سیرت و تاریخمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

‘‘القدس’’ ہمارا ہے !

یہ ایک ناقابل تردیدحقیقت ہے کہ مسجد اقصی اور فلسطین پر مسلمانوں کا اولین حق ہے ، نہ صرف فلسطینی مسلمان؛ بل کہ پورا عالم اسلام اس سے دینی و جذباتی رشتہ رکھتا ہے ؛مگراسلام اور مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن یہودیوں نے اس پر ظالمانہ و غاصبانہ تسلط قائم کررکھا ہے ،فلسطین کا مسئلہ اِک مدت سے اختلافی و نزاعی مسئلہ بنا ہوا ہے ؛جس کی وجہ سے نہ جانے کتنے معصوم بچے تہہ تیغ ہوچکے ہیں!کتنے گھرانے تباہ و برباد ہوگئے ہیں! اور کتنوں کی زندگیاں اجڑ کر ویران ہوچکی ہیں!ایک طرف اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ فلسطین ان کا ہے ، جبکہ رواں نصف صدی کے غاصبانہ قبضے سے پہلے تاریخ کے کسی دور میں بھی انہیں حاکمانہ اور فاتحانہ حیثیت میں وہاں رہنا، یا بسنا نصیب نہیں ہوا،جب کہ دوسری طرف مسلمانوں کی اس سے گہری وابستگی ابتدائے اسلام سے ہی ثابت ہے ،خانۂ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام مسجد اقصی ہے ،سرکار دوعالم ﷺنے سفر معراج کا آغاز بھی اسی سرزمین سے فرمایا؛جس میں آپ کو نماز کا تحفہ دیاگیا پھر ابتداء اسلام میں کئی ایک مہینے مسلمانوں نے اسی طرف رخ کرکے نمازیں ادا کیں،احادیث میں قصد و ارادے کے ساتھ جن مساجد کے سفر کو بابرکت بتلایا گیا ان میں مسجد اقصی بھی شامل ہے ۔
لیکن یہ امر مسلمانوں کے لیے باعث ننگ وعارہے کہ ان کا قبلہ اول اوروہ زمین جو برکتوں کا خزانہ تھی آج مسلمانوں کے ہاتھوں سے چھن چکی ہے ۔
پہلی جنگ عظیم دسمبر 1917ء کے دوران انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کر کے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ یہود و نصاریٰ کی سازش کے تحت نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے دھاندلی سے کام لیتے ہوئے فلسطین اور عربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا اور جب 14 مئی 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کر دیا تو پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ اس کے جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78 فیصد رقبے پر قابض ہو گئے ، تاہم مشرقی یروشلم (بیت المقدس) اور غرب اردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آ گئے ۔ تیسری عرب اسرائیل جنگ(جون 1967ء) میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔ یوں مسلمانوں کا قبلہ اول ہنوز یہودیوں کے قبضے میں ہے ۔ یہودیوں کے بقول 70ء کی تباہی سے ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچھ حصہ بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آ کر رویا کرتے تھے اسی لیے اسے “دیوار گریہ” کہا جاتا ہے ۔
یہودی مسجد اقصٰی کو گرا کر ہیکل تعمیر کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں اور وقتاً فوقتاً اس حوالے سے اشتعال انگیز بیان بازی بھی ہوتی ہے۔

