اسلامیاتمولانا سید احمد ومیض ندوی

مسلمانوں کی پانچ بیماریاں

پڑوسی مسلم ملک کے ایک مصروف کالم نگار اپنے ملک میں موجود ایک یوروپی ملک کے سفیر سے گہرے مراسم رکھتے تھے۔ یوروپی ملک کا ان کا یہ سفیر دوست عام سفیروں کی طرح نہ تھا بلکہ سفیر کے ساتھ وہ ایک دانشور اور تجزیہ نگار بھی تھا۔ قوموں کے عروج و زوال کا مطالعہ اس کا محبوب مشغلہ تھا، بقول ان کالم نگار کے ان کا سفیر دوست جب گفتگو کرتا اور دلائل دیتا تو ایسا معلوم ہوتا کہ غبار چھٹ رہا ہے اور حقیقتیں ایک ایک کرکے سامنے آرہی ہیں۔ ماضی کے تجزیوں کی بنیاد پر وہ مستقبل کی ایسی پیشین گوئی کرتا کہ آنے والا زمانہ نظروں کے سامنے پھرنے لگتا ہے۔ مذکورہ معروف کالم نگار نے اپنے یوروپی سفیر دوست کے ساتھ ہوئی آخری ملاقات کی تفصیلات اپنے ملک کے ایک روزنامے میں شائع کی ہے چونکہ اس گفتگو میں اور مسلمانوں کے تعلق سے اس یوروپی سفیر کے تاثرات میں ہم سب مسلمانوں کے لئے غور و فکر کے ان گنت گوشے ہیں۔ اس لئے مناسب معلوم ہوتا ہے کہ انہی کے الفاظ میں اس گفتگو کو من و عن نقل کردیاجائے ۔ کالم نگار موصوف تحریر کرتے ہیں:
’’جس دن مجھے اطلاع ملی کہ طویل قیام کے بعد وہ یہاں سے واپس جارہا ہے اور انہیں فرائض منصبی کو اب کسی اور ملک میں سر انجام دے گا تو میں نے اس سے درخواست کی کہ روانگی سے پہلے میرے ہاں آئے اور کچھ وقت گزارے ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ ہمارے ملک میں تم نے اتنے سال گزارے ۔ مشاہدہ کیا۔ طول و عرض میں گھومے پھرے۔ شہر ، قصبے اور قریے دیکھے عوام اور خواص سے ملاقاتیں کیں۔سیاست داں ، نوکر شاہی فوج سب کو قریب سے دیکھا ، تم کس نتیجے پر پہنچے اور ہمارا مستقبل تمہیں کہاں اور کیسا نظر آرہا ہے؟ وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا مجھے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے وہ میرے سوال کا جواب دینا پسند نہیں کرے گا۔ تاہم کچھ دیر کے بعد اس نے میری طرف مسکراکر دیکھا ’’میں یہاں آنے سے پہلے بہت سے ملکوں میں رہا۔ مسلمان ملکوں میں بھی مغربی ملکوں میں بھی اور مشرق بعید کے ملکوں میں بھی۔ میری سوچی سمجھی رائے تمہارے ملک کے بارے میں یہ ہے کہ یہاں بے پناہ ٹیلنٹ ہے۔ ترقی کے لا محدود امکانات ہیں لیکن تمہارے قومی جسم کوچند بیماریاں لاحق ہیں اور یہ بیماریاں ٹیلنٹ کو کچھ نہیں کرنے دیتیں۔
