اسلامیاتسیاسی و سماجی

گداگری؛ امت کی پیشانی پر بدنما داغ

کسی بھی معاشرہ کا وہ مثالی فرد ہے, جو اپنی جدوجہد اور محنت کی وجہ سے نہ صرف اپناکفیل ہوتاہے، بلکہ اپنے اہل وعیال اور خاندان کا سہارابھی بنتاہے،آقاؐ نے اس آدمی کی حوصلہ افزائی کی ہے، جو اپنا کام خود کرے، یاخود اس کی نگرانی کرے کیونکہ کسی کابہترین کھانا، خود اس کے اپنے ہاتھ کی کمائی ہے۔(بخاری ج2ص80)

علامہ ابن حجر نے اس کے ضمن میں فتح الباری ج2ص208میں لکھاہے”بے کاری ،لہوولعب، سوال کی شرمندگی اور دوسروں کے اوپر بوجھ پڑنے جیسی، اذیت ناک اور ذلت آمیزبیماری اور برتاؤ سے بچنے کے لئے، انسان کو کسی نہ کسی مباح پیشہ سے وابستہ رہنا چاہئے ،انہوں نے اپنے اس قول کی تائید میں، آقاصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادنقل کیاہے ”تم میں کوئی لکڑی کا گٹھرچن کر اپنی پیٹھ میں لائے اور اس کو فروخت کرے،یہ زیادہ بہتر ہے کہ کسی سے سوال کیاجائے، کہ وہ اسے دے یامنع کردے(بخاری ج 2ص81)

یعنی جائز اور مباح چیزوں میں روزگار کے لئے پیشہ ورانہ جدوجہد،معاشرہ کےکسی بھی فرد کے لئےضروری ہے، اسی حکمت کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کے لئے تجارت اور خریدوفروخت کو مشروع فرمایا، تاکہ ایک دوسرے کے ذریعہ انسانی ضروریات کی تکمیل ہوتی رہاکرےاور معاشرہ،احتیاج وافلاس اور گداگری جیسی بیماریوں سے پاک رہے،نیز اس کے ہرفرد کے اندر عملی جدوجہد اور خود کفالت کا جذبہ بیدار رہے، بلکہ مفید اور نفع بخش پیشہ اور فن کو فروغ ملتارہے، چاہے وہ تجارتی،کاریگری، طبی ، زراعتی یااس جیسے دیگر مختلف پیشےہوں ،اسلام نے بقدر صلاحیت ووسعت ہرایک کو اختیار کرنے کی ترغیب دی ہے۔

عہد نبوی میں متعدد صحابہ کرام کو ان کے پیشوں کی وجہ سے شہرت ملی اور آقاؐ نے ان کی حوصلہ افزائی بھی فرمائی، چنانچہ حضرت حمزہ بن عبدالمطلب کو صاحب صید یعنی "تیراندازی کے بادشاہ” کے نام سے شہرت ملی، وہ تیرکے کاریگر بھی تھے اور تیر انداز بھی،ان کے علاوہ عدی بن حاتم اور ابوقتادہ انصاری بھی تیراندازاوراس کے بنانے والے تھے،اسی طرح جنگلات سےلکڑیوں کو جمع کرنااور ان کو بازارمیں فروخت کرنا،پیشہ کے طور پر جاناگیا، اصحاب صفہ کے متعدد صحابہ کرام ؓدن میں لکڑیاں جمع کرکے،بازاروں میں فروخت کرتے اور رات کو نماز اورقرآن کریم پڑھنے پڑھانے میں منہمک رہتے، آپؐ، صحابہ کے اس طبقہ کی بھی مختلف انداز میں حوصلہ افزائی فرماتے اور ان کو اس طرح کی محنت اور جدوجہد پر مزیدابھارنے کے لئے تشجیعی کلمات کہتے،اسی اہیمت کے پیش نظر امام بخاری نے "باب الحطب والکلاء” یعنی لکڑی اور چارہ بیچنے کا باب قائم کیاہے۔

بکریوں کو چرانابھی،انبیاءکرام کی سنت رہی ہے، آقا نے بھی بچپن میں اجرت پر بکریاں چرائیں،صحابۂ کرام نے بھی پیشہ کے طورپر بکریاں چرائیں،نیز سواری اور سامان برداری کے لئے بھی،اونٹ،گائے، خچر وغیرہ کی پرورش کا اہتمام کیا گیا اور اسے بطور معاش اختیارکیاگیا۔ کھیتی باڑی اور زراعت کو بھی عہد نبوت میں پیشے کے طور پر مسلمانوں نےاختیارکررکھاتھا۔حضرت عبداللہ بن عمروبن العاص کا طائف میں کھجور کا بڑاباغ تھا، جس کو وهط کہا جاتاتھا، اس میں ہزارہاہزار کھجور کے خوشے لگے رہتے تھے، حضرت زبیر بن العوام کا باغ بھی بہت مشہور تھا۔ اس زمانے میں مسلمان جب بھی کوئی شہر فتح کرتے، تو سب سے پہلے مسجدکی تعمیر کرتےاور دوسرے مرحلہ میں اناج کے لئےکھیتی باڑی کا انتظام کرتے۔

