اسلامیاتمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

لغو ولایعنی سے بچیں! از افادات :حضرت مولانا محمد عبدالقوی صاحب مدظلہ( ناظم ادارہ اشرف العلوم حیدرآباد)

یہ حقیقت ہے اور خبر رساں اداروں نے اس کی تصدیق بھی کی ہے کہ حکومت کی جانب سے بند کے عمومی اعلان کے بعدسوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کی غیرضروری مصروفیات میں روز افزوں اضافہ ہورہاہے، لوگوں کا لغو و لایعنی میں اشتغال بڑھتا جارہاہے،بچوں اور بڑوں کے بہ شمول گھر کا ہر فرد اپنے من پسند پروگرام دیکھنے،سننے اور بلاتحقیق دوسروں کوارسال کرنےمیں لگا ہوا ہے؛ مگر ان سب کے باوجود من جانب اللہ اس (بند)کے بہت سے مثبت پہلو بھی ہمارے سامنے ہیں۔مثلاً طالبین صادقین کو یکسوئی کے کچھ لمحات میسر آگئے ہیں،سالکین طریقت کے لیےگھر بیٹھے اہل اللہ سے استفادے کی شکلیں آسان ہوگئی ہیں،حرفِ علم سے آشنا لوگوں کےلیے سیرت النبیﷺکے دروس سننے،فرق باطلہ کے ابطال پر دلائل اکھٹا کرنے اورآن لائن دینی معلومات میں اضافہ کرنےکے مواقع ہاتھ لگ گئے ہیں،مصنفین و اہل قلم اپنی توانائیاں نت نئے موضوعات پر صرف کرنے میں جٹے ہوئے ہیں اور اہل دل دل کی ویران دنیا کو آباد کرنے کی سعی مشکور فرمارہے ہیں۔ وغیرہ

درج ذیل تحریر حضرت مولانا محمد عبدالقوی صاحب مدظلہ (خلیفہ مجاز حضرت مفتی سعید احمد صاحب پرنامبٹی دامت برکاتہم)کے ایک  مفصل وعظ سے مستفاد ہے جو پچھلے ہفتے لغو و لایعنی سے اجتناب کے عنوان پر آن لائن کیا گیا تھا۔حالات کی مناسبت سے قدرے اختصار و ترمیم کے بعد ہدیۂ قارئین کیا جارہاہے۔

حمد و صلاۃ کے بعدزبان کے درست استعمال کی اہمیت پر مختصر روشنی ڈالی پھرارشاد فرمایا:موجودہ حالات میں لاک ڈاؤن کے پیش نظر لوگوں کو ایک جگہ جمع ہونے اور بھیڑ لگانے سے منع کیا جارہا ہے اور لوگوں کی اکثریت اس پر عمل بھی کررہی ہے؛مگر  اس خلوت کو خلوت مع اللہ بنانے کے بجائے  خلوت مع الناس ہی بنائی ہوئی ہے۔گھر بیٹھے ہی مجلسوں کی لذت حاصل ہورہی  ہے، فضول بولنے والوں کی گفتگو سنی جارہی ہے اور صرف ایک کلک کے ذریعہ بے کارکی محفلوں میں شرکت عام بات بن چکی ہے۔پہلے زمانے میں گفتگو کے لیے کسی ساتھی اور ہم نشیں کی ضرورت ہوتی تھی؛مگر  آج کل اس کی بھی ضرورت  نہیں ہے۔ایک ساتھی ہمیشہ  ساتھ رہتا ہے،نہ صرف جیب میں  بلکہ جیب سے نکل کر اب  ہاتھ میں آچکا ہے، جب سے لاک ڈاؤن ہوا ہے ہاتھ سے چُھٹ نہیں رہا ہے ؛اس لیےیہ کہنا بجا ہوگا کہ  اس زمانے میں کسی مصاحب کی حاجت نہیں ہے،بولنے والا ساتھ ہی ہے، وہ بولتا رہتا ہے، ہم سنتے رہتے ہیں اورصبح و شام مسلسل لغو ولایعنی میں لگے رہتے ہیں ،افسوس صد افسوس کہ انٹرنیٹ و میڈیا پر بعض چیزیں تو اس قدربے کار ہوتی ہیں کہ ان میں نہ دین کا کوئی فائدہ  ہوتا ہےنہ دنیا کا۔ہاں !اس میں کوئی حرج  نہیں کہ کبھی کبھار آدمی کچھ تازہ خبریں معلوم  کرلے،روزانہ دس منٹ حالات حاضرہ پر نظر ڈال لے ؛کیونکہ  ہم سماج میں رہتے ہیں،معاشرے کا حصہ ہیں اور ہمیں سماج کے بارے میں، حکومتی احکامات کے بارے میں،ہونے والے انتظامات کے بارے میں جاننے کی ضرورت ہے؛مگراس کے لیے کتنی دیرچاہیے؟پانچ سے دس منٹ میں آج کی اہم خبریں جو کل ہمیں نہیں معلوم تھیں’ معلوم ہو جائیں گی،اس کے بعدتو سب وہی ہے جس کو دہرایا جارہاہے ،شکلیں بدل بدل کر پیش کیا جارہاہے،عنوان بدل بدل کر وہی بکواس  چلائی جا رہی ہے۔اس سلسلہ میں اہل اسلام کے شوق و ذوق کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ قرآن مجید کا آموختہ ہے جس کو روزانہ  دیکھنا اور سنتے رہنا ضروری ہے؛جب کہ یہ  دل چسپیاں نفس و شیطان کی لگائی ہوئی ہیں اور ہم اسی میں محو ہوکر رہ گئے ہیں۔

