سیاسی و سماجیمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

سیاه قوانین؛ حقائق و منصوبے

یہ بات ہم سبھی جانتے ہیں کہ جب ہمارا ملک برطانوی تسلط سے آزادہوا تو اس کے کچھ ہی عرصے بعد تقسیم کا ناگوار سانحہ پیش آیا ،اور مسلمانوں کی ایک قابل لحاظ تعداد ہجرت کرکے پاکستان چلی گئی۔ چوں کہ 1925ء میں آر ایس ایس کی بنیاد رکھی جا چکی تھی؛ اس لیے تقسیم کے موقع پرتعصب پسند ہندؤوں کی جانب سے پوری شدومد کے ساتھ یہ آواز اٹھائی گئی کہ مسلمانوں نے اپنے لیے الگ ملک بنالیا ہے؛ لہذا بھارت اب ہندو راشٹر ہوگا۔

اس وقت گاندھی جی اور دیگر جمہوریت پسند رہنماؤں نے اس کی سختی سے مذمت کی اور ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کی سربراہی میں مختلف مذاہب کے نمائندوں کے ساتھ مل کر ایک ایسا دستور مرتب کیا گیا جو انصاف، مروت اور مساوات پر مبنی تھا۔

گاندھی جی کی حیثیت باشندگان وطن کے درمیان مہاتما کی تھی اور وہ ہندومسلم اتحاد کے نقیب سمجھے جاتے تھے؛ اس لیے انہیں ایک سازش کے تحت قتل کرنے کا پلان بنایا گیا اور ایسا کھیل کھیلا گیا کہ گاندھی جی کو قتل تو آرایس ایس کرے ؛مگر تہمت مسلمانوں کے سر آئے، اس طرح مسلم اقلیت تمام باشندگان وطن کے عتاب کا شکار ہوجائے اورمسلمانوں کو ملک بدر ہونے پرمجبور کردیا جائے۔ چناں چہ اس کام کے لیے گوڈسے کو تیار کیا گیا اور اس کےایک  ہاتھ پر محمد سلیم گودوایا گیا حالانکہ ایک بڑی تعداد گوڈسے کو پہلے ہی سے جانتی تھی کہ و ہ آر ایس ایس کے نظریات سے ہم آہنگ ایک لیڈر کی حیثیت رکھتا ہے‘ اس نے پوری تیاری کے ساتھ  گاندھی جی کو شوٹ کرنے کا پروگرام بنایا اور کام تمام کردیا۔ اس کے فوراً بعد یہ افواہ عام کردی گئی کہ ایک مسلمان شخص محمد سلیم نے گاندھی جی کو قتل کردیا۔ اس سانحے کے بعد عوام کی بڑی تعداد بھپر گئی اور ممبئی میں ہندو مسلم فساد شروع ہوا۔ ادھر ہمارے قائدین شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی، مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی اور امام الہندمولانا ابوالکلام آزاد نے فوری حرکت کی اور اعلی پیمانے پر تحقیقات کا آغاز کیا پھر مسئلہ کی تہہ تک رسائی کے بعد صرف دو گھنٹوں کے اندر اندر سردار ولبھ بھائی پٹیل کے ذریعہ اس بات کا اعلان کروایا کہ گاندھی جی کا قاتل مسلمان نہیں تھا؛ بل کہ آرایس ایس کا نمائندہ گوڈسے تھا۔ جوں ہی اعلان ہوا غیظ وغضب کا سارا رخ آرایس ایس کی طرف ہوگیا ۔ اس طرح ایک بنا بنایا منصوبہ خاک آلود ہوگیا اور ہندو راشٹر کا جو خواب دیکھا گیا تھا وہ شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔

آرایس ایس کی اس شکست فاش کے بعد 19 افراد کی ایک خفیہ میٹینگ بلائی گئی؛ جس میں آئندہ کےلیے نظام العمل ترتیب دیا گیا، جملہ شرکاء نے اس بات پر قسم کھائی کہ ہم  تعلیم کےلیے اپنی زندگی وقف کردیں گے؛ کیوں کہ تعلیم ایک ایسی راہ ہے جس کے ذریعہ پیمانے پر ذہن سازی کا کام کیا جاسکتا ہے اور کئی غیر ہندو اقوام کو ہندوباورکرایا جاسکتا ہے،اس نصب العین کے مطابق کام کا آغاز ہوا اور گورکھپور سمیت ملک بھر میں اسکولس کا قیام عمل میں آیا۔جب بات آرایس ایس کی نکل پڑی تو برسبیل تذکرہ چند اورحقائق بھی  ملاحظہ فرمائیں!

