اسلامیاتسیاسی و سماجی

سیلاب کی تباہ کاریاں اور ہمارا فریضہ

شہر حیدرآباد میں مسلسل طوفانی بارش نے قیامت ِصغریٰ برپا کردی ہے، کہا جاتا ہے کہ گذشتہ ۱۰۰ سالوں کے دروان پہلی مرتبہ ایسی تباہ کن بارش دیکھی گئی، حیدرآباد اور مضافات کے بیشتر نشیبی علاقے زیر آب آگئے، درجنوں لوگوں کی ہلاکت کے بعد حکومت کو بالآخر فوج طلب کرنی پڑی، شہر کے تالابوں کے پشتے ٹوٹ گئے ، کنالوں میں شگاف پڑ گئے، پانی کی زیادتی کی وجہ سے شہر کے تمام ذخیرہ ہائے آب لبریز ہوگئے، حمایت ساگر اور عثمان ساگر کے دروازے کھولنے پڑے، حکومت کو ہنگامی حالات کے پیش نظر ریاست بھر میں ہائی الرٹ جاری کرنا پڑا، شہر کے مختلف علاقوں میں دسیوں افراد کے بہہ جانے کی اطلاع ہے، ابتدائی اطلاعات کے مطابق حیدرآباد کے ۱۲۲ محلوں کے ۵۴۰,۲۰ مکانات تباہ ہوگئے، مکانات کی دیواریں اور چھتیں گرنے سے متعدد افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے، تازہ صورت ِحال یہ ہے کہ شاہین نگر،بابا نگر اور بعض دوسرے نشیبی علاقوں کے ۲۵۰۰ ہزار سے زائد گھر سوئمنگ پل میں تبدیل ہوچکے ہیں، تقریباً ۴ لاکھ خاندانوں کا کم از کم ۵۰ ہزار سے ۵ لاکھ روپئے تک نقصانات ہوا ہے، سیکڑوں خاندان جسم کے کپڑوں تک محدود ہوگئے ہیں، ان کے گھروں میں کچھ نہیں بچا، فریج،کمپیوٹر اور دیگر الیکٹرانک اشیاء ناکارہ ہوگئی ہیں، پلنگ، بستر اور ڈائننگ ٹیبل ، کتابیں، اسنادات ، پاسپورٹ، آدھار کارڈ،ووٹر شناختی کارڈ اور دوسری دستاویزات پوری طرح ڈوب گئے ہیں، گھر میں جمع پونجی، الماریاں اور گھر کے دیگر مقامات پر رکھی ہوئی تمام اشیاء ناکارہ ہوگئی ہیں، ہزاروں افراد کا سارا سازوسامان سیلاب کی نذر ہوچکا ہے، صرف آنکھوں میں آنسوباقی رہ گئے ہیں، انسانی بے بسی کے عجیب مناظر دیکھنے میں آئے، ایک ہی خاندان کے آٹھ افراد خاندان کے سرپرست کی نگاہوں کے سامنے بہہ گئے اور وہ دیکھتا رہ گیا، بعض نعشیں چار چار کلومیٹر تک بہہ گئیں، صفائی کا عملہ جب صفائی کررہا تھا تو ایک مقام پر کپڑا نظر آیا، جب اس کپڑے کو ریت کے ڈھیر سے نکالا گیا تو انسانی نعش نکل آئی، دسیوں افراد لاپتہ ہوگئے۔ الغرض ایک بدترین انسانی المیہ برپا ہوگیا، ہر طرف بے بسی اور بے کسی دندناتی نظر آئی۔
ہندوستان میں سیلاب وطوفان کے واقعات کچھ نئے نہیں ہیں، شمالی ہندکی بعض ریاستوں میں ہر سال سیلاب کی صورت ِحال پیدا ہوتی ہے، بہار، اڑیسہ وغیرہ میں سیلاب ہر سال تباہی مچاتا ہے،حالیہ عرصہ میں کرنول کی طوفانی بارش نے بھی بدترین انسانی المیہ کو جنم دیا تھا، چنئی کی طوفانی بارشوں نے بھی خوب تباہی مچائی تھی، طوفان،سیلاب، زلزلہ اور دیگر آفات سمایہ در اصل خدائی تنبیہ ہوتے ہیں، موجودہ ترقی یافتہ دور میں بھی جب کہ جدید ترقیات نے ہر قسم کی سہولیات پیدا کردی ہیں، انسان قدرت کے آگے بے بس ہے، امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی طوفان جانی ومالی نقصان کاباعث بنتے ہیں، اور ساری حکومتی مشنری ٹھپ ہوکر رہ جاتی ہے، پانی ایک ناگزیر انسانی ضرورت ہے، جس کے بغیر انسان تو انسان کسی بھی جاندار کی حیات کا تصور ممکن نہیں، روئے زمین پر ساری