عرب ،بالخصوص قریش میں تجارت ابتداء اسلام سے ہی بڑاپیشہ اور حرفت کے طور پر رائج تھی، یہاں تک کہ موسم حج میں بھی بڑے بڑے بازارلگتے تھے،عکاظ ,مجنۃ،ذوالمجاز، بنوقینقاع اور حباشہ، مکہ مکرمہ اور عرب کے مشہور ترین بازار ہیں ،جن میں زمانۂ جاہلیت سے آج تک خرید وفروخت جاری ہے،ابن عباس فرماتے ہیں کہ عکاظ، مجنۃ،ذوالمجاز بازاروں میں،گناہ کےتصورسےجب خریدو فروخت سےلوگ رک گئے، تو اللہ تعالیٰ نے موسم حج میں ہی” لیس علیکم جناح ان تبتغوافضلاً من ربکم (بقرہ198)یعنی تم پر اس بات میں کوئ گناہ نہیں ہےکہ تم (حج کے دوران تجارت یا مزدوری کے ذریعہ)اپنے پروردگار کا فضل تلاش کرو،نازل فرمایا۔(بخاری)

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنے چچاابوطالب اور قریش کے تجارتی قافلہ کے ساتھ تجارت کے لئے، شام کا سفر کیا،ابن اسحق کہتے ہیں !اسی دووران حضرت خدیجہ ؓ نے آپؐ کو اپنے ساتھ تجارت کی پیش کش کی، جس کو آپؐ نے قبول کرتے ہوئے حضرت خدیجہ کو خوب خوب تجارتی منافع دیا، اس امانت ودیانت داری سے متأثر ہوکر حضرت خدیجہ نے آپؐ کے ہمراہ اپنے نکاح کا پیغام دیا۔

آپؐ کی اتباع کرتے ہوئے، آپؐ کے جانثار صحابہ کرام نے بھی داخلی وخارجی،خشکی وتری دونوں راستوں سے تجارت کی،اس زمانہ میں یمن اورشام تجارت کے بڑے بازارتھے۔ چنانچہ عبدالرحمن بن عوف ایک بڑے تاجرتھے، وہ اپنے تجارتی امور خود انجام دیتے تھے،ایک روز اللہ کے رسول کی خدمت میں چارہزار درہم لیکر حاضر ہوئے، اس دن ان کے پاس کل آٹھ ہزار درہم تھے، انہوں نے کہا!چار ہزار درہم اپنے گھروالوں کے لئے چھوڑاہے اور چار ہزار درہم اللہ کے رسول کی خدمت میں لے کر حاضر ہواہوں، اللہ کے رسول ؐ نے ان کو دعاء دی، اس کے بعد ان کی تجارت بڑھتی گئی، اسی قدروہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے گئے، چنانچہ انہوں نے ایک موقع پر پانچ سوگھوڑے اور پندرہ سو اونٹ، جہاد کے لئے اللہ کی راہ میں دیئے اور دو مرتبہ چالیس چالیس ہزار دینار دیئے۔ ان کی ایک قیمتی زمین مدینہ منورہ میں تھی، اس کو حضرت عثمان کے ہاتھوں فروخت کرکے ساری رقم فقراء بنی زہرہ اور امہات المومنین میں تقسیم کردیئے۔ یہ سارے مال واسباب ان کے اموال تجارت میں سے تھے۔(اسدالغابۃ/ابن اثیرج 3ص482)

ان کے علاوہ مدینہ منورہ کے کبار صحابہ کرام میں حضرت ابوبکر صدیق ؓ ،ان کے دونوں لڑکے عبدالرحمن اور عبداللہ ،ابان بن سعید بن العاص، حاطب بن ابی بلتعہ، عثمان بن عفان،زبیر بن العوام،طلحہ بن عبداللہ التیمی، عمربن حریث، مسور بن مخزمہ بن نوفل،لقیط ابوالعاص ابن الربیع ابن عبد شمس،زید بن حارثہ، عمربن الخطاب، ان کے تینوں کے لڑکے عبداللہ، عبیداللہ اور عاصم بھی تجار تھے،جنہوں نے ہجرت کے بعد، پہلی صدی ہجری کے اواخر میں مدینہ منورہ میں زندگی گذاری، ان کے علاوہ خدیجہ بنت خویلد، سعید بن عائذ، ابوسلمی الانصاری،زید ابن ارقم،براء بن عازب بھی بڑے تاجر تھے، البتہ عثمان بن عفان ،طلحہ بن عبداللہ،سوید بن قیس العبدی خالص کپڑوں کے تاجرتھے۔

