اسلامیاتمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

سستی وکسل مندی؛ایک لمحۂ فکریہ

جب کسی قوم میں مقصدو ہدف سے دوری،سستی وکاہلی اور غفلت ولاپرواہی اجتماعی طور پر عام ہوجائے تو تباہی و بربادی اس کا نصیب اورتنزلی وزوال پذیری اس کا مقدربن جاتی ہے۔کتاب وسنت کے مطالعہ سے یہ بات صاف طور پر معلوم ہوتی ہے کہ قدرت قوموں کے مد وجزر، عروج و زوال اور تباہی و بربادی کے اصولوں کے اطلاق میں من حیث القوم کوئی فرق نہیں کرتی، جو قوانین اور اصول یہود و نصاریٰ کے لئے ہیں، وہی امت مسلمہ کے لیے ہیں اور جو ضابطے اہل کفر کے لئے ہیں وہی اہل ایمان کے لیے ہیں۔حق تعالی کے اصول اٹل ہیں ان میں کسی قسم کی تبدیلی ممکن نہیں۔
آج مسلمان زندگی کے ہر شعبے میں جس پس روی کا شکار ہیں،اس کی واحد بنیادی وجہ تساہل پسندی وغفلت شعاری ہے۔ معروف سعودی عالم ڈاکٹرناصر بن سلیمان العمر اپنی کتاب‘‘الفتور؛مظاہرہ و اسبابہ’’میں ارقام فرماتے ہیں کہ سستی کی بیماری کسی خاص گروہ یا جماعت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے؛البتہ جب یہ کسی قوم ومعاشرے کو اپنا ہدف بناتی ہے توصرف خاص عمر یا خاص پیشے والوں کو اپنی لپیٹ میں نہیں لیتی؛ بل کہ ہر عمر اور ہر قسم کے افراد خواہ علماء ہوں یا عوام، شیوخ ہوں یا نوجوان،مرد ہوں یا خواتین،امیر ہوں یا غریب،تندرست ہوں یا بیمار،پرہیز گار ہوں یا فاسق سب اس وبا میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ البتہ اس وبا میں مبتلا ہونے کی شدت مختلف ہوسکتی ہے۔یہ کسی کو شدید طور پر متاثر کرتی ہے اور کوئی اس سے کم متاثر ہوتا ہے۔اورہر کسی کے اس بیماری میں مبتلا ہونے کی وجوہات بھی مختلف ہوسکتی ہیں۔
امام ابن جوزی ؒ (م 597ھ)فرماتے ہیں کہ ہر سانس ایک نفیس جوہر ہے جس کا معاوضہ کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔‘‘کل’’کا تصور ہماری زندگی میں ایک دھوکا ہے جو ہمیں ضیاع وقت کے افسوس سے بچاتا رہتا ہے۔ انسان کی زبان میں کوئی لفظ ایسا نہیں ہے جو ’’کل‘‘ کے لفظ کی طرح اتنے گناہوں، اتنی حماقتوں، اتنی و عدہ خلافیوں، اتنی بے جا امیدوں، اتنی غفلتوں، اتنی بے پروائیوں اور اتنی برباد ہونے والی زندگیوں کے لئے جواب دہ ہو؛ کیوں کہ اس کا آنے والا ’’کل‘‘ یعنی ’’فردا‘‘ کبھی نہیں آتا۔شاید اسی لیے داناؤو ں کے رجسٹر میں ’’کل‘‘ کا لفظ کہیں نہیں ملتا، البتہ بے وقوفوں کی جنتریوں میں یہ بکثرت مل سکتا ہے۔