الغرض:وہ خلوت جو مع الحق  ہوگی وہ ہماری روحانیت کو بلند سے بلند تر کردے گی اور وہ خلوت جو مع الخلق ہوگی وہ ہماری روحانیت  کا  گراف گرا دے گی اور ہمیں بلندی سے پستی کی طرف ڈھکیل دےگی۔ہمیں اس بات پر غورکرنا چاہیے کہ وہ تنہائی  جوآج  اضطراری طور پر ہی  سہی ہمیں حاصل ہے،ہم اس سےکتنا فائدہ اٹھارہے ہیں؟اختیاری طورپر  تو کبھی موقع نہیں ملتا کہ چلو کچھ دن اکیلے رہیں،یاد حق میں رہیں؛ لیکن اب اضطراری  طور پر اللہ تعالی نے باہرکے ماحول سے،یاروں دوستوں کی معیت سے علیحدہ کرکے گھر میں رہنے کا سامان کردیاہےتوہمیں چاہیے کہ اس خلوت کو خلوت مع اللہ بنانے کی کوشش کریں،اللہ تبارک و تعالیٰ شانہ سے تعلق میں اضافے کی فکرکریں، مجاہدہ اور ریاضت اختیار کریں اور اس ریاضت کے ذریعے زبان کی حفاظت کریں، کان  کی حفاظت کریں اور ساتھ ہی ساتھ نظر  کی حفاظت کریں اور اللہ تبارک وتعالی کی قرب کی منزلوں کو طے کرتے چلے جائیں۔اب تک  اکیس بائیس دن ملے،اِن اکیس بائیس دن میں آدمی  کہاں سے کہاں پہنچ جاتا اگر ریاضت ومجاہدہ کرتا؛ لیکن برا ہوہمارے لغو و لایعنی کا کہ اس لغو ولایعنی نے ہمیں اتنےزریں،قیمتی  اور سنہرے موقع سے بھی محروم کردیا اور ہم تعلق مع الخلق  میں لگےرہےاور موبائل کے ذریعےلایعنی لوگوں کے ساتھ، جھوٹ بولنے والوں کے ساتھ، فضول بکواس کرنے والوں کے ساتھ، بڑے بڑے گناہوں کے اندر مبتلا لوگوں کے ساتھ شریک ہوتے رہے۔اللہ پاک ہی ہماری حفاظت فرمائے۔

