اسلامیاتمولانا عبدالرشید طلحہ نعمانی

اخوت کا بیاں ہو جا، محبت کی زباں ہو جا!

اسلام،امن و سلامتی کاسرچشمہ،ہمدردی و غمخواری کا مجسمہ اورانسانوں کے درمیان محبت و رواداری کو فروغ دینے والا مذہب ہے ۔ یہ اللہ رب العزت کا وہ پسندیدہ دین ہے جو اگر ایک طرف بندوں کا رشتہ معبود حقیقی سے مضبوط کرتا ہے تو دوسری طرف انسانوں کے درمیان محبت و بھائی چارے کی فضا قائم کرتا ہے ۔یہی وہ ضابطۂ حیات ہے جو بحیثیت انسان ہرایک کو محترم سمجھتا اور انسانیت کے اعلیٰ قدروں کا ہر حال میں تحفظ کرتا ہے ،اسلام ہی انسانی تعلقات کی استواری اور نظام معاشرت کی پختگی کا مکمل لحاظ کرتا ہے ، بھوک سے شکستہ حال لوگوں کو کھانا کھلانے ، پیاس سے نیم جان افراد کو پانی پلانے ،پریشان حالوں کی پریشانی کا ازالہ کرنے اور بیماروں کی عیادت و مزاج پرسی کرنے کا درس دیتاہے ۔ مشکوۃ شریف کی روایت ہے کہ جس نے بھوکوں کو کھانا کھلایا، پیاسے کو پانی پلایا اور بیمار کی عیادت کی گویا اس نے اللہ کو کھلایا اللہ کو پلایا اور اللہ کی عیادت کی۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے مسلمانوں کو اخلاق کی ایسی بیش بہا دولت دولت اور قیمتی نعمت سے نوازاہے ، جوپورے دین کو جامع اور اس کی تبلیغ کا بہترین ذریعہ ہے نیزسرکار دوعالم ﷺنے ایمان و اخلاق کو باہم اس طرح آمیز بتلایا کہ انہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام اعلیٰ اخلاق کے بغیر بے جان ہے ۔ حدیث شریف میں اسلام کو عین اخلاق فرمایا گیا ہے حتیٰ کہ عبادت کی خوبی اور مقبولیت کو پاکیزگئ اخلاق سے مشروط کردیا گیا ہے ۔
واقعہ یہ ہے کہ ایمان کی روح کے بعد دعوت محمدی صلی اﷲ علیہ وسلم کے دوبازو ہیں ایک عبادت دوسرا اخلاق، ایک خالق کا حق ہے اور دوسرا مخلوق کا۔ انہی کے مجموعے کا نام اسلام ہے ۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایمان کے باب میں ایک نہایت بلیغ اور بڑی جامع ہدایت فرمائی ہے کہ 148بندہ تکمیل ایمان کے رتبے پر اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا جب تک کہ وہ سارے آدمیوں کے لیے وہی بھلائی نہ چاہے جو وہ اپنے نفس کے لیے چاہتا ہے ۔147اس سے بڑھ کر بنی نوع انسان کی خیر طلبی کا معیار نہیں ہوسکتا۔اخلاق کی بلندی یہی ہے اور اچھے اخلاق ہی وہ ستون ہیں جن پر صحیح اسلامی معاشرہ قائم ہوتا ہے ۔ اخلاق ہی سے قوت و طاقت، عزت و سلطنت اور عظمت و رفعت حاصل ہوتی ہے ۔ اخلاق ہی وہ شان ہے کہ جس میں اﷲ تعالیٰ کی نیابت کا رنگ پایا جاتا ہے ۔
جانناچاہیے کہ اسلام نے بلنداخلاق و اعلی اقدار کا یہ درس مذہب سے بلند ہوکر دیا اور مسلم وغیرمسلم کی کوئی حدبندی نہیں کی پھر یہ محض تلقینِ زبانی نہیں تھی؛بلکہ اس پر رسول اللہ ﷺ نے عمل بھی کیا؛کیوں کہ یہ انسانی فطرت ہے کہ ایک انسان، زندگی کے کسی بھی شعبہ میں قدم رکھنے اور آگے بڑھنے سے پہلے اپنے سے بہتر شخص کے عمل و کردار کو بطور نمونہ دیکھنا چاہتا ہے اور جو شخص کسی بھی حوالے سے اس کی نظروں میں بہتر اور خوب تر قرار پاتا ہے اس کی پیروی کو وہ اپنی ترجیحات میں سرفہرست رکھنے کی کوشش کرتا ہے ۔ 146146آئیڈیل کی تلاش145145 کا تصور اسی انسانی فطرت کا اظہار ہے اور اللہ رب العزت نے نسل انسانی کی ہدایت و راہنمائی کے نظام میں اس کی فطرت کے اس پہلو کا لحاظ رکھا ہے ۔ چنانچہ قرآن کریم کی سب سے پہلی سورہ الفاتحہ میں انسان کو ہدایت کے لیے جو دعا سکھائی گئی ہے وہ یہی ہے کہ146146اے اللہ! ہمیں ان لوگوں کے راستے پر چلا جن پر تیرا انعام ہوا ، نہ کہ ان لوگوں کے راستے پر جو تیرے غضب کا شکار ہوئے ۔145145(سورۃالفاتحہ)