علّامہ ابنِ قدامہ مقدسیؒ(م 689ھ) لکھتے ہیں: کام کو آئندہ پر ٹالنے والے شخص کی مثال اُس آدمی کی سی ہے جسے ایک درخت کاٹنا ہو، جب وہ دیکھے کہ درخت بہت مضبوط ہے اور بہت مشقّت سے کٹے گا تو وہ کہے کہ میں ایک سال کے بعد اِس کو کاٹنے کے لئے آؤں گا؛مگراُسے یہ شُعور نہیں ہوتا کہ اِس عرصے میں درخت مزید مضبوط ہوجائے گا اور خود اُس شخص کی جتنی عمر گزرتی جائے گی وہ کمزور ہوتا جائے گا۔ آج جب وہ طاقتور ہونے کے باوجود درخت کونہیں کاٹ سکا تو ایک سال بعد جب وہ کمزور ہوجائے گا اور درخت زیادہ مضبوط، تو وہ کیونکر اُس درخت کو کاٹ سکے گا۔ (مختصر منہاج القاصدین، ص316)
غور کیاجائے توسستی اور کاہلی کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں،مثلاً زندگی کے بارے میں مقاصد کا واضح نہ ہونا، ترجیحات کا متعین نہ ہونا۔ اہم اور فوری امور کے بارے میں شعور کی کمی، اطمینان اور حسن کارکردگی کی کمی یا ناکامی کا خوف، اپنی ذات کا حقیقت سے بلند تصور، غلطیوں سے پاک کام کرنے کے بارے میں سوچتے رہنا، افراد اور متعلقہ لوگوں کو کام سپرد نہ کرنا،حالات اور ضرورت کے مطابق مطلوبہ صلاحیتوںکافقدان اور ارادے کی کمزوری،وغیرہ۔
بیکاری کی نحوست:
معاشرہ میں کسل مندی اور بے کاری کا رحجان اس کی بنیادوں کو کھوکھلا کردیتا ہے۔‘‘بیکاری’’ہزار خرابیوں کے پروان چڑھنے کا سبب بنتی ہے۔ بیکاری سے برائیوں کے دہانے کھلتے ہیں اور لایعنی معصیت تک پہونچاکر دم لیتی ہے۔آدمی مصروف رہے تو بے شمار برائیوں سے خود بخود بچارہتا ہے۔ غیر قوموں میں اس کا خاص اہتمام ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ابتدا ہی سے تعلیم کے ساتھ ساتھ فارغ اوقات میں اپنے کاروبار میں مشغول رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں؛مگر مسلمان معاشرے میں اولاً تعلیم ہی ضرورت سے کم ہے اور تعلیم ہے بھی تو اس کے ساتھ بیکاری اور بری صحبت جیسی خرابیاں بھی ساتھ لگی ہوئی ہیں۔ ضرورت ہے کہ اس سلسلہ میں قومی بیداری پیدا کی جائے اور والدین کو آگاہ کیا جائے کہ وہ اپنی اولاد کو بیکاری کے عیب سے بچائیں۔ ورنہ اولاد جہنم کا ایندھن بن جائے گی۔
آج پان کی دکان پر، چائے کی سدابہار ہوٹلوں کے پاس، گلیوں اور شاہراہوں کے نکڑوں پر، یہ ہم عمروں کی بھیڑکیسی؟جو ہنسی مذاق میں مشغول اور ادھر ادھر گنہگار نگاہیں ڈالنے میں مصروف ہیں۔ جائیے! قریب جاکر معلوم کر لیجئے! ہر ایک اپنی شناخت ”اسلامی نام ” سے بتا دے گا؛ لیکن یہ مفت میں یہاں کھڑے ہو کر گناہ لوٹنے میں کیوں دلچسپی لے رہے ہیں؟ کیا انہیں کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں ہے؟ہاں! مگر روک ٹوک کون کرے؟ اگر غیر روکے گا تو اس کی عزت کی خیر نہیں اور والدین کو اپنے پیاروں کی بیکاری اور مٹر گشتی پرفکر ہوتی تو رونا ہی کس بات کاتھا؟ (ملخص از آج کا سبق ”صفحہ53مفتی اعظم حضرت مولانا محمد شفیع صاحبؒ)