آر ایس ایس ایک خفیہ تحریک:

جناب عبدالغفور نورانی صاحب ایک اچھے قانون داں ،معروف دانشور اور بے باک قلم کار ہیں۔ پچھلے چند سالوں سے آر ایس ایس کی تشدد پسندذہنیت کو عیاں کرنے والوں میں آپ کا نام سر فہرست ہے۔ حال ہی میں اس ’پراسرار‘ سمجھی  جانے والی تحریک پر آپ کے اشہب قلم سےانگریزی میں ایک معرکۃ الآراء کتاب The RSS A Menace To Indiaشائع ہوکر سامنے آئی ہے۔ کتاب اپنے اندر آر ایس ایس کے تعلق سے مختلف معلومات کا ایک ذخیرہ لیے ہوئے ہے۔ درج ذیل اقتباس ان ہی کی ریسرچ کا خلاصہ ہے۔

آر ایس ایس کی تقریباً 100سے زائد شاخیں ہیں، جوالگ الگ میدانوں میں سرگرم ہیں۔ جیسا کہ سیاسی میدان میں بی جے پی، حفاظت یا سکیورٹی کے لیےبجرنگ دل، مزدورں یا ورکروں کے لیےبھارتیہ مزدور سنگھ، دانشوروں کے لیے وچار منچ، غرض کہ سوسائٹی کے ہر طبقہ کی رہنمائی کے لیے کوئی نہ کوئی تنظیم ہے۔ حتیٰ کہ پچھلے کچھ عرصہ سے آر ایس ایس نے مسلم راشٹریہ منچ اور جماعت علماء نامی دو تنظیمیں قائم کرکے انہیں مسلمانوں میں کام کرنے کے لیے مختص کیا ہے۔ پچھلے انتخابات کے دوران یہ تنظیمیں کشمیر میں خاصی سرگرم تھیں۔ان سبھی تنظیموں کے لیے آر ایس ایس کیڈر بنانے کا کام کرتی ہے، اور ان کے لئےا سکولوں اور کالجوں سے ہی طالب علموں کی مقامی شاکھاؤں کے ذریعے ذہن سازی کی جاتی ہے۔

آر ایس ایس ہندوستان کے 88 فیصد بلاک میں  اپنی شاکھاؤں کے ذریعے رسائی حاصل کر چکا ہے۔ قابل ذکر واقعہ یہ ہے کہ گزشتہ ایک سال میں آر ایس ایس نے 113421 تربیت یافتہ سوئم سیوک سنگھ تیار کیے ہیں۔ہندوستان سے باہر ان کی کل39 ممالک میں شاکھائیں ہیں۔ یہ شاکھائیں ہندو سوئم سیوک سنگھ کے نام سے کام رہی ہیں۔ہندوستان  سے باہر آر ایس ایس کی سب سے زیادہ شاکھائیں نیپال میں ہیں۔اس کے بعد امریکہ میں اس کی شاکھاؤں کی تعداد146 ہے۔ برطانیہ میں 84 شاکھائیں ہیں۔ آر ایس ایس کینیا کے اندر بھی کافی مضبوط حالت میں ہے۔ کینیا کی شاکھاؤں کا دائرہ کار پڑوسی ممالک تنزانیہ‘ یوگانڈا‘ ماریشش اور جنوبی افریقہ تک پھیلا ہوا ہے اور وہ ان ممالک کے ہندوؤں پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں۔

