اسلامیاتمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

رجب المرجب :فضائل و مسائل

ہجری تقویم کے مطابق اسلامی وقمری سال کا ساتواں مہینہ رجب المرجب کا ہے ،اس کا شمار حرمت کے ان چار مہینوں میں ہوتا ہے؛جن کا ذکر قرآن مجید میں ہے۔حرمت کے چار مہینے جس طرح اسلام سےپہلے معزز ومحترم جانے جاتے تھے اسی طرح اسلام کےبعد بھی ان کو وہی حیثیت حاصل ہے ،اللہ تعالی نے قرآن مجید میں فرمایا ہے : حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالی کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے،جو اللہ تعالی کی کتاب یعنی لوح محفوظ کے مطابق اس دن سے چلی آ رہی ہے جس دن اللہ تعالی نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا تھا،ان بارہ مہینوں میں سے چار حرمت والے مہینے ہیں،یہی دین کاسیدھا سادہ راستہ ہے۔(سورۃ التوبہ)

اِمام ابوبکر جصاص رازی ؒنے اَحکام القرآن میں فرمایا ہے کہ اِن میں اِشارہ اِس بات کی طرف ہے کہ چارمتبرک مہینوں کا خاصہ یہ ہے کہ اِن میں جو شخص کوئی عبادت کرتا ہے تو اُس کو بقیہ مہینوں میں بھی عبادت کی توفیق اورہمت ہوتی ہے ،اِسی طرح جو شخص کوشش کرکے اِن مہینوں میں اپنے آپ کو گناہوں اور برے کاموں سے بچا لے تو باقی سال کے مہینوں میں اُس کو برائیوں سے بچنا آسان ہو جاتاہے اِس لیے اِن مہینوں سے فائدہ نہ اُٹھانا ایک عظیم نقصان ہے۔

حضرت مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں :”تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ ان چار مہینوں میں ہر عبادت کا ثواب زیادہ ہوتا ہے ا ور ان میں کوئی گناہ کرے تو اس کا وبال اور عذاب بھی زیادہ ہوتا ہے۔“حضرت مفتی صاحب ”منھاأربعة حرم“کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں، ”ان کو حرمت والا دو معنی کے اعتبار سے کہا گیا ہے، ایک تو اس لیے کہ ان میں قتل وقتال حرام ہے،اور دوسرا اس لیے کہ یہ مہینے متبرک اور واجب الاحترام ہیں ۔ان میں عبادات کا ثواب زیادہ ملتا ہے ۔ان میں پہلا حکم تو شریعت ِاسلام میں منسوخ ہوگیا؛ مگر دوسرا حکم (احترام وادب)اور ان میں عبادت گزاری کا اہتمام اسلام میں اب بھی باقی ہے۔“(معارف القرآن)

رجب عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی تعظیم وتکریم کے آتے ہیں،بعض حضرات کے مطابق اس کےمعنی ”ڈرنے“کے ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے مہینوں کی طرح اس مہینہ میں بھی اللہ تعالی سے خوب ڈرنا چاہیے۔یہ مہینہ حرمت کے مہینوں میں ہونے کی وجہ سے محترم اور متبرک ہے نیز اس مہینے کے بعض فضائل بھی احادیث مبارکہ میں وارد ہوئے ہیں۔

ماہ رجب احادیث و آثار کی روشنی میں :

فضائل رجب کے بارے میں کئی ایک روایتیں ہیں۔کچھ تو وہ ہیں جو موضوع اور من گھڑت ہیں اور کچھ صحیح اور حسن درجہ تک پہونچی ہوئی ہیں ۔ذیل میں کچھ مستند روایات کے ترجمے ملاحظہ فرمائیں!

