سیاسی و سماجیمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

ذرائع ابلاغ یافحاشی و عریانی کا طوفانِ بلاخیز ؟؟

بہ حیثیت مسلمان ہمارا اعتقاد ہے کہ اسلام ایک مکمل ضا بطۂ حیات ہے؛جس میں معاشرے اور سوسائیٹی کی صلاح و فلاح کےحوالے سے وہ زریں ہدایات اور روشن تعلیمات موجود ہیں؛جن کادیگر ادیان و مذاہب میں تلاشِ بسیار کے باوجودملنا مشکل ہے۔حیا اور شرم جیسی اعلیٰ قدریں اسلام نے ہی انسانیت کو سکھلائیں،نگاہوں کو جھکانے،شرم گاہوں کی حفاظت کرنے اور بے حیائی وبدکاری کی جگہوں کے قریب نہ جانے جیسے پاکیزہ احکامات دین متین ہی کا خاصہ ہیں،خود ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت ذخیرہ احادیث میں صراحتاً یہ بات ملتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کنواری لڑکیوں سے زیادہ حیادار اور شرم رکھنے والے تھے۔نطق ِنبوت نے شرم ولحاظ کو ایما ن کا جزولازم قرار دیا،اور بے حیائی کو ایمان سے محرومی کا سبب بتلایا،ارشاد نبوی ہے :حیاسے محروم شخص ایمان سے بھی محروم ہوجاتا ہے۔(ابنِ ماجہ، ابواب الزّہد،باب الحیا)اسی لیے کہا جاتا ہے کہ جب کوئی آدمی شرم وحیا کے حصار میں رہتا ہے تو ذلت ورسوائی سے اس کا دامن بچا رہتا ہےاور جب وہ اس صفت سے عاری ہوجاتاہے تو پھر رذالت وخباثت کا ہرکام ڈھٹائی کے ساتھ علی الاعلان کرتا چلا جاتا ہے۔

آج کا زمانہ صنعتی انقلاب وٹکنالوجی کا زمانہ ہے،جو پچھلے زمانوں کے بالمقابل بعض وجوہات سے بہتر ہو تو ہو؛مگر یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ذرائع ابلاغ نے جہاں لوگوں کا کام آسان کیا ،وہیں ان کامزاج اس قدر بگاڑ دیا کہ شرم وحیا پر مبنی لباس ہو یا ادب، کتاب ہو یا خطاب، اس معاشرے میں اجنبی بن کر رہ گئے ،آج عالم گیر سطح پرمیڈیائی یلغار اور مغربی تہذیب و کلچر کی کو شش ہے کہ کسی طریقے سے مسلمانوں میں فحاشی عام ہوجائے اور مسلمان ہر نوعیت سے بے کار و بے سہارا بن جائیں ،اس سلسلے میں ایک سازش جہاں نیو ائیر اور ویلن ٹائین ڈے جیسے بےحیائی پر مبنی ایام کا فروغ ہے،وہیں دوسری طرف مو بائیل فونز، انٹر نیٹ، کیبل اور الیکٹرانک میڈیا کا شیوع بھی ہے۔کہنے والے نے سچ کہا ہے کہ اگر کسی قوم کو بغیر جنگ کے شکست دینی ہو تو اُس کے نو جوانوں میں فحا شی پھیلا دو۔ مغرب کی اخلاقی تباہی اور بربادی کے بارے میں ایک اسکا لر کہتے کہ تین چیزوں نے مغرب کی نئی نسل کا بیڑا غرق کیا میڈیا ، موبائیل فون اور سگریٹ نو شی۔ DivyaDave Avnish جو پیشے کے لحا ظ سے ایک معروف یو نیور سٹی میں بچوں کے اخلاقی اور نفسیاتی امراض کے پرو فیسر ہیں انکا کہنا ہے آج کل ماں اور باپ کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا بھی بچوں کےلیے تیسرے مربی کی حیثیت رکھتے ہیں۔الیکٹرانک میڈیا صحت مند اور مُثبت سرگرمیوں کو کم کرتا ہے، اُنکا کہنا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا بچوں اور جوانوں میں ڈپریشن ، تناؤ اور انزائٹی کا سبب بنتا ہے۔

