اسلامیاتمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

ماہ محرم الحرام :تاریخ کے جھروکوں سے

محرم کا مہینہ، اسلامی تقویم کا پہلا مہینہ ہے جو عظمت و احترام میں بہت ساری نوعیتوں سے دیگر مہینوں پر فوقیت و برتری رکھتا ہے ، جاہلیت کے تاریک ترین زمانے ہی سے ریگزار عرب کے وہ بدو جو علم سے دور اور عقل سے بیگانہ، وحشت سے قریب اور جنگ وجدال کے دلدادہ تھے ، اس مہینے کے احترام میں قتل وقتال، جنگ وجدال، کشت وخون، لوٹ مار اور غارت گری ورہزنی سے باز رہتے تھے ؛یہی وجہ ہے کہ محرم کے مہینہ کو محرم الحرام کہا جاتا ہے کہ اس میں معرکہ کارزار گرم کرنا اور انسانوں کے خون کو ناحق بہانا حرام ہے ۔
علامہ ابن رجبؒ فرماتے ہیں : ہمارے اسلاف و اکابر تین عشروں کی نہایت تعظیم کیا کرتے تھے ۔ ایک رمضان المبارک کا آخری عشرہ، دوسرا ذی الحجہ کا پہلا عشرہ اور تیسرا محرم الحرام کا پہلا عشرہ۔نیز فرماتے ہیں : بعض نے کہا ہے کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تیس دن کے بعد چالیس دن کی تکمیل کے لیے جن دس دنوں کا اضافہ کیا تھا، وہ یہی محرم الحرام کے دس دن تھے ۔ آگے فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم الحرام کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف فرمائی ہے جواس کے شرف اور خصوصی فضیلت پر دالّ ہے ، کیوں کہ اللہ تعالیٰ اپنی خصوصی مخلوق کی نسبت ہی اپنی طرف فرماتا ہے ۔(لطائف المعارف)
اس مبارک مہینہ کی دسویں تاریخ تو گویا خوبیوں اور فضیلتوں کابیش قیمت گلدستہ ہے کہ اسی دن پیغمبر جلیل موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظالمانہ وجابرانہ شکنجہ اور غلامی کی ذلت آمیزقید وسلاسل سے آزاد کرایا۔اس دن کی فضیلت کیلئے اس سے بڑ ھ کر اور کیا شہادت ہو سکتی ہے کہ رمضان کے بعد اسی دن کے روزہ کو افضل وبرتربتلایاگیا چنانچہ پیغمبر اسلام محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم ارشادفرماتے ہیں :’’رمضان کے مہینہ کے بعد محرم کے مہینہ کا روزہ افضل ترین روزہ ہے ۔ ‘‘(صحیح مسلم)
لہٰذاس دین کا حق تو یہ ہے کہ بندہ کمال بندگی کے ساتھ اپنے رب کی محبت میں سرشار ہوکر اس کی اطاعت وفرمانبرداری میں ہمہ تن مشغول ہوجائے انتہائی عجز ونیاز کے ساتھ اپنی عبادت اور اعمال صالحہ کا نذرانہ اس کے دربار عالی میں پیش کرے اور روزہ ونماز ذکر وتسبیح کے ذریعے اس کی خوشنودی ورضا مندی کا جویا وطلبگار رہے۔
رسول ا کرم ﷺنے خطبۂ حجۃ الوداع میں فرمایا:زمانہ گھوم کر اپنی اصلیت پر آ گیا ہے سال کے بارہ مہینے ہوا کرتے ہیں جن میں سے چار حرمت وادب والے ہیں تین تو پے درپے ذوالقعدہ، ذوالحجہ، محرم الحرام اور چوتھا رجب المرجب جو جمادی الآخر اور شعبان کے درمیان ہے ۔ (بخاری ومسلم)
عاشورائ کا روزہ:
اسلام سے پہلے لوگ عاشورائ کا روزہ رکھتے تھے اور اس کے خاتمہ پر عید کرتے تھے ، ابتدائے اسلام میں عاشورائ کا روزہ فرض تھا جب رمضان کے روزے فرض ہوگئے تب عاشورہ کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی ؛جس کا دل چاہے رکھے ، نہ چاہے نہ رکھے ۔
