اسلامیاتمولانا سید احمد ومیض ندوی

فریضۂ حج اور موجودہ مسلم معاشرہ

عازمین حج کی مقامات مقدسہ کو روانگی کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے ملک کی مختلف ریاستوں سے کئی لاکھ عازمین حرمین شریفین کو پہنچ چکے ہیں، ہماری ریاست تلنگانہ سے بھی حجاج کے قافلوں کی روانگی شروع ہو چکی ہے، پہلا قافلہ یکم اگست کو روانہ ہوا یہ سلسلہ مزید کئی دنوں تک جاری رہے گا، حجاج کی روانگی عجیب روح پرور منظر پیش کر تی ہے حج ہاؤس اور ایر پورٹ پر پر کیف سماں بند ھ جاتا ہے لبیک اللھم لبیک کی صداؤں سے سارا ماحول گونچ اٹھتا ہے ہر ایک کی زبان پر عشق خداوندی کے ترانے ہوتے ہیں حج کے لئے روانگی کا منظر انتہائی روح پرور ہوتا ہے جس سے ہر مسلمان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتا ۔
حج اسلام کا ایک عظیم فریضہ ہے جو اکثر و بیشتر زندگی میں ایک مرتبہ ادا کیا جاتا ہے، حج کے ان گنت روحانی سماجی اور معاشرتی فوائد ہیں ، حج ایک انقلاب آفرین عبادت ہے جو انسان کو ایک صالح انقلاب سے آشنا کرتی ہے حج انسانی معاشرے کی تعمیر اور روح کو بالیدگی اور جلابخشنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے، موجودہ مسلم معاشرے میں جہاں اسلام کے دیگر شعبوں سے متعلق تساہل افراط و تفریط اور بے اعتدالی پائی جاتی ہے وہیں فریضہ حج کے حوالے سے بھی افراط و تفریط اور کوتاہیاں عام ہیں اکثر مسلمان حج کی ادائیگی کے سلسلہ میں افراط یا تفریط کا شکار ہیں ، مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ ایسا ہے جس پر حج فرض ہو چکا ہے لیکن مختلف بہانوں سے حج کو ٹالتا رہتا ہے حج کی فرضیت کے لئے آدمی کا صاحب استطاعت ہو نا کافی ہے یعنی اس کے پاس اتنی مالیت ہو جس سے مقامات مقدسہ کا سفر کیا جاسکے اور واپسی تک کے گھریلو اخرجات کی پابجائی ہو ، فی زمانہ ڈھائی تا تین لاکھ کی فراہمی بہت سوں کے لئے کوئی بڑی بات نہیں ہے لیکن ہزاروں مسلمان ہیں جو صاحب استطاعت ہو نے کے باوجود حج ادا نہیں کر تے کسی کو اولا کی شادی کا مسئلہ در پیش ہے تو کوئی رٹائر منٹ کا منتظر ہے کچھ لوگ اس وجہ سے حج کو نہیں جاتے کہ حج کے بعد سارے گناہ چھوڑنے پڑیں گے وہ بڑھاپے کے منتظر رہتے ہیں تاکہ آخری عمر میں تو بہ کے ساتھ حج کا فریضہ ادا کریں ، انہیں بڑھاپا پانے کا یقین کامل ہے بہت سے لوگوں پر حج فرض ہو چکا ہوتا ہے مگر لاعلمی کی وجہ سے خود کو حج سے بری الذمہ سمجھتے ہیں انسان کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں ہے حج کی استطاعت کے بعد فوری طور پر اس فریضہ سے سبکدوش ہو نے کی فکر کرنی چائیے حج تو ایک ایسی سعادت ہے جس کی تمنا ہر مومن کے دل میں ہونی چاہئے چہ جائیکہ فرضیت کے بعد ٹال مٹول کیاجائے ۔
امت مسلمہ کا ایک دوسرا طبقہ ہے جسکی صورت حال پہلے طبقہ کے بر عکس ہے اللہ نے اسے دولت کی فراونی بخشی ہے اور وہ فرض حج بھی ادا کر چکے ہیں نیز متعدد نفل حج کی بھی سعادت حاصل ہو چکی ہے ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ ہر دو چار سال کے وقفہ سے حج کا پروگرام بنا تے ہیں اور کسی سال کا عمرہ بھی نہیں چھوٹتا، یہ وہ طبقہ ہے جن کے خاندان میں خود بہت سے افراد غربت کی زندگی گزارتے ہیں اور انہیں اپنے ان بد حال رشتہ داروں کا علم بھی ہے جو