اسلامیاتمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

رزق کی ناقدری باعث محرومی

یوں تو حق تعالیٰ کی ان گنت نعمتیں بارش کے قطروں کی طرح مسلسل برس رہی ہیں اور زمین پر پھیلی ہوئی تمام مخلوقات ان سے برابر مستفید ہورہی ہیں؛مگرغور کیا جائے تو ہمارے سماج میں ”وقت”کے بعد جس نعمت کا سب سے زیادہ ضیاع دیکھنے میں آرہاہے،وہ ”رزق” ہے۔بروقت غذا کا حاصل ہوجانا ایسی بے بہا نعمت ہے جس سے دنیا کی تقریباً بیس فیصد آبادی محروم ہے۔افسوس صد افسوس کہ رزق کی ناقدری اور کھانے کی بے حرمتی کے اس جرم میں غیر مسلم تو غیرمسلم مسلمانوں کی بڑی تعداد بھی برابر کی شریک ہے۔کچھ لوگوں پر معیار زندگی کو اونچا بتانے اور خود کو مال دار ظاہر کرنے کاخبط اس طرح سوار ہے کہ وہ زندگی کے ہر موڑپرضروریات کے بالمقابل خواہشات کوترجیح دیتے ہیں، اسراف و تبذیر کو اپنی شان سمجھتے ہیں، شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں شاہ خرچیوں کواپنا حق بتاتے ہیں اورمحض جذبۂ نمائش کی تسکین اور مقابلہ آرائی کے لیے انواع و اقسام کے کھانے تیار کرواتے ہیں پھر انفرادی و اجتماعی سطح پر کھانے کا خوب ضیاع ہوتا ہے اور دل کو یہ احساس تک نہیں ہوتا کہ کتنے فاقہ کش ایسے ہیں جو نان شبینہ کے محتاج اور بھکمری کا شکار ہیں، انہیں آتش شکم بجھانے کے لئے کوئی معمولی چیز بھی میسر نہیں، خود ہمارے شہر کے سلم علاقوں میں کئی لوگ خط افلاس سے نیچے کی زندگی بسر کرنے پر مجبور اور دانے دانے کے لیے پریشان ہیں، اور ہم ہیں کہ زعمِ رئیسی میں خوش خوراکی کی ساری حدیں پار کررہے ہیں ،پھر بھی نتیجہ یہ ہے کہ بہ قول شاعر ؎

غریب شہر تو فاقے سے مر گیا عارفؔ
امیر شہر نے ہیرے سے خودکشی کر لی

حیران کن اعداد و شمار:یہ کس قدر تعجب خیز بات ہے کہ ایک طرف پوری دنیا میں غذا کی کمی کا شکوہ ہورہا ہے، ہزاروں بچے روزانہ بھوک یا غذائی کمی سے موت کے منہ میں جا رہے ہیں،اور دوسری طرف رزق کی ناقدری کا حال یہ ہے کہ (آٹھ سالہ قدیم اعداد و شمار کے مطابق) صرف امریکا میں 50فی صد خوراک کوڑے کی زینت بنتی ہے۔ برطانیہ میں 20 ملین ٹن خوراک ضائع کردی جاتی ہے۔ جاپان میں 101.6ارب ڈالر مالیت کی خوراک تلف ہوجاتی ہے۔ برصغیر میں کھانا ضائع کرنے کے اپنے ڈھنگ ہیں، جس میں سرفہرست شادی ہے۔ایک حالیہ جائزے کے مطابق صرف بنگلور میں ہرسال شادیوں میں نو سو پچاس ٹن غذائی اشیاء ضائع ہوجاتی ہیں۔ ہر برس تقریباً اسی ہزار شادیاں ہوتی ہیں اور ہر شادی میں اوسطاً ایک تہائی کھانا ضایع ہوتا ہے۔یعنی سالانہ تین سو انتالیس کروڑ روپے کا کھانا شادیوں میں برباد ہوتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کے بڑے شہروں میں جس قدر خوراک کا ضیاع ہوتا ہے اس کے دسویں حصے سے دنیا میں بھوک سے مرنے والے لاکھوں افراد کو دو وقت کا کھانا فراہم کیا جا سکتا ہے۔غذا کو کچرے میں پھینکنے والاانسان اس بات سے لاتعلق ہے کہ ٹھیک اسی لمحے بے شمار انسان بھوک سے مر رہے ہیں۔ بھوک سے مرنے والے انسانوں کے اعداد و شمار ہوش رباہیں اور دور جدید کے انسان کی بے حسی پر ماتم کنا ں بھی، صرف شمالی کوریا میں اب تک پچاس لاکھ افراد قحط کے ہاتھوں ہلاک ہوچکے ہیں،اس وقت بھی 15 لاکھ سے زائد انسان افریقی ممالک میں مرنے کے قریب ہیں۔
