سیرت و تاریخمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

دہر میں خُلقِ محمد ﷺسے اجالا کردے

سرکار دوعالم ﷺ کی مثالی زندگی کے درخشاں پہلوؤں پر جب ہم ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو جو چیز آپ کی فتح مندی،سرخروئی اور کامیابی کا بنیادی سبب نظر آتی ہےوہ آپ کے بلند پایہ اخلاق،آپ کی ستودہ صفات اور آپ کا روشن کردار ہے۔یوں تو اس خاکدان گیتی پر گفتار کے غازیوں کی کمی نہیں،جذبات سے مغلوب ہوجانے والوں کا شمار نہیں ،نفس پرستی میں مبتلا ہوکر انتقام لینے والوں کا حساب نہیں ؛مگر انسانیت کے لیے درد دل اور خلق خدا کے لیے سوز جگر رکھنے والوں کا ہرزمانہ میں فقدان رہاہے اور آج بھی ہے؛مگر تاریخ شاہد ہےکہ خالق کائنات کے بعد انبیاء کرام علیہم السلام سے زیادہ شفقت و مہربانی کی صفت کسی اور میں نہیں دیکھی گئی بالخصوص سرورکونینﷺتوساری دنیا کے لیے رحمتوں کی سوغات بن کر آئے ؛اس لیے آپ جامع اخلاق و کمالات تھے،منبع رشد و ہدایت تھے،مرکز دین ودیانت تھے،آپ ہی نے اخلاق حسنہ کی تکمیل کردی ،عفو و در گزر،تحمل وبردباری ،جاں بازی و وفاشعاری،پاکدامنی وحیا داری ،اتحاد ورواداری غرض ایک ایک خصلت اورایک ایک عادت آپ کی شخصیت پر آکر انتہاء کو پہونچ گئی ،اب کوئی شخص تا قیامت اس کی نظیر ومثیل پیش نہیں کرسکتا۔

یہ انسانی فطرت ہے کہ ہرعقل مند انسان زندگی کے کسی بھی شعبہ میں قدم رکھنے اور آگے بڑھنے سے پہلے اپنے سے بہتر شخص کے عمل و کردار کو بطور نمونہ دیکھنا چاہتا ہے۔ جو شخص کسی بھی حوالے سے اس کی نظروں میں بہتر اور خوب تر قرار پاتا ہے اس کی پیروی کو وہ اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ’’آئیڈیل کی تلاش‘‘ کا تصور اسی انسانی فطرت کا اظہار ہے اور اللہ رب العزت نے نسل انسانی کی ہدایت و راہنمائی کے نظام میں فطرت کے اس پہلو کا بھی لحاظ رکھا ہے۔جب آپ ﷺکو اسوہ بناکر دنیا میں بھیجا تو بہ طور خاص آپ کی یہ صفت بھی بیان فرمائی :‘‘بیشک تمہارے پاس تم میں سے ایک رسول تمہارے پاس تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں گزرتا ہے۔ اے لوگو!وہ تمہارے لئے بھلائی اور ہدایت کےبڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں اور مومنوں کے لئے نہایت شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں۔’’(التوبۃ)

اخلاق حسنہ دین کی بنیاد واساس:

اسلام کے کامل ومکمل ہونے کا دارومدار اخلاق کی پائیداری اورمضبوطی پر ہے ،دین کی بنیاد ہی اخلاق حسنہ پر قائم ودائم ہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے آنحضرت ﷺسے سنا کہ مومن اپنے بہترین اخلاق کیوجہ سے (دن کو)روزہ رکھنے والے اوررات بھرعبادت کرنے والے کے مقام کوپالیتاہے۔ (ابو داؤد)اس سے معلوم ہوا کہ اگر ایک شخص دن کو روزہ رکھے اورساری رات عبادت ،ذکر واذکاراورتہجد میں گزارے اس کے باوجود وہ اخلاق حسنہ کا خوگر نہ ہو، اس کی نظر میں اچھے کردار کی وقعت نہ ہو توشریعت کی نظر میں اس کی عبادات کی کوئی قدر وقیمت نہیں۔

حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اخلاق کی تعلیم پر جس قدر زور دیا ہے اس کے مطالعہ کے بعد یہ دعویٰ کیاجاسکتا ہے کہ مذہب اسلام کی تمام تر تعلیم کا لب لباب اگر ایک لفظ میں بیان کیا جائے تو وہ صرف اخلاق ہے۔ حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم سے ایک شخص نے تین مرتبہ یہی ایک سوال کیا کہ ”دین کیا ہے؟ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے تینوں مرتبہ یہی جواب دیا”اخلاق“۔

اسی طرح حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپﷺ فرمایا کرتے تھے: تم میں سے بہترین لوگ وہی ہیں جو اپنے اخلاق میں دوسروں سے اچھے ہیں ۔‘‘(بخاری)اور ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا: قیامت کے دن میزان میں کوئی چیز بھی اچھے اخلاق سے زیادہ وزنی نہ ہو گی۔(ابو داؤد)

حقیقیت واقعہ بھی یہی ہے کہ ایمان کی روح کے بعد دعوت محمدی صلی اﷲ علیہ وسلم کے دوبازو ہیں ایک عبادت دوسرا اخلاق، ایک خالق کا حق ہے اور دوسرا مخلوق کا۔ انہی دونوں کے مجموعے کا نام اسلام ہے۔

قرآن بھی تو شاہدِ خلقِ عظیم ہے:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کو باری تعالیٰ نے تمام انسانوں کے حق میں پیکر رحمت اور مجسمۂ رافت بناکر مبعوث فرمایا،ساتھ ہی ساری خلقت کے لئےآپ کی ذات والا صفات کوایسا قابل تقلید نمونہ اور آدم گری و مردم سازی کا وہ پیمانہ قرار دیا جوصالح انقلاب کا ذریعہ اور زبردست تبدیلی کا سرچشمہ ہے۔

آپ کی سیرت بے مثل کو دوسروں کے لئے قابل عمل بنانے کے رازوں میں سے ایک راز خود باری تعالیٰ نے قرآن حکیم میں ظاہر کردیا کہ آپ ’’خلق عظیم‘‘ کے مالک ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود بھی اس حقیقت کو آشکارا فرمادیا کہ لوگو! اللہ رب العزت نے مجھے رسول بناکر بھیجا ہے۔ میری بعثت ، میری رسالت اور میری نبوت کے مقاصد میں سے ایک بہت بڑا مقصد تمام انسانوں کے لئے اعلیٰ اخلاق، اعلیٰ اطوار، اعلیٰ عادات اور اعلی رویوں کا ظہور ہے اور باری تعالیٰ نےہر عمدہ خلق سے مجھے مزین فرمایا ہے حتی کہ انبیاء علیہم السلام کو جو اخلاق کریمانہ عطا کئے گئےہیں، وہ سارے کے سارے میری ذات میں جمع کردیئےگئے ہیں۔اسی لیے ارشاد ربانی ہے:’’بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)‘‘۔(القلم، 68: 4)یہاں اللہ پاک نے یہ نہیں فرمایا کہ آپ کے اندر اچھے اخلاق ہیں؛بل کہ یہ تعبیر اختیار فرمائی کہ آپ اخلاق کی بلند ترین چوٹی پر فائز ہیں یعنی جہاں جاکر جملہ اوصاف حمیدہ منتھی ہوجاتے ہیں آپ علیہ السلام کے اخلاق اس سے بھی اعلی و ارفع ہیں۔

ہر صحابی آپ کے اخلاق کا مداح ہے:

کہاجاتاہے کہ کسی کے اچھے برے اخلاق معلوم کرنے ہوں تو ساتھ رہنے والوں اور اٹھنے بیٹھنے والوں سے دریافت کرلو !ساری حقیقت واضح ہوجائے گی ،چوں کہ ہر مرد کا زیادہ رابطہ گھروالوں سے رہتاہے اس لیے اس سلسلہ میں ان کی گواہی معتبر و مستند سمجھی جائے گی،خود آپ ﷺنے بھلائی کا معیار بتلاتے ہوئے ارشاد فرمایا :تم میں بہترین وہ ہے جو گھر و الوں کے ساتھ بہتر ہو۔(ترمذی و ابن ماجہ)اس مناسبت سے یہاں ازواج مطہرات اور صحابۂ کرام کی کچھ شہادتیں نقل کی جارہی ہیں ؛جس سے آپ کے اخلاق حسنہ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔

1:جب حضرت محمد ﷺ کو نبوت ملی اور پہلی وحی نازل ہوئی ، نبوت کے بار گراں سے آپ کی طبیعت مبارکہ میں بے چینی کی کیفیت پیدا ہوئی ،گھر پہنچے ،حضرت ام المؤمنین حضرت خدیجہ کو سارا واقعہ سنایا ،آپ نے اپنے شوہر اور رسول خدا ﷺ کو جن الفاظ میں تسلی دی یقیناً وہ نبی کریم ﷺ کی نبوت سے قبل کی زندگی کی مکمل عکاسی کرتے ہیں،انہوں نے فرمایاآپ غم نہ کھائیں اللہ آپ کو ضائع نہیں کرے گا،بلکہ آپ کو سرفراز کر ے گا،کیونکہ آپ قرابت داروں سے حسن سلوک کرتے ہیں،سچ بولتے ہیں ،غرباء و مساکین کی دستگیری فرماتے ہیں ،مہمان نوازی کرتے ہیں،گرے پڑے لوگوں کی مدد کرتے ہیں،امانت دار ،خوش خصال ،نیک فطرت اور بلند حوصلہ ہیں۔(صحیح بخاری)

2: حضورﷺ کے خادم خاص حضرت انسؓ آنحضرت ﷺ کے بعض اخلاق حسنہ ذکرکرتےفرماتے ہیں کہ آپؐ بیمار کی عیادت کرتے،جنازہ کے ساتھ جاتے، غلام کی دعوت بھی قبول فرماتے،گدھے پر سوارہونے کو (کبھی)عار نہ سمجھتے، غزوہ خیبر کے دن میں نے حضورﷺ کو ایک گدھے پر سواری کرتے ہوئے دیکھا جسکی ناک اورگلے میں پڑی رسی کھجور کی پوست سے بنی ہوئی تھی۔

3: ‘حضرت عبد اﷲ بن عباس رضي اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زمین پر بیٹھتے، زمین پر کھانا تناول فرماتے، بکری کو باندھ لیتے، اور جو کی روٹی پر غلاموں کی دعوت قبول فرماتے۔( طبرانی و بیہقی)

4: حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ تو فحش گو تھے، نہ ہی لعنت کرنے والے اور گالی دینے والے تھے۔ غصے کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف اتنا فرماتے : اُسے کیا ہو گیا، اُس کی پیشانی خاک آلود ہو(صحیح بخاری)

5: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے حضرت سعد بن ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ آقا علیہ السلام کے اخلاق حسنہ جن کی تعریف قرآن مجید میں انک لعلی خلق عظیم کہہ کر کی گئی۔ وہ کیا ہیں؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا :’’ کیا تم قرآن نہیں پڑھتے‘‘؟انہوں نے عرض کیا کہ پڑھتا ہوں۔ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا :’’حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کا خلق قرآن ہی تو ہے۔‘‘(صحيح مسلم)

یعنی قرآن مجید میں انسانوں کے حوالے سے اخلاق حسنہ، خصائل حمیدہ، فضائل کریمہ اور عادات شریفہ کا جو ذکر اللہ پاک نے کیا ہے، ان ساری خوبیوں کے عملی پیکر اتم کا نام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اللہ رب العزت کے بیان کردہ اخلاق کو اگر تعلیمات کی شکل میں دیکھنا ہو تو اس وجود کا نام قرآن ہے اور اللہ رب العزت کے تعلیم کردہ اخلاق اور خصائل حمیدہ کو اگر ایک انسانی پیکر اور شخصی اسوہ کی صورت میں دیکھنا ہو تو ان کا نام محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے؛اسی لیے آپ کو قرآن ناطق کہاجاتا ہے۔

اخلاق سیئہ کا انسداد:

اخلاق کی تعمیر، تشکیل اور تکمیل کا ایک پہلو یہ بھی تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاں اخلاق حسنہ کو اپنے عروج و کمال پر پہنچایا وہاں اخلاق سیئہ اور اخلاق شنیعہ کی مضرتوں سےبھی آگاہ کیا اور ہر ہر برائی کو آپ نے بیخ وبن سے نکال پھینکا،ڈاکٹر ابوالحسن ازہری کے بہ قول” دنیا بھر میں پھیلا ہوا کذب آپ کے دور میں کمزور پڑگیا، وعدہ خلافی کا آپ نے سدباب کیا، خیانت پر کاری ضرب لگائی، کبرو غرور کے بت کو زمین بوس کیا، حسد کی لعنت سے خبردار کیا، خودستائی کے صنم کو پاش پاش کیا۔ غیبت کا قلمع قمع کیا، تمسخرا و استہزاء کا خاتمہ کیا، بدظنی و بدگمانی پر پہرے بٹھائے، بخل کو اللہ کے انعامات کے خلاف جانا، بہتان اور تہمت کو معاشرتی اخوت و محبت کے خلاف تصور کیا، چغل خوری کو انسانی نفرت کی اساس قرار دیا، ظلم کو انسانی وجود کی عظمت کے خلاف گردانا، منافقت کو انسانی ذلت قرار دیا، بے جا خوشامد کو انسانی رفعت کے خلاف جانا، فحش گوئی کو حسن تکلم کے آداب کے منافی سمجھا، ریاء کو اعمال کے ضیاع کا سبب مانا، حرص و طمع کو انسانیت کی تذلیل اور توہین جانا، غیظ و غضب کو انسانی وقار کے خلاف تسلیم کیا، عیب جوئی کو اپنی ذات سے بے وفائی اور بدعہدی جانا، غرضیکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا خلق عظیم دونوں اعتبار سے تھا۔ خلق حسنہ کے اثباتی پہلو کے اعتبار سے اور خلق سیئہ کے انسدادی پہلو کے لحاظ سے ۔ گویا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خلق حسنہ کا اثبات کیا ہے اور خلق سیئہ کا انسداد کیا ہے،خلق حسنہ کو فروغ دیا ہے اور خلق سیئہ کا خاتمہ کیا ہے”۔

خلاصۂ کلام :

یہ کس درجہ افسوس کا مقام ہے کہ آج کے مسلم معاشرے نے عملاً رسول اللہﷺ کی تعلیمات سے دوری اختیار کرلی،کیا وجہ ہے کہ ہمارا کردار تعلیمات نبویﷺ سے یکسر مختلف ہوتا جا رہا ہے،غیر اسلامی تہذیب اورشخصیات ہمارا آئیڈیل بنتی جا رہی ہیں،جس کا نتیجہ ذلت،محکومی اور عدم استحکام کی صورت میں ظاہر ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔آج اُمت مسلمہ کا رویہ اسلامی تعلیمات اور اسوہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا، ان کی اکثریت اخلاق وکردار سے عاری ہے، معاملے کی صفائی اور شفافیت، دوسروں کے ساتھ اچھا برتاؤ اعلٰی اخلاق وکردار کا مظاہرہ اور دیگر اخلاق فاضلہ جو کبھی ان کی پہچان ہوا کرتے تھے اب عنقا ہوچکے ہیں اور تمام اخلاقی برائیاں جو دیگر اقوام میں پائی جاتی ہیں وہ اُن میں درآئی ہیں جب تک وہ اپنے اخلاق و کردار کو نہیں سنواریں گے اور ان کی زندگیاں اسلام کی تعلیمات کا عملی نمونہ نہیں پیش کریں گی اس وقت تک اشاعت اسلام کی راہ کی روکاوٹ دور نہیں ہوگی۔ ​لہذاہر محبِ رسولؐ پرلازم ہے کہ وہ حقیقتاً آپؐ کا پیغام بردار بنے،گفتار کے بجائے کردار کا غازی بنے اور پوری امانت داری کے ساتھ آپؐ کی دعوت کو حقیقت کے متلاشیوں تک پہنچائے اور دنیا کے طول وعرض میں پھیلا دے۔ دنیا آج ایک گاؤں بن گئی ہے، جس میں انفرادی و اجتماعی ربط و تعلق کے ذرائع اپنے عروج کو پہنچ چکے ہیں۔ اس بناپر ہمارے لیے ممکن ہے کہ ہم رسولِؐ خدا کی ہدایت کو دنیا کے تمام گوشوں میں عام کردیں؛تاکہ آپؐ کا یہ نور تمام دنیا میں پھیل جائے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×