اسلامیات

اسلام امن وسلامتی کامرکز

اسلام امن وسلامتی کا مذہب ہے یہ اپنی اصل میں بھی سلامتی کامعنی رکھتاہے اوراپنی تعلیمات احکام میں بھی سلامتی کاپیغام دیتاہےاوراپنے ماننےوالوں کو بھی سلامتی کاحکم دیتاہے اسلام دنیامیں بربریت اوروحشت ودرندگی کوختم کرنے کیلئے آیاہے یہ دلوں سے نفرت اورعداوت دورکرکے پیارومحبت پیداکرتاہے یہی وجہ ہےکہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشادفرمایا ’’المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ والمومن من امنہ الناس علی دمائھم واموالھم‘‘دنیاکے تمام ادیان ومذاہب کے درمیان مذہب اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جہاں امن وسلامتی کی تعلیم دیجاتی ہے اخوت وبھائی چارگی کادرس دیاجاتاہے جہاں امن وامان کے پھول کھلتےہیں مگر افسوس !!!آج کچھ ناعاقبت اندیش گروہوں کی طرف سے اسلام اوراسلامی تعلیمات پریلغارہورہی ہےجن کانظریہ ہےکہ اسلام افتراق وانتشارکا پیغام دیتاہے اسلامی تعلیمات ملک کی داخلی سلامتی کیلئے خطرہ ہے اسلام ہی کی وجہ سے عوام الناس امن وامان سے محروم اوران کاچین وسکون غارت ہے۔
لیکن جب ہم تاریخ کامطالعہ کرتےہیں تومعلوم ہوتاہےکہ اسلام ہی وہ امن پسند مذہب ہے جس نے کفارمکہ جیسے خونخوار ظالموں کوبھی معاف کردیا اوران لوگوں کو بھی زندگی کاپروانہ دیا جواس پودے کوزیرزمیں دفن کرنےکی گھات میں رہاکرتےتھے اورمذہب اسلام کوصفحہ ہستی سے ناپیدکرنےکیلئےکمربستہ تھے فتح مکہ کی تاریخ اٹھاکر دیکھیےاوراسلام کے قدموں کوبوسہ دیجئے یہ واقعہ اسی دنیامیں پیش آیا لوگوں کی آنکھوں نے دیکھا دوست دشمن سب نے مشاہدہ کیا کہ مسلمانوں پر مکۃ المکرمہ بلکہ اس پورےخطےکی زمین تنگ کردی گئی تھی اورآپ کیساتھ آپ کے ہم خیال مسلمانوں کو مکہ سے نکالناان کاسب سے بڑاہدف بن چکاتھا مگرایک وقت وہ بھی آیاجب مسلمانوں کے حق میں فتح وکامرانی کا سورج طلوع ہوا اسلام سپرپاوربن کر ابھرا اس میں انتقام کی قوت پیداہوئی اس موقع پر ہرمسلمان جذبہ انتقام سے سرشارتھا سب کے سینے میں انتقام کی آگ بھڑک رہی تھی ایسے سنگین موقع پراسلام کی تعلیمات دیکھو اورانصاف کاچشمہ لگاکر خوب غورکروکہ اسلام نے یہاں بھی صبروتحمل کی تعلیم دی اوروہ بادشاہ جسےغلاموں کی طرح بھگا یاگیاتھا وہ عظیم فرمارواںجس کیلئے مکہ کی زمین تنگ کردی گئی تھی امن وسلامتی کا وہ علمبردار جسے لوگ گالیاں دیتےتھے آج پوری قوت ہیں لیکن آپ کے سینہ اطہرمیں اسلامی شمع فروزاں تھی آپ کوتو اسلام کی شجرکاری وآبیاری مقصود تھی چنانچہ آپ نے انتہائی سکون وقارکیساتھ ارشادفرمایا’’لاتثریب علیکم الیوم اذھبوا وانتم الطلقاء‘‘ اےلوگوجائوآج تمہارامواخذہ نہیں کیاجائیگا جائو تم سب کے سب آزادہو ۔