پہلی بیماری تم لوگوں کی انتہائی درجہ کی جذباتیت ہے جو تمہیں سوچنے سمجھنے سے تجزیہ کرنے سے اور دعویٰ کا ثبوت دیکھنے سے روکتی ہے۔ اس کی وجہ تعلیم کا نہ ہونا ہے یا ایک تاریخی روایت کا تسلسل ہے۔ مجھے نہیں معلوم ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ عوام جذبات کے ڈھیر کے سوا کچھ نہیں۔ میں یہ سن کر حیران ہوتا ہوں کہ تحریک پاکستان میں عوام تمہارے محبوب قائد کی تقریر انگریزی میں سنتے تھے اور بغیر سمجھے لبیک کہتے تھے۔ یہ بات فخر سے بیان کرتے وقت تم لوگوں کو یہ بھی سوچنا چاہئے کہ یہی وہ عوام ہیں جو بغیر سوچے سمجھے ہر بھٹو ہر جمشید دستی ہر پیر سپاہی ہر نجومی اور ہر تعویذ فروش کو کامیاب کراتے ہیں اس جذباتیت کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ تم لوگ کسی ثبوت کسی شہادت کے بغیر اپنی رائے کی درستی پر اصرار کرتے ہو اور مرنے مارنے پر تل جاتے ہو۔ کچھ لوگ آنکھیں بند کرکے طالبان کو الزام دیتے ہیں اور کچھ امریکہ کو اور ثبوت دونوں کے پاس نہیں ہیں اور یہ صرف ایک مثال ہے۔
تم لوگوںکو لاحق دوسری خطرناک بیماری یہ ہے کہ تم قانون کو فیصلہ کرنے نہیں دیتے اور خود فیصلہ کرتے ہو۔ یوں ہر شخص کا فیصلہ مختلف ہوتا ہے۔ جب بھی ٹریفک حادثہ ہوتا ہے اور ایک منٹ سے کم عرصہ میں لوگ وہاں جمع ہوجاتے ہیں تو مدعی اور مدعی علیہ دونوں کو مشورہ دیاجاتا ہے کہ چھوڑیں۔ کوئی بات نہیں۔ کوئی ایک شخص بھی یہ نہیں کہتا کہ آپ کے درمیان پولیس فیصلہ کرے گی آپ اس حد تک قانون سے بھاگتے ہیں کہ اپنے اسلامی قوانین کے مقابلہ میں ذاتی رائے کو ترجیح دیتے ہیں آپ کا پسندیدہ رہنما کرپشن کرے تو آپ کی رائے یہ ہوتی ہے کہ سارے کرپشن کرتے ہیں۔ آپ کا پسندیدہ رہنما کسی کو قتل کردے یا کرادے تو لاکھوں لوگوں کا فیصلہ یہ ہوتا ہے کہ آخر بادشاہ قتل کراتے ہی رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ ناجائز زمین پر مسجد بنائی جائے تو اسلامی قانون کو پس پشت ڈال کر صرف یہ کہا جاتا ہے کہ اللہ کا گھر ہے۔ جہاں بھی بن جائے۔ اگر اس رویہ کے بجائے تم لوگوں کا رویہ یہ ہوجائے کہ ہر مقابلہ میں قانون کا فیصلہ دیکھا جائے اور اپنی رائے نہ دی جائے، تو تم لوگوں کی حالت ہی بدل جائے۔
تمہاری تیسری بیماری یہ ہے کہ تم لوگ دوسرے سے رابطہ صرف اس وقت کرئتے ہو جب تمہارا اپنا کام ہوتا ہے لیکن جب تمہارے ذمے دوسرے کا کام ہو تو تم رابطہ نہیں کرتے۔ دنیا میں جتنی ترقی یافتہ قومیں ہیں وہ اس بے حد خطرناک بیماری سے پاک صاف ہیں جس کے ذمے جو کام ہے وہ اسے پورا کرکے متعلقہ شخص کو یا ادارے کو مطلع کرتا ہے اور اگر نہیں کرسکتا تب بھی اطلاع دیتا ہے تمہارے معاشرہ میں ایک غدربر پا ہے سائل مسؤل کے پیچھے قرض خواہ مقروض کے پیچھے آجر مزدور کے پیچھے بھاگ رہا ہے، جس جگہ پہنچنا ہے وہ وہاں پہنچتا ہے۔ نہ کچھ بتاتا ہے، جس نے کام کردیا وہ بھی نہیں بتاتا کہ کام ہوچکا ہے ۔ جس نے کام نہیں کیا وہ بھی خاموش ہے یا غائب ہے۔ یہ جہالت ہے یا غیر ذمہ داری ہے۔ جو کچھ بھی ہے تمہارے وسائل کوضائع کررہی ہے۔