رزق کی ناقدری اور کھانے کے ضیاع سے متعلق مذکورہ تفصیلات مغربی یاغیر اسلامی ممالک کی تھیں،آب آئیے دیکھتے ہیں کہ دنیا بھرمیں اسلامی مملکت کے نام سے شہرت پانے والے سعودی عرب کی کیاحالت زارہے؟؟گزشتہ ماہ اگست کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق سعودی عرب کے وزیر ماحولیات، پانی اور زراعت عبدالرحمن بن عبدالمحسن الفضلی نے انکشاف کیا کہ مملکت میں خوراک کے ضیاع کی شرح 33 فیصد سے زیادہ ہوگئی ہے اور مملکت میں سالانہ تقریبا 40 ارب ریال مالیت کی خوراک ضائع کی جاتی ہے۔ وزیر ماحولیات نے کھانے کی خریداری میں توازن، خوراک کے ضیاع کی روک تھام کے لیے باہمی تعاون، خوراک کی قیمت اور اس کے ضیاع و اسراف سے بچنے اور خوراک کے تقدس کو یاد رکھنے، کھانے کی مقدار کو کم کرنے کے لیے ایک انتہائی موثر طریقہ کار تک پہنچنے کی اہمیت پر زور دیاہے۔(العربیہ ڈاٹ نٹ)
المختصر:ایک ایسے وقت میں جب کہ دنیا وبائی امراض اور معاشی بحران سے دوچار ہے،اس بات کی شدت سے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے کہ خوراک کے تحفظ کے نظام میں بہتری لائی جائے؛ تاکہ کسی بھی قسم کی آفات میں عوام کی خوراک کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق دنیا بھر میں ہر سال پیدا ہونے والے اناج کا ایک تہائی ضائع کر دیا جاتا ہے جبکہ ضائع کردہ کھانے کی مقدار تقریباً 1.3 ارب ٹن ہے۔اگر اس رحجان کو روکا نہ گیا تو 2030 تک ضائع کردہ کھانے کی مقدار 02 ارب ٹن سے تجاوز کر جائے گی۔
رزق کی قدردانی اور اسلامی تعلیمات:
رزق عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے لغوی معنی ’’عطا‘‘کے ہیں خواہ دنیاوی عطا ہو یا اخروی۔ عربی زبان میں رزق اللہ تعالیٰ کی ہرعطاکردہ چیزکوکہاجاتاہے۔مال، علم،طاقت، وقت، اناج سب نعمتیں رزق میں شامل ہے۔ غرض ہر وہ چیز جس سے انسان کو کسی نہ کسی اعتبارسے فائدہ پہنچتا ہو وہ رزق ہے۔ رزق اللہ تعالی کی ایسی نعمت ہے، جس کی تقسیم کا اختیار اللہ تعالی نے اپنے پاس رکھا ہے۔ اللہ تعالی کا ارشادہے:’’بلاشبہ اللہ تعالی تو خود ہی رزاق ہے، مستحکم قوت والا ہے۔‘‘ (الذاریات:58)قرآن مجید میں بندوں کو یہ حکم دیاگیاہے کہ وہ اللہ کی نعمتوں سے خوب فائدہ اٹھائیں؛مگر اعتدال سے تجاوز نہ کریں،ارشادباری ہے:اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے مت نکلو، بے شک اللہ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتے ہیں۔ (الاعراف: 31)ایک اور موقع پر فرمایاگیا: کھاؤ جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں روزی دیں اور اس میں زیادتی نہ کرو کہ تم پر میرا غضب اترے اور جس پر میرا غضب اترا بے شک وہ ہلاک ہوا (جہنم میں گیا)۔(طٰہ: 81)
اسلام نے خرچ کرنے میں اعتدال ومیانہ روی کا حکم دیا ہے اور اسراف وفضول خرچی سے منع کیا ہے، اور یہی اس کا مقرر کردہ راستہ ہے، اور اس کی پابندی انہیں لوگوں سے ممکن ہے؛ جن کے پاس قناعت کی دولت اور جذبہ ایمانی ہے۔
حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس گھر تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ روٹی کا ایک ٹکڑا زمین پر پڑا ہوا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اٹھایا، صاف کیا پھر کھالیا، اور فرمایا: عائشہ! اللہ تعالیٰ کی جو نعمتیں تمہاری پڑوسی بن جائیں، ان کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آؤ(حسنِ سلوک سے پیش نہ آؤ گی تو یہ بھاگ جائیں گی) اور جس قوم سے یہ بھاگ جاتی ہیں، ان کی طرف واپس لوٹ کر نہیں آتیں۔ (ابن ماجہ)
حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ شیطان تمہارے پاس ہر کام کے وقت آجاتا ہے۔ یہاں تک کہ کھانے کے وقت بھی آجاتا ہے۔ پس جب تم میں سے کسی کا لقمہ گر جائے تو اسے اٹھالے۔ اس کے ساتھ جو مٹی لگ گئی ہو اسے دور کردے، پھر اسے کھالے اور اسے شیطان کے لیے نہ چھوڑے۔ جب فارغ ہوجائے تو اپنی انگلیاں چاٹ لے، پتہ نہیں کھانے کے کس حصے میں برکت ہے۔ (مسلم)
