سیرت و تاریخمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

عربی؛اک زندہ و پائندہ زباں؛ عالمی یومِ عربی کی مناسبت سے

لوگ کہتے ہیں:مسکین وتہی دامن ہے وہ شخص جسے انگریزی بولنی،لکھنی اور سمجھنی نہیں آتی؛ کیوں کہ ایسے شخص کودنیا بھر میں اکثر مواقع پر پریشانی پیش آتی ہے۔ ممکن ہے کہ یہ مفروضہ کسی حد تک درست بھی ہو؛مگر ایک مسلمان اور عربی زبان کے طالب علم کی حیثیت سے میرا ماننا ہے کہ مسکین تو وہ شخص ہے جسے عربی زبان نہیں آتی۔ ۔۔ اسے معبود حقیقی اللہ سبحانہ وتعالٰی کی بات سمجھنے میں کتنی دقت ہوتی ہوگی؟سرکار دوعالمﷺکے فرامین پڑھنے میں کتنی دشواری پیش آتی ہوگی؟

عربی زبان، ہماری اپنی زبان ہے۔ ۔ ۔ ہمارے رسول ﷺ کی زبان ہے۔ ۔ ۔ ہمارے مصحف(قرآن مجید) کی زبان ہے۔ ۔ ۔آخرت میں یہی جنت کی زبان ہے ۔ ۔ ۔ اس لیے اسے سیکھنے کی خاطر کچھ وقت نکالنا ہمارا دینی اور اسلامی فریضہ ہے؛تاکہ ہمیں معلوم ہوکہ ہمارے رب نے ہم سے کیا فرمایا ہےاورہمارے رسول نے ہمیں کیا تعلیم دی ہے؟

اکثر و بیشترہم دنیا کی آسانی کو اہمیت دیتے ہیں اور اگر اس کے حصول کے لئے کسی زبان کا سیکھنا ضروری ہو جائے تو ہم جی توڑ کوشش کر کے اس زبان کو سیکھتے ہیں؛تاکہ ہم اس زبان دانی کے ذریعے اپنے معاش کا انتظام کرسکیں اور اپنی دنیا کو آسان سے آسان تر بناسکیں؛لیکن کیا ہم نے اس بات پر کبھی سنجیدگی سے غور کیا کہ عربی زبان کے ذریعے ہم انبیاءِ کرام علیہم السلام کے پہنچائے ہوئے وہ حقائق و اصول سیکھ سکتے ہیں؛ جس سے ہماری زندگی بھی صحیح راہ پر گامزن رہے اور آخرت میں بھی کامیابی ہمارے قدم چومے۔

انصاف سے بتائیں !کیا ہمیں زندگی گزارنے کےلیے صحیح طریقے کی ضرورت نہیں؟ کیا آخرت کی ظفرمندی ہمارے لئے اہم نہیں ؟ اور کیا موجودہ طرز عمل غفلت و کسل مندی کی دلیل نہیں؟؟؟غورکیا جائے تو عربی زبان سے دور ہوکر ہم نہ صرف اپنی آخرت؛بلکہ دنیا میں بھی ناکامی کا انتظام کر رہے ہیں؛اس لیےاس ہنگامی ضرورت اور اس کی اہمیت کا ادراک کیجئے! اپنے رب کی طرف لوٹ آئیے!اس کے پیغام کو سمجھنے کے لئے اس کے کلام کی زبان سیکھنے کی کوشش کیجئے!اس کو اہمیت دیجئے اور اس کے لئے مختصر ہی سہی کچھ وقت ضرور نکالیئے!