غفلت پسند اورسست مزاج لوگوں کووقت کی قدرو قیمت کا اندازہ نہیں ہوتا۔ دن چڑھتا ہے تو ان پر سستی کی چادر تن جاتی ہے،ہلکے پھلکے آسان کام بھی انہیں پہاڑ کی طرح بھاری بھرکم دکھائی دیتے ہیں۔وقت کی متاع گراں مایہ وہ اپنے ہاتھوں سے برباد کر کے کہتے ہیں: بس ذرا سی سستی ہوگئی! کام کرنے کو جی نہیں چاہا!آج نہیں تو کل ہوجائے گا۔لمحوں سے گھنٹے،گھنٹوں سے دن،دنوں سے ہفتے اور ہفتوں سے مہینے وسال گزرتے چلے جاتے ہیں؛مگرغفلت و لاپرواہی کا شعورواحساس تک نہیں ہوتا۔ وقت کی تجوری سے جو خزانہ خرچ ہو گیا وہ کبھی واپس نہیں آتا۔ ہمارے ہاتھ میں جو وقت ہے وہی ہماری اصل زندگی ہے۔سستی اور کسل مندی کا آسیب ہماری انمول زندگی کو بے مول کر کے رکھ دیتا ہے۔قرآن مجید میں منافقین کے حوالے سے کہاگیا کہ وہ نماز میں سستی کرتے ہیں اور دکھاوے کے لیے نماز پڑھتے ہیں۔(النساء)ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’شیطان تم میں سے ہر آدمی کے سر کے پیچھے رات میں سوتے وقت تین گرہیں لگا دیتا ہے اور ہر گرہ پر یہ افسوں پھونک دیتا ہے کہ سوجا ابھی رات بہت باقی ہے۔ پھر اگر کوئی بیدار ہو کر اللہ کو یاد کرنے لگے تو ایک گرہ کھُل جاتی ہے، پھر اگر وضو کر لے تو دوسری گرہ کھل جاتی ہے۔ پھر اگر نماز پڑھے تو تیسری گرہ بھی کھل جاتی ہے۔ اس طرح صبح کے وقت آدمی چاق وچو بند اور خوش مزاج رہتا ہے۔ ورنہ بد مزاج اور سست رہتا ہے‘‘۔(بخاری ومسلم)معلوم ہوا کہ نماز چھوڑ کر صبح دیر تک سوتے رہنا بھی سست مزاجی کا ایک سبب ہے۔ رسول پاک ﷺ نے اپنی دعاؤوں میں سستی سے پناہ مانگی ہے، آپﷺ کی ایک مسنون دعا کا مفہوم یہ ہے۔اے اللہ میں غم اور حزن سے، بے بسی اور کسل مندی(سستی) سے، بخیلی اور بزدلی سے پناہ مانگتا ہوں۔(مسلم)ہم سب کو چاہیے کہ مذکورہ دعا اور دیگر مسنون دعاؤوں کو اپنے معمولات کاحصہ بنائیں؛ اس لیے کہ استعانت و استعاذہ یعنی اللہ سے مدد اور شیطان سے پناہ چاہے بغیر سستی جیسی بیماری سے چھٹکارا ممکن نہیں۔
سستی کے مضرات و نقصانات:
کاہلی کے بہت سے مضرات و نقصانات ہیں،اجتماعی بھی اور انفرادی بھی۔یہ حقیقت ہے کہ ایک سست آدمی اپنی کاہلی و بے کاری کے سبب اپنی ذات، اپنے خاندان، اپنے معاشرے اور اپنی قوم سب کو نقصان پہنچاتا ہے۔اس کی کاہلی کا اثر صرف اس کی ذات تک محدود نہیں رہتا؛بل کہ متعدی ہوتا چلا جاتا ہے۔ کاہلی ہی درحقیقت زوال،نقصان،تباہی اور خسران کا سبب ہے۔تساہل پسند مزاج کا حامل بہت جلد عزت سے ذلت کی طرف، دولت سے غربت کی طرف، بلندی سے پستی کی طرف،مستعدی سے بیکاری کی طرف اور اعلی ترین مناصب و ذمہ داریوں سے معمولی قسم کے کاموں کی طرف نزول کرتا چلا جاتا ہے اور بسا اوقات اسے احساس تک نہیں ہوتا کہ اس طرح کیوں ہورہا ہے؟