صنعت وکاریگری بھی عرب معاشرہ میں بطور پیشہ کثرت سے رائج تھی، بالخصوص جنگی ہتھیار خوب بنائے جاتے تھے، مثلاً”دبابة“ تیرسے بچنے کے لئے ایک اوزارہے، جس کا استعمال کسی قلعہ کے محاصرہ کے وقت ہوتاتھا،”ضبر“لکڑی کا بناہوا ایک خول جس پر کھال منڈھی ہوتی تھی،اس کے اندر داخل ہوکر قلعہ کے قریب پہونچاجاتاتھا،”منجنيق“جنگ میں قلعہ کی دیوار پر پتھروغیرہ پھینکنے کی مشین، ”حسك“ کانٹے دار اوزار کا نام ہے،جس کو قلعہ اور فوج کے درمیان خشکی کے راستے پر بچھایاجاتاتھا، تاکہ اس پردشمنوں کا چلنا مشکل ہوجائے، یہ تمام جنگی اوزار اور آلات اس وقت کے مسلمان بطور پیشہ بناتے تھے اور بازار میں فروخت کرتے تھے۔

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اسلحوں کا استعمال غزوہ طائف شوال8ھ میں کیا۔ ابن ہشام کے مطابق یہ پہلی جنگ تھی جس میں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طائف کے قلعہ میں منجنیق کو نصب کیاتھا، کہاجاتاہے کہ حضرت سلمان فارسی نے اس اوزار کو بنایاتھا، طائف کے فتح کے بعد حضرت عروہ بن مسعود ثقفی اور غیلان بن سلمہ ثقفی9ھ میں اسلام میں داخل ہوئے اوران آلات کو بنانے، سیکھنے کے لئےدونوں "جرش”گئے۔جرش،یمن کے ایک شہر کا نام ہے۔

فتح الباری میں ابن حجر کی تصریح کےمطابق حضرت خباب بن ارت لوہے کا اسلحہ بناتےتھے،عبداللہ بن مسعود چرواہااور کسان،ابوہریرہ کسان، سعد بن ابی وقاص تیر ساز، زبیر بن عوام درزی اور تاجر،بلال بن رباح اور عمار بن یاسر خادم، براء بن عازب اور زیدبن ارقم تاجر اور سلمان فارسی نائی،کھجوروں کی بیج بونے Pollinatioکے ماہر اورجنگی سامان بنانےپر مکمل دسترس رکھتے تھے، عثمان بن طلحہ بیت اللہ کے دربان ، جن کو اللہ کے رسول نےکعبہ شریف کی کنجی دی تھی،حارث بن صبیرہ دباغت،یعنی چمڑہ پکانے کے ماہر، ابوبکر صدیق کپڑوں کے تاجراور عمروبن العاص گوشت کے تاجر تھے۔

ان کے علاوہ طب،علاج ومعالجہ،دواسازی، عطر سازی، لوہاری، رنگ ریزی، کان کنی،نائی،موچی،درزی اور پچھنالگانے، جیسے پیشے عہد اول میں مسلمانوں کے معاشرہ اور ان کے بازاروں میں خوب متعارف تھے، ان پیشوں سے نہ صرف وہ عام لوگوں کی خدمت کرتے تھے بلکہ اجرت ومزدوری کے طور پر بھی کرتے تھے، اور ان کی آمد سے اپنا، بچوں،گھروالوں کا خرچ اٹھاتے تھے، یہاں تک کہ پڑھنا، لکھنا، ترجمہ کرناجیسے تعلیمی مشاغل بھی پیشہ کے طور پر اسلامی معاشرہ میں رائج ہوئے اور اجرت کے ذریعہ پڑھنا،لکھنا عام ہوا، چنانچہ چوتھی صدی ہجری کے،مشہور ماہر تعلیم امام قابسی فرماتے ہیں!
”عہداول میں مسلمانوں نے تعلیم کا کام ،دینی جذبے سے سرشار ہوکر،صرف اللہ کے لئے، مفت میں انجام دیا،اسلام جب دنیا میں پھیلنے لگا اور مفت تعلیم دینا دشوار ہوگیا تو تعلیم ایک پیشہ کے طور پر متعارف ہوگئی اورمعلمین کے درمیان اجرت لینا،عام ھوا تو فقہاء کرام نے اجرت کے جواز پر فتویٰ دیدیا۔ (التعلیم فی رأی القابسی68)