جب آنحضرت مکہ مکرمہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لے گئے تو یہودیوں کو محرم کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: ’’ تم اس روزکیوں روزہ رکھتے ہو؟‘‘ انہوں نے جواب دیا کہ یہ ہماری نجات کا دن ہے ۔ اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فرعون سے نجات دلائی اس لئے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شکرانے کے طور پر روزہ رکھا۔ آپ نے فرمایا: حضرت موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ ہم تم سے زیادہ موافقت رکھنے کے حقدار ہیں۔ اس لئے نبی ا کرم ﷺنے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کرام ؓکو بھی روزہ رکھنے کا حکم دیا۔(بخاری ومسلم)
لیکن یہودیوں کی مشابہت سے بچنے کیلئے آپ نے فرمایا کہ ’’اگر میں زندہ رہا تو محرم کی نویں اور دسویں کا روزہ رکھوں گا۔‘‘مگر آئندہ سال آپ محرم کے آنے سے پہلے خالق حقیقی سے جاملے؛ لیکن یہ حکم باقی رہااور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عمل کیا لہذا محرم کی نویں دسویں یا دسویں گیارہویں یعنی دو دن روزہ رکھنا چاہیے ۔نیز رسول ﷺنے ارشاد فرمایا:’’عاشورہ کا روزہ رکھو اور یہودیوں کی مخالفت کرو دسویں کے ساتھ ایک دن اور روزہ رکھو چاہے ایک دن پہلے ہو یا ایک دن بعد۔ ‘‘(مسند احمد)
ہجری تقویم کے آغازکا مہینہ :
ماہ محرم کی اہمیت اس لحاظ سے بھی ہے کہ یہ سن ہجری(اسلامی سال) کا پہلا مہینہ ہے جس کی بنیاد سرور کائنات کے واقعہ ہجرت پر ہے؛ لیکن اس کا تقرر اور آغاز استعمال 17 ہجری میں عہد فاروقی سے ہوا۔ یمن کے گورنر حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس سیدنا عمر فاروق ؓ کے احکامات آتے تھے جن پر تاریخ کا اندراج نہیں ہوتا تھا چنانچہ 17 ہجری میں ابو موسیٰ ؓکے توجہ دلانے پر خسر مصطفیٰ سیدنا عمرفاروق ؓنے مجلس شوریٰ کا اجلاس بلایا اور ان کے سامنے یہ مسئلہ رکھا۔ طے یہ پایا کہ اپنے سن تاریخ کی بنیاد واقعہ ہجرت کو بنایا جائے اور اس کی ابتدائ محرم سے کی جائے ؛کیونکہ 13 نبوی کے ذوالحجہ کے بالکل آخر میں مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا منصوبہ طے کر لیا گیا تھا اور اس کے بعد جو چاند طلوع ہوا وہ محرم کا تھا۔
مسلمانوں کا سن ہجری اپنے معنی ومفہوم کے اعتبار سے منفرد حیثیت کا حامل ہے ۔ دوسرے مذاہب میں جو سن رائج ہیں وہ یا تو کسی شخصیت کے یوم ولادت کی یاد دلاتے ہیں یا کسی قومی واقعہ مسرت وشادمانی سے وابستہ ہیں۔ نسل انسانی کو اس کا کوئی فائدہ نہیں۔جیسا کہ سن عیسوی کی ابتدائ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت ہے ۔ یہودی سن حضرت سلیمان علیہ السلام کی فلسطین پر تخت نشینی کے ایک پر شکوہ واقعہ سے وابستہ ہے ،روی سن سکندر فاتح اعظم کی پیدائش کو ظاہر کرتا ہے ۔ بکرمی سن راجہ بکر ماجیت کی پیدائش کی یاد دلاتا ہے ؛لیکن اسلامی سن ہجری عہد نبوی کے ایسے عظیم الشان واقعہ کی یادگار ہے جس میں ایک سبق پنہاں ہے کہ اگر مسلمان پر اعلائے کلمہ الحق کے لئے مصائب وآلام کے پہاڑ ٹوٹ پڑ یں، سب لوگ دشمن ہوجائیں، اعزہ واقربا بھی اس کو ختم کرنے پر تل جائیں اس کے دوست احباب بھی اسی طرح تکالیف میں مبتلا کر دئیے جائیں، تمام سربر آوردہ لوگ اسے قتل کرنے کا عزم کر لیں، اس پر عرصہ حیات تنگ کر دیا جائے اس کی آواز کو بھی دبانے کی کوشش کی جائے تو اس وقت مسلمان کیا کریں؟اسلام یہ نہیں کہتا کہ کفر وباطل سے مصالحت کر لی جائے یا حق کی تبلیغ میں مداہنت اور رواداری سے کام لیا جائے اور اپنے عقیدے اور نظرئیے میں نرمی پیدا کر کے ان کے اندر گھل مل جائے تاکہ مخالفت کا زور کم ہو جائے ۔ نہیں، بلکہ اسلام ایسی بستی اور شہر پر حجت تمام کر کے ہجرت کا حکم دیتا ہے ۔
اسی واقعہ ہجرت پر سن ہجری کی بنیاد ہے جو نہ تو کسی انسانی فوقیت وبرتری کو یاد دلاتا ہے اور نہ ہی کسی پر شکوہ واقعہ کو … بلکہ مظلومی وبے بسی کی ایسی یادگار ہے جو ثابت قدمی، عزم واستقلال، صبر واستقامت اور رضائے الٰہی پر راضی ہونے کی زبردست مثال ہے ۔
یہ واقعہ ہجرت ہمیں یاد دلاتا ہے کہ وہ مظلوم، بے کس بے بس اور لاچار مسلمان کس طرح اپنے مشن میں کامیاب ہوئے اور کس طرح وہ خارستان میں گئے ، بیابان اور جنگلوں کی خاک چھانی اپنے آبلوں سے کانٹوں کی تواضع کی، صرصر و سموم کو دیکھا، لو اور دھوپ کو محسوس کیا، تپتی ریت اور دہکتے کوئلوں کو ٹھنڈا کیا، جسم پر چرکے کھائے ، سینے پر زخم سجائے ، آخرمنزل مقصود پر پہنچ کر دم لیا، کامرانی وشادمانی کازریں تاج اپنے سر پر رکھا اور پستی وگمنامی سے نکل کر رفعت وشہرت اور عزت وعظمت کے بام عروج پر پہنچ گئے ۔
شہادت سیدنا عمرفاروق رضی اللہ عنہ:
سیدنا فاروق اعظم ؓکی مبارک زندگی اسلامی تاریخ کاوہ روشن باب ہے جس نے ہر تاریخ کو پیچھے چھوڑ دیا، آپ نے حکومت کے انتظام وانصرام بے مثال عدل وانصاف، عمال حکومت کی سخت نگرانی، رعایا کے حقوق کی پاسداری، اخلاص نیت وعمل، جہاد فی سبیل اللہ، زہد وعبادت، تقویٰ وخشیت الٰہی او ردعوت کے میدانوں میں ایسے ایسے کارہائے نمایاں انجام دیے کہ انسانی تاریخ ان کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے ۔ انسانی رویوں کی گہری پہچان، رعایا کے ہر فرد کے احوال سے بر وقت آگاہی او رحق وانصاف کی راہ میں کوئی رکاوٹ برداشت نہ کر نے کے اوصاف میں کوئی حکمران فاروق اعظمؓ کا ثانی نہیں۔ آپ اپنے بے پناہ رعب وجلال اور دبدبہ کے باوصف نہایت درجہ سادگی فروتنی اورتواضع کا پیکر تھے ۔ آپ کا قول ہے کہ ہماری عزت اسلام کے باعث ہے دنیا کی چکا چوند کے باعث نہیں۔
