سیاسی و سماجیمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

ہجومی قتل کا خوفناک عفریت:ہم کیاکرسکتےہیں؟

انتخابات میں دوبارہ واضح اکثریت سے کامیابی کے بعدبرسر اقتدار پارٹی کے تئیں ابتدا ہی سے جن خطروں، خدشوں اور اندیشوں کا اظہار کیا جارہا تھا،رفتہ رفتہ وہ سبھی اندیشے واقعاتی دنیا میں سچ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔تعصب،فرقہ واریت اور مذہب کی بنیاد پر تفرقے نے جہاں ایک طرف ملک کی پر امن فضا اور خوش گوار ماحول کو مکدر کرکے رکھ دیا ہے،وہیں دوسری طرف ہجومی تشدد  اور وحشیانہ قتل عام کی پیہم وارداتیں، زبردست تباہی کی پیش قیاسی کررہی ہیں۔

کبھی گائے تو کبھی مختلف نعروں کے نام پر ہو رہی موب لنچنگ کا سبب زعفرانی رہنماؤں کے وہ نفرت بھرے بیانات بھی ہیں جو وہ وقفہ وقفہ سےفرقہ وارانہ زہر گھولنے کے لیےمنظر عام لائے جاتےہیں۔ کوئی کہتا ہے کہ مسلمان گائے کو ہاتھ لگانے سے پہلے ہزار بار سوچیں، کسی کابیان  ہے کہ مسلمان بیف کھانا بند کر دیں تو موب لنچنگ رک جائے گی اور کوئی کھلے عام یہ اعتراف کر تاہے کہ ہاں!گائے کے حامیوں نے ہی فلاں فلاں مسلم نوجوان کو زد و کوب کرکےشہید کردیا ۔

کاش ہجومی تشدد کا یہ سلسلہ یہیں پر ختم ہوجاتا ؛بل کہ کیا ہی اچھا ہوتا اگراس کا آغاز ہی نہ ہوتا ؛مگر افسوس صد افسوس کہ ایک جمہوری ملک میں لنچنگ کا یہ عفریت اس قدر طاقت ور ہوچکاہےکہ بوڑھوں ، جوانوں اورمعصوم بچوں کو بھی نگلتا جارہاہےاور حد یہ ہے کہ  نہ عدلیہ  اس پرروک لگانے کے لیے تیار ہے،نہ مقامی پولیس اس پر قابو پانے کےلیے سنجیدہ ۔یوں تو ہجومی تشدد 2014سے ہی جاری ہے؛لیکن گزشتہ چار سالوں میں تو اس نےسارےریکارڈ توڑ د ئیے۔اخباری ذرائع کے مطابق مجموعی طور پرپچھلے دس سالوں میں تقریباً 300لوگ ہجومی تشدد کا نشانہ بن چکے ہیں۔نشانہ بننے والوں میں صرف مسلمان ہی نہیں؛بلکہ دلت ہندو بھی ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ شر پسند اور سماج  دشمن عناصر کا مقصد ملک کی پرامن فضا کو خراب کرنا اور ہجومی تشدد میں لوگوں کو پٹتا ہوا دیکھ کر اپنی بیمار ذہنیت کو تسکین پہنچانا ہے۔

تبریزانصاری پرتشدد:                          