محبان اسلام ! پوری اسلامی تاریخ کابغور ایک ایک صفحات کاحسن ظن کیساتھ مطالعہ کیجیے کہ اللہ کے رسول ﷺ کی آغوش میں پناہ لینےوالوں سےاعلان’’لافضل لعربی علی عجمی ولالعجمی علی عربی ‘‘یہی وہ اسلام کی عالمگیر اخوت اوردعوت اسلامی کی وحدت ہے جس نے مغربی دنیا کواسلام کے دروازے پردستک دینےپرمجبورکردیا اورصدیوں سے بھٹکے ہوئے انسانوں کو صراط مستقیم پر لاکر دل کے تاریک ترین دریچوں کو نورایمانی سے جگمگاکررکھ دیا اورحلم وبردباری سے کام لےکر پوری دنیاکے سامنےامن وسلامتی اورصلح وآشتی کا ایک بےمثال نمونہ پیش کیا اورقیامت تک آنیوالے انسانوں کو ایک پیغام دیا کہ امن کالباس اسلام میں ملےگا عفت وعصمت کی چادراسلام میں ملےگی ایثاروہمدردی کاسایہ اسلام میں ملےگا اوراخوت وبھائی چارگی کی گھنی چھائونی اسلام میں ملےگی۔
اسلام نے امن کاایک جامع تصورپیش کیاہے وہ ہرفردکے ضمیرکو مخاطب کرتاہے اوراس میں مخصوص عقائد وتصورات ،اقدار اوراخلاقیات کوراسخ کرتاہے اسی طرح وہ خاندان سے بھی خطاب کرتاہے اوراس کے امن واستحکام کیلئے مخصوص ہدایات دیتاہے اس کی توجہ سماج کے سدھار پر بھی مرکوزرہتی ہے اوروہ اس کی پاکیزگی کو قائم رکھنے اورراسے برائیوں سے محفوظ کرنےکیلئے بھرپور جدوجہدکرتاہے آخرمیں وہ ایسی تعلیمات پیش کرتاہے جنہیں عالمی سطح پرقیام امن کیلئے ر ہنما بنایاجاسکتاہے۔
اسلام نے اخوت وبھائی چارگی اورمساوات کااپنے پیروں کوایک ایسادرس دیاہے کہ ایک ادنی مسلمان ہویاوقت کاامیرالمومنین بحیثیت انسان دونوں کاایک درجہ ہے ایک مسلمان جسمانی اعتبارسےدوسرےمسلمان سے کتناہی دورہولیکن قلبی اورروحانی اعتبارسےاس کے پہلومیںہے یہ ایک ایسادرس ہےکہ تاقیامت دنیاکی کوئی تہذیب کوئی قانون اس کی مثال پیش نہیں کرسکتا۔
اورحقیقت یہ ہےکہ کوئی مسلمان اس وقت تک مسلمان نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنے مسلمان بھائی کےدرد میں شریک نہ ہو جب تک دوسرےمسلمان کاغم محسوس نہ کریں وہ مومن نہیں ہوسکتا اسی کی طرف نبی اکرم ﷺ نے اپنے ان الفاظ میں ارشادفرمایا ’’مسلمانوں کی مثال باہمی مودت ومرحمت اورمحبت وہمدردی میں ایک جسم واحد کےمثل ہے اس کے ایک عضومیں کوئی شکایت پیداہوتی ہے توساراجسم اس کی تکلیف میں شریک ہوجاتاہے‘‘
قرآن مجید جس عہداورجس سماج میں نازل ہوااس کاسب سے تکلیف دہ پہلو لاقانونیت ،بدامنی، غارتگری تھی لاقانونیت کااندازہ اس سےکیاجاسکتاہے کہ جزیرۃ العرب میں باضابطہ کسی حکومت کاوجودہی نہیں تھا عرب کے گردوپیش جو حکومتیں قائم تھی وہ نسلی برتری اورکہتری پریقین رکھتی تھی ایسےماحول میں اللہ کی آخری کتاب قرآن مقدس کےنزول کاآغازہوا اس کتاب میں سب سے پہلی سورت کی پہلی آیت میں ہی خداکوتمام کائنات کارب قراردیاگیا’’ رب‘‘ کالفظ بےپناہ شفقت اورممتاکوظاہرکرتاہے اورتمام عالم کارب کہہ کرپوری کائنات کو رشتہ اخوت میں باندھ دیاگیا اورایسی آفاقیت کاتصور دیاگیا ہے کہ جس میں پوری انسانیت ایک کنبہ اورایک خاندان کادرجہ رکھتی ہے غرض کہ قرآن مقدس امن وامان ،انسانی اخوت اور آفاقیت کاعلمبردار ہے لیکن بدقسمتی سے سورج پرتھوکنےکی کوشش کی جارہی ہے اوربعض تنگ نظرحضرات یہ کہنے کی جسارت کررہےہیں کہ قرآن مجیدمیں کچھ نقص ہے جس کی وجہ سے اس کتاب کےپڑھنےوالوں میں دہشت گردی کارجحان پیداہوتاہے یہ ایسی بہتان تراشی ہےکہ کوئی ایساشخص جس نے سرسری طورپر بھی قرآن مقدس کامطالعہ کیاہوگا وہ ہرگز اس سے متاثرنہیں ہوسکتا کہ یہ دن کورات اوربرف کو آگ کہنے کے مترادف ہے ۔