حیاتیات کا دارومدار پانی پر ہے، خالق کائنات کا کہنا ہے کہ میں نے پانی ہی سے تمام جانداروں کو پیدا کیا ہے، قرآن مجید میں دسیوں مقامات پر پانی کا تذکرہ خدا کی ایک عظیم نعمت کے طور پرکیا گیاہے، کہیں فرمایا گیا کہ ہم نے آسمان سے پاکیزہ پانی برسایا اور کہیں آب رسانی کے عالمی نظام کو اُجاگر کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہم پہلے خوشخبری سنانے والی ہوائیں بھیجتے ہیں پھر ہواؤں کے ذریعہ بادلوں کو مردہ زمینوں تک پہونچاتے ہیں، جہاں وہ بادل پانی برساتے ہیں جس سے ہم زمین سے پھل پودے نکالتے ہیں۔ الغرض پانی ایک ناگزیر انسانی ضرورت ہے، لیکن ایسی ناگزیر ضرورت کو اللہ تعالیٰ اس وقت تباہی کے سامان میں تبدیل کرتے ہیں جب روئے زمین پر انسانی معاشرہ میں فساد اور بگاڑ پیدا ہوتا ہے، اور بندگان خدا رب کی بندگی کے تقاضوں کو پس پشت ڈال کر خدا فراموشی اور عصیاں شعاری پر اتر آتے ہیں، آج کونسی اخلاقی خرابی ہے جس سے ہمارا سماج محفوظ ہو، سودی کاروبار کھلے عام کیا جاتا ہے، شادی کی تقریبات میں، لین دین سے لے کر فحاشی وبے حیائی کی ساری حدیں پار کی جاتی ہیں، دولت مند گھرانے لاکھوں روپئے خرچ کرکے ملک کے بڑے شہروں سے نیم برہنہ رقاصاؤں کو مدعو کرتے ہیں، آپسی حق تلفی عام ہے، کاروبار ومعاملات میں ظلم وتعدی کا دور دورہ ہے، خواتین کو میراث سے محروم کیا جاتا ہے، مسلم معاشروں میں قتل وخوںریزی جیسا سنگین جرم اس قدر عام ہے کہ کوئی شہر قتل کے یومیہ واقعات سے خالی نہیں ہوتا، نئی نسل تباہی کے دہانے پر پہونچ چکی ہے، پورنو گرافی کی لت کی شکار ہے،فحش سائٹس کا سب سے زیادہ استعمال مسلم معاشروں میں کیا جاتا ہے، کالج اور یونیورسٹی کے مخلوط ماحول سے متأثر ہوکر مسلم بچیاں غیر مسلم جوانوں کے ساتھ شادی رچا کر اپنے ایمان کا سودا کررہی ہیں، کوئی مہینہ ایسا نہیں گزرتا جب کسی نہ کسی مسلم لڑکی کے غیر مسلم جوانوں کے ساتھ فرار ہونے کی خبریں سننے میں نہ آتی ہوں، نوجوانوں کی بے راہ روی بام عروج کو پہونچ چکی ہے، سیل فون کی عادی نوجوان نسل احساس وشعور سے عاری فحاشی کے سیلاب میں غوطہ خوری کررہی ہے، جہاں تک ازدواجی وعائلی زندگی کا تعلق ہے تو ہمارے خاندان طلاق کی کثرت اور گھریلو ناچاقیوں کے سبب بکھرتے جارہے ہیں، خود لڑکیوں کی جانب سے طلاق کے مطالبے ہورہے ہیں، والدین نے بچوں کی دینی تربیت کی ذمہ داری سے خود کو فارغ کرلیا ہے، جب تباہی کے اتنے سارے سامان ہم نے خود اکٹھے کرلیا ہے تو کیا خدا کا عذاب نہیں آئے گا؟ بقول ایک اللہ کے جب تک مسلمان دین پر قائم رہتے ہیں اللہ تعالیٰ نظام کائنات کو ان کے موافق کردیتا ہے، اور جب وہ دین کی ناقدری کرتے ہیں تو نظام کائنات کو ان کا مخالف کردیا جاتا ہے، آسمان سے پانی کا برسنا ا ور زمین کا زلزلوں سے محفوظ رہنا سب کا تعلق نظام کائنات سے ہے، جس کا سرا خدا کے ہاتھ میں ہے۔