اسلامیاتمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

فرضیت صیام کا مقصد؛حصولِ تقوی

جمع و ترتیب: عبدالرشید طلحہ نعمانی ؔ
تقویٰ کیا ہے؟ تقویٰ ایک معروف لفظ ہے جس کا حکم کتاب اللہ اوراحادیث رسول اللہ ﷺمیں متعدد مواقع پر دیا گیا‘‘ اتقوا اللہ ’’ اللہ سے ڈرتے رہو، اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہو، اس کی حکم عدولی اور اس کی مخالفت سے اجتناب کرو،سب سے اہم اور سب سے مقدم وصیت یہ ہے کہ زندگی میں ہمیشہ اللہ کا تقویٰ تمہارے اندرجاری رہے،تم اللہ سے ڈرتے رہو اور اس کی نافرمانی سے بچتے رہو۔
حضرت عمر فاروق ؓ نے حضرت ابی بن کعب ؓ سے تقویٰ کی تعریف پوچھی تو حضرت ابن کعب ؓ نے حضرت عمرفاروقؓ سے سوال کیا؛ کیا آپ کا گزرکسی خاردار راستے سے ہوا ہے؟ آپ نے جواب دیا ہاں! پھرپوچھا کہ اس راستہ سے آپ کے گذرنے کی کیاکیفیت رہی؟ تو حضرت عمرفاروقؓ فرمانے لگے میں کانٹوں سے بچ بچ کر اور اپنے کپڑوں کو بالکل سمیٹ کر نہایت احتیاط سے گذرگیا۔ حضرت کعب ؓ نے فرمایا کہ بس یہی تقویٰ ہے ۔
تقویٰ والی زندگی مسلمان کے لیے لازمی وضروری ہے ؛ کیوں کہ صفت ِ تقویٰ صرف اجتماعی ومعاشرتی زندگی ہی میں اوامر ونواہی کا پابند نہیں بناتی ؛ بلکہ انفرادی اور نجی زندگی میں بھی تعمیر ِ حیات اور تطہیر ِ نفس کا سبب بنتی ہے ۔
علامہ ابن قیم ؒ نے تقویٰ کے تین درجات بیان فرمائے ہیں (۱)پہلا درجہ: دل اور اعضاء وجوارح کو معاصی اور محرمات سے محفوظ رکھنا(۲)دوسرا درجہ : دل اور اعضاء وجوار ح کو مکروہات سے بچانا (۳)تیسرا درجہ : دل اور اعضاء وجوارح کو فضول ولا یعنی امور سے باز رکھنا۔
تقویٰ کا حکم قرآن مجید میں :
قرآن مجید میں متعددمقامات پر تقوے اختیار کرنے کی تاکید کی گئی چناں چہ ارشاد باری ہے:
اے ایمان والو! ڈرتے رہو اللہ سے اور چاہئے کہ دیکھ لے ہرشخص کہ اس نے کل کے واسطے کیا بھیجاہے اور اللہ سے ڈرتے رہو! (الحشر،الآیۃ:۱۸)
ایک اور مقام پر فرمان الہی ہے :
اے ایمان والو!ڈرتے رہو اللہ سے جیساکہ اس سے ڈرنا چاہئے اور نہ مرو مگرمسلمان ہوکر ۔(آل عمران، الآیۃ:۱۰۲)
ایک اور جگہ اللہ جل شانہ نےفرمایا:
تم میں اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے معزز وہ شخص ہے جو تم میں سب سے زیادہ تقویٰ والا ہے ۔ حجرات(۱۳)
تقویٰ کے معنی ٰبچنے کی کوشش کرنا (اِتَّقُوا اللَّهَ)اللہ کی نافرمانی سے بچو،ٍ(اِتَّقُوا النَّارَ) آگ سے بچو ۔
یعنی ایسا راستہ اختیار مت کرو ،جس کا سرا جہنم تک پہنچتا ہو، اپنے آپ کو گناہوں سے بچانا اور اس کی مشق کرنا ،اس کا ملکہ اپنے اندر پیدا کر لینا اور اس انداز سے یہ صفت اختیار کر لینا کہ گناہوں سے بچنے کی عادت اور مزاج بن جائے تقوی کہلاتاہے۔
تقوی کا حکم احادیث رسول ﷺ میں:
رسول اللہﷺبارہا اپنے خطبات میں ارشاد فرمایاکرتے: اوصیکم بتقوی اللہ والسمع والطاعۃ یعنی میں تمہیں وصیت کرتا ہوں اللہ کا تقویٰ اختیار کرنے کی لہٰذاتم اللہ سے ڈرتے رہنا ،اس کی نافرمانی سے بچتے رہنااوراس کے کسی حکم سے منھ نہ موڑنا۔
ایک مقام پر رسول اللہ ﷺ نے خود اپنے بارے میں ارشاد فرمایا: اما والله انی لاتقاکم لله و اخاشاکم له۔(صحیح مسلم)
میں تم میں سب سےزیادہ اللہ کا تقویٰ رکھنے والا اور سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں،خشیت اور تقویٰ میں ساری مخلوق اور سارے انسانوں میں بڑھا ہوا ہوں؛اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ معزز اور سب سے زیادہ مکرم تھے۔