دلچسپ بات یہ کہ ان کی پانچ شاکھائیں مشرق وسطیٰ کے مسلم ممالک میں بھی ہیں۔ چوں کہ عرب ممالک میں جماعتی اور گروہی سرگرمیوں کی کھلی اجازت نہیں ہے اس لئے وہاں کی شاکھائیں خفیہ طریقے سے گھروں تک محدود ہیں۔ بتایا جاتا ہےکہ بابری مسجد کی مسماری اور رام مندر کی تعمیر کے لیے سب سے زیادہ چندہ ان ہی ممالک سے آیا تھا۔ فن لینڈ میں ایک الکٹرانک شاکھا ہے جہاں ویڈیو کیمرے کے ذریعے بیس ممالک کے افراد جمع ہوتے ہیں۔ یہ ممالک وہ ہیں جہاں پر آر ایس ایس کی باضابطہ شاکھا موجود نہیں ہے۔

ان سب تفصیلات کو ذکر کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ برسر اقتدار پارٹی کی پیہم کامیابیوں کے پیچھے آرایس ایس کی مسلسل جدوجہد اور انتھک محنت کارفرماہے؛یہی وجہ کہ آج ہر اہم اور بڑے عہدے پر ان ہی کے پروردہ افراد براجمان ہے، جس کے خوف ناک نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ نیز یہ ہمارے لیے جائے عبرت و احتساب ہے کہ مضبوط منصوبہ بندی اور عزم و استقلال کے سبب مٹھی بھربرہمن محض پروپیگنڈوں کی بنیاد پرملک بھر میں تباہی مچا رہے ہیں اور ہم ہیں کہ سیکولر قوموں کی کثرت کے باوجود مقصد و ہدف کو متعین نہ کرنے اورزمینی سطح پر کام کو فروغ نہ دینے کے سبب آپسی انتشار کا شکار اور ذلت و پستی سے دوچارہیں۔

کچھ باتیں سی اے اے کے حوالے سے:

یہ بات ہمیں معلوم ہونی چاہیے کہ ملک کے دستور کا نفاذ 1950ء میں عمل میں آیا اور دستور میں شہریت کے حوالے سے جو دفعہ مرتب کی گئی ابتداءً اس میں کافی لچک رکھی گئی، پھر بعد میں موقع اور حالات کے لحاظ سے ترمیمات اور وضاحتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ پہلی ترمیم 1986ء میں ہوئی ۔دوسری ترمیم  1992ء میں ہوئی۔تیسری ترمیم 2003ء اور چوتھی ترمیم 2005ء میں ہوئی۔

اس وقت شہریت کے سلسلہ جو متنازع ترمیم پاس کرائی گئی اور جس کے فوری بعد ملک بھر میں مخالفت و احتجاج کی صدائیں بلند ہوئیں وہ اس حوالے سے ہونے والے پانچویں ترمیم ہے۔ مذکورہ ترمیم کی رو سے تین پڑوسی اسلامی ممالک ؛ پاکستان، افغانستان، اور بنگلہ دیش سے غیر قانونی طور پر رہائش پذیر افراد اگر ہندو، سکھ، عیسائی، جین، بدھسٹ اور پارسی ہیں تو ان کو ’این آرسی‘ میں ہندوستانی شہری تسلیم کرکے شامل کرلیا جائے گا، اور اگر مسلمان ہیں تو نہیں!۔اس طرح یہ قانون جو فی الوقت عدالتِ عالیہ میں زیرِ غور ہے‘ عام دانشوروں کی رائے میں دستورِ ہند کی اہم اور حساس آئینی شقوں کے خلاف ہے،اور اس سے ملک کی سیکولر حیثیت ختم ہوتی محسوس ہوتی ہے۔