حضرات صحابہ کرام اپنی معاش کے لئے جدوجہد کرتے رہتے تھے اور یہ مشغولیات، دینی فرائض وواجبات کی ادائیگی کے لئے ایک لمحہ بھی حارج نہ تھیں، ان کے درمیان جو پیشے رائج تھے ،وہ ان کے درمیان افضلیت اور برتری کا معیار نہ تھے، بلکہ ہرایک بقدر ضرورت وآسانی اسے انجام دیتے تھے۔اس لئے کہ اگر تما م صحابہ کرام ؓصرف تعلیم وتبلیغ میں مصروف ہوجاتے تو، زندگی کی ضروری چیزیں مثلا ستر عورت کے لئے کپڑے کی تجارت،جہادکے لئے تیر ودیگرجنگی اوزار بنانا، گھروں میں روشنی کے لئے چراغ بنانا، جیسی متعدد صنعت وحرفت،جن کے اوپر انسانی زندگی کا انحصار ہے، ان ضروریات کی تکمیل نہیں کی جاسکتی تھی ۔

کبار تابعین،ائمہ مجتہدین اور سلف نے بھی حضرات صحابہ کرام کے نقش قدم پر چلتے ہوئے مختلف پیشے اور کاروبار کئے۔ چنانچہ امام ابوحنیفہؓ اون اور ریشم کےسلے ہوے کپڑوں کے بڑے تاجر تھے، آج ان کپڑوں کو فیبرکس fabrics کہاجاتا ہے ،اس کےوہ خودماہرتھے، کوفہ کے بڑے بازار میں ان کی دوکان تھی، جہاں دوردراز سے خریدار آتے تھے، امام مالک بھی کپڑوں کے تاجر تھے،امام احمدبن حنبل باریک کپڑوں کے ازاربند بناکر فروخت کرتے تھے نیز دوکان کو کرایہ میں لے کراس میں کپڑابنتے تھے،محمدبن سیرین پارچہ فروش تھے، مجمع الزاہد کپڑابننے کے کاریگرتھے، ابوایوب السختیانی بکریوں کی خشک کھالوں کے تاجرتھے،سعیدابن المسیب زیتون تیل فروش تھے، میمون بن مہران پارچہ فروش تھے، مالک بن دینار کتابت کےذریعہ اپنا خرچ چلاتے تھے۔ (سیر اعلام النبلا)