سید ناعمر فاروق کے بعد آنے والے حکمرانوں میں سے جس نے بھی کامیاب حکمران بننے کی کوشش کی اسے فاروق اعظمؓ کے قائم کردہ ان زریں اصول کو مشعل راہ بنانا پڑا جنہوں نے اس عہد کے مسلمانوں کی تقدیر بدل کر رکھ دی ؛مگر اس آفتاب عالم تاب کو بھی اپنے ان مٹ نقوش چھوڑکرایک دن غروب ہوناتھا سویکم محرم الحرام کو عدل و انصاف کا یہ نیر تاباں ہمیشہ کے لیے روپوش ہوگیا۔
یوں تو آپ کی تاریخِ شہادت کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ علامہ جلال الدین سیوطی فرماتے ہیں :حضرت ابو عبیدہ بن جراح کا بیان ہے کہ حضرت عمر بدھ کے دن 26 ذی الحجہ 23 ہجری کو شہید ہوئے اور ہفتہ کے دن محرم کی چاند رات کو دفن کئے گئے ۔ (تاریخ الخلفائ صفحہ310) اور ان کی وفات کے بعد حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیعت 29 ذی الحج سنہ 23ہجری کوہوئی،اور محرم الحرام 24ھ کی یکم کوآپکی نماز جنازہ ادا کی گئی،اسی طرح آپ کی وفات کے تعلق سے 28،29اور یکم محرم کی روایات بھی ملتی ہیں ؛ جیساکہ مؤخر الذکر تاریخ ہی زیادہ مشہورہے ۔(شریف التواریخ،خزینۃ الاصفیائ،الفاروق،ابن کثیر، طبقاتِ ابنِ سعد)
شہادت سیدنا حسین رضی اللہ عنہ :
نواسئہ رسول جگر گوشہئ بتول سیدنا حضرت حسین ؓ وہ عظیم ہستی ہیں کہ جن کے فضائل و مناقب، سیرت و کردار اورروشن کارناموں سے تاریخ اسلام کے صفحات بھرے پڑے ہیں، سیدنا حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے خاندانِ نبوت، فاتح خیبر سیدنا حضرت علی المرتضیؓ کے گھر میں آنکھ کھولی۔ آپ کے نانا ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے کان میں بنفس نفیس اذان دی۔ اپنے پاکیزہ اور مبارک ہاتھوں سے شہد چٹایا۔ اپنا لعاب مبارک آپ کے منہ میں داخل فرمایا، دعائیں دیں اور حسین نام رکھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی والدہ ماجدہ، اپنی سب سے چھوٹی اور لاڈلی لخت جگر، خاتونِ جنت حضرت سیدہ فاطمہ الزہرا کو ”عقیقہ“ کرنے اورسر کے بالوں کے برابر چاندی خیرات کرنے کی تلقین فرمائی۔
سیدنا حضرت حسینؓ نے اپنے نانا حضور اکرم سے بے پناہ شفقت و محبت کو سمیٹا اور سیدنا حضرت علی المرتضیؓ کی آغوش محبت میں تربیت و پرورش پائی۔ جس کی وجہ سے آپ فضل و کمال، زہد و تقویٰ، شجاعت و بہادری، سخاوت و رحمدلی، اعلیٰ اخلاق اور دیگر محاسن و خوبیوں کے بلند درجہ پر فائز تھے ۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ سے بہت زیادہ محبت تھی آپ حضرت حسین ؓ کو گود میں اٹھاتے ، سینہ مبارک پر کھلاتے ، کاندھے پر بٹھاتے اور کبھی ہونٹوں پر بوسہ دیتے اور رخسار چومتے ۔
میدان کربلا میں ظالم و سفاک حکمرانوں نے آپ کو شہید کرڈالا؛مگرسیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت کا اس ماہ محرم الحرام کی حرمت سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ سانحہ تو رسول اکرم ﷺ کی وفات سے پچاس برس بعد پیش آیا اور دین رسول کی حیات طیبہ میں مکمل ہو گیا تھا اگر بعد میں ہونے والی شہادتوں کی شرعی حیثیت ہوتی تو خسر مصطفی، مراد رسول اور شہید محراب سیدنا عمر فاروق کی شہادت اور سیدنا عثمان کامل الحیائ والایمان کی مظلومانہ شہادت اس لائق تھیں کہ مسلمان ان کی یادگار مناتے اور اگر ماتم وشیون کی اجازت ہوتی تو اسلامی تاریخ میں یہ شہادتیں ایسی تھیں کہ اہل اسلام اس پر جتنی بھی سینہ کوبی اور ماتم وگریہ زاری کرتے کم ہوتا۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ سارے واقعات تکمیل دین کے بعد پیش آئے ۔