اس لغو و لایعنی سے بچنے اور زبان و کان کی حفاظت کرنے کے سلسلہ میں قرآن مجید میں جگہ جگہ اللہ تبارک وتعالی نے توجہ دلائی ہے۔چند آیتیں پیش خدمت ہیں:

پہلی آیت :سورۂ مریم میں  جنت کی تعریف کرتے ہوئے اللہ تبارک وتعالی نے ارشاد فرمایا:جو لوگ جنت میں جائیں گے وہاں وہ لغو بات نہیں سنیں گے، گناہ کی بات نہیں سنیں گے، دل آزاری کی بات نہیں سنیں گے، شرمندہ گی کی بات نہیں سنیں گے۔پھرکیا سنیں گے؟ صرف سلامتی کی باتیں سنیں گے۔آیت کریمہ میں  سلام سے مراد سلامتی والی، اچھی باتیں ہیں،دل خوش کر نے والی باتیں ہیں۔جنت میں لغوباتیں سننے کو نہیں ملیں گی،  اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہاں کوئی لغو بات کرے گاہی نہیں۔ مومن صادق کے لیے تو دنیا میں ہی جنت کی خوش خبری ہے،لہذااس  کو جنتیوں کی طرح ہی رہنا چاہیے اور اس طرح زندگی گزارنا چاہیے کہ نہ کوئی لغوبات کسی سے کہے اور نہ کوئی لغو بات کسی سے سنے۔  اس خوبی کو قرآن مجید میں بیان فرمایا گیاہے ؛تاکہ یہ بات  معلوم ہو جائےکہ یہ لغو ولایعنی بری چیز ہے اچھی چیز نہیں ہے، ناپسند چیز ہےپسندیدہ چیز نہیں ہے۔ اگر یہ پسندیدہ چیز ہوتی تو جنت جو اچھی چیزوں کا مرکز و منبع ہے وہاں پر جنتیوں کو اس سے محروم کیوں کیا جاتا؟ وہاں تو حلال وحرام کا مسئلہ ہی نہیں ہے،وہاں کے بارے میں تواللہ نے فرمادیاہے: جنت میں وہ سب کچھ ہوگا جس کی نفس خواہش کرے گا، اور جس سے آنکھوں کو لذت ملے گی۔(الزخرف)معلوم ہوا کہ  اللہ نےسب کچھ ہماری خواہشات جنت میں رکھی ہوئی ہیں؛ لیکن وہاں  لایعنی کو نہیں رکھا، لغو باتوں کو نہیں رکھا، پتہ چلا کہ یہ اتنی بری چیز ہےکہ اللہ نے اپنی جنت کواس سے خالی رکھا ، جنت کے لیے اسےپسند نہیں فرمایا اور اس کونعمتوں میں شمار نہیں فرمایا۔ جب یہ نعمتوں میں شمار نہیں ہے تو دنیا میں آدمی کو اس سے بچنا چاہیے۔

دوسری آیت:سورۃ الفرقان میں  اپنے نیک بندوں کی تعریف  کرتے ہوئےحق تعالی  فرماتے ہیں:جب وہ کسی لغو  مجلس یالغو عمل کے پاس سے گزرتے ہیں تو بڑے وقار اور شرافت کے ساتھ آگے نکل جاتے ہیں ٹہرتے نہیں، شریک نہیں ہو تے؛ اس واسطے کہ وہ لغو سے گھبراتے ہیں۔جو اللہ کے نیک بندے ہوتےہیں وہ لا یعنی میں مبتلا نہیں ہوتے۔حضرت مفتی محمد شفیع صاحب ؒ نے ’لغو‘ کی تفسیر ’’معارف القرآن‘‘ میں اس طرح کی ہے:’’لغو کی معنی فضول کلام یا کام جس میں کوئی دینی فائدہ نہ ہو۔ لغوکا اعلیٰ درجہ معصیت اور گناہ ہے جس میں فائدۂ دینی نہ ہونے کے ساتھ دینی ضرر و نقصان ہے۔ اس سے پرہیز واجب ہے، اور ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ نہ مفید ہو نہ مضر، اس کا ترک کم از کم اولیٰ اور موجب مدح ہے۔

حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ جو اتنے بڑےصحابی ہیں کہ ہرامام جمعہ کے دن منبر ومحراب سے دنیا بھر میں اعلان کرتا ہے کہ انبیاء کے بعد افضل المؤمنین کوئی ہے تو وہ ابوبکر ہے، ان کا حال یہ ہے کہ وہ منہ میں کنکریاں رکھ لیا کرتے تھے تاکہ جب جب چاہے زبان نہ چل پڑے ۔ جب کوئی بات کہنی ہوتی  تو پہلے سوچ لیتے اور جب اطمینان ہوتا کہ یہ بات واقعی ضروری ہے بولنی چاہئے تو کتنی بولنی چاہیے اس کو طےکر  لیتے پھر منہ سے کنکریاں نکال کر فرمادیتے  اورپھر منہ میں  کنکریاں رکھ لیتے؛ تا کہ زبان بے تحاشہ نہ چلےاور بے باک نہ ہو جائے۔اس درجہ اہتمام اتنے بڑے ایمان والے نے کیاتو ہم جیسے کمزور و ضعیف الایمان لوگوں کوکیساکچھ اہتمام کرناچاہیے۔

تیسری آٓیت:سورۃ القصص کی ہے ، اللہ تبارک وتعالی کا فرمان ہے،یہ فرمان بھی نیک بندوں کے بارے میں ہےکہ  جب یہ کوئی فضول بات سنتے ہیں ،لغو ولایعنی بات سنتے  ہیں، یاگناہ کی بات سنتے  ہیں تو اس سے اعراض کر لیتے ہیں ،کسی طرح اس مجلس سے جا سکتے ہیں تو جاکر بچ جاتے ہیں، اٹھ سکتے ہیں تو اٹھ کر بچ جاتے ہیں، نہیں اٹھ سکتے تو اعراض کرکے دوسری گفتگو شروع کرکے یا کسی بھی طریقے سے اپنےکو  شرکت سے بچا لیتے ہیں۔

حضرت حکیم الامت رحمۃاللہ نےایک نصیحت نامہ لکھا تھا اس نصیحت نامے میں ایک بات یہ بھی فرمائی کہ غیبت سے بچیں اور لغو ولایعنی گناہوں کی محفلوں سے بچیں پھر غیبت کے  سلسلے میں حضرت نےیہ فرمایا کہ غیبت اگر شیخ کی مجلس میں ہو رہی ہو تو بھی اٹھ جانا چاہیے؛ اس لیے کہ بارش میں نہانا مفید ہے؛ لیکن اولے پڑنے لگیں تو پھر بھاگنے ہی میں عافیت ہے۔ دیکھیے!بارش ہو رہی ہے ،مبارک پانی آسمان سے اتر رہاہے جو صحت کے لیے بھی اچھاہے اور اس میں نہانا بھی مفید ہے ؛لیکن اگر اس میں اولے پڑنے لگیں تو آدمی بھاگتاہی ہے اور سر بچاتا ہے۔یہ ایک محسوس مثال سے حضرت نے فرمایا کہ شیخ کی مجلس اگرچہ کہ باران رحمت ہے ؛ لیکن کبھی اتفاق سے کسی صاحب نے غیبت شروع کر دی یا کوئی  ایسی بات نکل گئی، جس کے بارے میں ہمیں یقین ہے کہ یہ غیبت کی تعریف میں آتی ہے توہمیں چاہیے کہ اس سے بھی اعراض کریں۔

تویہ تین آیتیں اور ان کی مختصر سے تشریح  ہوئی، آیتیں اگرچہ   اور بھی ہیں؛ لیکن مختصر وقت کی مختصر گفتگوکے لیے اتنا کافی ہے ۔