اللہ تعالی نے کلام مجید میں روزوں کا مقصد بیان کرتے ہوئے ارشادفرمایا :
ياأيها الذين آمنوا كتب عليكم الصيام كما كتب على الذين من قبلكم لعلكم تتقون(البقرۃ:۱۸۳)
اے ایمان والوں تم پر روزے فرض كیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض كیے گئے تھے تا كہ تم پرہیزگار بنو ۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو اللہ تعالی کے مقررکردہ حدود کے اندر رکھ کر زندگی بسر کرے اور اسے اس بات کا ڈر رہے کہ اگر اس نے ان حدودکو توڑاتواللہ کے سوا اسے سزا سے کوئی نہیں بچاسکے گا۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بہت سے روزہ دار ایسے ہیں کہ جن کو بھوک اور پیاس کے علاوہ کچھ نہیں ملتا اور بہت سے رات کو جاگنے والے ایسے ہیں کہ جن کے حصہ میں صرف جاگنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا،روزہ رکھا لیکن کچھ نہیں پایا،رات بھر بیدار رہا مگر کچھ نہیں ملا،رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
من لم يدع قول الزور والعمل به فليس لله حاجة في أن يدع طعامه وشرابه (صحیح بخاری،رقم الحدیث:۱۹۰۳)
فرمایا کہ جو شخص غلط بات بولنا اور غلط کام کرنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی حاجت نہیں کہ بندہ اپنے کھانے پینے کو چھوڑ دے۔
ذرا دیکھئے !کس قدر ناراضگی کا اظہار ہے، جو آدمی غلط کام کرنا نہ چھوڑے ،غلط بات بولنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو اس کی کوئی حاجت نہںں کہ بندہ اپناکھانا پیناچھوڑ ے؛بہ ظاہر کھانا پینا توبندےنے چھوڑ دیا ہے، لیکن کسی چیز سے پرہیز نہیں کرتا، زبان کی احتیاط ،اوربد نگاہی سےاجتناب نہیں کرتا ،تو ناراضگی کے لہجہ میں رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ کیا اللہ تعالیٰ اس کو بھوکا رکھنا چاہتا ہے؟اس کو اس کی کوئی ضرورت نہیں کہ میرا بندہ نہ کھائے نہ پیئے ، وہ تمہارے اندر تقویٰ کی صفات پیدا کرنا چاہتا ہے، ان چیزوں کو چھوڑوگے تو تمہارے اندر تقویٰ کی صفات پیدا ہوں گی ،اور تم اگر کسی چیز کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہو تو بھوک پیاس کے علاوہ تمہارا روزہ کچھ نہیں ہوا۔
ایک اور مقام پر سرکار دوعالمﷺنے ارشادفرمایا الصيام جنة ما لم يخرقها۔روزہ ڈھال ہے، جب تک کہ اس کو پھاڑ نہ ڈالے۔
ڈھال،دشمن کے حملہ کو روکنے کا ذریعہ ہے،نفس اور شیطان کے حملوں سے بچانے کے لیے روزہ کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لیے ڈھال بنایا ہے ،اگر اس ڈھال کو ہم پھاڑ دیں گے تو پھر یہ دشمن کے حملہ سے ہم کو بچا نہیں پائے گا،اور روزہ کی ڈھال کا پھاڑنا کیا ہے؟ جن چیزوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے ان سے اپنے آپ کو بچا کر نہ رکھنا اور اس کی حفاظت یہ ہے کہ جن چیزوں سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے ان سے بچا جائے،جب ان سے بچا جائے گا تب روزہ ڈھال بنے گا۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہم تمام کو تقویٰ والی زندگی گذارنےاور روزے کا مقصدحاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین )

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×