طبقات ابنِ سعد میں ہے کہ اُم المومنین حضرت میمونہ رضی اللہ عنہا کو راستے میں چلتے ہوئے ایک انار کا دانہ ملا۔ انہوں نے جیسے ہی دیکھا اُٹھا لیا اور یوں فرمایا: اللہ پاک رزق ضائع کرنے والے کو پسند نہیں کرتے۔ یعنی اگر میں نہ اُٹھاتی تو یہاں کسی کی نظر نہ پڑتی،اس طرح یہ چیز ضائع ہوجاتی اور رزق کا ضائع ہوجانامیرے اللہ کو پسند نہیں۔ معلوم ہوا کہ گرے ہوئے لقمے یا رکھی ہوئی چیزوں کو کھانے اور استعمال کرنے میں ہم لوگ جوعار محسوس کرتے ہیں، یہ عار صحیح نہیں ہے؛بل کہ تواضع کی علامت یہ ہے کہ انسان اللہ کی نعمت کو ضائع نہ ہونے دے،اسی سے رزق میں اضافہ ہوگا۔
خلاصۂ کلام:
ناقدری ٔ رزق کے اس زمانے میں بہ حیثیت مسلمان ہماری اولین ذمہ داری ہے کہ ہم اللہ کی نعمتوں کااستحضار رکھیں اور ایک ایک نعمت کی بھرپور قدر کریں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خلاف معمول ایسے وقت میں گھر سے نکلے کہ جب آپ نہیں نکلتے تھے اور نہ اس وقت آپ سے کوئی ملاقات کرتا تھا، پھر آپ کے پاس ابوبکر رضی اللہ عنہ پہنچے تو آپ نے پوچھا: ابوبکر تم یہاں کیسے آئے؟ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں اس لیے نکلا تاکہ آپ سے ملاقات کروں اور آپ کے چہرہ انور کو دیکھوں اور آپ پر سلام پیش کروں، کچھ وقفے کے بعد عمر رضی اللہ عنہ بھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے پوچھا: عمر! تم یہاں کیسے آئے؟ اس پر انہوں نے بھوک کی شکایت کی، آپ نے فرمایا: ’’مجھے بھی کچھ بھوک لگی ہے، پھر سب مل کر ابوالہیشم بن تیہان انصاری کے گھر پہنچے، ان کے پاس بہت زیادہ کھجور کے درخت اور بکریاں تھیں؛ مگر ان کا کوئی خادم نہیں تھا، ان لوگوں نے ابوالھیثم کو گھر پر نہیں پایا تو ان کی بیوی سے پوچھا: تمہارے شوہر کہاں ہیں؟ اس نے جواب دیا کہ وہ ہمارے لیے میٹھا پانی لانے گئے ہیں، گفتگو ہو رہی تھی کہ اسی دوران! ابوالہیشم ایک بھری ہوئی مشک لیے آ پہنچے، انہوں نے مشک کو رکھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے لپٹ گئے اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، پھر سب کو وہ اپنے باغ میں لے گئے اور ان کے لیے ایک بستر بچھایا پھر کھجور کے درخت کے پاس گئے اور وہاں سے کھجوروں کا گچھا لے کر آئے اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا۔ آپ نے فرمایا: ’’ہمارے لیے اس میں سے تازہ کھجوروں کو چن کر کیوں نہیں لائے؟ عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے چاہا کہ آپ خود ان میں سے چن لیں، یا یہ کہا کہ آپ حضرات پکی کھجوروں کو کچی کھجوروں میں سے خود پسند کر لیں، بہرحال سب نے کھجور کھائی اور ان کے اس لائے ہوئے پانی کو پیا، اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یقیناً یہ ان نعمتوں میں سے ہے جن کے بارے میں قیامت کے دن سوال کیا جائے گا اور وہ نعمتیں یہ ہیں: باغ کا ٹھنڈا سایہ، پکی ہوئی عمدہ کھجوریں اور ٹھنڈا پانی‘‘۔(بخاری شریف)
نعمتوں کے استحضار کے ساتھ ساتھ اپنے اخرجات میں فضول خرچی سے بچیں! ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہم خود بھی رزق کی ناقدری نہ کریں اور اپنے زیردستوں کو بھی اس سے بچانے کی فکر کریں،اگر ہم یہ ارادہ کر لیں کہ ہم رزق کی قدر کریں گے توکتنے غریبوں کی بھوک کا علاج اور ان کے فاقوں کا مداوا ہو سکتا ہے۔ اس وقت اگر مال ودولت کی فراوانی کے زمانے میں ہم رزق کے ضیاع اور بے حرمتی کے نقوش پیش کریں گے تو خدانخواستہ وقت کے گزرنے کے ساتھ کہیں ہم کنگال، غریب اور مفلس نہ ہوجائیں۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×