اسلامیات

ایک عید ایسی بھی!

شوال المکرم کا چاند طلوع ہوتے ہی عید سعید کی رونقیں ہم پر سایہ فگن ہوچکی ہیں، عید کی دل آویزخوشبو چہارسو پھیلتی جارہی ہے اور عید کی روشن کرنیں ہر طرف جلوے بکھیر رہی ہیں۔چند دنوں کی پرمشقت عبادت کے بعد فرحت و انبساط سے بھر پور عیدالفطر کو ہم خوش آمدید کہتے ہیں اور بارگاہ ایزدی میںسجدۂ شکر بجالاتے ہیں کہ رب کریم نے اپنی خاص رحمت و سکینت کی برکھا ہم پر برسا دی ہے، عید کی خوشیوں سے سارے لمحات معطر ہوچکے ہیںاور گھرکے آنگن مسرتوں سے بھر گئے ہیں۔
ہم میں سے بہت سوں کی زندگی میں شاید یہ پہلا موقع ہوگا کہ ہم( لاکھ چاہتے ہوئے بھی )عید الفطر جیسے اسلام کے اہم ترین شعیرہ کو روایتی جوش و خروش کے ساتھ عیدگاہ میں منانے اور عزیز و اقارب کے ساتھ والہانہ ملاقات سے قاصر ہیں۔لاک ڈاؤن کے سبب کاروبار زندگی معطل ہوچکاہے،غرباء ومساکین تو درکنار اچھے خاصے خوش حال افراد بھی اپنے مستقبل کے حوالے سے حیران و پریشاںاور مسلسل سوچ وفکر میں غلطاں ہیں، مزدوروں کی حالت زار سوائے حکومت کے کسی پر مخفی نہیں،اسباب و وسائل سے محرومی اور وطن عزیز سے مہجوری نے انہیں نان شبینہ کا  محتاج بنادیا ہے؛ مگر ان جاں گسل حالات میں بھی ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم حکم خداوندی کے آگے سر تسلیم خم کرتے ہوئے عید کی خوشیوںاور مسرتوں کو بانٹنے کی کوشش کریں،اللہ کی بڑائی اور کبریائی کے گن گائیں اور اشراق کے بعدحسب سہولت انفرادی یا اجتماعی طور پر دوگانۂ شکر ادا کریں!

میں مانتا ہوں وبا کے دن ہیں
مگر یہ دن بھی خدا کے دن ہیں
دلوں سے مایوسیاں نکالو!
ذرا سے آگے شفا کے دن ہیں
یہ حقیقت ہے کہ جو مسلمان عام طور پرنمازکی پابندی نہیں کرتے اور سال بھراس سلسلے میں لاپرواہی کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ بھی عید کے دن عید کی اہمیت کو جانتے ہوئے عیدگاہ کی طرف لپکتے ہیں نماز باجماعت کا اہتمام کرتے ہیں،خطیب کا خطبہ سنتے ہیں اور علماء کے مواعظ سے استفادہ کرتے ہیں۔نیزنمازعید کو اس شان کے ساتھ ادا کرتے ہوئے دل تسکین و تشفی محسوس کرتا ہے اور اپنے صاحب ایمان ہونے پر بے انتہا فخر کا احساس ہوتا ہے؛ لیکن اس وقت ملک کے موجودہ حالات میں انتظامیہ اور پولیس کی سخت ہدایات کی وجہ سے نما زعیدکا عمومی قیام مشکل ہو گیا ہے؛ اس لئے علمائے کرام نے قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ ہدایت دی ہے کہ مفاد عامہ اور ملکی مصالح کے پیش نظرگھروں میں اگر چار افراد کے ساتھ باجماعت نماز ہوجائے تو بہتر ہے ورنہ تنہا تنہا چاشت کی نماز ادا کی جاسکتی ہے جوبعض فقہاء کی تصریح کے مطابق بصورت مجبوری نمازعید کے قائم مقام ہوجائے