ابلا غیات کے ماہرین کہتے ہیں کہ ہر سیکنڈ میں انٹر نیٹ استعمال کرنے والے 30 ہزار لوگ فحش اور بے ہودہ فلمیں دیکھتے ہیں۔اس وقت پوری دنیا میں تقریباً 6 ملین فحش ویب سائٹس ہیں اور ہر 30 سیکنڈ بعد ایک فحش فلم ما رکیٹ میں آتی ہے۔ ہر بچہ 18 سال تک 12000 گھنٹے تشدد پر مبنی فلمیں دیکھتا ہے اور جو بچے تشدد کی فلمیں دیکھیں گے تواس سے نیکی کی کونسی تو قع کی جا سکتی ہے ۔ معتبر ذرائع کے مطابق آج انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی وجہ سے جنسی رابطوں میں 300 فیصد ا ضافہ ہوا ہےکو نہایت قابل تشویش بات ہے۔

یہ ٹک ٹاک کیا بلا ہے ؟

فیس بک ،واٹس ایپ اور ٹیلی گرام کا منفی استعمال ہی کیا کم تھا کہ ان دنوں ایک اور جادو سر چڑھ کر بول رہاہے،ایک اور خمار ذہن ودماغ پر چھایا ہواہے،ساری نوجوان نسل اسی کی دل دادہ اور فریفتہ بن چکی ہے، وہ ہے” ٹک ٹاک (Tik Tok)”ایپ ۔ جو لوگ Tik Tok اور اس جیسی ایپلیکیشنز کے متعلق جانتے ہیں ان پر یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوگی کہ یہ ایپلیکیشنز فحاشی و عریانی کے فروغ اور ضیاع وقت کا بنیادی سبب ہیں۔ ان ایپس (Apps) میں فلمی ڈائیلاگ پر ایکٹنگ (acting) کی جاتی ہے، گانے گائے اور سنے جاتے ہیں اور بے پردگی وفحاشی عام ہوتی ہے۔ مختلف ذرائع کے مطابق دوسال میں اس ایپ کو 500 ملین سے زیادہ لوگوں نے ڈاؤن لوڈ کیا، دنیا کے 150 ممالک کے لوگوں نے اس کے استعمال کو ترجیح دی، اس طرح ٹک ٹاک کے محبین کی تعداد دیگر مشہور ایپس کے مقابلہ میں کئی گنا زیادہ ہوگئی۔ ٹک ٹاک پر نوجوان بچے 15 سکینڈ کی کوئی ویڈیو شئیر کر تےہیں اور آناًفاناًایک بڑا حلقہ اس پر پسندیدگی کا اظہار کرتاہے؛جس سے ناپاک عزائم اور جواں اور غلط ارادے مزیدپختہ ہوجاتے ہیں ۔

یہ کس قدر افسوس کی بات ہے کہ جس ”وقت“ اور ”جوانی“ کو شریعت اسلامیہ نے اتنی اہمیت کے ساتھ ذکر کیا ہے اس کو نوجوانان ملت بے دریغ لایعنی اور فضول کاموں میں صرف کر رہے ہیں۔ یہی نہیں نوجوان لڑکیاں بھی ”لڑکیاں لڑکوں سے کم نہیں“ کا پرفریب نعرہ لگاتے ہوئے ان فحش کاریوں کے دلدل میں کود پڑی ہیں جو امت مسلمہ کے جبینِ روشن پر بدنما داغ ہے۔

حیا و پاکدامنی اسلام کی اولین ترجیح :