کاہلی جیساکہ عرض کیا گیا قوموں کی پسماندگی کی اصل وجہ ہے،اسی سے غربت اور بے روزگاری عام ہے، چوری،ڈکیتی اور دیگرجرائم کی کثرت ہے،تعلیمی،معاشی اور تجارتی سرگرمیوں کے لیے بھی اگر کوئی چیز سم قاتل ہے تو وہ صرف کاہلی ہے۔ کاہل خود کو فائدہ نہیں پہونچاتا،چہ جائے کہ دوسروں کو فائدہ پہنچائے،وہ نہ دوسروں کا بھلا کرتا ہے،نہ بھلے کاموں میں پیش پیش رہتا ہے،سست مزاج آدمی کم ہمت اور پست حوصلہ ہوتا ہے، وہ محنت، کوشش اور جدوجہد کے بغیر ہی فوائد و غنائم حاصل کرنا چاہتا ہے۔
سستی کا شکار انسان اندر سے مایوس رہتا ہے اور یہی مایوسی و ناامیدی کی کیفیت اس میں میں بے عملی کا رجحان پیدا کرتی ہے۔ سستی کے بالمقابل محنت کشی،حوصلہ مندی،مستقل مزاجی، لگن، ولولہ، جوش، ارادے کا پکا ہونا وغیرہ یہ تمام رویے جس شخص میں ہوں گے وہ اپنے انمول خزانے کی قدر کرنے والا ہو گا،اپنے وقت کی قدر کرنے والا ہو گا،وہ ہر روز اپنے مقاصد کی فہرست بنا کر انہیں حاصل کرنے اور کام مکمل کرنے کی لگن میں رہے گا، سوشل میڈیا پر بے مقصد کی سکرولنگ اورتانک جھانک کے دوران اسے احساس ہو گا کہ وہ وقت کا خزانہ غلط جگہ لٹا رہا ہے۔
الغرض: سستی دینی اور دنیاوی ہر طرح کے خیر اور بھلائی سے محرومی کا سبب ہے۔پس جس شخص میں سستی سرایت کرگئی اور وہ اس پر راضی ہوگیا تو یوں سمجھنا چاہیے کہ اس نے اپنے آپ کو خیر کثیر سے محروم کر دیا۔
سستی و کسل مندی کا علاج:
کامیابی کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس مہلک مرض سے نجات حاصل کریں۔ اس بری عادت پر قابو پانے کی فکر و کوشش کریں جس کے لیے کچھ اہم امور کی طرف توجہ دیں:
1. نظام الاوقات بنائیں او رہر کام کو مناسب اور قابل عمل حصوں میں تقسیم کرلیں،پھر اسی کے مطابق عمل در آمد کریں۔
2. ناخوش گوار اور محنت طلب کام کو پہلے کر لیں تاکہ خوش گوار کاموں کو کرنے میں کوئی مشکل نہ ہو۔
3. گزرے ہوئے وقت اور کیے ہوئے کام کا احتساب اور جائزہ لیتے رہیں،اس سے مزید کام کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔
4. ان فوائد پر غور کریں جو کام کی تکمیل کے بعد آپ کو حاصل ہوں گے۔
5. اگر کام مکمل نہ ہو سکا تو درپیش آنے والے نقصانات پر غور کریں۔
6. اپنے قیمتی وقت کو بچانے کے لئے معمولی کاموں کو دوسروں کے سپرد کر دیں تاکہ آپ کے پاس اہم کاموں کے لئے وقت دستیاب ہو سکے۔
7. جب بھی آپ کوئی کام مکمل کر لیں تو اس پر خود کو انعام بھی دیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×