اسلامیاتمولانا سید احمد ومیض ندوی

اخلاق کی تباہی اور دین و ایمان کی بربادی کا سامان

اولاد اور نئی نسل کی تربیت والدین اور معاشرہ پر عائد ہونے والی ایک ایسی عظیم ذمہ داری ہے جس پر کسی بھی قوم کے روشن مستقبل کا دارومدار ہوتا ہے۔ معاشرہ کی اصلاح اور صالح بنیادوں پر سماج کی تعمیر نئی نسل کی مذہبی اور ایمانی خطوط پر تربیت کے بغیر ممکن نہیں۔ اولاد کو صلاح و تقویٰ سے آراستہ کرنا ان میں خوفِ خدا اور تصور آخرت پیدا کرنا دنیا و آخرت کی سرخروئی کے لئے ناگزیر ہے۔ معاشرہ کا بگاڑ اور نوجوانوں کی بے راہ روی دراصل تربیتِ اولاد کی عظیم ذمہ داری سے پہلو تہی کا نتیجہ ہے۔ نئی نسل کی تربیت کی ذمہ داری جس قدر سنگین نوعیت کی حامل ہے فی زمانہ اس سے اسی قدر غفلت برتی جارہی ہے۔ موجودہ دور میں انٹرنیٹ اور موبائل کے آزادانہ استعمال نے نئی نسل کو اخلاقی و ایمانی دیوالیہ پن کی جس سطح کو پہنچایا ہے اس کی سنگینی کے اظہار سے الفاظ و تعبیرات قاصر ہیں۔ موبائل کے بے لگام استعمال کی عادی نئی نسل کا دین و ایمان اور اس کے اخلاق و اقدار ہر گزرتے دن کے ساتھ جس تیزی کے ساتھ جس طرح کھوکھلے ہوتے جارہے اس کے تصور ہی سے دل کانپ جاتا ہے۔ جن والدین نے اپنی اولاد کو موبائل او رانٹرنیٹ کی چراہ گاہ میں چرنے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے وہ دراصل اپنی اولاد کی بربادی کا سامان کررہے ہیں ۔ ویسے موبائل اور انٹرنیٹ کے منفی استعمال کی ہر صورت تباہ کن اور دین و دنیا کے زوال کا باعث ہے لیکن نئی نسل کی دینی و اخلاقی پستی میں ویڈیو گیمز کا جو کلیدی رول ہے اس سے انکار ممکن نہیں۔ ویڈیو گیمز بچوں اور جوانوں کے لئے نشہ کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔ کم عمر بچے اور نوجوان حتیٰ کہ بہت سے عمر رسیدہ افراد ویڈیو گیمز کی لت کا شکار ہیں۔ والدین عام طورپر ویڈیو گیمز کو محض ایک تفریحی عمل خیال کرتے ہیں جبکہ تفریح اور وقت گزاری کے طورپر اختیار کی جانے والی یہ مشغولیت بچوں کے لئے تباہ کن ہوتی ہے۔ نیز والدین کو اس بات کا بھی احساس نہیں ہوتا کہ اس قسم کے ویڈیو گیمز یہود و نصاریٰ کی جانب سے نئی نسل کو تباہ کرنے کے لئے منصوبہ بند سازش کے طورپر تیار کئے جاتے ہیں جس کا مقصود نئی نسل کو کھیل کے عنوان سے اسلام سے متنفر کرنا ہے۔ اس وقت ویڈیو گیمز کا رواج اسقدر بڑھ چکا ہے کہ ہر کس و ناکس ان سے متاثر ہورہا ہے۔ ہمارے جوانوں اور بچوں کے شب و روز کا بیشتر وقت ویڈیو گیمز میں گزر رہا ہے۔ عموماً جب گھروں میں بچے کمپیوٹر میں مشغول ہوجاتے ہیں تو والدین اچھا گمان کرتے ہوئے سوچتے ہیں کہ بچے کمپیوٹر کا مثبت استعمال کررہے ہوں گے۔
