہ تھی کہ مسجد نبوی کی چھت کچی تھی،بارش بھی ہوئی مزید برآں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری رات عبادت کی جس کی وجہ سے پیشانی پر کیچ کے آثار نظر آئے) . ترجیح موجود ہوتے ہوئے یہ ذہن میں رہنا چاہیے کہ ستائیسویں میں شبِ قدر کا ہونا امر غالب ہے، امرِ دائمی نہیں جیسا کہ بخاری شریف کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اکیسویں شب کی نماز فجر اس حالت میں ادا کی کہ آپ کی پیشانی پر پانی اور کیچڑ کے آثار تھے.
*شبِ قدر کے اعمال:*
شبِ قدر میں کثرت سے دعا کرنا ایک مستحب عمل ہے، بطورِ خاص وہ دعا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کو اس وقت سکھائی جب انہوں نے سوال کیا : اے اللہ کے رسول! اگر مجھے کسی شب میں شبِ قدر کا علم ہوجائے تو میں اس وقت کیا پڑھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم اس وقت "اللهم إنك عفو تحب العفو فاعف عني” پڑھو.
*شبِ قدر کی علامات:*
*پہلی علامت:* صحیح مسلم کی روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر دی ہے کہ جس رات میں شبِ قدر ہوتی ہے اس کی صبح میں سورج اس طرح طلوع ہوتا ہے کہ اس میں کرنیں نہیں ہوتیں.
*دوسری علامت:*
صحیح ابن خزیمہ اور مسند طیالسی میں سندِ صحیح کے ساتھ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی ایک حدیث منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : شب قدر میں  رات روشن ہوتی ہے، نہ گرم ہوتی ہے نہ ٹھنڈ، سورج اس دن صبح میں ہلکا سرخ ہوتا ہے.
*تیسری علامت:* طبرانی نے سندِ حسن کے ساتھ حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث نقل کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے : شب قدر، واضح اور روشن رات ہوتی ہے، یہ رات نہ گرم ہوتی ہے نہ ٹھنڈ، اس رات میں (شیطانوں کو مارنے کے لیے) ستاروں کو نہیں چھوڑا جاتا.
شب قدر کی علامات بیان کرنے والی یہ تین صحیح احادیث ہیں (یہاں شیخ نے مسند احمد کی ایک اور حدیث نقل کی ہے، سابقہ احادیث سے معنیً معمولی فرق ہونے کی وجہ سے اسےدرج نہیں کیا گیا).
کچھ علماء نے دیگر علامات کا بھی تذکرہ کیا ہے، لیکن وہ ساری کی ساری بے بنیاد ہیں، مزید برآں وہ صحیح بھی نہیں ہیں؛ البتہ یہاں ان کا تذکرہ اس غرض سے کیا جارہا ہے کہ ان کی عدمِ صحت پر تنبیہ ہوجائے.
چنانچہ علامہ طبری رحمہ اللہ نے  ایک قول نقل کیا ہے کہ شب قدر کی ایک علامت یہ ہے کہ :  اس رات میں درخت گرکر زمین پر آجاتے ہیں، پھر اپنی اصل حالت کی طرف عود بھی کرجاتے ہیں، یہ علامت صحیح نہیں ہے.
 بعض لوگوں نے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ نمکین پانی اس رات میں میٹھا ہوجاتا ہے، یہ بھی صحیح نہیں ہے.
بعض لوگوں نے تو یہاں تک ذکر کیا ہے کہ اس رات میں کتے نہیں بھونکتے، یہ علامت بھی صحیح نہیں.
ایک علامت یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ اس رات ہرجگہ روشنی ہی روشنی ہوتی ہے، حتی کہ تاریک مقامات پر بھی. یہ بھی صحیح نہیں.
کچھ مقامات پر یہ تذکرہ بھی ملتا ہے کہ اس رات میں لوگوں کو ہرجانب سے سلام، سلام کی آوازیں سنائی دیتی ہیں، حالانکہ یہ بھی غلط ہے، ہاں! اللہ کے منتخب اور معزز بندوں کے ساتھ اگر ایسا واقعہ پیش آئے تو کچھ بعید نہیں؛ ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان بندوں کے اکرام واعزاز کی خاطر صرف ان کے ساتھ ایسا ہوتا ہو، وہ ہر جگہ روشنی ہی روشنی دیکھتے ہوں، ساتھ ہی فرشتوں کی طرف سے پیہم سلام کی آوازیں سنتے ہوں؛ لیکن عمومی طور پر ایسا ہونا حسی دلائل اور مشاہدے کے خلاف ہے.
اب اخیر میں دو باتیں نقل کرکے یہ گفتگو یہیں ختم کی جارہی ہے.
*پہلی بات :*  یہ ضروری نہیں کہ جس شخص کو شبِ قدر مل گئی ہو وہ یہ جان بھی لے اور اسے اس بات کا احساس بھی ہوجائے کہ اس نے شب قدر حاصل کرلی ہے.
شبِ قدر حاصل ہوئی یا نہیں؟ اس کا اعتبار کوشش اور اخلاص سے ہوتا ہے خواہ حاصل ہونے کا علم ہو یا نہ، کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ حصول کا علم تو نہیں ہوتا ؛ لیکن عبادت اور اللہ کی بارگاہ میں کثرت سے خشوع وخضوع، گریہ وزاری اور دعا کا اہتمام کرنے والوں میں فائق ہوتا ہے، بسا اوقات انسان شب قدر کی معرفت حاصل کرنے والوں میں اللہ کے نزدیک سب سے افضل اور بلند رتبہ کا حامل  ہوجاتا ہے.
*دوسری بات:*
راجح قول کے مطابق شب قدر امت محمدیہ علی صاحبہا الصلوۃ والتسلیم کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ یہ عام ہے، سابقہ امتوں میں بھی اس کا وجود تھا، چنانچہ نسائی شریف میں ایک روایت ہے کہ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا، اے اللہ کے رسول! کیا شبِ قدر انبیاء کے ساتھ ہوتی تھی، کہ ان کی وفات کے ساتھ شبِ قدر بھی اٹھ گئی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہرگز نہیں؛ یہ تو ابھی بھی باقی ہے.
یہ حدیث سندًا موطأ امام مالک کی اس حدیث سے زیادہ صحیح ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ : آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو امت کی عمریں دکھائی گئیں تو آپ نے انہیں کم خیال کیا، نتیجتاً آپ کو شبِ قدر عطا کی گئی، جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے.
اس حدیث کو اگر صحیح مان لیا جائے تو اس کی تاویل کی جاسکتی ہے؛ البتہ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ والی حدیث اس بابت صریح ہے کہ شبِ قدر انبیاء کے ساتھ ہوتی تھی، اس قول کو باری تعالیٰ کے ارشاد "إنا أنزلناه في ليلة القدر”  سے بھی تقویت ملتی ہے، وہ اس طور پر کہ جس روز نبی بناکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل کیا گیا، اس سے پہلے تو آپ نبی تھے نہیں کہ وہ رات آپ کے حق میں (یقینی طور پر) شب قدر ہوتی.

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×