کیوں کہ قرآن مقدس کی نگاہ میں امن کی اہمیت کااندازہ اس سےلگایاجاسکتاہے کہ قرآن پریقین کرنےاوراس کی تعلیمات پرعقیدہ رکھنے کوایمان اوراسلام کے لفظ سے تعبیرکیاہے اوراس کے ماننےوالےکومسلم اورمومن سےملقب کیاہے گویاقرآن کی نظرمیں مومن ہےہی وہ جس سے لوگ اپنے آپ کو مامون محسوس کریں اوروہ دنیامیں فسادکی جگہ امن وامان کوقائم کرنیوالا ہو اسی لئے پیغمبراسلام حضرت محمدﷺ نےفرما یاکہ جس شخص کاپڑوسی اس کے شرسے محفوظ نہ ہو وہ مومن نہیں پھرارشادفرمایا جس کاپڑوسی بھوکارہے اوروہ خود آسودہ ہوکر کھائے وہ مومن نہیں ۔
اس کےبعدانسان کیلئے مادی اعتبارسے سب سےاہم جان کی حفاظت اورزندگی کی سلامتی ہے قرآن نے قتل ناحق کوخواہ کسی بھی انسان کاہو سخت گناہ قراردیا ہےفجزاؤہ جھنم خالدافیھا امن کادوسراتعلق انسان کےمال اوراس کی دولت سے ہے کہ کوئی شخص کسی کامال ناجائزطریقے سےہتھیانےکی کوشش نہ کرے قرآن نے اس بات کوسختی کیساتھ منع کیاہے اللہ رب العزت کاارشادہے لاتاکلو اموالکم بینکم بالباطل اورچوری وڈکیتی پر سخت سزائوں کاقانون مقررکیاہے تیسری اہم چیز جس کی حفاطت انسان چاہتاہے وہ عزت وآبروہے کسی کی عزت پرہاتھ ڈالنا اورکسی عورت کی آبروریزی کرنا اسلام کی نگاہ میں اتنابڑاجرم ہے کہ اس سے بڑھ کر کسی اورجرم کی سزانہیں اس لئے زناکےبارےمیں فرمایاگیا کہ زنا کے قریب بھی نہ بھٹکو’’ لاتقربواالزنا انہ کان فاحشۃ وساءسبیلا ‘‘اسی طرح انسان کی عزت وآبرو پرحملہ ایک طریقہ یہ ہےکہ اس پر برائی اوربدکاری کی تہمت لگادی جائے تاکہ وہ سماج میں ذلیل ورسواہو اورسراٹھاکر زندگی بسر کرنیکے لائق نہ رہے قرآن مقدس نے اس کوروکنےکیلئے ایک خصوصی قانون ’’قذف‘‘کامقررکیاہے تاکہ پاکدامن اورشریف لوگوں پر انگلیاں اٹھانےاورتہمت لگانے کی ہمت نہ ہواسلام سے پہلے بعض قوموں میں ایسےقوانین مروج تھے جس کی روسے ایک شخص کے عمل کی سزادوسرےکودی جاتی تھی خاندان کےایک فرد کےجرم کی پاداش میں پورےخاندان کوآزمائش میں مبتلا ہوناپڑتاتھا قرآن نے یہ اصول قائم کیا کہ ہرشخص صرف اپنےعمل کاذمہ دارہوگا ایک انسان پردوسرےانسان کےعمل کی ذمہ داری نہیں ڈالی جاسکتی لاتزروازرۃ وزراخری اللہ تعالی نے انسان کوایک ضمیر اورفکر ی صلاحیت کی حامل مخلوق بناکرپیداکیاہے امن کاتقاضایہ ہےکہ انسان اپنی سوچ ،فکر ،عقیدہ ا ورمذہب کےاختیار کرنےمیں آزادہواورکسی کوکسی خاص مذہب اورعقیدہ کےماننے پرمجبورنہ کیاجائے چنانچہ قرآن کا نقطہ نظر یہی ہے کہ عقیدہ ومذہب کےباب میں دنیا کی حدتک ہرشخص اپنے اختیار کےمطابق عمل کرنیکاحق رکھتاہے لااکراہ فی الدین قد تبین الرشد من الغی اورپیغمبر اسلام ﷺ سےفرمایا گیا کہ آپ کاکام صرف تبلیغ دین ہے آپ کویہ اختیار نہیں ہےکہ دوسروں کواپنامذہب اختیارکرنےپرمجبورکریں ۔