جھارکھنڈ کے کھرساواں ضلع میں17جون کو تبریزانصاری نامی مسلم جوان کی محض چوری کے شک میں خوب مار پیٹ کی گئی- اسے کھمبے سے باندھ کر زد و کوب کیاگیا اور پولیس کی تحویل میں دینےسےقبل بھی بھیڑ نے کئی گھنٹوں تک اسےاذیت و تکلیف میں رکھا- ہفتہ کے روز زخموں کی تاب نہ لاکرتبریز کا اسپتال میں دورانِ علاج انتقال ہوگیا- ذرائع کے مطابق تبریز قتل معاملہ میں پولس محکمہ کی جانبداری بھی صاف دکھائی دے رہی ہے۔ جو پولس تبریز کے گھر والوں کو انصاف دلانے کا دَم بھر رہی ہے اس نے اپنی رپورٹ میں ہجومی تشدد کی بات کہیں بھی نہیں لکھی، خبروں کے مطابق پولس نے شکایت میں اس بات کا تذکرہ تک نہیں کیا کہ تبریز پر بھیڑ نے حملہ کیا تھا۔ معاملے کی جانچ کر رہی پولس نے تبریز کو اپنی رپورٹ میں چوری کا ملزم قرار دیا ہے۔اس واقعہ سے جڑا ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوا جس میں بھیڑ مسلم نوجوان کو بے رحمی سے پیٹتی ہوئی نظرآرہی ہے۔ پولس اس ویڈیو کو بنیاد مانتے ہوئے معاملے کی جانچ کر رہی ہے۔ پولس نے اس تعلق سے اب تک 11 لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔

تبریز  کی اس مظلومانہ شہادت پر پورا ملک سراپا احتجاج بن چکاہے،  ہر صاحب دل غمگین و   پژمردہ ہوگیاہے، ہر کسی کی زبان پر ایک ہی بات ہےکہ آخر کس جرم  کی سزا اس جوان کو دی گئی؟کس  گناہ کی پاداش میں اسے ،موت  کے گھاٹ اتاراگیا؟ اور کب تک سفاکی و خونریزی کا یہ ناپاک سلسلہ چلتا رہے گا ؟آخرکب حکومت ہند اس پر قانون سازی کرے گی؟؟اور کب جاکر ان مقتول و مظلوم افراد کو انصاف ملے گا؟؟

جلتے گھر کو دیکھنے والے پھوس کاچھپر آپ کا ہے

آگ کے پیچھے تیز ہوا ہے آگے مقدر آپ کاہے

اس کے قتل پہ میں بھی چپ تھامیرا نمبر اب آیا

میرے قتل پہ آپ بھی چپ ہے اگلا نمبرآپ کا ہے

انظار احمد بھی  جاں بحق:

یہ واقعہ بہار کے مغربی چمپارن منگل پور تھانہ کا ہے، جہاں سنت پور کے انظار احمد سمیت تین لوگوں کی پٹائی آج سے تقریباً 10 مہینے پہلے 20 اگست 2018 کو کی گئی تھی۔ اس پٹائی کے بعد انظار کی یاداشت چلی گئی اور وہ بے ہوش رہنے لگے۔ طویل علاج کے بعد منگل 25 جون 2019 کو انظار اس دنیا سے ہمیشہ کے لئے الوداع کہہ گئے۔ اس موت کی وجہ سے علاقہ کے لوگوں میں کافی غصہ پایا جا رہا ہے۔ویب سائٹ ’بیونڈ ہیڈلائز‘ نے اس معاملہ پر رپورٹ شائع کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق خاندان کے لوگوں نے کہا کہ اس وقت انظار احمد ایک تبلیغی جماعت کے ساتھ منگل پور تھانہ کے بڑھیہ ٹولا علاقہ میں گئے تھے۔ جماعت نے وہاں کی ایک مسجد میں قیام کیا تھا۔ مسجد میں بیت الخلا کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے انظار اپنے دو ساتھیوں کے ساتھ رفع حاجت کے لئے باہر نکلے۔ لیکن راستہ میں دھار دار ہتھاروں کے ساتھ 5-6 بھگوا دہشت گردوں نے انہیں دبوچ لیا اور مذہبی شناخت کی گالیاں دینی شروع کر دیں۔ دریں اثنا حملہ آوروں نے ان کی داڑھیوں کو نوچا اور بری طرح سے انہیں زدوکوب کیا گیا۔ تیز دھار ہتھیاروں سے تینوں پر حملہ کیا گیا، انظار کی بائیں آنکھ کے نیچے گہرا زخم لگا جس سے بے تحاشہ خون نکلا۔حملہ کے بعد تینوں شور مچاتے ہوئے کسی طرح جان بچا کر وہاں سے بھاگے۔ شور سن کر مسجد میں ٹھہرے دیگر ساتھی بھی آ گئے۔ حملہ آوروں نے دھمکی دی تھی کہ تم لوگ ایک منٹ بھی یہاں ٹھہرے تو اپنے گھر واپس نہیں جا پاؤ گے۔ نوتن تھانہ سے ملی اطلاع کے مطابق اس معاملہ میں ایف آئی آر 20 اگست 2018 کو درج کی گئی تھی، جس کا کیس نمبر 437/18 ہے۔ یہ ایف آئی آر دفعہ 341، 323، 324، 307، 504، 506 وغیر کے تحت درج کی گئی ہے۔ پولس نے دو ملزمان کو گرفتار کیا تھا لیکن دو تین مہینے گزارنے کے بعد وہ ضمانت پر رہا ہو گئے تھے۔(روزنامہ ایشیا ایکسپریس)