عربی زبان اپنی وسعت ،جامعیت اور آفاقیت کی وجہ سے دنیا کی چھ بڑی زبانوں میں شمار کی جاتی ہے۔ اس کی قدامت و پختگی،طرز و انداز کی شیرینی، استعارات کی رنگینی ،گرامر (صرف ونحو) کی ہمہ گیری اور ان سب سے بڑھ کر خدا کے آخری کلام کی ترجمانی و نمائندگی اسے دنیا کی تمام زبانوں سے ممتاز کردیتی ہے۔حضور اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا:’’عربی زبان تین وجہ سے مرکزمحبت بننے کی مستحق ہے ،سب سے پہلے تویہ کہ میں عربی ہوں ، دوسرے خدا کے کلام پاک کی زبان عربی ہے ،تیسرے یہ کہ تمام جنتیوں کی زبان عربی ہوگی ‘‘۔(معجم کبیر طبرانی)

حضرت عمر بن زید کہتے ہیں کہ’’ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضر ت ابو موسیٰ اشعری ؓ کو لکھا کہ تم سنت اورعربیت میں تفقہ حاصل کرو ۔‘‘

حضرت سعد بن وقاص ؓ نے ایک مرتبہ ایک جماعت کو فارسی زبان میں گفتگو کرتے ہوئے دیکھا تو فرمایا:’’ملت اسلامیہ کے بعد آتش پرستی کی کیا ضرورت ہے ‘‘یعنی عربی زبان کو چھوڑکرمجوسی زبان (فارسی )میں گفتگوکرنا مناسب نہیں ۔نیزحضرت عمررضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے :’’عربی زبان سیکھوکیونکہ یہ اموردین میں سے ہے ‘‘۔عربی زبان کی اسی وسعت و اہمیت کوبیان کرتے ہوئے شیخ الادب مولانا اطہر حسینؒ فرماتے ہیں: اگر عربی زبان کو عام بو ل چال اورگفتگو کے لئے منتخب کر لیا جائے اورانسان اسی زبان کا عادی بن جائے تو دو بڑے فائدے حاصل ہوتے ہیں جو عربی کے علاوہ کسی دوسری زبان سے نہیں ہوسکتے ،انتہائی اہم اورپہلا فائدہ تو یہ ہے کہ متکلم کو ملائکہ ،اہل جنت اوربالخصوص سروردوعالم ﷺسے مشابہت حاصل ہوجاتی ہے جو ایک مؤمن کے لئے نہایت ہی وقیع اورقابل قدر ہے ،اس سے بڑھ کر شرف وبزرگی اورمحبت وعقیدت کا کوئی سامان نہیں ہوسکتا در حقیقت مؤمن کیلئے اس میں فلاح وبہبود ہے ،دوسرافائدہ یہ ہے کہ جب انسان عربی میں گفتگو کرنے کا عادی ہوگا تو تشبہ کی بناء پر عرب کے وہ مخصوص فضائل اورمناقب بھی اس کو حاصل ہوں گے جو متعدد احادیث وروایات میں وارد ہیں ۔نبی کریمﷺکا ارشاد ہے: اے لوگو! رب ایک ہے باپ ایک ہے دین ایک ہے اورعربیت تم میں سے کسی کیلئے ماں باپ سے نہیں؛ بلکہ وہ ایک زبان ہے جس نے اس میں بات چیت کی وہ عربی ہے (رواہ ابن عساکر)ایک اورروایت میں ہے ’’عرب کی محبت ایمان ہے اوران کا بغض نفاق ہے ‘‘۔(مستدرک)حضرت عثمان سے روایت ہے ’’جس نے عرب کو دھوکہ دیا وہ میری شفاعت میں داخل نہ ہوگا اورنہ اس کو میری محبت حاصل ہوگی ‘‘۔(ترمذی)

اس کے علاوہ متعددروایات میں عرب کے فضائل ومناقب وارد ہوئے ہیں جو اپنے مقام پر مذکورہیں ،وہ سب ہی عربی زبان میں جدوجہد کرنے والے کو حاصل ہوسکتے ہیں ۔

دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں چینی، انگریزی وغيرہ کے بعد عربی زبان کا چوتھا نمبر ہے،دنیابھر کے26 ممالک اسے سرکاری زبان کے طور پر تسلیم کرتےہیں،عرب دنیا کے تقریبا 40 کروڑسے زائد افراد اس کو مادری زبان کے طور پر بولتے ہیں جب کہ دنیا بھر میں 1.7 ارب سے زیادہ مسلمان ثانوی حیثیت سے اس زبان کا استعمال کرتے ہیں، قرآن کریم کی زبان ہونے کے سبب عربی کو خصوصی تقدس حاصل ہے اور دین ِ اسلام میں نماز، حج ،تلاوت ،اذکار اور دیگر عبادتیں اس کے بغیر پوری نہیں ہوتی ہیں۔عربی زبان کا تعلق سامی زبانوں سے ہے اور اس کے حروفِ تہجیّ کی تعداد 28 ہے۔ عربی زبان کو لُغتُ الضّاد "ض” (ضاد کی زبان) بھی کہا جاتا ہے؛جس کی وجہ یہ ہے کہ بعض ماہرینِ لسانیات کا خیال ہے کہ دنیا کی کسی بھی اور زبان میں اس تلفظ کا حرف نہیں پایا جاتا ۔

قُرون ماضی میں اسلام کے پھیلنے اور مسلمان حکمرانوں کی فتوحات نے عربی زبان کو بلند مقام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ عربی زبان دنیا کی کئی زبانوں پر براہ راست یا بالواسطہ طور پر اثر انداز ہوئی۔ ان زبانوں میں ترک، فارسی، کرد، اردو، ملیشیائی، انڈونیشی اور البانوی کے علاوہ افریقا میں ہاؤسا اور سواحلی جب کہ یورپ میں انگریزی، پرتگالی اور ہسپانوی شامل ہیں۔حالیہ دور کے فرانسیسی مستشرقین اور محققین کا کہنا ہے کہ یورپی زبانوں کی ڈکشنریوں میں سائنس، طب، فلکیات اور دیگر علوم وفنون سے متعلق عربی کے 2500 سے زیادہ الفاظ موجود ہیں۔ اس وقت یورپ میں عربی زبان بولنے والوں کی تعداد 2 کروڑ سے زیادہ ہے۔ موجودہ ڈیجیٹل دور میں بالخصوص سوشل ویب سائٹس پر عربی زبان کا استعمال تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 10 برسوں کے دوران انٹرنیٹ پر استعمال ہونے والی زبانوں میں عربی زبان نے سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کی ہے۔

عربی کو کئى علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں کی سرکاری زبان ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ان میں عرب لیگ، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)، افریقی یونین اور اقوام متحدہ شامل ہیں۔

18 دسمبر 1973 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عربی زبان کو اپنی سرکاری زبانوں میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ 19 فروری 2010 کو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے انسانی تہذیب اور ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے میں عربی زبان کے اہم کردار کو تسلیم کرتے ہوئے 18 دسمبر کو اس زبان کا عالمی دن قرار دیا۔ اس پر عمل درامد کرتے ہوئے 18 دسمبر 2012 کو پہلی مرتبہ عربی زبان کا عالمی دن منایا گیا۔دنیا بھر میں تو عربی زبان کی اہمیت اور مقبولیت میں اضافہ ہورہا ہے ؛مگر افسوس کی بات ہے کہ مدارس اسلامیہ جو اصالۃ کتاب و سنت کے پاسبان اور تبعا عربی زبان و ادب کے محافظ ہیں،عربی زبان کے حوالے سے(دانستہ یا نادانستہ) تساہل اور لاپرواہی کے شکار ہیں ۔ اس مجرمانہ غفلت کے ذمہ دار جہاں ایک طرف منتظمین ہیں تو وہیں دوسری طرف اساتذہ و معلمین بھی ۔کیا وجہ ہے کہ ہمارا طالب علم آٹھ آٹھ سال مدارس کےدینی ماحول میں رہنے اور امہات الکتب سےلےکرفروعات و جزئیات تک عربی میں پڑھنے کے باوجود چند الفاظ بولنے اورچند جملے لکھنے پر قادر نہیں ؟؟؟

 

ادائے خاص سے غالبؔ ہوا ہے نکتہ سرا

صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کےلیے

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×