اسلامی شریعت میں حیا سے مراد محض انسانوں اور دنیاوالوں سے حیا نہیں؛بلکہ اسلام اپنے ماننے والوں کو اس اللہ علیم و خبیر سے بھی شرم کرنے کی تلقین کرتاہے جو ظاہر و پوشیدہ ، حاضر و غائب،دور و قریب ہر چیز کو اچھی طرح جاننے والا ہے ۔ اس سے شرم کرنے کا تقاضا یہ ہے کہ جو فعل بھی اس کی نظر میں برا ہو اُسے کسی بھی حال میں ہرگز نہ کیا جائے اور اپنے تمام اعضاء و جوارح کو اس کا پابند بنایا جائے کہ ان سے کوئی بھی ایسا کام کا صادر نہ ہو جو اللہ تعالیٰ سے شرمانے کے تقاضے کے خلاف ہو ۔ اس سلسلے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو واضح ہدایت فرمائی ہے ۔ چنانچہ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :اللہ تعالیٰ سے اتنی شرم کرو جتنی اُس سے شرم کرنے کا حق ہے ۔ صحابہ نے عرض کیا تمام تعریف اللہ کے لئے ہیں‘ اے اللہ کے نبی ! ہم اللہ سے شرم تو کرتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ مراد نہیں بلکہ جو شخص اللہ سے شرمانے کے حق کو ادا کرے گا تو (اسے تین کام کرنے ہوں گے) اول یہ کہ اپنے سر کی حفاظت کرے اور اس چیز کی جس کو سرنے جمع کیا اور (دوسرے یہ کہ) پیٹ کی حفاظت کرے اور اس چیز کی جو پیٹ سے لگی ہوئی ہے اور (تیسرے یہ کہ ) موت کو اور موت کے بعد کے حالات کو یاد کرے اور (خلاصہ یہ ہے کہ ) جو شخص آخرت کا ارادہ کرے وہ دنیا کی زیب و زینت چھوڑ دے پس جو ایسا کرے گا تو وہ اللہ سے حیا کرنے کا حق ادا کرے گا۔(مشکوۃ شریف)

در حقیقت حیا کے ذریعے انسان آراستہ اور پیراستہ ہوتا ہے، آپ ﷺ کا فرمان ہے: بے حیائی کسی بھی چیز میں پائی جائے تو اسے داغ دار کر دیتی ہے جبکہ حیا جس چیز میں بھی ہو اسے خوبصورت بنا دیتی ہے۔( ترمذی)

حیا انسان کو عزتِ نفس کے تحفظ کی ترغیب دیتی ہے، اس لیے انسان ضرورت کے باوجود کسی سے کچھ نہیں مانگتا، آپ ﷺ کا فرمان ہے: مسکین وہ نہیں ہے جسے ایک ،دو لقمے دے دئیے جائیں، مسکین تو وہ ہے جس کی آمدنی کم ہو اور مانگنے سے حیا کرے یا لوگوں سے چمٹ کر سوال نہ کرے۔( متفق علیہ)

حیا انسان کو با ادب اور مہذب ہونے پر ابھارتی ہے، ایک بار رسول اللہ ﷺ نے ایک درخت کے بارے میں پوچھا کہ اس کی خوبیاں مسلمان جیسی ہوتی ہیں وہ کون سا درخت ہے؟ اس پر ابن عمر رضی اللہ عنہما کہنے لگے کہ میرے ذہن میں آیا کہ وہ تو کھجور کا درخت ہے، لیکن میں نے ابو بکر و عمر کو دیکھا کہ وہ جواب نہیں دے رہے تو مجھے بھی اچھا نہیں لگا کہ میں ان کی موجودگی میں بولوں” ایک اور حدیث کے الفاظ ہیں کہ: "مجھے شرم آئی کہ میں بولوں”( متفق علیہ)

یہ اصول تو مسلم ہے کہ جیسا کام ویسا دام، حیا کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی بھی حیا کرنے والوں کو بہترین جزا سے نوازے گا، رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے:اور دوسرا شخص حیا کر گیا تو اللہ تعالی نے بھی اس کی حیا کی لاج رکھی۔( متفق علیہ)

اس کے برخلاف جو مسلمان قوم ،قبیلہ اور فرد بے حجابی اور بے پردگی کے حمام میں ننگا ہوتا ہے،شریعت مطہرہ اس کا مقام ومرتبہ اسفل سافلین بتلاتی ہے۔ایسے لوگ جو کلمہ پڑھ کر ،اسلامی نام رکھ کر ،مسلمانوں میں بے حیائی اور بدی کا سیلاب اور بے شرمی کا طوفان عام کرنا چاہتے ہیں ،کتاب مبین نے صاف صاف لفظوں میں ان کے لیے دنیا وعقبیٰ میں دردناک عذاب کی مبنی برحقیقت خبر دے دی ہے۔

ایک اور مقام پر ارشاد خداوندی ہے:’’ اے نبی ﷺ!آپ فرما دیں ۔’’ میرے رب نے تو ہر قسم کی تمام بے حیائیاں حرام فرمادی ہیں جوان میں ظاہر اور پوشیدہ ہیں اور اس کے علاوہ اور گنا ہ اور ناحق زیادتی بھی حرام فرمادی ہےاور یہ کہ کسی دوسرے کو ( کسی بھی حیثیت سے ، اس کی ذات ، صفات ، احکامات اور عبادات وغیرہ میں ) اس کا شریک ٹھہرایا جائے جس کی اس نے کوئی سند نازل نہیں کی ، اور یہ کہ اللہ پر وہ بات کہو جس کا تمہیں علم نہیں۔‘‘(الاعراف :33)