“القدس”ایک تعارف:
بحر روم کے کنارے شام سے مصر تک پھیلی ہوئی طویل ساحلی آبادی کوفلسطین کہاجاتاہے ۔تقریبا27 ہزار مربع کلو میٹر کے رقبہ پر مشتمل یہ سرزمین عرصہ ٔدرازتک انبیاء و رسل کا مرکزومرجع اورمسکن ومدفن رہی ،اسی بابرکت خطہ ارض میں وہ مقدس شہر بھی واقع ہے جسے قدیم تاریخ میں “ایلیا”، عربی میں “القدس” اور اردو میں “بیت المقدس” کہا جاتا ہے ۔ یہ بحر روم سے 52 کلو میٹر ، بحر احمر سے 250 کلو میٹر اور بحر مردار سے 22 کلو میٹر کے فاصلہ پر واقع ہے ۔ بحر روم سے اس کی اونچائی 750 میٹر اور بحر مردار کی سطح سے اس کی بلندی 1150 میٹر ہے ۔ سب سے پہلے یہاں یبوسین آکر آباد ہوئے ، ایک روایت ہے کہ اس شہر کو ”سام بن نوح“ نے آکر آباد کیا، سب سے پہلے 1013 قبل مسیح میں حضرت داؤد علیہ السلام نے اس کو فتح کیا۔( خطط الشام ج:۵،ص:۲۵۲)
اس مقدس شہر کی تاریخ ایسی ہنگامہ آرائیوں اور معرکہ خیزیوں سے بھری پڑی ہے جس میں تین آسمانی مذاہب کے مقدس مقامات و آثار پائے جاتے ہیں ۔ اس لحاظ سے بیت المقدس تینوں ہی آسمانی مذا ہب اسلام،عیسائیت ا ور یہودیت کے نزدیک قابل احترام اور لائق تعظیم ہے ،اہل اسلام کے نزدیک اس لئے کہ یہیں مسجد اقصی ہے جو ان کا قبلہ اول اور جائے معراج ہے ،عیسائیوں کے نزد یک اس وجہ سے کہ اسی میں ان کا سب سے مقدس چرچ “کنیسہ قیامہ “ہے جس میں بقول ان کے حضرت عیسی علی نبینا و علیہ السلام مصلوب و مدفون ہوئے اور جس پر قبضہ کیلئے متحدہ یورپ نے طویل خوں ریز صلیبی جنگیں لڑیں اور بالآخر بطل جلیل سلطان حضرت صلاح الدین ایوبی کے ہاتھوں شرم ناک اور تباہ کن شکست سے دوچار ہوناپڑا۔ اور یہودیوں کے نزدیک اس بنا پر کہ یہیں پر کبھی وہ ہیکل سلیمانی تھا جس کی تباہی کو یاد کر کے وہ آج بھی مسجد اقصی کی مغربی دیوار کے پاس گریہ و زاری کرتے ہیں اور اس کی تعمیر نو کو عظیم تر اسرائیل کی خشت اول گردانتے ہیں۔
اسی متبرک سرزمین کی بابت اس کے صحیح حق داروں اور اس کے جھوٹے دعویداروں کے درمیان صدیوں سے ایک مستقل آویزش اورمسلسل کشمکش جاری ہے ،طاغوتی قوتیں شب و روز اسے نقصان پہنچانے پر تلی ہوئی ہیں ۔ انہوں نے اسرائیل کو اپنا آلۂ کار بنا کر اسلام کی مقدس ترین مسجد” مسجد اقصی” کو نذر آتش کیا؛جس کا مقصد سوائے اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ بتدریج اس مقدس سرزمین سے اسلام اور مسلمانوں کا نام و نشان مٹادیا جائے ۔
یہی وہ باعظمت ارض مقدس ہے ؛جس کا تعارف کرواتے ہوئے فاتح اعظم سلطان صلاح الدین ایوبی اپنے سپاہیوں سے کہتے ہیں :
“اے میرے رفیقو!16ہجری کا ربیع الاول یاد کرو جب عمر و بن العاص اور ان کے ساتھیوں نے بیت المقدس کو کفار سے آزاد کرایا تھا ۔ حضرت عمر ؓ اس وقت خلیفہ تھے ، وہ بیت المقدس گئے ،حضرت بلال ؓ ان کے ساتھ تھے ، حضرت بلال ؓ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایسے خاموش ہوئے تھے کہ لوگ ان کی پر سوز آواز کو ترس گئے ، انہوں نے اذان دینی چھوڑ دی تھی ۔ لیکن مسجد اقصیٰ میں آکر حضرت عمر ؓ نے انہیں کہا کہ بلا ل! مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کے درودیوار نے بڑی لمبی مدت سے اذان نہیں سنی ۔ آزادی کی پہلی اذان تم نہ دو گے ؟ حضور اکرم ﷺکی وفات کے بعد پہلی بار حضرت بلا ل ؓ نے اذان دی ، اور جب انہوں نے کہا کہ اشھد ان محمد رسول اللہ ۔تو مسجد اقصیٰ میں سب کی دھا ڑیں نکل گئی تھیں” ۔