رسول اللہ ﷺ کی ذات بابرکت سراپا مجموعۂ صفاتِ حمیدہ ہے ، آپؐ کی حیات مبارکہ کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو اربابِ دانش و بینش اور اہلِ فکر و بصیرت سے خراج عقیدت وصول نہ کر چکا ہو؛ لیکن آنحضرتؐ کی زندگی کا سب سے نمایاں اور حسین پہلو جس نے دوست و دشمن سب کو اس بارگاہِ خیر و حسن میں سرنیاز خم کرنے پر مجبور کر دیا، آپؐ کے اخلاق کریمانہ ہیں؛ جسے قران کریم نے 146146خلق عظیم145145 سے تعبیر کیا ہے ۔ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ” کان خلقہ القرآن”کہہ کر اسے قرآن پاک کی عملی تعبیر و تفسیر قرار دیا ہے ۔
جناب رسالت مآب ایک حدیث میں خود اپنے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں کہ مجھے مکارم اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے ۔ ایک اور روایت کے الفاظ اس طرح ہیں کہ 146146مجھے اچھے کام مکمل کرنے کے لیے بھیجا گیا ہے 145145۔ اور یہ امر واقعہ ہے کہ آنحضرتؐ نے اچھے کاموں یعنی مکارم اخلاق کو جن بلندیوں سے ہمکنار کیا ان کی مثال پیش کرنے سے تاریخ آج تک قاصر ہے ۔ آپؐ نے اپنے پیروکاروں کو بھی اچھی عادات اور بہتر معاملات کی تلقین فرمائی ہے ۔ اور اخلاق کریمانہ انہی دو امور سے عبارت ہے ۔
اخلاق حسنہ کے اعلی نمونے :
اسی لیے جب ہم سیر و تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو غیرمسلموں کے ساتھ رواداری،حسن سلوک اور عمدہ معاشرت کے درجنوں نمونے 148سیرت رسولﷺ147 میں جا بہ جا نظر آتے ہیں، غیرمسلموں کے ساتھ زبانی وعملی ہمدردی،نصح و خیرخواہی اور ان کے حقوق کا خاص خیال آنحضورﷺکے معمولات کا حصہ تھا۔ اکثر مواقع پر آپ ﷺنے غیرمسلموں کو مالی وجانی تعاون فراہم کیاہے اور یہ تعاون صرف انسانیت کے ناطے ہوا کرتا تھا۔
ایسی ان گنت مثالیں ہیں کہ محض آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصا ف حمیدہ اور حسن سلوک سے متاثر ہو کرغیر مسلم افراد اسلام قبول کرلیا کرتے تھے ،چناں چہ مشکوۃشریف میں امام بیہقی کی دلائل النبوۃ کے حوالہ سے ایک روایت ہے؛جس میں ایک یہودی کے ساتھ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن اخلاق کا واقعہ نقل کیا گیا ہے ،حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک یہودی تھا، جس کو148 فلاں عالم 147کہا جاتا تھا (یعنی وہ یہود کے بڑے علماء میں سے تھا)اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر چند دینار قرض تھے ،اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مطالبہ کیا ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا:اے یہودی ! میرے پاس کچھ نہیں کہ تجھے دوں۔اس نے کہا :محمد!میں اس وقت تک آپ سے جدا نہ ہوں گا جب تک آپ میرا قرض ادا نہ کریں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اچھا! میں تیرے پاس بیٹھ جاتا ہوں،چناں چہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سامنے بیٹھ گئے ،(اور اسی مقام پر)ظہر ،عصر، مغرب،عشا اور پھر صبح کی نماز پڑھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی اس یہودی کو دھمکاتے تھے اور نکال دینے کا خوف دلاتے تھے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس کو محسوس کیا تو آپ نے صحابہ کو اس سے منع فرمایا ،صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا :یا رسول اللہ! کیا ایک یہودی آپ کو روک سکتا ہے ؟آپ نے فرمایا :میرے رب نے مجھے منع کیا ہے کہ میں اس شخص پر ظلم کروں جو ہماری پناہ میں ہے ،یا جو ہماری پناہ میں نہیں۔
پھر جب دن چڑھا،یہودی نے کہا :میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں ،میرے مال کا آدھا حصہ اللہ کی راہ میں صدقہ ہے ،خدا کی قسم ! میں نے آپ کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ محض اس لیے کیا، تاکہ میں دیکھو ں کہ آپ کی جو صفات تورات میں مذکور ہیں وہ آپ میں پائی جاتی ہیں یا نہیں۔تورات میں لکھا ہے :محمد بن عبد اللہ مکہ میں پیدا ہوگا، طیبہ کی طرف ہجرت کرے گا اور اس کی حکومت شام میں ہوگی ،وہ بد زبان و سنگ دل نہ ہوگا اور نہ بازاروں میں شور مچانے والااور نہ فحش گوئی اس میں ہو گی اور نہ وہ بیہودہ بات کہنے والا ہوگا،میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور آپ اللہ کے رسول ہیں،یہ میرا مال موجود ہے ، خدا کے حکم سے جہاں اس کو چاہیں خرچ فرمائیے ۔