موجودہ تباہ کن سیلاب ہمیں دعوت فکر دیتا ہے کہ ہم اپنے احوال کو درست کرلیں اور سارے گناہوں سے سچی توبہ کرکے رجوع الی اللہ کا اہتمام کریں، نبی کریم ﷺ کا حال یہ تھا کہ آپ کو آسمان پر ذرا بادل نظر آتے تو آپ فوراً مسجد تشریف لے جاتے اور نماز ودعا میں مصروف ہوجاتے، صحابہ کے دریافت کرنے پر فرماتے کہ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں یہ خدا کا عذاب نہ ہو، یہ تو نبی پاک ﷺ کا حال تھا ،لیکن ہمارا حال اس سے بالکل مختلف ہے، ہم ان حالات میں رجوع الی اللہ کرنے کے بجائے سیلاب کی المناک ویڈیوز دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں، اور غیر ضروری تبصروں میں مگن رہتے ہیں، کیا یہ تبصروں کا موقع ہے یا آنسو بہانے کا؟ایسے المناک حالات میں بھی ہماری مساجد میں مصلیوں کا اضافہ نہیں دیکھا جاتا۔
آفات ِسماوی، زلزلے اور طوفان بندوں کے لیے خدائی امتحان ہوتے ہیں،متأثرین کے لیے بھی اور محفوظ لوگوں کے لیے بھی، متأثرین کے لیے امتحان اس طور پر کہ اللہ تعالیٰ دیکھنا چاہتے ہیں کہ میرے بندے سخت حالات میں صبر کا دامن تھام کر اپنے اعمال کی درستگی کرتے ہیں یا پھر اس قسم کے حادثات کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا، جو لوگ ان حادثات سے سبق لے کر رجوع الی اللہ کرتے ہیں انھوں نے گویا خدائی امتحان میں کامیابی حاصل کرلی، غیر متأثر افراد کے لیے امتحان کا موقع یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آزماتے ہیں کہ آیا غیر متأثر اور محفوظ بندے میرا شکر بجا لاتے ہیں اور متأثر بھائیوں کی مدد کرتے ہیں یا پھر اس عظیم ذمہ داری سے منھ موڑ لیتے ہیں، غور کیجیے کہ کیا خدا تعالیٰ سارے بندوں کو حادثات سے محفوظ رکھنے کی قدرت نہیں رکھتے؟ اور کیا وہ مال روزی میں سب کو یکساں طور پر فارغ البال نہیں رکھ سکتے؟ خدا تعالیٰ ضرور قدرت رکھتے ہیں، لیکن فرق اس لیے رکھا گیا تاکہ آزمایا جائے کہ محفوظ اور صاحب ِثروت لوگ اپنے متأثر ومفلوک الحال بھائیوں کی مدد کرتے ہیں یا نہیں؟
معزز قارئین! ماہِ ربیع الاول کا مبارک مہینہ شروع ہوچکا ہے ،یہ وہ مہینہ ہے جس میں نبی کریمﷺ دنیا میں تشریف لائے، ہر مسلمان واقف ہے کہ آپﷺ بے کسوں کے مددگار، یتیموں کے والی، غریبوں کے مولی، حاجت مندوں کے دستگیراور مفلوک الحال بندوں پر ترس کھانے والے تھے، آپ ہمیشہ ستم رسیدہ انسانیت کی مدد کے لیے کمر بستہ رہتے تھے، آپ کی سیرت کا انسانی، سماجی ورفاہی پہلو سب سے نمایاں ہے،نبوت سے قبل بھی آپ انسانی خدمت کے داعی اور علمبردار تھے، غریبوں کا تعاون فرماتے اور ناداروں کا بوجھ اٹھاتے تھے، مظلوموں کی داد رسی فرماتے تھے، غار ِحراء میں پہلی وحی کے نزول کے بعدجب آپ پریشانی کے عالم میں حضرت خدیجہ ؓ کے پاس تشریف لائے اور ان سے سارا واقعہ بیان کیا، اور اس بات کا اظہار کیا کہ مجھے اپنی جان کا خطرہ محسوس ہورہا ہے، حضرت خدیجہؓ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے آپ کی جن صفات کا تذکرہ کیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ بندگان خدا کی مدد ونصرت میں ہمیشہ پیش پیش رہتے تھے،حضرت خدیجہؓ نے آپ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا: آپ ہرگز پریشان نہ ہوں، اللہ تعالیٰ کبھی آپ کو ضائع نہیں کرے گا، اس لیے کہ آپ صلہ رحمی فرماتے ہیں، لوگوں کا بوجھ اٹھاتے ہیں، مہمانوں کو کھلاتے ہیں، ناداروں کو کما کر دیتے ہیں اور اہل مصیبت کی مصیبت میں مدد کرتے ہیں۔