گی۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرمارہے ہیں کہ جو حالات تمہارے اختیار سے تمہارے سامنے نہیں آئے، وہ من جانب اللہ ہیں اور بہ حیثیت مسلمان یہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اچھی بری تقدیر اللہ کی جانب سے ہے،اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے،وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے، اس کے علاوہ سب اس کی مخلوق ہے، اس کی مخلوق میںجو وہ چاہتا ہے وہی ہوتا ہے، جو وہ نہیں چاہتاہے نہیں ہوتا ہے۔ افلاک اور آسمانوںکے بس میں نہیں ہے کہ وہ اللہ کی مشیت سے انحراف کرکے خود سے اپنی کوئی راہ متعین کرے، سورج، چاند، زمین اور سیارے اس کی مشیت کے تابع ہیں، فرشتے اس کی مشیت کے تابع ہیں، مظاہر فطرت اس کی مرضی کے تابع ہیں، آگ، پانی، ہوا، مٹی، جمادات، نباتات سب اللہ کی مشیت کے تابع ہیں۔جب یہ بات طے ہے کہ حالات کا مدو جزرہمارے اختیار سے باہر ہے توہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ان حالات پرراضی رہیں؛اس لیے کہ یہی چیز ہمارے لیے اللہ تعالی کی رضا اور خوشنودی کا سبب ہے۔سیرت النبی ﷺسے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ سن 2 ہجری سے لے کر 10 ہجری تک آپ کی حیات مبارکہ میں9عیدیں آئیں۔ غیر معمولی مصروفیات اور ہنگامی حالات کے باوجود جوں ہی آپ کو امن وقرار کی کوئی گھڑی نصیب ہوئی آپ کا قلب مبارک خدا تعالیٰ کی حمد وثناء اور شکرکے اظہار کی طرف متوجہ ہوگیا۔ ان آٹھ نو سالوں میں آپ ﷺکو بدرو احدجیسے معرکے بھی سر کرنے پڑے۔ مدینہ پرغزوہ خندق جیسا خوف ناک و پرخطردور بھی آیا جس کا ذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتاہے:عالم یہ تھا جب آنکھیں پتھرا گئیں اور دل (اچھلتے ہوئے) ہنسلیوںتک جا پہنچے۔ پھر اسی عرصہ میں مدینہ شدیدقحط سالی سے دوچار ہوا اور انہیں سالوں میںغزوہ تبوک، حنین اور فتح مکہ جیسے واقعات پیش آئے؛مگرآپ اپنے رب کی رضا پر راضی رہتے ہوئے عُسر ویسر میں اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء اور تکبیر و تقدیس میں کوشاںرہے۔
اسلام کا تصور ِعید:
دیگر مذاہب کے برخلاف اسلام میں عید کا تصور معبود حقیقی کی عبادت وبندگی کے ساتھ مربوط ہے۔عید الفطرکا اہتمام رمضان کے روزوں کے اختتام پرہوتا ہے جبکہ عید الاضحی حج کے اختتام پر قربانی کے ذریعہ منائی جاتی ہے۔یعنی اسلام میں عیدین کا تصور اور اظہار مسرت کے یاد گار مواقع بھی انسان کی شان عبدیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ اسلام کے فلسفہ ٔ عبادت میںروزہ کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ بندۂ مومن کو مخلص اور متقی بنانے کا عمل ہے، جب کہ حج ایک مومن کے اندر جذبۂ قربانی کو پیدا کرتا ہے۔