شہادتِ فاروقؓ و حسینؓ میں ایک قدر مشترک :
مفکراسلام مولانا زاہد الراشدی ارقام فرماتے ہیں:سیدنا حضرت عمر فاروقؓ اور سیدنا امام حسینؓ کے تذکرہ میں ایک قدر مشترک یہ بھی ہے کہ دونوں بزرگوں کی شہادت کا تعلق نماز سے ہے ۔ حضرت عمرؓ پر نماز فجر کے دوران حملہ ہوا تھا۔ روایات میں آتا ہے کہ امیر المؤمنینؓ نے مسجد نبویؐ میں فجر کی نماز پڑھانے کا آغاز کیا، ابھی وہ اللہ اکبر کہہ پائے تھے کہ ابو لولومجوسی نے ان پر زہریلے خنجر سے وار کر دیا جس سے وہ گر پڑے ۔ حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ نے فورًا ان کی جگہ کھڑے ہو کر جلدی جلدی نماز مکمل کی۔ صحابہ کرامؓ کے ہاں نماز کی اہمیت کیا تھی؟ اس کا اس بات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پچھلی صفوں والے کہتے ہیں کہ ہمیں صرف اتنا پتہ چل سکا کہ اللہ اکبر حضرت عمر ؓ نے کہا تھا مگر قرائ ت میں آواز بدل گئی تھی اور حضرت عبد الرحمن بن عوف ؓ فاتحہ کی قرائ ت کر رہے تھے ۔ امیر المؤمنینؓ کے زخمی ہو کر گر پڑنے کے باوجود پہلے نماز کی تکمیل کی گئی۔
اس حوالہ سے ایک اور واقعہ بھی مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ زخمی حالت میں بستر پر تھے اور طبیب حضرات مایوسی کا اظہار کر رہے تھے ، اس موقع پر ان کے بیٹے حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ نے اپنے زخمی والد محترم کو یاد دہانی کرائی کہ آپ کی فجر کی نماز ابھی باقی ہے ۔ روایت میں ہے کہ دو مرتبہ حضرت عمرؓ کو ان کے کہنے پر تیمم کرایا گیا لیکن وہ نماز شروع کرتے ہی پھر بے ہوش ہو گئے ۔ مگر بیٹے کو آخر وقت تک یہی فکر رہا کہ کہیں میرے والد محترمؓ کے ذمہ فجر کی نماز باقی نہ رہ جائے ۔
جبکہ حضرت امام حسینؓ کی تو شہادت ہی نماز کے دوران سجدے کی حالت میں ہوئی۔ ہم ان بزرگوں کا تذکرہ تو کرتے ہیں مگر ان کا یہ آخری سبق ہمیں کس حد تک یاد ہے اور ہم نماز کی پابندی کے حوالہ سے ان کی کتنی پیروی کرتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائیں۔(ماہنامہ نصرۃ العلوم، جنوری 2012ئ)
الغرض :تاریخ کے ان واقعات کو بیان کرنے کا مقصدبھی یہی ہے کہ ہم ان سے سبق آموزی اور عبرت پذیری کی عادت پیداکریں،سرسری پڑھ کر چھوڑ دینے کے بجائے عمل کی نیت سے بار بار پڑھتے اور اپنا محاسبہ کرتے رہیں ،ان شائ اللہ بہت جلد ایک صالح انقلاب ہماری زندگیوں میں آئے گا اور ہم بھی نیک تبدیلی کی طرف گامزن ہوجائیں گے۔اللہ پاک توفیقِ عمل نصیب فرمائے ۔آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×