1: ’’سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ماہ رجب کے آغاز میں یہ دعا مانگتے تھے : اے اللہ ہمارے لیے ماہ رجب وشعبان کو بابرکت بنا اور ہمیں ماہ رمضان تک زندہ رکھ‘‘(مسند احمد)

2:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: کہ جنت میں رجب نامی نہر ہے جس کا پانی دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ شیریں ہے جو آدمی ماہ رجب میں ایک دن روزہ رکھے گا اللہ تعالیٰ اس آدمی کو اس نہر سے پانی عطا فرمائے گا‘‘(رواہ البیہقی فی فضائل الاوقات)

3:’’حضرت اِبن ِعمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دُعا رَد نہیں کی جاتی اور وہ جمعہ کی رات ، رجب کی پہلی رات ، نصف شعبان کی رات اور عیدین کی دونوں راتیں ہیں۔‘‘ (بیہقی شعب الایمان)

4:’’رسول مکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے رمضان المبارک کے بعد ماہ رجب وشعبا ن کے علاوہ کسی ماہ میں مکمل روزے نہیں رکھے ‘‘

یہی وجہ ہے کہ جمهور فقہاء حنفيہ اورمالكيہ اورشافعيہ فرماتے ہیں کہ اشهرُ الحرُم ( محرم ، رجب ، ذو القعده ، ذو الحجہ ) میں روزے رکھنا مستحب ہے ، اورمالكيہ اورشافعيہ نے یہ تصریح کی ہے کہ ان میں افضل مُحرم ہے پھر رجب پھر ذو القعده اور ذو الحجہ ۔حنابلہ فرماتے ہیں کہ اشهرُ الحرُم میں سے فقط محرم کا روزه سنت ہے ، بعض نے عمومی طور پر اشهرُ الحرُم کے روزوں کو مستحب کہا ہے۔

5: جب کے مہینے میں زمانہ جاہلیت میں قربانی کرنے کا رواج بھی تھا اور یہ قربانی عتیرہ اور رجبیہ کہلاتی تھی۔ اسلام میں اس قربانی کے بارے میں نبی اکرمﷺ سے پوچھا گیا۔ چنانچہ سنن ترمذی میں ایک روایت اس طرح ملتی ہے کہ حضرت ابو ذر بن لقیط بن عامر عقیلی کہتے ہیں میں نے دریافت کیا یارسول اﷲﷺ! ہم زمانہ جاہلیت میں رجب کے مہینے میں قربانی کیا کرتے تھے‘ جسے ہم خود بھی کھاتے اور جو کوئی ہمارے پاس آتا اسے بھی کھلاتے تھے۔ حضور ﷺنے اس کے جواب میں فرمایا۔ اس میں کوئی حرج نہیں (سنن نسائی)مگر چوں کہ جاہلیت میں لوگ رجب کی قربانی بتوں کے تقرب کے لئے کرتے تھے‘ اس لئے حضورﷺ نے اس سے ایک موقع پر منع بھی فرمایا اوراس ممانعت کا مقصد دراصل بتوں کے لئے ذبح کرنے سے منع کرنا تھا‘ نہ کہ مطلقا رجب میں ذبیحہ سے منع کرنا (شرح صحیح مسلم)

ماہ رجب سیر وتاریخ کے آئینہ میں :

تاریخی نقطۂ نظر سےدیکھاجائے تو بھی یہ مہینہ اپنی منفرد شان رکھتاہے،اس مہینے میں بہت سارے اہم واقعات پیش آئےذیل میں چند ایک کا سرسری طور پر ذکر کیاجاتاہے:

تحویل قبلہ کا واقعہ ماہ رجب ہی میں پیش آیا،آپ ﷺکی آرزو تھی کہ بیت المقدس کے بجائے خانۂ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز اداکرنے کا حکم نازل ہو چناں چہ آپ کی خواہش کے مطابق اسی ماہ میں تحویل قبلہ کی آیتیں نازل ہوئیں ۔ اسی طرح اسلامی تاریخ کا اہم ترین واقعہ معراج اسی مہینہ میں پیش آیا ہے ۔نماز کی فرضیت بھی واقعہ معراج میں ہوئی ہے،اسی طرح غزوہ تبوک بھی ماہ رجب میں پیش آیا ہے۔