چوتھی خطرناک بیماری یہ ہے کہ تمہاری اکثریت مذہب کو ذاتی اصلاح کے بجائے مالی فائدہ کے لئے استعمال کررہی ہے اور تم لوگوں کو اس کا احساس تک نہیں۔ اسلام کا اولین مقصدفرد کی اصلاح ہے لیکن اسلام کے جو اصول فرد کی اصلاح کے لئے تیر بہدف ہیں انہیں آج ترقی یافتہ ملکوں کے لوگ استعمال کررہے ہیںاور مسلمان انہیں رات دن پیروں تلے روند رہے ہیں۔ صرف ایک مثال دیکھ لو کہ وعدہ خلافی تمہارے معاشرہ میں اس قدر عام ہے کہ شاید ہی کوئی شخص اسے برا سمجھتا ہے۔ جھوٹ کی وہ کثرت ہے کہ گھر، بازار دفتر، سیاست، تجارت، مسجد ہر جگہ جھوٹ ہی جھوٹ ہے۔ دوسری انتہا یہ ہے کہ تاجر اپنی اشیاء بیچنے کے لئے لوگوں کے مذہبی جذبات کا بے تحاشا استحصال کررہے ہیں۔ شہد بیچتے وقت اسے اسلامی شہد کا نام دیاجاتا ہے۔ میں نے کسی ملک میں عیسائی ہندو یا یہودی شہد نہیں دیکھا۔ دکانوں کا نام مدینہ مکہ اسلامی اور حرمین رکھا جاتا ہے تاکہ جذبات سے کھیلا جائے۔ لالچ اور سنگدلی کی انتہا یہ ہے کہ نہاری اور پان تک تم لوگ اپنے رسول کے نام پر بیچ رہے ہو اور اس توہین پر کسی کو شرم نہیں آتی ہے نہ افسوس ۔ مذہبی رہنماؤں سے کوئی نہیں پوچھتا کہ تمہاری آمدنی کے ذرائع کیا ہیں اور مدرسوں میں پڑھانے والے مفلوک الحال علماء اور مدرسوں کے مالکان سے نہیں پوچھتے کہ تمہارا معیار زندگی کروڑ پتیوں جیسا کس طرح ہوگیا ہے؟
تمہاری پانچویں بیماری یہ ہے کہ افریقی ممالک کو چھوڑ کر تم شاید دنیا میں سب سے زیادہ گندے ہو، جتنے گندے تمہارے مسجدوں کے طہارت خانے ہیں اتنے گندے میں نے کسی اور مسلمان ملک میں نہیں دیکھا۔ میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں جب میں نے دیکھا کہ وضو کرنیکی جگہ ایک مسواک رکھا ہوتا ہے اور ہر شخص آکر اسے استعمال کرتا ہے۔ تم لوگوں کو دھول اور گرد سے گھبراہٹ ہوتی ہے نہ ٹھہرے ہوئے گندے پانی سے گھن آتی ہے، مکان تعمیر کرنے والا تمہاری پوری سڑک پر ریت اور سیمنٹ ڈال دیتا ہے۔ لیکن کوئی چوں بھی نہیں کرتا۔ تمہارے ٹاپ کے شہروں میں لوگ چلتی گاڑیوں سے پھلوں کے چھلکے اور سگریٹ کی خالی ڈبیاں سڑک پر پھینک دیتے ہیں اور نہ کسی کو شرم آتی اور نہ اعتراض کرتا ہے۔
کاش تم لوگ پوری دنیا کی اصلاح کرنے کے بجائے کچھ وقت ان پانچ بیماریوں کی فکر بھی کرو جنہو ںنے تمہارے جسم کوتعفن میں ڈال رکھا ہے‘‘۔ (نوائے وقت۔ ۷؍مئی ۲۰۱۲ء)