ہم سب جانتےہیں کہ اسلام سے قبل دنیااندھیری تھی ہرطرف ظلم وجورکادوردورہ تھا ،امن وامان نام کی کوئی چیز موجودنہ تھی کبھی رنگ ونسل کےنام پر ،کبھی زبان وتہذیب کےعنوان سے اورکبھی وطنیت وقومیت کی آڑمیں انسانیت کواتنے ٹکڑوں میں بانٹ دیاگیا تھا اوران ٹکڑوں کو باہم اس طرح ٹکرایاگیا تھاکہ آدمیت چیخ پڑی تھی اس وقت کی تاریخ کاآپ مطالعہ کریں گے تواندازہ ہوگاکہ پوری دنیا بدامنی وبےچینی سےلبریز تھی وہ پسماندہ علاقہ ہو یاترقی یافتہ اورمہذب دنیا ،روم وافرنگ ہویا ایران وہندوستان عجم کالالہ زارہویا عرب کےصحراء وریگزار ساری دنیااس آگ کی لپیٹ میں تھی اسلام سے قبل بہت سے مذہبی پیشوائوں اورنظام اخلاق کے علمبرداروں نےاپنےاپنے طورپر امن ومحبت کے گیت گائے اوراپنے اخلاقی مواعظ وخطبات سےاس آگ کوسرد کرنے کی کوشش کی جس کے خوشگوار نتائج بھی سامنے آئےمگر اس عالمی آتش فشاں کوپوری طرح ٹھنڈانہیں کیاجاسکا ۔اسلام نے پہلی باردنیا کوامن ومحبت کاباقاعدہ درس دیا اوراس کے سامنے ایک پائیدار ضابطہ اخلاق پیش کیا جس کانام ہی ’’اسلام ‘‘رکھاگیا یعنی دائمی امن وسکون اورلازوال سلامتی کامذہب یہ امتیاز دنیاکے کسی مذہب کو حاصل نہیں ،اسلام نے مضبوط بنیادوں پرامن وسکون کےایک نئے باب کاآغازکیا اورپوری علمی واخلاقی قوت اورفکری بلندی کیساتھ اس کووسعت دینےکی کوشش کی آج دنیا میں امن وامان کاجورجحان پایاجاتاہے اورہرطبقہ اپنےاپنے طورپر کسی گہوارئہ سکون کی تلاش میں ہے یہ بڑی حدتک اسلامی تعلیمات کی دین ہے جس معاشرہ کاشیرازئہ امن بکھرتاہے اس کی پہلی زد انسانی جان پرپڑتی ہے اسلام سے قبل انسانی جانوں کی کوئی قیمت نہ تھی مگراسلام نے انسانی جان کووہ عظمت واحترام بخشا کہ ایک انسان کےقتل کوساری انسانیت کاقتل قراردیا قرآن مقدس میں ہے ’’من اجل ذلک کتبناعلی بنی اسرائیل انہ من قتل نفسا بغیرنفس اوفساد فی الارض فکانماقتل الناس جمیعا ومن احیاھا فکانمااحیاالناس جمیعات‘‘ترجمہ اسی لئے ہم نے بنی اسرائیل کیلئے یہ حکم جاری کیا کہ جوشخص کسی انسانی جان کو بغیر کسی جان کےبدلے یازمینی فسادبرپاکرنےکےسبب سےقتل کرے اس نے گویا ساری انسانیت کاقتل کیا اورکسی نے انسانی جان کی عظمت واحترام کوپہچانا اس نے گویاپوری انسانیت کونئی زندگی بخشی انسانی جان کاایساعالم گیر اوروسیع تصور اسلام سے قبل کسی مذہب وتحریک نے پیش نہیں کیا تھا اسی آفاقی تصور کی بنیاد پرقرآن اہل ایمان کوامن کاسب سےزیادہ مستحق اورعلمبردار قراردیتاہے ۔مسلمانوں کےامن پسند ہونےکی اس سے بڑی شہادت کیاہوسکتی ہے کہ حضرت عمرفاروقؓ کاعہد پوری دنیائے حکمرانی کی تاریخ میں ایک امتیازی حیثیت کاحامل ہے ملک کی ترقی وخوشحالی ،امن وامان کی بحالی،داخلی سلامتی ،خارجی سیاست، پیداوارمیں اضافہ ،ایجادات واکتشافات اورعلمی تحقیقات کےلحاظ سے یہ عہد اپنی مثال آپ ہےحضرت عمرؓ کےبعد چشم فلک نے اس سرزمین پراتناخوبصور عہد حکومت دوبارہ نہیں دیکھا جس میں ہرشخص اپنے کومحفوظ اورترقی پسندمحسوس کرتاتھا اورمسلمانوں کےعلاوہ دوسری قوم کیساتھ بھی مکمل رواداری رکھی جاتی تھی ۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×