سعد تمیمی نے ”كتاب الصناع من الفقهاء والمحدثين ” کے نام سے ایک کتاب لکھی ہے ،جس میں انہوں نے فقہاء اور محدثین کے مختلف طبقات کے تقریباًپچاس لوگوں کا ذکر کیاہے، جو کسی نہ کسی پیشہ اور صناعت وحرفت اور تجارت سے وابستہ تھے،اسی طرح عبدالباسط بن یوسف الغریب نے اپنی کتاب”الطرفة فى من نسب إلى مهنة أو حرفة” میں تقریباً چارسو پیشے اور فن کاریگری کا ذکرکرتے ہوئے لکھاہےکہ ان پیشوں سے تقریباًپندرہ سو محدثین،فقہاء اور ادباء منسلک تھے، جواپنی علمی مشغولیات کے ساتھ اپنے لئے پیشے، کاریگری اور تجارت کے امور انجام دیتے تھے، اگر وہ حافظ،محدث، قاضی، فقیہ اور شاعرتھے تو دوسری طرف طبیب،عطر فروش،تاجر،کسان، علم نجوم کے ماہر،کھجور کے پتوں کے کاروباری، بڑھئی، لوہار، گوشت فروش، کھال خشک کرنے کے ماہر، موچی،نان بائی، روٹی فروخت کرنے والے، جوتابنانے والے،اون فروخت کرنے والے، سبزی فروش اورجانوروں کی کھال سے لباس بنانے کے بھی ماہر تھے۔مثال کے طور پر ابوبکر محمدبن الحنفی،جو الآجری کے نام سے مشہورتھے، آجری اینٹ بنانے والے اور اس کو فروخت کرنے والے کو کہاجاتاہے، ان کی مشہور زمانہ کتاب ”الشريعة“ہے۔ألأنماطى، ایک قسم کے اونی کپڑابنانے والے کو کہاجاتاہے، جوہودج پر رکھاجاتاہے،اس سے مرادعثمان بن سعد بن بشارابوالقاسم ألأنماطى البغدادى ہیں، امام شافعی کے علوم کے محافظ اور شوافع کے بڑے علماء میں ہیں۔ البحرانى، ملاّح کو کہاجاتا ہے، ان سے مراد محمدبن معمر بن ربعی البحرانی القیسی البصری ہیں، ان سے ائمہ ستہ نے روایت کیا ہے۔ البربهارى، ایک قسم کی دواہے، جو ہندوستان سے اس زمانے میں عرب لے جائی جاتی تھی اور اس کے ماہر حسن بن علی بن خلف ابو محمد البربہاری ہیں، اہل بدعت کے خلاف بڑے مناظر تھے، حاکم نے ان کو حدیث وفقہ وفتاویٰ اور تصوف میں مرو کاامام وشیخ کہاہے۔ القدورى، ہانڈی بنانے والے کو کہاجاتاہے،یہ ابوالحسن احمد بن محمدبن جعفر بن حمدان ہیں،بڑے حنفی فقیہ،مشہورزمانہ کتاب "قدوری”کے مصنف ہیں،ان کو قدوری کہا جاتا ہے، وہ ہانڈی بناتے تھے، یا اس کو فروخت کرتے تھے۔الجصاص، چونے کا کام کرنے اور دیواروں پر چونا کرنے والے کو کہاجاتاہے، احمدبن علی الرازی الحصاص، بڑے حنفی عالم ہیں۔یہاں بطور مثال صرف چند ائمہ کا ذکر کیا گیاہے، جن کا آج بھی ان کے نام کے بجائے، صرف ان کے پیشہ کے ساتھ ذکر کیا جائے، تو اہل علم وفن کا ذہن فوراً ان کی طرف منتقل ہوجاتاہے، بلکہ اگرصرف ان کا نام لیاجائے اور پیشہ کا ذکر نہ کیاجائے،مثلاً احمدبن علی الرازی کہاجائے ،تو قاری کاذہن فوراً اس طرف متوجہ نہیں ہوتاہے کہ اس سے الجصاص مراد ہیں، یااس سے مراد کوئی اور شخصیت ہے۔(سیر اعلام النبلاءاور دیگر مراجع تراجم)

چنانچہ معاش کے لئے جدوجہد،ہر زمانے میں بنیادی انسانی ضرورت رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ حضرات انبیاء کرام علیہ السلام،جن کو اللہ نے بنی نوع انسان کو شرک سے بچانے اور ایک اللہ کی طرف بلانے کے لئے مبعوث فرمایا،انہوں نے بھی کارنبوت کے ساتھ، اپنی معیشت کے لئے متعدد پیشے اختیار کئے، مثلاًحضرت آدم علیہ السلام نے اماں حوا کے ساتھ زراعت اور کھیتی باڑی کا کام، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے تعمیر اور تجارت،حضرت ادریس علیہ السلام پہننے کے قابل لباس بنانے، حضرت اسحق علیہ السلام ،حضرت یعقوب علیہ السلام اور حضرت شعیب علیہ السلام بکریاں چرانے ، حضرت داؤد علیہ السلام لوہے سے زرہ بنانے، حضرت الیاس علیہ السلام لباس بنانے، حضرت موسیٰ علیہ السلام بکریاں چرانے اور گلہ بانی، حضرت نوح علیہ السلام لکڑی کا کام اور ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریاں چرانے اور تجارت کا کام کیاہے،چوں کہ حضرات انبیاء علیہم السلام زندگی کے تمام شعبوں میں انسانوں کے لئے نمونہ تھے ۔

انبیاء کرام کی مقدس جماعت کے بعد حضرات صحابہ،تابعین،تبع تابعین، ائمہ مجتہدین، محدثین اور اصحاب علم وفضل نے بھی اپنی علمی، تصنیفی، تدریسی، فقہ وفتاویٰ کی مصروفیات کے ساتھ، پیشے اور کاروبار کئے۔ان کےکامیاب اور سیدھے راستوں کے نشانات آج بھی ہر طبقہ کے مسلمان بالخصوص علماء،ائمہ مدرسین ،مصنفین، منتظمین مدارس اورکسی بھی طرح کی کوئ بھی دینی خدمات انجام دینے والےہر طبقہ کے لئے مشعل راہ ہیں۔ کسل جمود،تعطل اور بےکاری جیسے امراض،جن سے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ پناہ مانگی ہے، ان کے حصار اور گرفت سے نکلنے اوراپنے لئے خود کفیل بننے کی کوشش اور تدبیر اختیار کرنا، ہماری اپنی ذمہ داری ہے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×