پہلی صدی ہجری ہی میں ماہ رجب 2ھ میں مصر و اسکندریہ کے بادشاہ”مقوقس قبطی“نے حضور صلی الله علیہ وسلم کو تحفہ بھیجا ۔(تقویم تاریخی از عبدالقدوس ہاشمی صاحب ص2)اس کو حضور صلی الله علیہ وسلم نے جب اسلام کی دعوت کا خط لکھا تو اس نے بڑے اچھے طریقے سے خط کا جواب دیا اور حضورصلی الله علیہ وسلم کے لیے درج ذیل تحفے بھیجےدوعدد باندیاں( جن میں ایک حضرت ماریہ قبطیہ بھی تھیں۔جن سے حضور صلی الله علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم پیدا ہوئے) ایک ہزار مثقال سونا،یعفور نامی حمار،دلدل نامی خچر، 30 عدد مصر کے نفیس کپڑے ،عمدہ شہد،لکڑی کی شامی سرمہ دانی، کنگھا، آئینہ۔ (بحوالہ عہد نبوت کے ماہ وسال ص334)۔

ماہ رجب 2ھ میں حضور صلی الله علیہ وسلم نے حضرت علی  کے ساتھ حضرت فاطمہ  کا نکاح کیا۔نکاح کا خطبہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے خود پڑھا۔اس پر وقار مبارک تقریب میں خلفائے راشدین سمیت دیگر اصحاب کرام شریک تھے۔اسی صدی کے ماہ رجب میں صحابی رسول صلی الله علیہ وسلم حضرت سعد بن عبادہ  کی وفات ہوئی۔(صحابہ انسائیکلو پیڈ یا ص 557)

ماہ رجب میں صحابی رسول الله صلی الله علیہ وسلم حضرت عبداللہ بن سلام  بھی فوت ہوئے۔ (تقویم تاریخی)اور حضرت حفصہ کا ارتحال، وصحابی رسول صلی الله علیہ وسلم اسامہ بن زید کی وفات ہوئی۔دوسری صدی کے ہجری ہی میں حضرت عمر بن عبدالعزیز،حسن بصریاور امام اعظم امام ابو حنیفہ  جیسی شخصیات بھی اس دار فانی سے رخصت ہوئیں۔اس کے علاوہ اسی صدی کے ماہ رجب میں رومیوں نے ایشیائے کوچک کے سرحدی شہر”کمخ“پر حملے کے ساتھ”ملیطہ“شہر پرقبضہ کیا، یہاں جتنے مسلمان تھے ان کو قتل اور ان کی عورتوں کو قید کر لیا۔(ابن اثیر ج 5ص167)

اسی صدی کے ماہ رجب میں 151ھ میں لعین حکیم مقنع نے آگ میں کود کر خودکشی کی۔(تقویم تاریخی ص40)یہ اصلا ماوراء النہر (وسطی ایشیا)”مرو“کا باشندہ تھا۔ اس نے سونے کا ایک چہرہ بنا کر اپنے چہرہ پر لگالیا اور خدائی کا دعوی کردیا۔اس کا عقیدہ تھا کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کر کے خودان کے جسم میں حلول کیا ،وغیرہ ۔ بہر حال خلیفہ مہدی نے اس کی سرکوبی کے لیے لشکر بھیجے،بالآخر مقنع کا قلعہ”بسام“ محاصرہ میں لے لیا گیا ،اس کے تیس ہزار متبعین نے مسلمانوں سے امن طلب کیا اور قلعہ سے باہر نکل آئے، اس کے ساتھ صرف دو ہزار افراد باقی بچے ،آخرکار مقنع کو اپنی ناکامی کا یقین ہوگیا تو اس نے آگ جلا کر اپنے اہل و عیال کو اس میں دھکیل دے دیا، پھر خود بھی آگ میں کود کر جل مرا مسلمانوں نے قلعہ میں داخل ہوکر مقنع کی لاش آگ سے نکالی اور اس کا سر خلیفہ مہدی کے پاس روانہ کیا۔(تاریخ اسلام حصہ دوم ص314 از مولانا اکبر شاہ خان)ماہ رجب 204 ھ میں حضرت امام شافعی،ماہ رجب 259ھ میں محدث وقت حضرت حجاج بن شاعر،ماہ رجب 261ھ میں امام مسلم ( شہر ہ آفاق تصنیف ”صحیح مسلم “)ماہ رجب 280ھ میں امام ترمذی نے بھی رحلت فرمائی۔ خواجہ معین الدین چشتی اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی نےبھی ماہ رجب 1225 ھ میں وفات پائی۔ (مقدمہ تفسیر مظہری)