لیکن یہاں ایک غور طلب پہلو یہ ہے کہ کیا ہمارے احتجاج کا صرف یہی ایک سبب ہے کہ اس ترمیم میں مہاجرین کی فہرست سے مسلمانوں کو علیحدہ  رکھاگیا اور ان کے ساتھ سوتیلا رویہ برتا گیا۔۔۔۔۔۔یا کچھ اور بھی؟؟اس کو سمجھنے کےلیےیہ بات سمجھیں کہ آئین کی رو سےکسی بھی شہری کو شہریت دینے کی چار بنیادیں ہیں۔ 1:ولادت ،2:وراثت ،3:رجسٹریشن ،4:نیچرلزیشن۔ان چاروں میں ابتدائی دوبنیادیں تو واضح ہیں ،البتہ اخیر کی دو بنیادوں کو سمجھنے اور فرق کرنے کی ضرورت ہے۔تیسری صورت یہ ہے کہ کوئی غیرملکی شخص اپنے ملک میں ہونے والے ظلم وجبرسے بچنے کے لیے ہمارے ملک میں آگیا ہو یا ہمارا ملک اسے پسند ہو اور وہ یہاں رہنےکا خواہاں ہونیزاس کے آباء واجداد میں سے کوئی ہندوستانی بھی رہے ہوں تو اس کو حکومت پہلے  سات سال تک عارضی طورپر ویزا جاری کرکےقیام کی اجازت دے گی،اس دوران اس کی نقل وحرکت پرنظر رکھے گی ،سات سال  بعد وہ مزید رہنا چاہتا ہے تو اس کے مطالبےپرجو شہریت اسے  دی جائے گی اسےرجسٹریشن کی بنیاد پرشہریت کہاجائے گا۔چوتھی صورت بھی اسی کے قریب قریب ہےیعنی یہ شہریت بھی غیرملکی کو ملے گی بس فرق اتنا ہے کہ اگر وہ غیرملکی ہمارے ملک میں غیر قانونی طورپر  رہ گیا ہو اور اس کے آباء واجداد میں سے کوئی بھی اس ملک کے نہ ہوں تو اب حکومت گیارہ سال تک عارضی طورپر ویزا جاری کرکےقیام کی اجازت دے گی پھر اطمینان کے بعداس غیرملکی کے مطالبے پر جو شہریت دی جائے گی اسے نیچرلزیشن کہاجائے گا۔

اب سوال یہ ہے کہ جب پہلے سے یہ سب قوانین بنےہوئےہیں اور اسی بنیاد پر شہریت دینے کا سلسلہ بھی جاری ہے تو پھرسی اے اے کا کیا مطلب ہے؟اس کو لانے کے کیا مقاصدہیں؟اس پر اصرارکی کیا وجوہات ہیں ؟

مطلب یہ ہے کہ حکومت اس کے ذریعہ صرف مسلمانوں کا چہرہ  سامنے لاکر دوسری اقوام کو طفل تسلی دینا اور خواب خرگوش میں مست رکھنا چاہتی ہے؛تاکہ یہ مسئلہ ہندو مسلم بن کررہ جائےاور ملک فسادات کی بھینٹ چڑھ جائے ،پھر آزادی کے وقت جو منصوبہ بھارت کو ہندوراشٹر بنانے کا ہواتھا اس کو پایۂ تکمیل تک پہونچایا جاسکے۔

یاد رکھیں !آگے چل کر اگر این آر سی لاگو ہوجاتی ہے تو سب سے پہلے غیر مسلم اقوام ہی کوغیرملکی ماناجائے گا اورسی اے اے کے ذریعہ دلت، سکھ ،جین اور پارسیوں کو یہ قبول کرنا پڑے گا کہ ہم ہندو ہیں اور فلاں ملک سےقانونی یا غیرقانونی طورپر آئے ہوئےہیں،اس طرح ان دلتوں اور آدی واسیوں کو ہندو دھرم قبول کرنےپرمجبورکیا جائے گا اور برہمنوں کی طرح انہیں حقوق و مراعات حاصل نہیں ہوں گی۔

ہمارے لیے لائحہ عمل :