نان شبینہ کے محتاج ہیں ، وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کے شہر میں سیکڑوں غریب مسلمان غربت کی وجہ سے اپنی جوان بچیوں کی شادی سے قاصر ہیں ، ملت اسلامیہ کی مفلوک الحالی ان کی نظروں سے پوشیدہ نہیں ہے مگر اس کے باوجود وہ غریب مسلمانوں پر اپنی دولت صرف کر نے کے بجائے ہر سال عمرہ کر نا ضروری سمجھ تے ہیں اور ایسا اس لئے کہ عمرہ میں شہرت ہے اور بار بار حج کرنے سے ناموری حاصل ہوتی ہے انہیں چپکے سے کسی ضرورت مند پر خرچ کر نا قبول نہیں ہے ایسے لوگوں کو مشہور محدث حضرت عبد اللہ ابن مبارکؒ کا طرز عمل سامنے رکھنا چاہئے ، عبد اللہ ابن مبارکؒ نفل حج کو جارہے تھے راستہ میں ایک بستی سے گذر ہوا دیکھا کہ ایک لڑ کی کوڑے دان سے ایک مری ہوئی مرغ کو چھپا کر لے جارہی ہے دریافت کر نے پر پتا چلا کہ ایک خاتون اپنی بیٹیوں کے ساتھ گذارا کر رہی ہے کئی دنوں کے فاقہ نے انہیں بد حال کر دیا ہے آخر کار جان بچا نے کے لئے یہ ترکیب اختیا کی گئی عبد اللہ ابن مبارک ؒ نے سا تھیوں سے کہا کہ سا را مال و متاع اس مفلوک الحال گھرانے کے حوالہ کر دو اور وہیں سے وطن واپس ہو گئے اصل دین داری یہ ہے آدمی خدا و رسول کے منشا کو سمجھے اور جس وقت دین کا جو تقاضہ ہو اسے مقدم رکھے اللہ کے گھر کی بار بار زیارت یقیناًبڑی سعادت کی بات ہے لیکن امت مسلمہ کے دیگر تقاضے بھیہمارے پیش نظر رہیں، دور دراز علاقوں کی سیکڑوں ایسی بستیاں ہیں جہاں غربت کے مارے مسلمان نان شبینہ کی خاطر قادیانیت اور عیسائیت قبول کر کے اپنے ایمان کا سودا کر رہے ہیں، شہروں میں ہزاروں شادی لائق بچیاں اپنے غریب والدین کے لئے بوجھ بنی ہوئی ہیں اور بعض بچیاں خود کشی پر مجبور ہو رہی ہیں جبکہ مسلم لڑ کیاں غیر مسلم لڑکوں کے ساتھ شادی رچا رہی ہیں آخر اس صورت حال کے ذمہ دار کون ہیں کیا اس کی ذمہ داری ان صاحب ثروت مسلمانوں پر نہیں آتی جنہیں اللہ نے دولت کی فراوانی بخشی ہے؟
فریضہ حج بھی اسی طرح کا ایک فریضہ ہے جیسے اسلام کے دیگر فرائض ہیں نماز روزہ اور زکواۃ کی طرح حج بھی ایک عبادت ہے اور عبادت کی قبولیت کے لئے اولین شرط اخلاص ہے اخلاص کے بغیر اللہ کے یہاں کوئی عمل قابل قبول نہیں حج زندگی میں ایک مرتبہ ادا ہونے والی عبادت ہے ہو نا تو یہ چاہیے تھا کہ اس فریضہ کو پورے اخلاص کے ساتھ ادا کرنے کا اہتمام کیا جاتا بہت سے اللہ کے بندے اس کا اہتمام بھی کر تے ہیں لیکن عام صورت حال یہ ہے کہ ہر گزرتے سال کے ساتھ حج میں دکھاوے کا معاملہ بڑھتا ہی جارہا ہے قرعہ میں نام آتے ہی حج کا شور شروع کردیا جاتا ہے پھر دعوتوں کا ایک طویل سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس میں گل پوشی اور ویڈیو گرافی کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے پھر جب ایر پورٹ روانگی کا وقت آتا ہے تو اس وقت بھی تصویر کشی کا ایک سیلاب امنڈ آتا ہے ، بہت سے لوگ حج کو روانگی سے پہلے بڑے اہتمام کے ساتھ تمام اخبارات میں اپنی فوٹو کے ساتھ روانگی کی خبریں شائع کراتے ہیں پھر حج کے بعد بار بار حج کا تذکرہ معمول بن جاتا ہے اور حاجی کہلانے کا شوق اس درجہ سوار ہو جاتا ہے کہ کوئی اگر نام سے پہلے الحاج لکھنا بھول جائے تو اسے سخت ڈانٹ پلائی جاتی ہے حیرت ہے کہ دن میں پانچ مرتبہ نماز پڑھنے والا