اسلامیات

اختلافِ امت کی حقیقت

اسلام ایک کامل دین اور مکمل دستور حیات ہے،جو زندگی کے تمام شعبو ں میں انسانیت کی راہ نمائی کرتا ہے ، انسان اپنی زندگی کے کسی بھی موڈ میں کسی بھی مرحلہ میں کسی ایسی الجھن میں مبتلا نہیں ہوتا جس میں اسلام نے اس کی راہ نمائی نہ کی ہو ، عبادات ہوں یا معاملات ،تجارت ہوں یا سیاست ،عدالت ہو یا قیادت اسلام نے ان تمام امور کے بارے میں بھر پورتعلیمات فراہم کی ہے ۔ اسلام قیامت تک دنیا میں بسنے والے تمام انسانوں کی سعادت ورحمت کا سبب ہے ، اس کا سر چشمہ قرآن وحدیث ہیں جوکہ وحیٔ الٰہی سے ما خوذ ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فقہاء کرام کا استخراج واستنباط بھی ان ہی سے ماخوذ ہیں۔ دین کی اساسی اور اصولی باتوں کو تو قرآن وحدیث نے بالکل واضح اور دوٹو ک انداز میں بیان کردیا لیکن فروعات کی زیادہ تفصیل اوروضاحت نہیں کی تاکہ ہر دور کے حالات و واقعات اور مشکلات ومسائل کے لحاظ سے انسانیت کی راہ نمائی کی جاسکے ،اس کے لئے انسانی معاشرہ کو قرآن سنت کے دائرہ کا پابند رکھتے ہوئے جزئیات و فروعات میں حالات و مواقع کی مناسبت سے قرآن و سنت کی اصولی راہ نمائی کی روشنی میں قیاس کا اختیار دے دیا۔اسی کو اصطلاح شرع میں اجتہادکہا جاتا ہے۔
اب اجتہاد کے نتیجے میں آراء کا اختلاف یقینی تھاسووہ حضرات صحابہ کرام کے دور سے چلا آرہا ہے، ذیل میں اختلاف کے ادوار، وجوہات اور اکابرین کے طرز عمل کا مختصر جائزہ لیتے ہیں ملاحظہ کیجئے۔
اختلاف فطری چیز ہے :
انسانوں کے درمیان اختلاف رائے کا ہونا یہ ایک فطری چیز ہے۔ جس طرح رنگ اور ذوق مختلف ہیں اسی طرح ان کے آراء میں بھی اختلاف ہیں، جس طرح ہاتھ کی پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوسکتیں، اسی طرح تمام لوگوں کی فکر اور نظر ایک نہیں ہوسکتیں، جب کسی شیٔ کے انتخاب میں ہر ایک کا اپنا اپنا ذوق ہوتا ہے تو افکار وخیال اخذ واستنباط میں ہر ایک کی اپنی رائے کیسے نہیںہوسکتی؟یہ تو ایک فطری عمل ہے۔
مفتیٔ اعظم پاکستان حضرت مفتی رفیع عثمانی صاحب مدظلہٗ لکھتے ہیں‘‘ میرے والد ماجد ایک عجیب بات فرماتے تھے، وہ یہ کہ جہاں بھی کوئی قطعی بات نہیں ہوگی بلکہ مختلف طرح کے احتمالات ہوں گےاور کئی آدمی اس پر غور وخوض کر رہے ہوں گے تو وہاں اختلاف رائے کا ہونا ناگزیر ہے، اختلاف رائے نہ ہونے کی دو ہی صورتیں ہوسکتی ہیں، یا تو سب کے سب بے وقوف ہوں کہ جیسا ایک نے کہا سب نے ہاں میں ہاں ملا دی، یا سب کے سب منافق ہوں کہ رائے تو کچھ اور ہے لیکن ہاں میں ہاں ملانے کے لئے اپنے دل کی رائے پوشیدہ رکھی (اختلاف رحمت ہے، فرقہ بندی حرام۔ ۲۲_۲۳)
اگر کوئی اتحاد کامطلب یہ سمجھتا ہے کہ تمام لوگوں کی فکر ایک ہوجائے اور ہر ایک کا زاویہ نگاہ متحد ہوجائے تو یہ خواہش ایسی ہے کہ کوئی یہ چاہے کہ دنیا میں بسنے والے تمام لوگوں کے رنگ اور روپ ایک ہوجائیں اورہر کوئی ایک ہی بولی بولنے لگیں، اور یہ ایک ایسی خواہش ہے کہ جس کی تکمیل کاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔
صحابہ کے در میان اختلاف:
جن مسائل میں قرآن کریم نے مکمل وضاحت نہیں کی ان میں اختلاف رائے اور اجتہاد کا عمل یہ حضرات صحابۂ کرام کے دور سے چلا آرہا ہے، خود نبی اکرم ﷺ کی موجودگی میں صحابۂ کرام کے درمیان مختلف مسائل واقعات کے سلسلہ میں اختلاف ہوا اور انہوں نے اس وقت اجتہاد سے کام لیا۔ کتب احادیث میں ایسے واقعات بھرے پڑے ہیں۔ ایک واقعہ بطور مثال کے ملاحظہ کیجئے۔
غزوۂ احزاب کے موقع پر آپ ﷺ نے حضرات صحابہ سےیوں فرمایا: لا یصلین احدکم الا فی بنی قریظۃ.
تم میں سے کوئی شخص نماز عصر بنی قریظہ کے علاوہ کہیں نہ پڑھے،راستے میں صحابہ نے دیکھا کہ وہاں جاتے جاتے عصر کا وقت نکل جائے گا، تو صحابہ میںدو جماعتیں ہوگئیں۔ ایک جماعت نے ظاہر الفاظ پر عمل کرتے ہوئے راستے میںعصر کی نماز پڑھنے سے انکار کردیا اور وہیں پہنچ کر نماز عصر ادا کی، جب کہ دوسری جماعت نے یہ کہا کہ حضورؐ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ جہاں تک ہوسکے اس قدر عجلت سے جائو کہ عصر کی نماز ادا کرنے کی نوبت منزل مقصود پر پہنچ کر آئے، یہ مقصد نہیں ہے کہ ہر صورت میں نماز وہیں پہنچ کر پڑھو، چاہے نماز قضا ہوجائے، اس جماعت نے اجتہاد کیا اور راستے ہی میں نماز پڑھ لی، بعد میں حضور اقدسؐ کی خدمت میں یہ واقعہ بیان کیا گیا تو حضورؐ نے کسی پر ملامت نہیں فرمائی۔(بخاری :باب صلوۃ الطالب والمطلوب راکبا وایماء،حدیث نمبر :۹۳۶)
اس واقعہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ اگر قرآن وسنت کے کسی ارشاد میں دو معنوں کا احتمال ہو اور اہل علم دو احتمالات میں سے کسی ایک احتمال کو اجتہاد کے ذریعہ اختیار کرلیں تو ان میں سے کوئی جہت کوئی احتمال ناجائز نہیں ہوگا، تبھی تو آپؐ نے کسی ایک جماعت کے عمل کو درست اور دوسری جماعت کے عمل کو ناجائز قرار نہیں دیا۔
حضراتِ صحابۂ کرام کے مابین پائے جانے والے اختلافات کے سلسلہ میں حضرت عمر بن عبدالعزیز فرماتے ہیں :
مایسرنی لو أن أصحاب محمد لم یختلفوا لأنہم لو لم یختلفوا لم تکن رخصۃ.(جامع بیا ن العلم و فضلہٖ:۷۸؍۲)
مجھے اس بات سے مسرت نہ ہوتی کہ رسول اللہ ﷺ کے صحابہ میں اختلاف نہ ہوتا، اس لئے کہ ان میں اگر اختلاف نہ ہوتا تو گنجائش ورخصت نہیں رہتی۔
فقہاء کرام کے درمیان اختلاف:
جس طرح فروعی وجزئی مسائل میں حضرات صحابہؓ کے درمیان اختلاف ہوا اور ان کی آراء مختلف رہیں، اسی طرح حضرات فقہاء کرام کے درمیان بھی اختلاف ہوا۔ یہ اختلاف فروعی کہلاتا ہے، اس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی ہیں، کبھی یہ اختلاف قرآن کریم کی قرأتوں کے مختلف ہونے پر ہوتا ہے، کبھی ناسخ احادیث کے نہ پہونچنے کی وجہ سے ہوتا ہے، کبھی دلائل میں تعارض کے وقت ترجیح دینے میں اختلاف کی بناء پر ہوتا ہے، اور کبھی نص کے فہم اس کی تفسیر وتشریح میں اختلاف کی وجہ سے ہوتا ہے، اور یہ اختلاف اکثرافضل وغیرافضل کا ہے۔
اس اختلاف کی وضاحت کرتے ہوئے حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒرقم طراز ہیں: فقہاء کے ما بین اختلاف کی بیشتر صورتیں، بالخصوص وہ مسائل جن میں صحابہ کے اقوال دونوں جانب ہیں جیسے تکبیرات تشریق، تکبیرات عیدین اور احرام والے کا نکاح، ابن عباس وابن مسعود کا تشہد، آہستہ اور جہر کے ساتھ بسم اللہ پڑھنا، آمین کہنا اقامت کو جفت اور طاق کہنا اور اس کے مانند دیگر مسائل میں یہ اختلاف دو باتوں میں سے بہتر بات میں تھا، نفس مشروعیت میں ان کے مابین اختلاف نہ تھا۔ (حجۃ اللہ البالغہ بحوالہ رحمۃ اللہ الواسعۃ:۱۷؍۲)