اقصیٰ کی فریاد:
1… میں وہ مسجد ہوں جس کی سرزمین کو خالق ارض وسماء نے بابرکت قرار دیا ہے۔ (سورۃ الاسراء)
2… میں وہ مسجد ہوں جس کو دنیا کی افضل ترین قوم نے اپنا قبلہ اول بنایاہے ۔(بخاری ومسلم)
3… میں وہ مسجد ہوں جہاں سے حضور پاک ﷺکو سفرمعراج کرایا گیا تھا ۔(مسلم)
4… میں وہ مسجد ہوں جہاں پر خاتم النبیین محمد ﷺکی اقتداء میں جملہ انبیاء کرام نے نماز ادا فرمائی ۔ (مسنداحمد)
5… میں وہ مسجد ہوں جس میں ایک نمازادا کرنے سے دو سو پچاس نمازوں کا ثواب ملتا ہے ۔(حاکم، بیہقی )
6… میں وہ مسجد ہوں جس میں دجال کا داخلہ ممنوع ہے۔(مسنداحمد)
7… میں وہ مسجد ہوں جسے دنیا کی دوسری مسجدہونے کا شرف حاصل ہے ۔(بخاری ،مسلم)
8… میں وہ مسجد ہوں جس کا شمار ان تین مساجد میں ہوتا ہے جس کی طرف بغرض عبادت کوچ کرنا جائز ہے ۔ (بخاری ومسلم)
9… میں وہ مسجد ہوں کہ جو کوئی بھی اس میں نماز پڑھنے کے ارادہ سے آئے وہ (گناہوں سے دھلاہوا)ایسے لوٹتاہے گویاکہ آج ہی اس کی ماں نے اسے جنم دیا ہے ۔(ابن ماجہ )
10… میں وہ مسجد ہوں جس کی سرزمین پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام اُتریں گے اور وہیں پر دجال کوبھی قتل کریں گے ۔(ترمذی )
11… میں وہ مسجد ہوں جس کی سرزمین بروزقیامت ارض محشر ہوگی ۔(احمد،ابوداؤد)

آج مجھے نسل پرست صہیونیوں نے اپنایرغمال بنارکھاہے!آئے دن میرے تقدس کو پامال کیا جارہا ہے! میری آبادکاری کے راستے میں روڑے اٹکائے جارہے ہیں؛بلکہ مجھے مسمار کرنے کی منظم پالیسی بنالی گئی ہے !میرے دامن میں مسلسل سرنگ کھودے جارہے ہیں؛ تاکہ میں بے بس ہوکر دم توڑدوں اور میری جگہ ہیکل سلیمانی نام کا شیطانی بت نصب کردیا جائے ۔
ہمارے دور میں ایک بار پھر مسجد اقصیٰ اذان کو ترس رہی ہے ۔ 90برسوں سے اس عظیم مسجد کے دوردیوار کسی مؤذن کی راہ دیکھ رہے ہیں ۔
اخیر میں ہم معروف مفکر ودانشورمولانا عنایت اللہ اسدی کی اس بصیرت مندانہ تحریر پر گفتگو کوختم کرتے ہیں :
“اگر یہودی آج بھی اپنی اسلام دشمنی، اور مسلم دشمنی سے باز آجائیں ، اور فلسطین کے معزز شہریوں کی حیثیت سے فلسطین میں رہنا چاہیں ، تو مسلم قوم کووہ دوسروں سے زیادہ عالی ظرف اور فراخ دل پائیں گے؛لیکن اگروہ مسلم امت کی غیرت وحمیت ، اور اس کے وقار کو چیلنج کرتے ہیں ،اور ظلم وبربریت سے اس کے کسی خطۂ زمین پر قبضہ کرکے اسے یہودی ریاست بنانا چاہتے ہیں ،تو مسلم امت کسی بھی حال میں یہ ذلت برداشت نہیں کرسکتی، وہ آخر دم تک اس کے لیے لڑتی رہے گی۔ اگرمسلم امت کے سروں پر مسلط کچھ حکمرانوں اور بادشاہوں کا خون سفید ہوگیا ہے تو اس سے اسرائیل کودھوکہ نہیں کھانا چاہیے ! اسرائیل کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے ، کہ آج بھی مسلم امت کی رگوں میں دوڑنے والا خون نہایت سرخ ہے ، اور ایمانی حرارت سے کھول رہا ہے ، وہ اسلامی مقدسات کے تحفظ کے لیے ہربازی کھیل سکتی،اور اپنی قیمتی سے قیمتی متاع کو داؤں پر لگا سکتی ہے !وہ اپنے سروں پر مسلّط ظالم وجابر اور اسلام دشمن حکم رانوں اور بادشاہوں سے بھی عاجز آچکی ہے ،اور اللہ تعالی کی مدد شامل حال رہی، تو وہ وقت دور نہیں جب وہ ان سب کو اپنے پیروں سے روند کرسارے عالم کے لیے نمونۂ عبرت بنادے گی!”۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×