چنداہم ذمہ داریاں:

ان غیرمعمولی خوفناک حالات کے باوجود ہمیں مایوس وبے بس ہونے کی قطعاً ضرورت نہیں ۔ قوموں کی زندگیوں میں انھیں جھنجھوڑنے اور خواب غفلت سے بیدار کرنے کے لیے اس طرح کے حالات آتے ہیں؛ البتہ اب وقت آگیا ہے کہ حالات کا صحیح تجزیہ کرکے مستقبل کا لائحہٴ عمل(نظام) طے کریں،اس حوالے سے چند ضروری امور پیش خدمت ہیں۔

1)مسلمان جو تقریباً دنیا کے ہر خطے میں اپنی موجودگی،اپنے کرداراوراپنی صلاحیتوں کے ذریعہ روشنی بکھیرنے والے ہیں تاریخ شاہد ہے کہ وہ کسی بھی ملک اور معاشرے کےلیے باعث زحمت نہیں رہے ۔ ہر معاشرے کو اپنی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں سے چار چاند لگایا بالخصوص اپنی اسلامی تعلیمات کے زیر اثر کسی کو بھی نقصان پہنچانے سے مکمل طور پر باز رہے ۔ امن و آشتی اور صلح و شانتی سے رہنا،دوسروں کیلئے آسانی پیدا کرنا اور اپنے حق سے زیادہ دوسرے کا حق ادا کرنا،مسلمانوں کاشیوا رہا ہے ۔ مسلمان ہمیشہ فساد برپا کرنے سے گریز کرتا رہا اورچاہتا رہا کہ کسی طرح بھی فتنہ و فساد کا سبب نہ بنے؛کیونکہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اے ایمان والو زمین میں فساد برپا نہ کرو ۔ اگر وہ کوئی ایسا کام کرتا ہے تو وہ اللہ کے حکم عدولی کا مجرم بنتا ہے؛ اس لیے مسلمان اکثر اس وجہ سے بھی مغلوب ہوجاتا ہے کہ وہ اللہ کے حکم کی پابندی اور اسلامی تعلیمات کی تقلید کر رہا ہوتا ہے، نہ وہ بزدل ہوتا ہے اور نہ ہی کمزور ؛لیکن شریعت اسلامی کے تحت وہ کوشش کرتا ہے کہ زمین میں فساد کا سبب نہ بنے۔

اس حقیقت کے باوجود فی الوقت ہجومی تشدد کی جو صورت حال ملک بھرمیں دکھائی دےرہی ہے اس کا تقاضا یہ ہے کہ مسلمان اب ہر گز ظلم کو برداشت نہ کریں،تشدد کا منہ توڑ جواب دیں اور یاد رکھیں کہ جس طرح ظلم کرنا شرعی نقطۂ نظر سے ناجائز اور حرام ہے ٹھیک اسی طرح ناحق ظلم سہنا بھی شریعت مطہرہ کی نظر میں گناہ ہے۔یہ  وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ان تمام علاقوں میں جہاں موب لنچگ کا مکروہ سلسلہ جاری ہے، نوجوان افراد پر مشتمل ایک پیانل تشکیل دیاجائے جو حالات پر مسلسل نظر رکھیں اور کسی بھی قسم کی ناخوش گوار صورت حال سے فوری طور پر نمٹنے میں کامیاب ہوسکیں!