ویڈیوگیمز سے ہونے والے نقصانات دینی بھی ہیں اور دنیوی بھی، اخلاقی بھی ہیں اور معاشرتی بھی، طبی بھی ہیں اور اعتقادی بھی۔ ذیل کی سطروں میں کچھ انتہائی تباہ کن نقصانات کی نشاندہی کی جاتی ہے۔
اسلام اور شعائر اسلام سے نفرت
ویڈیو گیمز میں قرآن، کعبہ، مسجد نبوی اور اسی طرح کے دیگر شعائر کو انتہائی توہین آمیز انداز میں پیش کیاجاتا ہے جنہیں مستقل دیکھتے رہنے سے بچوں کے قلوب سے شعائر اسلام کی عظمت نکل جاتی ہے۔ نیز ویڈیو گیمز میں ایسے کردار بھی شامل کرلئے جاتے ہیں جن کے ہاتھوں اسلامی وضع قطع اور اسلامی حلیہ ڈاڑھی وغیرہ کا مذاق اڑایاجاتا ہے اور اسلامی حلیہ میں ملبوس کرداروں کو مروادیا جاتا ہے یا پھر اسلامی کرداروں کو دہشت گردوں کی شکل میں پیش کیاجاتا ہے۔ ویڈیو گیمز میں شعائر اسلام کی توہین کیسے کی جاتی ہے اس کا اندازہ لگانے کے لئے چند مشہور ویڈیو گیمز کی تفصیلات ملاحظہ کیجئے :
(۱) ایک معروف ویڈیو گیمز Call of duty کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ ہمارے ملک میں بہت فیمس ہے اور نئی نسل اس کی بڑی دلدادہ ہے۔ سارے مذاہب سے تعلق رکھنے والے بچے ، جوان اس گیم سے شغل رکھتے ہیں۔ اس کے فرسٹ پارٹ ہی میں فوٹو فریم پر قرآن کی آیتیں لکھی ہوئی ہیں اور یہ فوٹو فریم ٹائلیٹ میں لگا ہوا ہے۔ اس گیم کے دوسرے حصے Call of duty blackops2 میں ایک گٹر میں قرآنی آیات لکھی ہوئی دکھائی گئی ہیں۔ پھر جگہ جگہ قراآن کو الماری میں رکھا ہوا دکھایاگیا ہے۔ گیم کچھ اس انداز سے بنایاگیا ہے کہ ہیروز جب تک ان الماریوں والے روم کو بم سے اڑا نہ دیں گے تب تک وہ آگے نہیں بڑھ سکتے۔ پارٹ ٹو کے اندر ہیروز جہاں جہاں گٹر میں کودتے ہیں وہیں قرآنی آیات لکھی ہوتی ہیں۔ اس قسم کی حرکت گستاخ یہود ہی کرسکتے ہیں جنہوں نے کتاب اللہ کو بدل ڈالا اور اللہ کی برگزیدہ ہستیاں حضراتِ انبیاء کرام کو قتل کیا۔ ایسے گیم کھیلنے والے مسلم بچہ دین و قرآن سے متعلق کیا اثر لے گا ہر شخص اندازہ کرسکتا ہے۔
(۲) ایک گیم کا نام Resident ہے۔ اس سیریز کے پارٹ 4 میں کثرت سے اسلام کی توہین کی گئی ہے۔ زمین پر جگہ جگہ قرآن بکھری ہوئی دکھائی گئی ہے۔ گیم کے ہیروز ان بکھرے ہوئے قرآنی نسخوں پر چل کر آگے بڑھتے ہیں۔ اس گیم میں شیطان کی دنیا میں گھسنے کا جو دروازہ بنایاگیا وہ ہو بہو مسجد نبوی کے دروازے جیسا ہے۔ گویا یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ نعوذ باللہ مسجد کا دروازہ شیطان کی دنیا میں گھسنے کا دروازہ ہے۔ بھلا جو بچہ اس گیم میں مصروف ہوگا وہ مسجد نبوی اور تمام مساجد کے بارے میں کیسے گندہ تاثر لے گا۔