اس سلسلہ میں احادیث بھی بے شمار ہیں۔ ایک حدیث میں حضور ﷺ کا یہ ارشاد بہت مشہور ہےکہ آپ نے فرمایا: ”جو شخص خاموش رہا وہ نجات پا گیا۔“ (جامع ترمذی)۔ ایک اور حدیث میں نبی پاک ﷺکا ارشاد ہے: فضول باتوں کو چھوڑ دینا، آدمی کے اسلام کی اچھائی کی دلیل ہے۔(موطا مالک) اس لئے خاموش رہنے اور ضرورت پر بولنے کی کوشش کریں، اس سے زیادہ نہ بو لیں !ایک روایت میں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص اﷲ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو تو اسے چاہیے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔ (بخاری و مسلم) اس روایت میں حضور ﷺنے دو راستے متعین کردیے،اچھی بات بولو! کام کی بات بولو! نفع کی بات بولو !نفع دنیا کا ہو دین کا ہو ۔بھلی بات بولو  اور اگر بھلی نہیں ہے توپھرچپ رہو!اب تیسرا آپشن کہاں ہے تیسرا ہے ہی نہیں۔یا بھلی بات بولویا خاموش رہو! خاموش رہنے کا حضور علیہ السلام نے حکم دیا ہے۔یہاں صرف بھلی بات بولنے کی اجازت ملی ہے جس کا تقاضا یہ ہوگا کہ آدمی  بولنے سے پہلے یہ غور کرے کہ بھلی ہے یا نہیں؟ اس لیے کہ بولنے کے بعدسوچنے کا توکوئی فائدہ نہیں ہے۔ بزرگوں کی نصیحتوں میں مشہور ہےکہ عقلمند سوچ کر بولتا ہے اوربےوقوف بول کر سوچتا ہے ۔ جیسے تیر کمان سے نکلنے کے بعد ہمارے قبضے سے باہر چلاجاتاہےجسےہم نہ  روک سکتے ہیں نہ واپس لا سکتے ہیں، اسی طرح بات زبان سے نکلنے کے بعد ہمارے اختیار سے  نکل جاتی ہے۔ بعد میں ہم کو احساس ہو تو واپس کیسے لاسکتے ہیں؟ آج کل کا ایک عرف ہے،  لوگ کہتے ہیں کہ میں اپنی زبان واپس لیتا ہوں یا میں اپنی بات واپس لیتا ہوں وغیرہ یہ ایک قسم کی معذرت ہے؛ لیکن کیا اس سے وہ بات واپس ہو جائے گی جوبری تھی اور جس سے دوسرے کے دل پہ چوٹ لگ گئی ؟؟

حضرت مولانا الیاس صاحب نور اللہ مرقدہ نے فرمایا  کہ اس زمانے کی مہلکات(ہلاک کرنے والی چیزوں) میں ایک اہم مہلکہ قول کا اپنی مقدار سے بڑھ جانا ہے۔  چنانچہ  حضرت خود اس پر عامل تھے،  بہت مختصر بولتے تھے اور  چھوٹے چھوٹے جملے بولتے تھے۔ ایک حدیث میں حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ کامل ترین مؤمن وہ ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرےمسلمان محفوظ ہوں اور ایک روایت میں ہے کہ دوسرے انسان محفوظ ہوں  ۔(بخاری ومسلم) ایک  اورروایت ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کو جو باتیں اپنے بندوں کی پسند نہیں آتی، ان میں کثرت سوال اور قیل وقال بھی  ہے۔قیل وقال کا مطلب ہے اس نےیہ کہا ،یا یہ کہا گیا ،یا یہ بولا جارہا ہے ۔ ان باتوں کا کیا فائدہ ؟یہ اللہ کو بالکل پسند نہیں۔اس سے اچھا تو یہ تھا کہ اتنی دیر اللہ کا ذکر کر لیتا،استغفار کرلیتا،تلاوت کرلیتا،کوئی نیک کام انجام دے لیتا وغیرہ۔

خلاصہ یہ کہ ہم وقت کی قدردانی کریں،خالی اوقات میں اللہ سے لو لگائیں،اورلغو ولایعنی سے مکمل اجتناب کی کوشش کریں ۔اللہ پاک توفیق عمل نصیب فرمائے ۔آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×