2) جب پانی کی سطح بڑھتی ہے تو شرو ع میں لوگ اس پر غور نہیں کرتے اور پانی بہ تدریج بڑھتا چلا جاتا ہے۔آج اگر دیکھا جائے تو پانی کی سطح اوپر ہی نہیں ہوئی؛ بلکہ ہر با ضمیر ودور اندیش انسان ایک بھیانک طوفان کو اپنے سامنے تیزی کے ساتھ بڑھتا دیکھ رہا ہے، ایک سیلاب بلا خیز ہے بہیمیت کا، درندگی کا، حیوانیت کا، انتہا پسندی کا، تشددکا، قتل و غارت گری کا، مذہبی جنون کا ،جہالت کا ، بربریت کا۔ ہندوستان میں روز بروز بڑھتی عدم روادادی اور ہجومی تشدد کے بڑھتے واقعات اپنے آپ میں ایک  ایسے بڑھتے طوفان کی نشاندہی کر رہے ہیں جس کی علی الفور روک تھام نہ کی گئی تو ہزاروں سالہ عظیم  تمدن اس طوفان کی نذر ہو جائے گا۔اس لیے ان حالات میں مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ برادران وطن کو ہمراہ لےکر جگہ جگہ پر امن احتجاج کریں اور ذی اثر حضرات تک اپنا یہ پیغام پہنچائیں کہ ہم ملک کی جمہوری فضا کو ظلم و تشدد کے مسموم اثرات سے پاک دیکھنا چاہتے ہیں،اگر آپ نے اس حوالے سے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا تو  ہم بھی اقدام پر اتر آئیں گے اور اس کے ذمہ دار و قصور وار آپ ہوں گے۔

3)یہ دوکام تو وہ ہیں جو سر دست انجام دینے ہیں اور بڑے پیمانہ پر اس حوالے سے شعور بیدار کرنا ہے؛مگر ایک تیسرا کام جو صبر آزما اور محنت طلب ہونے کے ساتھ ساتھ پر اثر اور دیر پا بھی ہے وہ یہ کہ ہم اسلام کا سچا پیغام برادران وطن تک پہنچائیں اور سنجیدگی کے ساتھ اس میدان میں پیش رفت کریں اور یاد رکھیں کہ ملک میں دلتوں کی آبادی 17-16 فیصد ہے اورمسلمان15-14 فیصد۔ یہ دونوں مل جائیں تو دیش میں سیاست کی ایک نئی تاریخ لکھ سکتے ہیں اور اپنی لڑائی خود لڑسکتے ہیں۔اس سلسلہ میں مفکر اسلام علی میاںؒ کایہ پیغام بھی ملاحظہ فرمالیں:

” مسلمانانِ ہند کی ایک بڑی کمزوری یہ ہے کہ وہ اپنے ماحول کو (جس کی بڑی تعداد نہ صرف ان سے مذہبی اختلاف رکھتی ہے بلکہ بہت سے تاریخی اور سیاسی اسباب کی بنا پر بدگمانی اور خوف میں مبتلا ہے) اپنے سے نامانوس اور اپنے دین کے اصولوں اور بنیادوں، اپنے دینی پیشوا کی سیرت اور اپنی تاریخ کی عظیم شخصیتوں سے روشناس کرنے اور اس ملک میں آنے کے بعد انھوں نے جو تعمیری و انتظامی کردار ادا کیا، اس ملک و معاشرہ کو جو تحائف دیئے اور اب بھی ان کا وجود ملکی سطح پر جو کردار ادا کرسکتا ہے اس کے واقف کرانے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی کہ وہ اپنی دینی تعلیمات کی بنا پر اپنی ساری کمزوریوں کے باوجود اب بھی سیرت و اخلاق کے کون سے امتیازی پہلو رکھتے ہیں، اور ان سے کام لے کر ملک کے تیزی کے ساتھ گرتے ہوئے سماج کو زوال سے بچایا جاسکتا ہے، ان کے اخلاق اور سیرت کی خوشبو عام معاشرہ میں نہیں پہنچی، غیر مسلم بھائیوں نے مسلمانوں کو سیاسی میدان میں دیکھا یا انتخابی معرکہ (الیکشن) کے موقع پر یا بازاروں، دفتروں میں، اور وہاں ان کو کوئی بڑا امتیاز نظر نہیں آیا، عام طور پر غیر مسلم اسلام کی بنیادی تعلیمات تک سے ناواقف ہیں،وہ مسلمانوں سے متعلق اتنا جانتے ہیں کہ مسلمان ختنہ کراتا ہے، گائے کا گوشت کھانا ضروری سمجھتا ہے اور کچھ بات ہوجائے تو اسے بڑی جلدی غصہ آجاتا ہے، مسجد کے سامنے دوسروں کا باجہ نہیں سن سکتا، چاہے خود بجائے، ہم ابھی تک انھیں اذان کا مطلب تک نہیں سمجھا سکے جو پانچوں وقت (اکثر جگہ لاؤڈ اسپیکر سے) ہوتی ہے۔ہم نے اپنے ہم وطنوں کو اپنے سے مانوس اور اسلام سے متعارف نہیں کرایا، ایسا طرز زندگی ہم عمومی طور پر سامنے نہیں لائے جس میں کشش ہواور جو اس دین اور اس انقلاب کے سرچشمہ سے واقفیت کا تجسس (Curiosity) پیدا کرے، مطالعہ کا شوق، کم سے کم پوچھنے اور زیادہ سے زیادہ غور کرنے پر آمادہ کرے۔ اپنے سےمانوس اور قریب کرنے کا عمل، اصول اور کردار کی کسی قربانی، اپنے کسی شعار اور امتیاز سے دست برداری، سیاسی سودے بازی اور ضمیر فروشی کے بغیر بھی ہوسکتا ہے، اس کیلئے صرف عملی نمونے، اخلاقی پختگی و بلندی، تھوڑے سے ایثار و قربانی، گہری اور عاقلانہ حب الوطنی، دانشمندانہ اور خوددارانہ اختلاط، سماجی و رفاہی کاموں میں نہ صرف شرکت بلکہ قائدانہ کردار ادا کرنے کی سعی اور اس ملک کو اخلاقی زوال سے بچانے کی مخلصانہ کوشش کی ضرورت ہے۔ملک ان حالات سے صرف وہی ملت بچاسکتی ہے جو دولت کو مقصود حیات، اس زندگی ہی کو حقیقی زندگی، ذاتی مفاد ہی کو مقصود اصلی نہیں سمجھتی اور جس کے پاس ہزار خرابیوں اور کمزوریوں کے باوجود آسمانی تعلیمات کا سرمایہ، نبوت کا فیض اور ایمان کی رمق موجود ہے”۔

المختصر:ملک کی موجودہ ابتر صورت حال کے پیش نظر اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ یہاں جمہوری اقدار و روایات کا تحفظ کیا جائے،اسے ملیامیٹ ہونے سے بچایاجائے،سیکولرزم کی بقاء کا سامان کیا جائے،موثر حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے قومی یک جہتی اور باہمی رواداری کا وہی سبق دہرایا جائے جو تحریک آزادی کے وقت اور بعد بھی لمبے زمانے تک دہرایا جاتا رہا۔اللہ تعالی ہمیں حالات کا بھرپور مقابلہ کرنے اور صبر کے ساتھ حکمت عملی تیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

 

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×