(۳) ایک اور ویڈیو گیم بچوں میں بے حد مقبول ہے جسے Prince of Persia کہاجاتا ہے۔ اس گیم میں جو پرنس دکھایاگیا ہے اسے اسلام اور مسلمانوں کے راجکمار کے طورپر دکھایاگیا ہے جوکہ گیم میں بے تحاشہ خون خرابہ کرتا ہے۔ اس کی تلوار پر واضح طورپر انگریزی میں Spread the Teachings یعنی تعلیمات کو پھیلاؤ تحریر کیا ہوا ہے۔ گویا یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ حضرت محمد ﷺ کی تعلیمات خون ریزی ، قتل و غارت گری کے ذریعہ پھیلا ئی گئی ہیں اور دین اسلام قتل و قتال اور دہشت گردی کا مذہب ہے۔ پورے گیم میں پرنس آف پرسیا کو صرف تلوار استعمال کرتے ہوئے اور خون خرابہ کرتے ہوئے دکھایاگیا ہے۔ اس گیم کو کھیلنے والے سادے لوح بچوں کو یہی تاثر ملے گا کہ اسلام تلوار سے پھیلا یا گیا ہے۔
(۴) ایک گیم کا نام Devil Niaxcry ہے۔ اس گیم میں ایک ٹاور دکھایاگیا ہے جس کے پاس شیطان کے پجاری شیطان کی پرستش کرتے ہیں۔ اس ٹاور کادروازہ کعبہ کے دروازہ کی طرح دکھایاگیا ہے۔ اس دروازہ میں داخل ہوکر شیطانی دنیا میں پہنچنا ہوتا ہے۔ یہ ایک گھناؤنی سازش ہے۔
(۵) Little Big Planet نام کا ایک اور گیم ہے جس کے بیک گراؤنڈ میوزک میں قرآنی آیات کو میوزک کے ساتھ گانے کی شکل میں پیش کیاگیا ہے۔ ایک گیم Taken Tag Tournament2 کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ٹیکن سیریز کے اس گیم کی بیک گراؤنڈ تھیم میں قرآنی آیات لکھی گئی ہیں حتیٰ کہ زمین پر بھی لفظ اللہ لکھا گیا ہے۔
اس تفصیل کو جاننے کے بعد آپ خود ہی غور فرمائیں کہ اس قسم کے گیموں کے لئے بچوں کو چھوٹ دینا کیا انہیں ملحد و بے دین بنانا نہیں ہے؟ جن بچوں نے بچپن ہی سے کعبہ، قرآن اور شعائر اسلام کی توہین کے ماحول میں آنکھیں کھولا ہو کیا ان میں دین اور خدا ورسول ﷺ سے محبت پیدا ہوگی؟ بعض ویڈیو گیمز میں جادو اور پر اسرار علوم کو نمایاں کیا جاتا ہے۔ جس سے بچوں کے عقائد پر کاری ضرب پڑتی ہے۔ بچے تو ہمات کا شکار ہوجاتے ہیں۔
شرم و حیاء کی نیلامی
ویڈیو گیمز کا ایک خطرناک منفی اثر بچوں سے شرم و حیاء کے زوال کی شکل میں ہوتا ہے۔ ویڈیو گیمز میں شامل بیشتر کرداروں کو انتہائی فحش لباسوں میں ملبوس اور فحش حرکتیں کرتے ہوئے دکھایاجاتا ہے اور ہماری نئی نسل گھنٹوں ان کا مشاہدہ کرتی ہے۔ بعض گیموں میں شرمناک جنسی کام اور نازیبا زبان استعمال کی جاتی ہے۔ جسے دیکھ کر حیاء سر پیٹنے لگتی ہے۔ بچوں کی بلوغت کا مرحلہ گہری نگہداشت کا طالب ہوتا ہے۔ اس عمر میں بچوں کے بگڑنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں اگر والدین بچوں کو موبائل کے بے لگام استعمال کی چھوٹ دے دیں اور ویڈیو گیمز کو معمولی خیال کرکے گھنٹوں اس میں لگے رہنے دیں تو یہ ان کے اخلاق کی بربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا۔ بعض ویڈیو گیمز کے اختتام پر کھلاڑی بچوں کو انعام سے نوازا جاتا ہے۔ وہ انعام انتہائی خوبصورت لڑکی کی شکل میں پیش کیاجاتا ہے۔ اس لڑکی کا انداز انتہائی نامناسب ہوتا ہے۔ یہ دراصل بچوں میں بے حیائی کو فروغ دینے کا حربہ ہے۔
قتل و غارت گری اور تشدد کا فروغ
تحقیقاتی سروے سے ثابت ہوچکا ہے کہ نو عمر بچوں اور جوانوں میں جرائم اور تشدد میں اضافہ کی بنیادی وجہ ویڈیو گیم ہیں۔ بیشتر ویڈیو گیمز میں قتل و غارت گری اور تشدد کے مناظر پیش کئے جاتے ہیں۔ ماردھاڑ اور قتل و خون خرابہ کے مناظر سے بھرپور گیم کھیل کھیل کر بچوں میں بے رحمی، تشدد اور دوسروں کے ساتھ ظالمانہ رویہ جیسی باتیں فروغ پاتی ہیں۔ کینیڈا میں 30 ہزار ویڈیو گیمز کا جائزہ لیاگیا ہے جن میں سے 22 ہزار ایسے گیمز تھے جن میں خون ریزی ، تشدد اور جرائم کو بڑھا وا دیا گیا تھا۔ بعض گیموں میں مختلف گروپوں کے درمیان لڑائی کے مناظر پیش کئے جاتے ہیں۔ بعض میں منشیات کا بے تحاشہ استعمال کرتے ہوئے دکھایاجاتا ہے۔ تشدد ، ماردھاڑ کے مناظر دیکھ کر بچوں میں ان کے عملی مظاہرہ کا شوق پیدا ہونا فطری ہے چنانچہ ویڈیو گیمز استعمال کرکے بچے جرائم کے نت نئے طریقے سیکھ جاتے ہیں۔ بعض ایسے ویڈیو گیمز بھی ہیں جن میں وہ لوگ بھی ہیرو کی فائرنگ کا نشانہ بنتے ہوئے دکھائے گئے جو گھٹنوں کے بل بیٹھ کر گڑ گڑاتے ہوئے رحم کی درخواست کرتے ہیں اور موت سے بچنے کے لئے چیخ و پکار کرتے ہیں لیکن ویڈیو گیم کھیلنے والا فائنل راؤنڈ تک پہنچنے کے لئے ان سب پر گولیاں چلاتے ہوئے آگے بڑھتا ہے جس کی وجہ سے ہر طرف خون ہی خون دکھائی دیتا ہے اور کھیلنے والا ان مناظر سے لطف اندوز ہوتا رہتا ہے۔ کچھ ایسے بھی گیمز ہیں جن میں ہیرو کار میں سوارہوکر لوگوں کو کچلتا ہوا چلاجاتا ہے بعض گیموں میں انسان کو ذبح کرنے کے ہولناک مناظر ہیں۔ بعضوں میں مکانات اور پلوں کو دھماکے سے اڑانے کے مناظر شامل ہیں۔تشدد کے مناظر دیکھ دیکھ کر بچے ان کے عادی ہوجاتے ہیں اور ایسے گیموں کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق امریکہ کے 80 فیصد نوجوان ماردھاڑ اور تشدد سے بھر پور گیم کھیلنا پسندکرتے ہیں۔ ایک امریکی ماہر نفسیات کا کہنا ہے کہ بدقسمتی کی بات ہے کہ یہ ویڈیو گیمز ہمارے معاشرے کو غلط سمت لے جارہے ہیں اور ہم اپنے بچوں کو کمپیوٹر گیم کے ذریعہ وہ سب کچھ سکھارہے ہیں جو کسی اور طریقہ سے بہت دیر میں سیکھا جاتا ہے۔ کمپیوٹر کے ذریعہ بچے نہ صرف جدید ہتھیاروں کے استعمال میں مہارت حاصل کرلیتے ہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ انسانوں اور دوسرے جانداروں کو گولیوں کا نشانہ بنانا بھی سیکھ لیتے ہیں۔ سوشیل میڈیا پر شائع بعض واقعات سے اندازہ ہوتا ہیکہ وڈیو گیمز بچوں میں جرائم و تشدد کو بڑھاوا دینے میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ کولمبیائی ہائی اسکول کے 17 اور 18 سالہ دو طالب علموں نے 20 اپریل 1999ء کو 12 طلبہ اور ایک ٹیچر کو قتل کردیا۔ تحقیق پر پتہ چلا کہ یہ دونوں طالب علم ویڈیو گیم کی لت میں مبتلا تھے۔ اپریل 2000ء میں ایک 16 سالہ اسپینی لڑکے نے ایک ویڈیو گیم کے ہیرو کی نقل کرتے ہوئے اپنے والدین اور بہن کو تلوار سے قتل کردیا۔ نومبر2001ء میں 21 سالہ امریکی نوجوان نے خودکشی کرلی۔ اس کی ماں نے بتایا کہ وہ ویڈیو گیم کا عادی تھا۔ فروری 2003ء میں ایک 16 سالہ امریکی لڑکے نے ایک ویڈیو گیم سے متاثر ہوکر ایک بچی کا قتل کردیا۔ 2007ء کو برطانیہ میں ایک 17 سالہ نوجوان نے ایک 14 سالہ لڑکی کو پارک میں لے جاکر ہتھوڑے اور چھری کے پے درپے وار کرکے ہلاک کردیا۔ تحقیق پر پتہ چلا کہ وہ ایک ویڈیو گیم سے متاثر تھا۔ اس قسم کے درجنوں واقعات پیش آچکے ہیں اور مسلسل پیش آرہے ہیں۔ کیا یہ واقعات ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی نہیں ہیں؟
صحت کی بربادی
ویڈیو گیمز صحت انسانی کے لئے انتہائی تباہ کن ہیں۔ سائنس دانوں اور ڈاکٹروں نے اس سلسلہ میں بار بار انتباہ دیا ہے۔ سوشیل میڈیا پر مختلف ڈاکٹروں کے حوالہ سے ویڈیو گیمز کے جن طبی نقصانات کی نشاندہی کی گئی وہ انتہائی چونکادینے والے ہیں۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ویڈیو گیم میں موجود کارٹون کی روشنی سے نکلنے والی شعاعیں بچوں میں مرگی کا عارضہ پیدا کرتی ہیں۔ نیز ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ گیمز میں برق رفتاری کا مظاہرہ کرنے سے بچوں کو ہڈیوں اور عضلات کی تکلیف لاحق ہوسکتی ہے ۔ کی بورڈ پر انگلیوں کی مسلسل حرکت کی وجہ سے انگھوٹھے اور انگلی کو بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے ۔ ویڈیو گیمز میں آنکھوں کی حرکت تیز ہوجانے کی وجہ آنکھوں پر برا اثر پڑتا ہے۔ کمپیوٹر اسکرین سے مقناطیسی لہریں نکلتی ہیں جس کی وجہ سے آنکھیں سرخ اور خشک ہوجاتی ہیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×