اہلِ مغرب میں پائی جانے والی بے شمار خرابیوں کے اعتراف کے باوجود مذکورہ مغربی سفارت کار نے مسلمانوں کی جن بیماریوں کا تذکرہ کیا ہے وہ سو فیصد درست ہیں۔ ہمارے اندر بے انتہاء جذباتیت ہے۔ ہم اکثر و بیشتر ہوش کھوکے نرے جوش سے کام لیتے ہیں جس کے نتائج عموماً ہولناک تباہی کی شکل میں نکلتے ہیں۔ ہم میں اکثردوسروں سے اسی حد تک رابطہ رکھتے ہیں جب تک اس سے اپنا مفاد وابستہ ہوتا ہے۔ ہم میں تعلیم کی بڑی کمی ہے۔ ہماری ملت کی اکثریت صفائی ستھرائی کا اہتمام نہیں کرتی ہم میں سے بہت سے لوگ مذہب کو ذاتی اصلاح کے بجائے مالی فائدہ کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ حالانکہ ہمارا دین ہمیں ان ساری بیماریوں سے پاک کرتا ہے۔ ہمارے دین کی بے شمار معاشرتی اور انسانی و اخلاقی تعلیمات کو اہل یوروپ نے اپنایا ہے یہاں مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کے اس ملفوظ کو دہرانا بجا معلوم ہوتا ہے جسے ان کے لائق فرزند شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی تقی عثمانی نے اپنے دورۂ ہند کے موقع پر ایک خطاب میں کہا تھا۔ حضرت فرماتے ہیں ’’ حق میں دبنے کی صلاحیت نہیں حق ہمیشہ سربلند رہنے کے لئے آیا ہے الحق یعلوولا یعلی حق تو ہمیشہ سربلند ہوگا اور باطل غالب ہونے کے لئے نہیں بلکہ مغلوب ہونے کے لئے آیا ہے ’’ان الباطل کان زھوفا‘‘ ۔باطل مٹنے اور مغلوب ہونے والی چیز ہے وہ غالب ہونے والی چیز نہیں۔ اگر کسی باطل قوم کو دیکھو کہ دنیا میں ترقی کررہی ہے تو سمجھ لو کہ کوئی نہ کوئی حق چیزاس کے ساتھ لگی ہوئی ہے جو اس کو ابھار رہی ہے اور اگر کسی حق قوم کو دیکھو کہ پستی کی طرف جارہی ہے تو سمجھ لو کہ کوئی باطل چیزاس کے ساتھ لگی ہوئی ہے۔ باطل قومیں ترقی کرتی ہیں تو باطل کی وجہ سے نہیں بلکہ کوئی حق کی صفت اختیار کرنے کی وجہ سے باطل کو ترقی ملتی ہے۔ عرصہ دراز سے اہل مغرب کو دنیا میں ترقی مل رہی ہے اس لئے کہ ان کے اندر حق کی کچھ صفات ہیں جس کو انہوں نے اپنی زندگیوں میں اختیار کرلیا ہے‘‘۔
اس کے بعد مولانا تقی عثمانی اہلِ مغرب میں پائی جانے والی حق کی صفات کی وضاحت کرتے ہوئے۔ فرماتے ہیں ’’بیشتر مغربی ممالک میں یہ معاملہ ہے کہ ان کے یہاں جو مال بک رہا ہوگا وہ لوگ اس کی حقیقت پوری طرح واضح کردیں گے کہ اس کے اندر فلاں چیز اچھی ہے فلاں چیز بری ہے۔ پھر اگر کسی خریدار کی خریدنے کے بعد رائے بدل گئی ایک مہینہ تک بھی اگر واپس سامان لے جاکر دیتا ہے تو بلاتامل اس کو واپس لیا جاتا ہے۔ یہ حکم رسول اللہ ﷺ نے تعلیم فرمایا تھا جس کو انہو ںنے اپنی تجارت میں اختیار کرلیااس کے بر خلاف ہمارے یہاں بورڈ لگاہوتا ہے کہ ’’خریدا ہوا مال واپس نہیں لیاجائے گا‘‘۔ یہ بات مغرب میں رہنے والا ہر ایک جانتا ہے کہ اگر کسی نے ٹیلی فون ملایااور اس میں غلط نمبر مل گیا تو اگر وہ شخص ٹیلی فون کمپنی کو فون کرکے کہہ دے کہ مجھ سے غلط نمبر مل گیا تو ٹیلی فون کمپنی مان لیتی ہے اور اس کے بل چارجز ختم کردئیے جاتے تھے جبکہ بعد میں ہمارے لوگ وہاں پہنچے ، انہو ںنے کالیں کرنی شروع کردی اور کمپنی کو فون کرکے کہہ دیا کہ یہ رانگ نمبر مل گیا، تو نتیجہ یہ ہوا ک ہ جو سہولت میسر تھی وہ بھی ختم ہوگئی‘‘۔ (خطبات دورۂ ہند: ۱۳۰، باختصار)