ایک مہینہ مسلسل روزہ رکھنے کے بعد عید الفطر کا موقع آتا ہے جب کہ حج کے مناسک غیر معمولی ریاضت و مجاہدے کے متقاضی ہیں، جس کے بعد قربانی کے ذریعہ عید الاضحی کا اہتمام ہوتاہے۔جو حج پر نہیںجاتے ان کے لیے قربانی کا عمل رکھا گیا ہے،گویا قربانی حاجی اور غیر حاجی کے درمیان مشترک عبادت ہے۔حج کرنے والے اور دنیا بھر میں قربانی کرنے والے سب اسوۂ ابراہیمی کو یاد کرتے ہیںاوراسے اپنانے کی کوشش کرتے ہیں۔اس طرح ہماری دونوں عیدیں دواہم ترین فریضوں کی تکمیل سے وابستہ ہیں۔
راضی ہیں ہم اسی  میں جس میں تری رضا ہے:
انسانی زندگی خوشی اور غم دونوں سے عبارت ہے، ہماری زندگی میںجہاں خوشی کے لمحات آتے ہیں وہیں غم کے کربناک مواقع بھی آتے ہیں۔ جب کوئی خوشی کا موقع آتا ہے تو ہم چاہتے ہیں کہ خوشی کی یہ گھڑیاں تھم جائیں یا طویل تر ہوجائیںاور جب کوئی غم کا موقع در پیش ہوتا ہے تو ہم چاہتے ہیں کہ مصیبت اور ابتلاء کایہ عرصہ جلد سے جلد ختم ہوجائے، خوشی کی گھڑیاں ہمیں مختصر اور غم کے لمحات طویل محسوس ہوتے ہیں۔اس کے باوجود مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارافریضہ ہے کہ ہم ہر حال میں اللہ کے فیصلے پر راضی رہیں اوربالکل جزع فزع نہ کریں۔قرآن مجید میں اللہ تعالٰی نے اپنی رضا اورخوشنودی کو بندوں کے لیے سب سے عظیم نعمت قراردیاہے،ایسی نعمت جس کا کسی دوسری چیز سے مقابلہ نہیں کیاجاسکتا۔ اکثر لوگوں کے دل میں کبھی نہ کبھی یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ ہم نمازپڑھتے ہیں، پورا رمضان روزہ رکھتے ہیں،صدقہ خیرات بھی کرتے ہیں تو کیسے معلوم کیاجائے کہ خدا ہم سے راضی ہوا یا نہیں؟ روایات میںاللہ کے اپنے کسی  بندے سے راضی رہنے کی کچھ علامات بیان کی گئی ہیں جن سے انسان مطمئن ہوسکتا ہے کہ اس کا پروردگار اس سے خو ش ہے ۔ کسی بندے کا اپنے پروردگار کی قضا و قدر اور فیصلوں پر راضی رہنا اور اس کے کسی فیصلے کے خلاف حرف شکایت زبان پر نہ لانا اس امر کی دلیل ہے کہ اللہ اس بندے سے خوش ہے۔علامہ ابن قیم مدارج السالکین میں لکھتے ہیں:’’اپنے بندے سے اللہ کی رضا کی علامت یہ ہے کہ وہ اللہ کے ہر فیصلہ پر راضی اورسراپا تسلیم رہے ،چاہے وہ فیصلہ اس کے فائدے میں ہو یا نقصان میں۔حضرت ابوبکر واسطی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:محبوب حقیقی کو راضی کرنے کے لئے آفات و مصائب کو برداشت کرو، اور صبر سے کام لو۔ خواہ اللہ تعالیٰ مصائب و آفات کو دور کردیں اور راحت عطا فرمائیں یا اسی طرح کشمکش میںمبتلا رکھیں۔ اور راضی بہ رضا رہنے کے لئے جو آفات و مصائب پیش آئیں ان کو خندہ پیشانی سے برداشت کرو۔
عید ان کی بھی ہے جن کا کوئی غم خوار نہیں!