فقہاء کے درمیان پائے جانے والے اختلاف کے سلسلہ میں حضرت سفیان ثوری فرمایا کرتے تھے: لا تقولوا اختلف العلماء فی کذا وقولوا وسع العلماء علی الامۃ بکذا۔ (المیزان الکبری: ۲۸؍ ۱ بحوالہ راہ اعتدال: ۳۱)
یہ نہ کہو کہ علما نے ان مسائل میں اختلاف کیا ہے ،بلکہ یہ کہو کہ امت کے لئے وسعت اور فراخی پیدا کی ہے۔
اختلاف کے باوجود تعظیم وتکریم:
اختلاف امت میں ہوا ہے اور ہوتا رہے گا، لیکن یہ اختلاف آپسی تعلقات ختم کرنے والا اور محبت والفت میں کمی لانے والا نہ بنے۔ حضرات صحابۂ کرام فقہاء عظام کے مابین اہم اہم مسائل میں اختلاف رہا لیکن کبھی اختلاف آپسی بھائی چارے اور عقیدت میں رخنہ ڈالنے کا باعث نہیں بنا۔ اس کی بہت سی مثالیں دور صحابہ میں ہمیں ملتی ہیں ،ایک مثال دیکھئے حضرت ابن عباس اورحضرت زید بن ثابت کے درمیان بڑا مضبوط اختلاف تھا ایک اجتہادی مسئلہ کے اندر لیکن دیکھئے کہ وہ آپس میں کیسے والہانہ تعلقات کا اظہار کرتے ہیں۔
ایک بار سیدنا زید بن ثابتؓ کو تشریف لاتے ہوئے حضرت ابن عباسؓ نے دیکھا تو ان کی سواری کی رکاب تھام لی اور ساتھ ساتھ چلنے لگے، سیدنا زیدؓ نے کہا: اے فرزند عم رسولؐ آپ چھوڑ کر ہٹ جائیں اور ایسا نہ کریں۔ سیدنا ابن عباسؓ نے کہا: ہمیں یہی سکھایا گیا ہے کہ اپنے علماء اور بڑوں کے ساتھ ایسا ہی کریں۔اس پر سیدنا زیدؓ نے کہا: آپ اپنے ہاتھ بڑھائیں۔ سیدنا ابن عباسؓ نے ہاتھ آگے کیا جسے سیدنا زیدؓ نے فوراً چوم لیا اور فرمایا: یہی اہل بیت نبی کے ساتھ ایسا ہی کرنے کا حکم اور تعلیم دی گئی ہے۔ (کنز العمال: ۷؍۳۷ بحوالہ اسلام میں اختلاف کے اصول وآداب: ۶۴)امام شافعی نے ایک مرتبہ امام ابو حنیفہ کی قبر کے قریب فجر کی نماز پڑھی تو قنوت نہ پڑھا، پوچھا گیا تو فرمایا کہ’’صاحب قبر کے ساتھ ادب کا معاملہ کرتے ہوئے میں نے ایسا کیا۔(حجۃ اللہ البالغہ بحوالہ رحمۃ اللہ الواسعہ:۷۱۴؍۲)
مسلمانوں کی تباہی کے دو اسباب:
حضرت شیخ الہند محمود حسن دیوبندیؒ جب مالٹا کی جیل سے انگریزوں کی جانب سے پہونچنے والی اذیتیں اور صعوبتیں جھیل کر آئے تو آپ نے علماء کی ایک خصوصی مجلس کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ: میں نے جہاں تک جیل کی تنہائیوں میں اس پر غور کیا کہ پوری دنیا میں مسلمان دینی اور دنیوی ہر حیثیت سے کیوں تباہ ہورہے ہیں تو اس کے دو سبب معلوم ہوئے ایک ان کا قرآن چھوڑ دینا، دوسرے ان کے آپس کے اختلافات اور خانہ جنگی۔ (وحدت امت: ۳۹؍ ۴۰)
نباض وقت نے مسلمانوں کی تباہی کے جو اسباب اس دور میں بتلائیں تھے آج بھی وہی دو سبب قرآن سے دوری اور آپسی اختلافات امت کی تباہی وبربادی کا سبب بنے ہوئے ہیں۔
علامہ اقبال نے کیا ہی فکر انگیز اشعار کہے ہیں :
منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک

ایک ہی سب کا نبی، دین بھی ایک ایمان بھی ایک
حرم پاک بھی، اللہ، قرآن بھی ایک

کیا بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں

کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button
×