ذبح : احکام ومسائل
جانور کے اندر بہنے والا خون انسانی زندگی کے لئے نقصان دہ ہوتا ہے، اسی وجہ سے شریعت اسلامیہ نے جانور کو پاک وصاف بنانے اور اس کے اندرسے نقصان کے اثر کو ختم کرنے کے لیے ذبح کا طریقہ بتایا ہے، اگر جانور کو بغیر ذبح کیے استعمال کیا جائے گا تو بہنے والا خون جانور کے گوشت میں سرایت کرجائے گا جو انسان کے لیے انتہائی مضر ثابت ہوسکتا ہے اور پاک چیز بھی ناپاک ہوسکتی ہے اسی وجہ سے ذیل میں ذبح کے احکام ومسائل کو مختصر اندازرمیں پیش کیا جارہا ہے۔
قربانی کے وقت بسم اللہ ، اللہ اکبر کہنا: ذبح کرتے وقت ’’بسم اللہ ،اللہ اکبر‘‘ یا ’’واللہ اکبر‘‘ کہے دونوں طرح درست ہوجائے گا اور قربانی بھی درست ہوجائے گی۔(فتاویٰ محمودیہ:۱۷؍۲۳۹)
الحمد للہ، سبحان اللہ پڑھ کر ذبح کرنے کا حکم: ’’الحمد للہ سبحان اللہ ‘‘پڑھ کر جانور ذبح کرنے سے بھی ذبیحہ حلال ہوجاتا ہے؛ بشرطیکہ اس میں تسمیہ کی بھی نیت ہو۔(کتاب النوازل:۱۴؍۴۵۴)
ذبیحہ اور ذابح کا قبلہ رخ ہونا: ذبیحہ کا قبلہ رخ لٹانا اور ذابح (ذبح کرنے والے) کا قبلہ رخ ہونا امرسنت مؤکدہ ہے۔(احسن الفتاویٰ:۷؍۴۰۶)
جانور کو کھڑے ہونے کی حالت میں ذبح کرنا: گائے، بھینس، بکرے وغیرہ کو لٹا کر ذبح کرنا سنت ہے اور انہیں کھڑے ہونے کی حالت میں ذبح کرنا خلاف سنت اور مکروہ ہے۔(کتاب النوازل:۱۴؍۴۶۲)
بسم اللہ بھول جانے کا حکم: اگر بسم اللہ بھول گیا تو جانور حلال ہے، رگیں کٹنے سے پہلے یاد آگیا تو بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے بعد میں یاد آیا تو ضروری نہیں۔(احسن الفتاویٰ: ۷؍۴۰۳)
عورت اور بچے کا ذبیحہ: ذبیحہ عورت اور نابالغ کا بشرط یہ کہ ذبح کرسکتا ہو اور بسم اللہ کہے جائز ہے۔(امداد الفتاویٰ جدید:۸؍۲۲۷)
ذبیحہ میں کتنی نسوں کا کٹ جانا لازم ہے: جانور کے گلے میں چار نسیںہوتی ہیں:
(۱) حلقوم: جس کونرخرہ بھی کہتے ہیں، اسی سے سانس آتا جاتا ہے۔
(۲) مری: جس کے اندر کھانے اور پینے کا راستہ ہوتا ہے۔
(۳-۴) دائیں اور بائیں کو شاہ رگیں ہیں، حضرت امام ابوحنیفہؒ کے نزدیک ان چار نسوں میں سے ذبح کے صحیح ہونے کے لیے لا علی التعیین تین نسوں کا کٹ جانا کافی ہے۔(فتاویٰ قاسمیہ:۲۲؍۱۲۱)
آلۂ ذبح اور چھری تیز کرنے کا حکم: جس سے رگیں کٹ جائیں اور خون بھی بہہ جائے اس سے ذبح جائز ہے، جانور کے لٹانے سے پہلے چھری تیز کرنا مستحب ہے۔(امداد الفتاویٰ جدید:۸؍۲۲۴)
ایک جانور کو دوسرے جانور کے سامنے ذبح کرنا: ایسا کرنا منع ہے ایک جانور کو دوسرے کے سامنے ذبح نہ کیا جائے، حدیث شریف میں اس کی ممانعت ہے۔(فتاویٰ محمودیہ:۱۷؍۲۶۹)
ذبح کرنے میں گردن علیحدہ ہوجائے: (ایسے جانورکا)کھانا حلال ہے مکروہ اور حرام نہیں(ہدایہ:۴؍۴۴۲، کتاب الذبائح) ہاں قصدا لاپرواہی سے اس طرح ذبح کرنا مکروہ ہے۔(فتاویٰ رحیمیہ:۱۰؍۶۹)
ذبح کرتے ہی ٹھنڈا ہونے سے پہلے کھال اُتارنا: ٹھنڈا ہونے سے پہلے جانور کی کھال اُتارنا بھی مکروہ ہے اور اگر آپ کو وقت بچانا ہو تو اس کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ جتنے جانور ذبح کرنے ہیں ان کو ایک ساتھ ذبح کرکے چھوڑ دیا جائے اور کچھ وقفہ کے بعد بالترتیب ان کی کھال اتارلی جائے اور گوشت بنایا جائے۔(کتاب النوازل:۱۴؍۴۶۷)
مذبوحہ جانور کے پیٹ سے بچہ نکلے: گائے کو ذبح کرنے کے بعد اگر بچہ زندہ نکلے تو اس کو ذبح کردے اور اگر بچہ مردہ نکلے تو ذبح کیے بغیر ا س کو پھینک دے اور دونوں صورتوں میں گوشت بلا کراہت جائز ودرست ہے۔(فتاویٰ قاسمیہ: ۲۲؍۱۳۰)
جانور ذبح کرتے وقت کی دعا: بِسْمِ اللّٰہِ اللّٰہُ أکبر إِنِّیْ وَجَّہْتُ وَجْہِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضَ حَنِیْفاً وَمَا أَنَاْ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ، إِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ (آپ کے مسائل اور ان کا حل: ۵؍۴۴۵)
جانور ذبح کرنے کے بعد کی دعا: اَللّٰہُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّي کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ حَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ وَخَلِیْلِکَ إبراہیمَ علیہمَا السلام۔ (ایضاً:۵؍۴۴۵)