خود کے نمازی ہو نے کا اظہار نہیں کر تا لیکن زندگی میں ایک مرتبہ حج کر نے والے کو حاجی کہلانے کی فکر ہمیشہ دامن گیر رہتی ہے عازمین کو چاہئے کہ وہ اخلاص کا دامت ہاتھ سے جانے نہ دیں ورنہ سب کئے کرائے پر پانی پھر جائے گا حج سے پہلے حج کا ڈھنڈورا نہ پیٹیں سرمایہ اخلاص کی بھر پور حفاظت کریں ریا و نمود اور نمائش والی ہر حرکت سے گریز کرے، حج پر حاجی کو بہت کچھ ملتا ہے حاجی گناہوں سے ایسی طرح پاک و صاف ہو جاتا ہے جیسے ماں نے ابھی جنا ہو حج کا بد لہ جنت کے سوا کچھ نہیں مگر یہ سب اس وقت ہے جب حج خدا کی رضا کے لئے کیا جائے یہی وجہ ہے کہ احادیث شریفہ میں حج مقبول کے لئے اخلاص کی شرط رکھی گئی ہے ۔
بند ہ حج کے لئے اس لئے جاتا ہے تاکہ اپنے روٹھے ہوئے رب کو منائے حج کا سفر اطاعت کا سفر ہے حج کا مقصد خود کو اللہ تعالی کا مطیع و فرماں بردار بنانا ہے ، لیکن حیرت ہے کہ بہت سے عازمین آغاز سفر ہی سے خدا کی نافرمانیاں شروع کردیتے ہیں حج ہاؤس پر بے پردہ خواتین کی بھیڑ لگی رہتی ہے مرد و خواتین کا اختلاط ہوتا ہے فوٹو گرافی اور تصویر کشی شرعاً ممنوع ہے لیکن روانگی کے وقت اور مقامات مقدسہ میں بے تحاشہ سیلفی کا اہتمام کیا جاتا ہے سیلفی کا شوق تو اب تمام حدوں کو پار کر چکا ہے حتی کہ بہت سے لوگ روضۂ رسولؐ پربھی اس سے اجتناب نہیں کر تے وہ عازمین انتہائی بد نصیب ہیں جو حرمین شریفین پہنچ کر بھی خلاف شرع کاموں سے گریز نہ کریں ، گناہوں سے اجتناب کے بغیر حج مقبول کی توقع رکھنا فضول ہے عازمین کو چاہئیکہ وہ ہر اس عمل سے خود کو دور رکھیں جس سے خدا و رسول ناراض ہوتے ہوں ۔
سفر حج اورحرمین شریفین کا قیام آدمی کے اخلاق کا امتحان ہے بھیڑ کی کثرت کی وجہ سے قدم قدم پر لوگوں سے تکلیف پہنچتی ہے حجاج کو چاہئے کہ و ہ تحمل اور قوت برداشت سے کام لیں بات بات پر جھگڑنا اور لوگوں کی اذیت کا سبب بنا نا اچھی چیز نہیں ہے حرمین کے احترام کا تقاضہ یہ ہے کہ ہم اس مقدس سرزمین میں اور کعبۃ اللہ کے پڑوس میں رہ کر حسن اخلاق کا بھر پور مظاہرہ کریں اپنی ذات سے کسی کو تکلیف نہ دیں اور دوسروں سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کریں اور اپنے گروپ کے رفقاء کے ساتھ خیر خواہانہ برتاؤ کریں اور بوڑھے اور ضعیف عازمین کی خدمت کو غنیمت جانیں، ہوٹلوں میں قیام اور منیٰ کے ایام میں صبر سے کام لیں طواف میں دھکم پیل سے بچیں حجر اسود کے بوسہ کی خاطر پہلوانی کا مظاہر ہ نہ کریں نیز رمی جمار پر بھی سکون و وقار کا لحاظ رکھیں حج کا موقع ایک مومن کے لئے اچھے اخلاق کے مظاہرہ کا موقع ہوتا ہے عازمین کو اپنا اخلاقی برتاؤ درست رکھنا چاہئے
حج کا ایک اہم ترین پیغام اخوت و بھائی چارگی اور آپسی اتحاد ہے عازمین کو اس پر بھر پور توجہ دینا چاہئے وطن میں مختلف مسلکی خانوں میں ہم بٹے رہتے ہیں اور بعض حضرات مسلکی مسائل میں انتائی تشدد کا مظاہر ہ کر تے ہیں حج کا موقع ہمیں اپنے اپنے مسلکوں پر بر قرار رہتے ہوئے اخوت اسلامی کا مظاہر ہ کرنے کی تلقین کر تا ہے دنیا میں کوئی قوم ایسی نہیں ہے جس کے یہاں حج کی طرح عالم گیر اجتماع ہو تا ہو مسلمان واحد قوم ہے جسے اللہ تعالی نے حج جیسی نعمت عطا فرمائی ہے ہمیں اس کی قدر کر نی چاہئے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×