نیز جو لوگ بیہودگی وناپسندیدگی کے اِن امور میں بلاواسطہ یا بالواسطہ معین ومددگار یا شریک ِکار بنتے ہیں ،اُن کی تذکیروخیرخواہی اور نصیحت کے لیے حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ کا یہ ملفوظ چشم کشا بھی ہے اور بصیرت افروز بھی۔فرماتے ہیں :”معصیت اور گناہوں کا لازمی نتیجہ ہے کہ اس کے سبب عقابِ خداوندی نازل ہوتا ہےاور جن پر ہوتا ہے وہ تین قسم کے لوگ اور فرد ہیں۔ پہلا، بلاواسطہ معصیت میں مبتلا شخص۔دوسرا،شرکت ومعاونت کرنے والا فرد؛اگرچہ وہ خود اس برائی سے بچا ہوا ہو۔ تیسرا،کارِمعصیت میں شریک تو نہیں، مگر ملامت ونفرت بھی نہیں ۔“(ملخصاً،ملفوظات حکیم الامت 73/2)

ہمارا حال زار:

آج کا مسلمان مغربی تہذیب کی رنگینیوں میں مدہوش ،اغیار کی ایجادات کو دین وشریعت کی کسوٹی پر پرکھے بغیر بڑی خوشدلی کے ساتھ اختیار کرتاجارہاہے۔ جبکہ اسلام نے اقوام عالم میں ہماری مستقل الگ شناخت پیدا کی اور ہمیں اس پر قائم رہنے کا حکم دیا ، جب تک ہم اپنی شناخت کی حفاظت کریں گے ہمارا وجود باقی رہے گا ورنہ اہل تاریخ کا متفقہ فیصلہ ہے کہ جو قومیں اپنی شناخت کھو بیٹھتی ہیں وہ اپنے وجود اور بقاء سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں ۔

یہ غیر اسلامی روش سنجیدگی ، متانت ، عزت و وقار اور حیاء ہی نہیں انسانیت کی اولین قدروں کے بھی سراسر منافی ہے۔ جسے کوئی بھی شریف النفس قبول نہیں کر سکتا ۔ ہم کیوں بھول جاتے ہیں کہ مغربی تہذیب اپنانے کی یہ اندھا دھند روش ہمارے لیے کسی طور فائدہ مند نہیں بلکہ دنیا و آخرت کی تباہی و بربادی ہے ۔ یاد رکھیں کہ ہم اور ہماری آنے والی نسلوں کی عزت و حیا کا بقاء صرف اور صرف اسلام کی روشن تعلیمات میں ہے اس لیے ہمیں اپنے معاشرے سے تمام غیر اسلامی ، غیر اخلاقی اور غیر فطری رواجوں کو ختم کرنا ہوگا۔ نیکی وتقویٰ ،غیرت حمیت اور لحاظ وشرم جیسی بلند انسانی صفات وعادات کو معاشرے میں فروغ ورواج دینے کے لیے ،ہم میں سے ہر ایک کو پہلی اینٹ خود رکھنی ہوگی۔اصلاح ِمعاشرہ میں سب سے پہلا اور اول کردار خود ہمیں ادا کرنا ہوگا۔پھر اپنی ذات ،اپنے خاندان اور اپنے کنبے سے شروع کی جانے والی یہ تحریک اور مہم بہت جلد یا بہ دیر انشاءاللہ تعالیٰ اپنا اثر ورنگ دکھائے گی؛کیو نکہ یہ قرآن کریم کی سچی ،ابدی اور سرمدی پیش گوئی ہے کہ ”اچھائی برائی اور پاکی ناپاکی کبھی برابر نہیں ہوسکتے“ہمیں اور آپ کو پوری ہمت وحوصلہ اور عزم وتوکل کے ساتھ اپنے حصے کا کام کردینا چاہیے ،کہ کل بروز محشر ہم میں سے ہر ایک رب تعالیٰ کے حضور ،اپنے عمل ،قول اور نیت کا بذات خود جواب دِہ اور مسؤول ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×