قارئین! ہم اس نبی کے امتی ہیں جن کا فرمان ہے کہ تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے گا، نیز آپ نے یہ بھی فرمایا : اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کھاتا، آپ کا یہ بھی فرمان ہے کہ مخلوق ساری کی ساری اللہ کا کنبہ ہے، خدا تعالیٰ کے نزدیک سب سے بہتر انسان وہ ہے جو اس کے کنبے کے ساتھ احسان کا معاملہ کرتا ہے، آپ نے نہ صرف مجبوروں، بے کسوں اور حاجت مندوں کی حاجت روائی کی تلقین فرمائی بلکہ اس کے عملی نمونے بھی پیش فرمائے، ایک مرتبہ آپ مسجد نبوی میں صحابہ کے درمیان تشریف فرماتھے کہ ایک خاتون اپنی کسی ضرورت کے لیے آپ کے پاس آئی، آپ صحابہ کے درمیان سے اٹھ کر دیر تک مسجد نبوی کے صحن میں اس کی بات سنتے رہے اور حاجت روائی کا تیقن دلا کر اسے روانہ کردیا۔ایک مرتبہ کسی قبیلہ کے خستہ حال وپراگندہ بال لوگ مسجد نبوی میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ان کی مفلوک الحالی کا یہ عالم تھا کہ ان کے جسم پر ستر کو ڈھانکنے کے لیے بھر پور لباس تک نہ تھا، ان کی بدحالی کو دیکھ کر آپ بے چین ہوگئے، چہرہ انور غم واندوہ سے اُداس ہوگیا، بے چینی کے عالم میں آپ کبھی حجرہ میں داخل ہوتے اور کبھی باہر آتے، اتنے میں اذان کا وقت ہوا، نماز کے بعد آپ نے لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا:لوگو! اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ بھلے کھجور کے ایک ٹکڑے ہی کے ذریعہ کیوں نہ ہو، آپﷺ کی اپیل پر حضرات ِصحابہ ان مجبور لوگوں کے لیے تعاون اکٹھا کرنے لگے، تھوڑی ہی دیر میں مسجد نبوی میں دو ڈگار لگ گئے، ایک غلہ کا اور دوسرا کپڑوں کا۔ چہرہ انور خوشی سے کھل اٹھا، امت کے بدحال لوگوں کی ضرورت پوری ہوتے دیکھ کر آپ خوشی سے سرشار ہوگئے، محسن انسانیت ﷺ کی تعلیمات میں سب سے بہتر انسان وہ ہے جو لوگوں کے لیے سب سے زیادہ نفع رساں ہو، ارشاد نبوی کے مطابق وہ شخص انتہائی بدبخت ہے جس کے سینہ سے رحم اور ہمدردی نکال دی جائے، نیز آپ کا فرمان ہے کہ وہ شخص کامل مومن نہیں ہوسکتا جو خود تو شکم سیر ہوجائے اور اس کا پڑوسی بھوکا سوئے، ایسے محسن انسانیت اور غمخوار آدمیت کے ہم امتی ہیں، اس کا تقاضا ہے کہ ہم سیلاب کے متأثرین کی بعض آباد کاری کے لیے دامے درمے سخنے آگے آئیں، اس وقت ہزاروں ہمارے ایمانی اور وطنی بھائی سیلاب کی لپیٹ میں ہیں، جسم کے ایک جوڑے کے سوا ان کی ہر چیز سیلاب کی نذر ہوچکی ہے، ان کے گھر کیچڑ اور گندگی سے اٹے ہوئے ہیں، ان کی بے تاب نگاہیں ہمیں تاک رہی ہیں، ان کا ہر طرح سے تعاون کرنا ہمارا دینی، ملی اور انسانی فریضہ ہے، مقام شکر ہے کہ اہلیان حیدرآباد سیلاب متأثرین کے لیے غیر معمولی فراخ دلی کا مظاہر کررہے ہیں، جمعیۃ العلماء، جماعت تبلیغ، صفاء بیت المال، جماعت اسلامی، مجلس اتحاد المسلمین اور دیگر دسیوں تنظیمیں اور مختلف صاحب ِخیر حضرات متأثرین تک امداد پہونچانے کی ہر ممکنہ کوشش کررہے ہیں، اللہ تعالیٰ ان تنظیموں اور شخصیات کو بھر پور صلہ عطا فرمائے۔ خصوصیت کے ساتھ دعوت وتبلیغ کے جوانوں کا کردار سنہرے حروف سے لکھے جانے کے لائق ہے، مالی تعاون کرنا آسان ہے، لیکن گندگی سے اٹے ہوئے مکانوں کی صفائی انتہائی مشکل اور صبر آ زما کام ہے، شہر اور اضلاع کے دعوتی نوجوان دیوانہ وار صفائی کے کام انجام دے رہے ہیں، شہر حیدرآباد کی تاریخ رہی ہے کہ یہ شہر آفات ِسماویہ اور فسادات سے متأثرہ افراد کی بعض آباد کاری کے لیے ہمیں ہمیشہ پیش پیش رہا ہے، ماضی میں جتنے بڑے حادثات پیش آئے اس شہر سے سبھی علاقوں کو تعاون جاتا رہا ہے، لیکن آج یہ شہر خود آفت کی زد میں ہے، حالیہ امدادی مہم کی خاص بات یہ ہے کہ مسلم نوجوان بہت سے غیر مسلم متأثرہ علاقوں میں بھی صفائی اور امداد کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں، جس کے بڑے خوشگوار اثرات مرتب ہورہے ہیں، البتہ امدادی مہم کے دوران چند باتیں ملحوظ خاطر رہنا چاہیے:
۱- چونکہ متأثرین کی تعداد لاکھوں میں ہے، اس لیے زیادہ سے زیادہ تعاون اکٹھا کرنے کی کوشش کی جائے، بہتر ہے کہ شہر کی تمام مساجد میں جمعہ کے موقع پر خصوصی تعاون کا اعلان کیا جائے۔
۲- تقسیم امداد کے دوران متأثرین کی عزت ِنفس کا خیال رکھا جائے اور یہ بات ملحو ظ رہے کہ انفاق میں جس قدر اخلاص ہوگا اسی قدر وہ اللہ کے یہاں قابل قبول ہوگا، ویڈیوگرافی اور تصویر کشی بعض تنظیموں کی مجبوری ہوتی ہے کہ اس کے بغیر معاونین کو اعتماد نہیں ہوتا ، لیکن حتی الامکان نمود ونمائش سے گریز کیا جائے۔
۳- امدادی مہم میں شریک تنظیموں میں تال میل کی کمی محسوس ہوتی ہے، بیشتر تنظیمیں کھانے کی شکل میں تعاون کررہی ہیں، جب کہ کھانے سے کہیں زیادہ اہم اشیائے ضروریہ کی فراہمی ہے، آپسی تال میل ہو تو امدادی کاموں کو مزید مؤثر اور منظم بنایا جاسکتا ہے۔
۴- اکثر گھروں میں ضرورت سے زائد گھریلو سامان ہوتا ہے، نیز قابل استعمال کپڑے بھی ہوتے ہیں، انہیں زیادہ سے زیادہ جمع کرکے متأثرین تک پہونچانے کی کوشش کی جائے۔
۵- اس وقت سیلاب زدہ علاقوں میں بیشتر مکانوں میں کیچڑ اور گندگی بہت زیادہ ہے، اس کی صفائی کے لیے زیادہ سے زیادہ کارکنوں کی ضرورت ہے۔بہتر ہے کہ ہر محلہ سے صحت مند نوجوانوں کو صفائی مہم کے لیے آمادہ کیا جائے،خدا کا فضل ہے کہ اضلاع سے بھی صفائی میں حصہ لینے کے لیے نوجوانوں کی کثیر تعداد حیدرآباد کا رخ کررہی ہے، صاحب ِثروت حضرات مزدوروں کے ذریعہ بھی صفائی کا کام انجام دے سکتے ہیں۔
۶- متأثرہ علاقوں میں گندگی اور موسم کی خرابی کے سبب بہت سے ضعیف اور بزرگ احباب وخواتین بیماریوں سے دوچار ہوچکے ہیں، ہماری امدادی مہم کا ایک حصہ یہ بھی ہے کہ ایسے بیماروں اور کمزوروں کے لیے دوا اور پرہیز کا کھانا فراہم کیا جائے۔
۷- کھانے پر زیادہ زور دینے کے بجائے یہ دیکھا جائے کہ متأثرین کی ضرورت کیا ہے، اصل خدمت ضرورت کی تکمیل ہے۔
۸- ان ساری خدمات کے ساتھ متأثرین اور ساری امت ِمسلمہ کے لیے دعاؤں کا خاص اہتمام کیا جائے کہ اللہ تعالیٰ امت ِمسلمہ کی بھر پور حفاظت فرمائے اور ہمارے ملک کو ہر طرح کی آفات ِسماویہ سے محفوظ فرمائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×