بعض منکرات و بدعات:

بہت سے ناواقف بھائی اور بہنیں رجب کی پہلی جمعرات کو بہت سی رسمیں بجالاتے ہیں، اس مہینہ کی بعض تاریخوں میں بہت سی پوریاں پکا کر مٹھائی کے ساتھ ایک خاص مقام پر بیٹھ کر کھانا بڑا ثواب جانتے ہیں اور بعض راتوں کو خوب روشنی کرکے جلسہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ ساری باتیں بعض انسانوں نے دوسری قوموں کی دیکھا دیکھی اپنے طور پر بغیر کسی شرعی دلیل کے گڑھ لی ہیں ، ان میں سے کوئی شے نہ خداکی بتائی ہوئی ہے ،نہ اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی اور نہ کسی صحابی کی۔بہ طور خاص کونڈوں کی مروجہ رسم مذہب اہلِ سنت والجماعت میں محض بے اصل ، خلافِ شرع اور بدعت ِممنوعہ ہے؛کیونکہ بائیسویں رجب نہ حضرت اِمام جعفر صادق رحمة اللہ علیہ کی تاریخ پیدائش ہے اور نہ تاریخ وفات، حضر ت اِمام جعفر صادق رحمة اللہ علیہ کی وِلادت ٨رمضان ٨٠ ھ یا ٨٣ھ میں ہوئی اور وفات شوال ١٤٨ھ میں ہوئی پھر بائیسویں رجب کی تخصیص کیا ہے اور اِس تاریخ کو حضرت اِمام جعفر صادق رحمة اللہ علیہ سے کیا خاص مناسبت ہے ؟ ہاں بائیسویں رجب حضرت معاویہ کی تاریخ ِوفات ہے ۔ (دیکھو تاریخ طبرانی ذکرِ وفاتِ معاویہ ) اِس سے ظاہر ہوتاہے کہ اِس رسم کومحض پردہ پوشی کے لیے حضرت اِمام جعفر صادق کی طرف منسوب کیاگیاور نہ دَرحقیقت یہ تقریب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خوشی میں منائی جاتی ہے، جس وقت یہ رسم اِیجاد ہوئی اہلِ سنت والجماعت کا غلبہ تھا اِس لیے یہ اہتمام کیا گیا کہ شیرینی بطورِحصہ اِعلانیہ نہ تقسیم کی جائے تاکہ راز فاش نہ ہو بلکہ دُشمنانِ حضرت معاویہ خاموشی کے ساتھ ایک دُوسرے کےیہاں جاکر اُسی جگہ یہ شرینی کھالیں جہاں اُس کو رکھا گیا ہے اور اِس طرح اپنی خوشی ومسرت ایک دُوسرے پر ظاہر کریں ۔ جب کچھ اِس کا چرچا ہوا تو اِس کو حضرت اِمام جعفر صادق رحمة اللہ علیہ کی طرف منسوب کردیاگیا جو سراسر غلط اور بے بنیاد ہے۔

مختصر یہ کہ رجب کے اس مہینہ کا احترام کیاجائے ،اس میں گناہوں سے اجتناب کی کوشش کی جائے، بدعات وخرافات سے بچاجائے اور اللہ رب العزت کی خوشنودی طلب کرنے اور سنت رسول ﷺپر عمل کا اہتمام کرنے کی فکرکی جائے تو ان شاء اللہ ہم ماہ رمضان کا صحیح معنوں میں استقبال کرنے والے ہوں گے۔اللہ تعالی ہم تمام کو توفیق عمل نصیب فرمائے ۔آمین

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×