صاحب طرز ادیب و معروف انشا پرداز مولانا عبدالماجد دریابادی ؒعید کو ایثار و ہمدردی کا دن قراردیتے ہوئے ارقام فرماتے ہیں:آپ کے پڑوس میں، آپ کے محلہ میں، آپ کی بستی میں آپ ہی کے بچوں کی طرح دل رکھنے والے اور دلوں میں ارمان و شوق رکھنے والے کچھ اور بچے بھی ہیں،جن کے نازبردار ماں باپ آج اس عالم میں موجود نہیں۔ عید ان کے گھر میں بھی آئی ہے، پر ان کے چہرے اداس ہیں اور کوئی ان کی اداسی پر کڑھنے والا نہیں۔ ان کے د ل غمگین ہیں اورکوئی ان کی غمگینی کودور کرنے کی تڑپ ا پنے دل میں رکھنے والا نہیں۔وہ بے والی و وارث ہیں، آپ ان کی سر پرستی کیجئے۔ وہ بے آسرا ہیں، آپ ان کے آسرا بنئے۔ آپ کی عید جب ہی مقبول ہوسکتی ہے، جب آپ ان کی عید کو اپنی عید بنائیںاور اپنے دل میں یہ خیال تک نہ لائیں کہ آپ ان پر کوئی احسان و نوازش کر رہے ہیں؛بلکہ اپنی خوش بختی پر سجدہ ٔ شکر کریں کہ آپ کو اپنی عاقبت سدھارنے کا ایک موقع دیا گیا۔ اگر آج ایک یتیم کی بھی عید آپ نے کرادی تو ’’کل‘‘ جب تمام ہنستے ہوئے چہرے رورہے ہوں گے، آپ کے چہرے پر ان شاء اللہ اس وقت بھی تبسم رقص کر رہاہوگا۔
اس وقت لاک ڈاؤن کی وجہ سے غریب وامیر،مالدار وفقیر سب اپنے اپنے گھروں میں مقید ومحصور ہیں، جن لوگوں کا گزر بسرروزانہ کی محنت مزدوری پر تھا وہ اس وقت سخت ترین حالات سے دوچار ہیں،ان کے گھروںکے چولہے ٹھنڈے ہوچکے ہیں،وہ باہر نکلنے سے عاجز ہیں اور عزت نفس کی خاطر ہاتھ پھیلانے سے قاصر ہیں،ان حالات میں ان کی مدد ونصرت کرنا اور مصیبت کی اس نازک گھڑی میں ان کی دستگیری کرنا ہر متمول فرد کا دینی واخلاقی فریضہ ہے،ہو سکتا ہے ان پرصدقہ وخیرات سے یہ بلا ٹل جائے اور خدا کی طرف سے نازل یہ قہر مِہر (رحمت)میں تبدیل ہوجائے، اس سلسلہ میں ملک اور بیرون ملک کے علماء کی طرف سے بار بار اپیلیں بھی کی جارہی ہیں کہ ہر شخص اپنے ماحول میں،اڑوس پڑوس میں،رشتہ داروں میں اور دوست احباب میںایسے لوگوں کو تلاش کرے جن کا گزارہ روز کی آمدنی پرمنحصر ہے اور انہیں نقدرقم یاراشن پہنچاکر ان کی مدد کرے اس سے معاشرے کی اہم ضرورت بھی پوری ہوگی اور یہ فطرے کابہترین مصرف بھی ہوگا۔ یقینا ہم اگر اپنے رشتہ داروں یا محلے والوں کا جائزہ لیں توایسے بہت سے گھرانے نظر ائیں گے جن کا گزر بسر روزانہ کی آمدنی پر ہوتا ہے،وہ عید کے اس پرمسرت موقع پر بھوک و افلاس میں مبتلا ہوں گے،ہمیں ان کی خبر گیر ی کرتے ہوئے ان تک نقد رقم یا پھر اشیاء خورد نوش پہنچانے کی فکر کرنا ہوگا اور اس نازک ترین وقت میں ان کا سہارا بننا ہوگا،اگر ہم نے اس نازک گھڑی میں ان کی فکر نہیں کی توہو سکتا ہے کہ قیامت میں ہم مجرم بن کر پیش ہوں اور اللہ کے حضور ہمیں شرمندگی اٹھانی پڑے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×