یہ حقیقت ہے کہ مسلمان اپنے اسلامی صفات سے عاری ہوتے جارہے ہیں اور غیر ان صفات کو اپنا رہے ہیں۔ جن کی وجہ سے دنیوی دستور کے مطابق انہیں کامیابی حاصل ہورہی ہے۔ اس حقیقت کو صحابی رسول حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے بھی بڑے اچھے پیرایے میں بیان کیا ہے، ایک مرتبہ حضرات صحابہ آپس میں احادیث کاتذکرہ کررہے تھے حضرت مستور قریشی نے حضور ﷺ کی ایک حدیث سنائی جس میں آپ ﷺ نے فرمایا: ’’تقوم الساعۃ والروم اکثرالناس‘‘۔ قیامت کے قریب رومی (عیسائی) لوگ بہت زیادہ تعداد میں ہوں گے‘‘۔ مجلس میں حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے۔ وہ اس حدیث کو سنکر چونک گئے اور کہنے لگے ’’مستور! ذرا سوچ کر کہو کیا کہہ رہے ہو؟‘‘۔ مستور نے کہا میں وہی کہہ رہا ہوں جسے میں نے حضور ﷺ سے سنا ہے۔ اس پر حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اگر فی الواقع یہ حدیث صحیح ہے کہ قیامت کے قریب عیسائیوں کی کثرت ہوگی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں پانچ خصلتیں پائی جاتی ہیں (جو ان کی ساری ترقی کی ضامن ہیں) (۱) وہ فتنہ و فساد کے وقت ہوش سے کام لیتے ہیں جوش میں نہیں آتے۔ (۲) وہ مصیبت اور حادثہ میں مبتلاہوکر جلد ہی سنبھل جاتے ہیں۔ (۳) انہیں اگر میدان سے بھاگنا پڑے تو جلد تیاری کرکے دوبارہ حملہ آور ہوتے ہیں (مایوس ہوکر نہیں بیٹھتے)۔ (۴) مسکین ، یتیم اور کمزوروں کے حق میں وہ بہت اچھے (مددگار) ثابت ہوتے ہیں اور پانچویں ایک اچھی صفت ان میں یہ ہے کہ وہ بادشاہوں کو مظالم سے روکنے والے ہیں۔ (مسلم شریعت : ۲؍ ۲۹۲)
ضرورت اس بات کی ہے کہ امت مسلمہ اپنے اندر پائی جانے والی ان بیماریوں کودور کرے جو اس کے جسم کو اندر سے کھوکھلاکر رہی ہیں۔ ورنہ وہ اس طرح اقوام عالم کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہوتی رہے گی اور اسے جرم ضعیفی کی سزا ’’مرگِ مفاجات‘‘ کی شکل میں بھگتنا پڑے گا۔ اس وقت پورے عالم میں سب سے زیادہ اگر کسی قوم کا لہو ارزاں ہے تو وہ مسلمان ہیں، برما میں کس بے دردی کے ساتھ مسلمانوں کا خون بہایاگیا ہر شخص جانتا ہے۔ ہمارے ملک میں آسام کا سانحہ ابھی تازہ ہے۔ ان حالات کے باوجود اگر ہم ہوش کے ناخن نہ لیں تو پھر ہماری بے حسی ہمیں تباہ کرکے رکھ دے گی۔

Email: awameez@gmail.com
Mob: 09440371335

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×