اسی طرح لوگوں کی بد اخلاقی اور برے سلوک کے جواب میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا صبر وتحمل اور خوش اخلاقی بھی لاجواب و بے مثال تھی۔مسلم شریف میں حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے جا رہا تھا ،آپ نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے ،جس کے کنارے موٹے تھے ،راستے میں آپ کو ایک دیہاتی ملا ، جس نے آپ کی چادر کو پکڑ کر اس قدر سختی سے اپنی طرف کھینچا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سینہ کے قریب ہوگئے ،میں نے دیکھاتو آپ کی چادر کے کنارے نے آپ کی گردن پر نشان ڈال دیا تھا۔پھر اس دیہاتی نے کہا :اے محمد! تمھارے پاس خدا کا مال ہے ،اس میں سے مجھ کو کچھ دلوائیے ،آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی طرف دیکھا ، مسکرائے اور پھر آپ نے اس کو کچھ دینے کا حکم دیا ۔
ان کے علاوہ سفر طائف کی خوں چکاں داستاں ،فتح مکہ کا کرمِ بے کرں اور میثاق مدینہ کا اہم ترین اقدام وغیرہ پر مشتمل درجنوں واقعات ہیں جو آپ ﷺکے عمدہ اخلاق کی عکاسی اور دین اسلام کے مبنی برفطرت ہونے کی غمازی کرتے ہیں ۔
خلاصۂ کلام :
اس وقت مسلمان، انفرادی واجتماعی اعتبار سے جن مسائل کے شکار ہیں بالخصوص بھیڑ کے ذریعہ قتل کے جو واقعات پیش آرہے ہیں وہ نہایت قابل تشویش ہیں ۔گذشتہ دو ماہ سے ہجومی تشدد کے کئی واقعات سامنے آئے ہیں، یہ جرم ایک وبا کی طرح پھیلتا جارہا ہے ۔ 20 جون کو جھارکھنڈ کے رام گڑھ میں توحید انصاری کو ہلاک کیا گیا ۔ ہاپور میں عید الفطر کے دو دن بعد ہی ہجوم نے دو مسلمانوں کو زد و کوب کر کے ہلاک کیا ۔ اس واقعہ سے پانچ دن قبل 13 جون کو جھارکھنڈ کے گوڑا میں ہجوم نے دو مسلمانوں کو بری طرح زد و کوب کر کے مار ڈالا ۔ دادری کے اخلاق کی موت کے بعد ہجومی تشدد کے ذریعہ مسلمانوں کو ہلاک کرنے کا فرقہ پرستوں کو گویا لائسنس مل گیا ہے ۔ اخلاق حسن ، پہلو خاں ، جنید قاسم،محمداکبراور اس طرح کئی نام ہیں، جواس بات کا اشارہ دے رہے ہیں کہ مسلمانوں کی آنے والی زندگی کس طرح گذرے گی اور مسلمانوں کو کس طرح لائحۂ عمل تیار کرناہوگا۔
ملک کی یہ عمومی صورت حال ہمیں دعوتِ احتساب دیتی ہے کہ ہم ان حالات کو صرف ظاہری اسباب سے جوڑ کر نہ دیکھیں؛ بلکہ عملی اعتبار سے اپنا محاسبہ بھی کریں کہ ہم میں کس چیز کی کمی ہے اور کیا غلطی ہم سے سرزدہورہی ہے ؟؟
بہ نظر غائر دیکھا جائے توبرادران وطن سے تعلقات بڑھانے ،ان تک اسلام کی سچی تعلیمات پہونچانے ،اور ان کے ساتھ اچھے اخلاق کا مظاہرہ کرنے کی آج اشد ضرورت ہے ؛بل کہ اگر میں یہ کہوں تو مبالغہ نہ ہوگا کہ موجودہ ملک کے ماحول کو سامنے رکھتے ہوئے یہی وقت کا سب سے بڑا تقاضا اور مسلمانوں کے لیے زبردست چیلنج ہے ۔اسی کے ساتھ ساتھ ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیداکریں اور آپسی اختلاف کو انتشار کا سبب نہ بنائیں ،ایک دوسرے کا احترام ہو،امت کے اجتماعی مفادمیں سرجوڑ کر بیٹھاجائے اور آئندہ کے لیے ٹھوس نظام العمل مرتب کیاجائے ،تب کہیں جاکر کشتئ ملت اس بھنور سے نکل سکتی ہے ۔

تُو رازِ کن فکاں ہے ، اپنی آنکھوں پر عیاں ہو جا
خودی کا راز داں ہو جا، خدا کا ترجماں ہو جا
ہوس نے کر دیا ہے ٹکڑے ٹکڑے نوعِ انساں کو
اُخُوّت کا بیاں ہو جا، محبّت کی زباں ہو جا
یہ ہندی، وہ خُراسانی، یہ افغانی، وہ تُورانی
تُو اے شرمندۂ ساحل! اُچھل کر بے کراں ہو جا

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×