ہمیں احتجاج کی موجودہ حرارت کو مزید تیز کرنے اور ملک بھر میں منظم طور پر اس فضا کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ یہاں ایک بات یہ بھی یاد رکھیں کہ ہمارے احتجاج کا عنوان ظلم سے مقابلہ اور فسطائی نظام کا خاتمہ ہے؛اس لیے اس کو ہرگز ہندو مسلم مسئلہ نہ بننے دیں، اور اس کےلیےمسلمان اپنے ساتھ دلتوں، آدی واسیوں اور سیکولر قوموں کولےکر آگے بڑھیں؛ بل کہ قیادت کی کمان ان ہی افراد کے سپرد کردیں۔اب تک سیکولر قوموں کے صرف لیڈران ہمارے پروگراموں میں بہ حیثیت مہمان شریک ہوتے رہے اور ساتھ نبھانے کا تیقن دیتے رہے؛مگر اب ضرورت ہے ایسی ملک گیر تحریک کی جس میں ساری برہمن مخالف عوام منظر عام پر آئے اور اپنا احتجاج درج کرائے۔ اگر ایسا ہو(اور خداکرے کہ ایسا ہو )تو امید ہے کہ بہت جلد اس کے مثبت نتائج سامنے آئیں گے اورایک زبردست انقلاب برپا ہوگا۔ اس کے لیے ہمیں ملاقات کے ذریعہ درج بالاتفصیلات وضاحت کے ساتھ بتلانی ہوں گی ؛تاکہ انہیں غور وفکر کا موقع ملے اور وہ بھی ان دسیسہ کاریوں کا جواب دینے کےلیے تیارہوں۔

اس کے ساتھ ساتھ ہمیں سنجیدگی کے ساتھ اس طرف توجہ کرنا بھی ضروری ہے کہ ہمارے سرکاری دستاویزات تیار ہیں یا نہیں۔ اگر ہیں تو  اپنانام اور والد کا نام وغیرہ سب میں حروف یکساں ہے یا حروف کی کمی زیادتی ہے؟

یہ کام اس لیے ضروری نہیں کہ ہمیں این آرسی کا خوف ہے،یا ہم این آرسی کے نفاذ کوقبول کررہے ہیں؛ بل کہ اس لیے ضروری ہے کہ ہمیں این آر سی کا بائیکاٹ کرنا ہے اور ہمارا بائیکاٹ اسی وقت موثر ومعتبر ہوسکتا ہے جب ہمارے پاس مطلوبہ دستاویز موجودہوں اور ہم پھر بھی بتانے سے انکار کردیں؛ لیکن ہمارے پاس سرے سے دستاویز ہی نہ ہوں تو پھر بائیکاٹ کے کیا معنیٰ۔اس لیے خاموش انداز میں بغیر کسی شور و ہنگام کے اپنے اپنے کاغذات بنانے یا ان میں  یکسانیت پیداکرنے کا کام مکمل کرلیں۔ دستاویز بنانے کے سلسلہ میں تھوڑی بہت محنت اور صبروضبط کی ضرورت ہے ان دو باتوں کو پیش نظر رکھیں تو بہت سے غیر ضروری مصارف سے بچا جاسکتا ہے۔یہاں  اس بات کاتذکرہ بھی برمحل ہوگا کہ  این آرسی کے سلسلہ میں کس سال سے کس سال تک پیداہونےوالوں کے لیےکیا مطلوبہ دستاویز ہوں گے؟اس حوالے سے درج ذیل  تفصیل ملاحظہ فرمائیں!

26؍جنوری 1950 سے یکم جولائی 1987 کے درمیان پیدا ہونے والوں کا صرف اپنی پیدائش ثابت کردینا کافی ہے،اتنے سے اس کی شہریت ثابت ہوجائے گی ۔یکم جولائی 1987 سے 3؍ڈسمبر 2004کے درمیان پیدا ہونے والوں کے لیے اپنی پیدائش کےساتھ ساتھ والدین میں سے کسی ایک کی  شہریت ثابت کرنا ضروری ہے۔پھر3؍ڈسمبر 2004 کے بعد پیدا ہونے والوں کے لیےاپنی ولادت کے ساتھ ساتھ والد اور والدہ دونوں کا ہندوستانی ثابت کرنا ضروری ہے اسی بنیاد پر انہیں شہریت دی جائے گی۔

ان تمام اسباب کو اختیار کرنے کے بعد جب ہم حق تعالی سے مدد کی امید رکھیں گےاور دعائیں کرتے رہیں گے تو ان شاء الله ضرورمدددآئے گی اور ہم کامیاب و کامران ہوں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×